قربانی کا فلسفہ اور اس کی تاثیر

حج اسلام کا ایک رکن ہے اسی وجہ سے عبادت اور معاشرہ میں اس کا کردار اوراس کی کارکردگی بہت زیادہ ہے ، اجتماعی اوردنیوی مسائل میں حج کا کردار اس قدر پر اہمیت اور تاثیر گذار ہے ، جس قدر خود سازی معنوی میں عبادت کا کردار بہت زیادہ موثر ہے ۔ مناسک حج کے بہت سے اعمال ہیں جن میں سے ایک قربانی ہے ، جیسا کہ قربانی کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ،خداوند عالم سے نزدیک اور تقرب حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔ اس مقالہ میں قربانی کے سلسلہ میں قرآن کریم کی تعلیمات کو بیان کیا گیا ہے تاکہ قربانی کے فلسفہ اور تاثیر کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا جاسکے ۔

قربانی کا فلسفہ اور اس کی تاثیر

تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے.
حج اسلام کا ایک رکن ہے اسی وجہ سے عبادت اور معاشرہ میں اس کا کردار اوراس کی کارکردگی بہت زیادہ ہے ، اجتماعی اوردنیوی مسائل میں حج کا کردار اس قدر پر اہمیت اور تاثیر گذار ہے ، جس قدر خود سازی معنوی میں عبادت کا کردار بہت زیادہ موثر ہے ۔ مناسک حج کے بہت سے اعمال ہیں جن میں سے ایک قربانی ہے ، جیسا کہ قربانی کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ،خداوند عالم سے نزدیک اور تقرب حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔ اس مقالہ میں قربانی کے سلسلہ میں قرآن کریم کی تعلیمات کو بیان کیا گیا ہے تاکہ قربانی کے فلسفہ اور تاثیر کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا جاسکے ۔
عربی زبان میں قربانی کو “اضیحہ” کہتے ہیں (المعجم الفارسی الکبیر ، ج ۳، ص ۲۰۸۵، لفظ قربانی کے ذیل میں) لہذا دسویں ذی الحجہ کوجس میں قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جس کو عیدالاضحی (بقرعید کے روز) بارہویں یاتیرہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے ذبح یانحر کرتے ہیں (الحدائق الناضرة، ج ۱۷، ص ۱۹۹ ۔ جواہر الکلام ، ج ۱۹ ، ص ۲۱۹) ۔
اگر چہ بعض علماء نے قربانی کے معنی میں مستحب ہونے کی قید کو بھی ذکر کیا ہے ، تاکہ واجب قربانی کو شامل نہ ہوسکے(الموسوعة الفقہیة المیسرة ، ج ۳، ص ۴۲۰) ۔

قرآنی استعمال میں جب قربانی کی بات آتی ہے تواس کے معنی اس معنی سے بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں جو معنی ہم نے ذکر کئے ہیں ۔اور اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جو واجب یا مستحب ہونے کی صورت میں ہر زمانہ میں ذبح کیا جاتا ہے ،اسی طرح حج کے زمانہ ، منی اور دوسرے ایام میں رضائے الہی اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کیلئے جوجانور ذبح کیا جاتا ہے وہ سب اس تعریف میں شامل ہیں ۔
قرآن کریم میں ان تمام معانی کو بدن، بھیمةالانعام، قلائد، منسک ، ھدی اور نحر وغیرہ جیسے الفاظ میں بیان ہوئے ہیں ۔
قربانی کی تاریخ
خداوند عالم نے آدم کے بیٹوں کے واقعہ میں قربانی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس واقعہ میںہمیں بہت سے عبرت آموز ، فائدہ من سبق حاصل ہوتے ہیں “اور پیغمبر علیہ السّلام آپ ان کو آدم علیہ السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا ّقصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے ” ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۲۷) ۔ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس واقعہ کو صحیح طور پر نقل کریں ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم کے بیٹوں نے خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لئے اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کی ۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حادثہ خارج میں واقع ہوا ہے اورحضرت آدم کے بیٹوں کی قربانی کوئی افسانہ نہیں ہے ۔
حضرت آدم کے بیٹوں کے قربانی کرنے کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے ، اس وجہ سے خداوند عالم نے اس آیت اور دوسری آیات میں اس کو بیان کیا ہے ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ قربانی کرنے کے بعد ان دونوں قربانیوں میں سے ایک قربانی قبول ہوئی اور دوسری قبول نہیں ہوئی ۔ اگر چہ ان دونوں کا نام بیان نہیں ہوا ہے لیکن تاریخی واقعات میں اس معنی کی بہت تاکید ہوئی ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی وہ ہابیل تھے اور جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی وہ قابیل تھے (مجمع البیان ، طبرسی ، ج ۳ و ۴ ، ص ۲۸۳۔ روح المعانی ، ج ۴، جزء ۶ ، ص ۱۶۳) ۔
خداوند عالم نے قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قابیل بے تقوی تھے ، جیسا کہ ہابیل کی قربانی کے قبول کی وجہ ان کا تقوی تھا ۔
قربانی کے قبول ہونے اور مردود ہونے کے بعد عالم بشریت میں سب سے پہلی جنگ واقع ہوئی اور قابیل نے اپنے بھائی کو دھمکی دی کہ میں تمہیں قتل کردوں گا ، آخر کار اسی بے تقوائی اور نفسانی وسوسوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا “پھر اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور وہ خسارہ والوں میں شامل ہوگیا” ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۳۰) ۔
اگر چہ قربانی کرنا حضرت آدم کے بیٹوں سے شروع ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی ، کیونکہ قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امتوں میں قربانی کرنے کو شریعت کے قوانین اور اعمال میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ اس کو انجام دیتے تھے ،مثال کے طور پر یہ آیات جن کو گذشتہ امتوں میں اعمال کے طور پر انجام دیا جاتا تھا ، قرآن کریم نے سورہ حج کی ۳۴ ویں اور ۶۷ ویں آیت میں ذکر کیا ہے”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (سورہ حج ، آیت ۳۴) اور ” ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں ” (سورہ حج، آیت ۶۷) : جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے کہ ان آیات میں”منسک” سے مراد قربانی ہے (مجمع البیان ، ج ۷ و ۸ ، ص ۱۵۰ ۔ معالم التنزیل ، بغوی، ج ۳ ، ص ۳۵۰) ۔ ۳۴ ویں آیت بھی اسی معنی کو بیان کرتی ہے کہ جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رایج تھی اور حج میں قربانی کے شرایط میں شمار ہوتی تھی ۔
قرآن کریم کے بقول بعض قومیں اپنے بچوں کوذبح اور قربان کیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم (ع) اس عمل کو منسوخ کرنے کیلئے اپنے بیٹے اسماعیل (ع) کو ذبح کرنے کیلئے بڑھے اور پھر اسماعیل کے بجائے دنبہ کو ذبح کردیتے ہیں” پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ، پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹادیا ، اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم (علیہ السّلام )، تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اسی طرح حسن عمل والوں کو جزا دیتے ہیں ، بیشک یہ بڑا کھلا ہوا امتحان ہے ، اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دے دیا ہے ” ۔ (سورہ صافات ، آیت ۱۰۲ تا ۱۰۷۔ تفسیر کبیر ، فخر رازی ، ج ۱۳ ، ص ۱۳۸) ۔ اگر چہ حضرت ابراہیم نے کامل طور سے اس عمل کو تبدیل کرنے کیلئے پہلے خداوند عالم سے حکم حاصل کیا تاکہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کریں (سورہ صافات ، آیت ۱۰۱ و ۱۰۲) اورحضرت اسماعیل بھی قربانی کے حکم میں تسلیم ہوگئے اور اپنی رضایت کا اعلان کیا (گذشتہ حوالہ) اور یہاں تک کہ حضرت اسماعیل نے قربان ہونے کے لئے اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دیا (سورہ صافات ، آیت ۱۰۲ تا ۱۰۵ ) لہذا حضرت ابراہیم اور اسماعیل کے ایمان وخلوص کے درجات کے آشکار ہونے کے بعد خداوند عالم نے حضرت اسماعیل کی جگہ دنبہ بھیج دیا (گذشتہ حوالہ) ۔
قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے بعد جاہلیت کے زمانہ میں بھی قربانی رائج تھی اور یہ لوگ اپنی قربانیوں کو بتوں کے سامنے پیش کیا کرتے تھے (سورہ حج ، آیت ۴۰ ۔ المیزان ، ج ۱۴ ، ص ۳۷۲) ۔ جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حج کے اعمال میں جو قربانی قائم کی تھی وہ خداوند عالم کے لئے تھی”اور اس وقت کو یاد دلائیں جب ہم نے ابراہیم علیه السّلام کے لئے بیت اللہ کی جگہ مہیا کی کہ خبردار ہمارے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والے ,قیام کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنادو ، اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہوکر آئیں گے ، تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کئے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ ” ۔ (سورہ حج ، آیت ۲۶ تا ۲۸) ۔
جاہلیت اور صدر اسلام میں قربانی کے جانور کے گلے میں ایک نشانی ڈالتے تھے جو اس زمانہ کی رسم تھی “ایمان والو !خبردار خدا کی نشانیوں کی حرمت کو ضائع نہ کرنا اور نہ محترم مہینے. قربانی کے جانور اور جن جانوروں کے گلے میں پٹےّ باندھ دیئے گئے ہیں اور جو لوگ خانہ خدا کا ارادہ کرنے والے ہیں اور فرض پروردگار اور رضائے الٰہی کے طلبگار ہیں ان کی حرمت کی خلاف ورزی کرنا ” ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۲ و ۸۷) ۔ اس طرح اپنی قربانی پر علامت لگاتے تھے تاکہ دوسروں کو معلوم ہوجائے ۔ ان کی اجتماعی زندگی میں اس عمل کا کردار اس حدتک زیادہ تھا کہ جس جانور کے گلے میں قربانی کی علامت ہوتی تھی اس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اس جانور کی بے احترامی کریں (سورہ مائدہ ، آیت ۲) ۔
اور یہ سخت گیری اس حدتک تھی کہ جس جانور کے گلے میں قربانی کی نشانی ڈالدیتے تھے اس جانور سے اپنے فائدوں کے لئے استفادہ نہیں کرتے تھے”تمہارے لئے ان قربانی کے جانوروں میں ایک مقررہ مدّت تک فائدے ہی فائدے ہیں اس کے بعد ان کی جگہ خانہ کعبہ کے پاس ہے ، اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (سورہ حج ، آیت ۳۲ و ۳۳ ) اگر چہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہ ممنوعیت ختم ہوگئی اور خداوند عالم نے قربانی کے لئے معین شدہ جانوروں سے ذبح کے وقت تک استفادہ کرنے کی اجازت دیدی (سورہ حج ، آیت ۲۷ تا ۳۲) ۔ اس بناء پر حاجیوں کو قربانی کے لئے معین شدہ جانوروں سے سامان اٹھانے، ان پر سوار ہونے اور ان کا دودھ استعمال کرنے کی اجازت مل گئی (گذشتہ حوالہ) ۔ البتہ ان سے فائدہ اٹھانے کے معنی یہ نہیں تھے کہ ان کی بے احترامی کی جائے بلکہ معین شدہ جانوروں کا احترام قربانی کے وقت تک کرنا ضروری تھا (سورہ حج، آیت ۳۲ تا ۳۶ ۔ سورہ مائدہ ، آیت ۲)جاہلیت کے زمانہ میں کچھ دوسرے باطل عقاید و افکار بھی تھے جیسے قربانی کا گوشت حج کرنے والے کے لئے حرام تھا جس کو خداوند عالم نے صرف جائز ہی قرار نہیں دیا بلکہ اس کو مستحب قرار دیا ہے کہ قربانی کے گوشت کے ایک حصہ کو اپنے سے مخصوص کرلیں اور کھائیں ۔
خداوند عالم نے کچھ آیتوں میں انصاب (سورہ مائدہ، آیت ۳ و ۹۰) ، اور بتوں (سورہ انعام، آیت ۱۳۷) کیلئے قربانی کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو نادرست اور ناجائز رفتار کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔ یہ لوگ اس باطل اور ناجائز سنت کو انجام دینے کیلئے اس حدتک آگے بڑھ جاتے تھے کہ اپنے بچوں کو بتوں کے لئے قربان کردیتے تھے اور اس عمل کو بتوں سے قریب ہونا بتا تے تھے (المیزان، ج ۷ ، ص ۳۶۱) ۔
بنی اسرائیل کی قربانی کے اعمال میں یہ معنی بیان ہوئے ہیں کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے قبول شدہ قربانی کی علامت ، قربانی میں آگ لگنا سمجھتے تھے ،اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کی قربانی میں ایسا واقع ہوتا تھا (سورہ آل عمران، آیت ۱۸۳) ۔ شاید اسی وجہ سے خیال کیا جاتا ہے کہ جس وقت ہابیل کی قربانی قبول ہوئی تو اس میں آگ لگ گئی تھی ،جیسا کہ بعض روایات میں اس معنی کی طرف اشارہ اور تاکید کی گئی ہے ۔
شاید آسمانی آگ سے قربانی کے جلنا بنی اسرائیل کے بعض انبیاء کے معجزہ ر ہا ہو (کشاف ، زمخشری، ج۱ ، ص ۴۴۸) ۔ اور مدعی رسالت کی قربانی کا آسمان کی آگ میں جلنا یہودیوں کی نظر میں ان کی حقیقت گوئی اور سچائی کی دلیل ہو ، اس بناء پر امت یہود میں ہر قربانی کے جلنے کو قبول نہیں کیا جاسکتا ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ جو آسمانی بجلی سے قربانی کے جلنے کو انبیاء کا معجزہ سمجھتے تھے وہی لوگ انبیاء کو قتل کردیتے تھے ، کیونکہ یہ لوگ زیادہ تر شیطانی وسوسوں اور نفسانی ہواوہوس کے شکار تھے اور انبیاء کے معجزات کو قبول نہیں کرتے تھے ، اسی وجہ سے جب انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے آسمانی آگ کے ذریعہ قربانی کے جلنے کی درخواست کی تو خداوند عالم نے اس نکتہ پر تاکید کی کہ اگر تم ان کو یہ معجزہ دکھا بھی دو گے تو یہ ایمان نہیں لائیں گے (سورہ آل عمران،آیت ۱۸۳) ۔
شریعت میں قربانی کے جائز ہونے کا فلسفہ
جیسا کہ گذر گیا ہے کہ تمام امتوں کے لئے خداوند عالم کی طرف سے قربانی جائز کی گئی تھی”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو ” (سورہ حج، آیت ۳۴ و ۶۷) ۔ اور تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے جس کو سورہ حج کی ۳۴ ویں آیت میں بیان کیا گیا ہے : “اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو ” ۔
اسی آیت اور سورہ حج کی ۳۶ ویں آیت ” اور ہم نے قربانیوں کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے لہذا اس پر کھڑے ہونے کی حالت ہی میں نام خدا کا ذکر کرو اور اس کے بعد جب اس کے تمام پہلو گر جائیں تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے سب غریبوں کو کھلاؤ کہ ہم نے انہیں تمہارے لئے لَسّخر کردیا ہے تاکہ تم شکر گزار بندے بن جاؤ ” ،میں بیان کیا ہے کہ قربانی کو وضع کرنے کا ایک ہدف اللہ نام کو ذکر کرنا ہے ،کیونکہ اس طرح کے اعمال اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ آدمی کچھ لمحوں کے لئے خداوند عالم کی یاد میں گم ہوجائے ، جس نے قربانی کے حکم کو صادر کیا ہے ۔
انہی آیات میں اس معنی کی بھی تاکید کی گئی ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے صرف ایک قربانی وضع کی گئی ہے اور وہ قربانی صرف خدائے وحدہ لاشریک کیلئے ہے ، جب کہ مشرکین کا دعوی تھا کہ دوسرے اعمال اور جانور بھی وضع ہوئے ہیں ،انہی میں سے ایک قربانی بتوں کیلئے ہے جو خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے انجام دی جاتی ہے ،خداوند عالم نے ان کے اس قول کا جواب سورہ حج کی ۳۴ ویں آیت میں دیا ہے (التحریر و التنویر ، ج ۸ ، جز ۱۷ ، ص ۲۵۹) ۔
ذبح کے احکام
قربانی کے ہدف اور فلسفہ کے واقع ہونے کے لئے خداوند عالم نے ذبح اور قربانی کے احکام بیان کئے ہیں ، ان میں سے کچھ احکام مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ ذبح یا نحرکرتے وقت خداوند عالم کے اسماء حسنی میں سے کوئی ایک نام لیا جائے “لِیَشْہَدُوا مَنافِعَ لَہُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فی اٴَیَّامٍ مَعْلُوماتٍ عَلی ما رَزَقَہُمْ مِنْ بَہیمَةِ الْاٴَنْعامِ فَکُلُوا مِنْہا وَ اٴَطْعِمُوا الْبائِسَ الْفَقیرَ” ۔تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کئے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ ۔
۲۔ قربانی کرتے وقت ہر طرح کے شرک سے اجتناب کیا جائے “وَ اٴَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاٴْتُوکَ رِجالاً وَ عَلی کُلِّ ضامِرٍ یَاٴْتینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمیقٍ ، لِیَشْہَدُوا مَنافِعَ لَہُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فی اٴَیَّامٍ مَعْلُوماتٍ عَلی ما رَزَقَہُمْ مِنْ بَہیمَةِ الْاٴَنْعامِ فَکُلُوا مِنْہا وَ اٴَطْعِمُوا الْبائِسَ الْفَقیرَ ، ثُمَّ لْیَقْضُوا تَفَثَہُمْ وَ لْیُوفُوا نُذُورَہُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوا بِالْبَیْتِ الْعَتیقِ ، ذلِکَ وَ مَنْ یُعَظِّمْ حُرُماتِ اللَّہِ فَہُوَ خَیْرٌ لَہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَ اٴُحِلَّتْ لَکُمُ الْاٴَنْعامُ إِلاَّ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاٴَوْثانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ، حُنَفاء َ لِلَّہِ غَیْرَ مُشْرِکینَ بِہِ وَ مَنْ یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَکَاٴَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماء ِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اٴَوْ تَہْوی بِہِ الرِّیحُ فی مَکانٍ سَحیقٍ ” ۔
۳۔ قربانی کرتے وقت خداوندعالم کی تعظیم کیلئے اللہ اکبر کہنا ” لِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلی ما ہَداکُم”۔
خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو۔
۴۔ شرک کے طریقہ پر جو جانور ذبح کئے گئے ہیں ان کے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔
قرآن کریم کی نظر میں صرف وہ قربانی قابل قبول ہے جو صرف خداوند عالم کے لئے کی گئی ہواور اس شخص نے صرف خداوند عالم سے تقرب حاصل کرنے کیلئے قربانی کی ہو (سورہ مائدہ ، آیت ۲۷ ۔ سورہ حج ، آیت ۳۶ و ۳۷) ۔
قربانی تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے ،ایک حصہ حج کرنے والے کیلئے ، دوسرا حصہ مومنین کے لئے اور تیسرا حصہ فقراء کو دیا جاتا ہے (سورہ حج ، آیت ۳۶) ۔ بہتر ہے کہ یہ قربانی کھانے کی صورت میں لوگوں کو دی جائے اور قربانی کرنے والا بھی اس میں سے کھائے (سورہ حج ، آیت ۳۶) ۔
گائے، بھیڑ و بکری اور اونٹ کی قربانی کی جاسکتی ہے ۔ اس بناء پر گائے اور بھیڑ، بکری کو ذبح کیا جاتا ہے اور اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے ، حج میں بھیڑ کی قربانی کو سب سے آسان اور سب سے کم شمار کیا گیا ہے” حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے تمام کرو اب اگر گرفتار ہوجاؤ توجو قربانی ممکن ہو وہ دے دو اور اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے. اب جو تم میں سے مریض ہے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہے تو وہ روزہ یاصدقہ یا قربانی دے دے پھر جب اطمینان ہوجائے تو جس نے عمرہ سے حج تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دے دے اور قربانی نہ مل سکے تو تین روزے حج کے دوران اور سات واپس آنے کے بعد رکھے کہ اس طرح دس پورے ہوجائیں. یہ حج تمتع اور قربانی ان لوگوں کے لئے ہے جن کے اہلِ مسجدالحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے اور اللہ سے ڈرتے رہو اوریہ یاد رکھو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے ” ۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۹۶ ۔ عیون اخبار الرضا، ج ۳، ص ۱۲۰، ھدی یعنی وہی بھیڑ بکری بیان ہوئی ہے) ۔
قربانی اسلام میں ہر عمل کیلئے مستحب ہے جیسے بچوں کا عقیقہ، گھر کی خریداری اور سفر پر جانے کیلئے زیاده تاکید کی گئی ہے اور حج کے زمانہ میں مستحب ہے کہ اگر انسان قرض لے کر بھی قربانی کرسکتا ہو تو قربانی کرے ۔ ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے کلام میں ملتا ہے کہ اگر کسی کے پاس قربانی کرنے کیلئے پیسہ نہ ہو تو وہ قرض لے کر قربانی کرے اوراس سنت کو انجام دے ۔ امام علی (علیہ السلام) نے فرمایا : اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کتنے فوائد ہیں تو وہ قرض لے کر قربانی کرتے ۔ قربانی کا جو پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے اس پہلے قطرہ کی وجہ سے انسان کو بخش دیا جاتا ہے (وسائل الشیعہ، ج ۱۴ ، ص ۲۱۰ ) ۔
کتاب المراقبات میں عید قربان کے روز قربانی کی فضیلت کے بارے میںذکر ہوا ہے : اس دن کے بہترین اعمال میں سے ایک قربانی ہے جس کو انجام دینے میں بندگی کے قوانین اور ادب کی رعایت کرنا چاہئے ․․․ یاد رہے کہ اس دن قربانی نہ کرنا اورخدا کی راہ میں تھوڑا سے مال ایثار نہ کرنا خسارہ اورنقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
قربانی کی برکتیں
گذشتہ مطالب میں قربانی کے بعض آثار اور برکتیں بیان ہوئی ہیں لیکن یاد رہے کہ قربانی کی اور دوسری برکتیں بھی ہیں جس میں سے بعض برکتیں مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ خداوند عالم کی راحمت واسعہ : جس کو سورہ مائدہ کی ۹۶ ویں اور ۹۷ ویں آیت میں بیان کیا ہے”تمہارے لئے دریائی جانور کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے کہ تمہارے لئے اور قافلوں کے لئے فائدہ کا ذریعہ ہے اور تمہارے لئے خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے جب تک حالت احرام میں رہو اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ، اللہ نے کعبہ کو جو بیت الحرام ہے اور محترم مہینے کو اور قربانی کے عام جانوروں کو اور جن جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈال دیا گیا ہے سب کو لوگوں کے قیام و صلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے تاکہ تمہیں یہ معلوم رہے کہ اللہ زمین و آسمان کی ہر شے سے باخبر ہے اور وہ کائنات کی ہر شے کا جاننے والا ہے”(سورہ مائدہ، آیت ۹۶ ۔ ۹۷) ۔
۲۔ نیک اور احسان کرنے والوں میں شامل ہونا : “خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو ” ۔ (سورہ حج ، آیت ۳۷) ۔
۳۔ مغفرت الہی سے استفادہ کرنا : ” اٴُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعامُہُ مَتاعاً لَکُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِ وَ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ ما دُمْتُمْ حُرُماً وَ اتَّقُوا اللَّہَ الَّذی إِلَیْہِ تُحْشَرُون” ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۹۷) ۔
خداوند عالم نے قربانی کو معاشرہ کے اتحاداور اتفاق کے عنوان سے پیش کیا ہے تاکہ امتوں اور قوموں کے درمیان اتحاد و انسجام قائم ہوجائے اور معاشرہ کے افراد مختلف شکلوں میں ایک دوسرے سے متصل ہوجائیں ۔ خصوصا تمام افراد اس قربانی سے استفادہ کریں اور اس کا گوشت تناول فرمائیں اور اس کے ذریعہ امتوں اورقوموں میں مہر ومحبت زیادہ ہوجائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تبصرے
Loading...