قرآن کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کا برتاؤ

جو لوگ خدا پر ایمان اوراس کے لوازم کے اعتبار سے ذرا سا بھی قوی نہیں ہیں اور شائستہ و بائستہ طور سے ایمان ان کے قلب و روح میں رسوخ نہیں کئے ہے، وہ لوگ نفسانی خواہشات اور خدا کی خواہش نیز دینی اقدار کے درمیان تعارض کے موقع پر خوشروئی کا اظہار نہیں کرتے اور روحی اعتبار سے چاہتے ہیں کہ دینی احکام و اقدار کی اپنی نفسانی خواہشات کی جہت میں من مانی طور پر تفسیر و توجیہ کریں۔ اور اگر دین و قرآن کی تفسیر  ان کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتی ہے تو اس گروہ کو بہت اچھا لگتا ہے، کیونکہ ایک طرف اپنی نفسانی خواہشات کو بھی حاصل کرلیتے ہیں اور دوسری طرف بظاہر اسلام کے دائرہ سے خارج بھی نہیں ہوتے اور اسلامی معاشرہ میں مسلمان ہونے کی خصوصیات اور مراعات سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔

اسی طرح واضح سی بات ہے کہ جن لوگوں کی روح و جان میں ا یمان و تقویٰ راسخ نہیں ہے اور الٰہی احکام نیز دینی اقدار کے ذرا سا بھی پابند نہیں ہیں وہ بھی دین و قرآن سے حاصل کردہ ایسے من پسند مطالب کا استقبال کرتے ہیں اور جو لوگ دین و قرآن اور دینی اقدار کی تفسیر و توجیہ ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق کرتے ہیں وہ ان کی پیروی کرتے ہیں، انھیں اپنا نمونہ قرار دیتے ہیں اور ان کی تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ نیز فطری طور پر ایسے لوگ دینی علماء کے اس گروہ سے اچھا سلوک نہیں رکھتے جو کہ قرآن و احکام کی تفسیر و توجیہ حق کے مطابق کرتے ہیں اور لوگوں کے ذوق و شوق اور پسند کے موافق نہیں کرتے ہیں۔

بہت افسوس ہے کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دینی متون و کتب کی مختلف قرآئتوں کے بہانے سے اس بات کے درپے ہیں کہ اپنے نفسانی میلانات و خواہشات پر دینی رنگ چڑھائیں اور اپنے دنیوی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے دین خدا اور قرآن کریم کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

امیر المومنین حضرت علی  ـ مذکورہ حالت کی پیشین گوئی کے ساتھ اپنے زمانہ اور آخری زمانہ میں قرآن کی غربت و مہجوریت کے متعلق شکوہ کرتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں:

”اِلَی اللّٰہِ اَشْکُو مِن مَعشَرٍ یَعِیشُونَ جُہَّالًا وَ یَمُوتُونَ ضُلاَّلاً وَ لَیسَ فِیہِم سِلْعَة أَبْوَرُ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِہِ وَ لاسِلْعَة أَنفَقُ بَیْعاًوَ لا أَغْلَیٰ ثَمَناً مِنَ الْکِتَابِ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِہِ”١

میں خداوند متعال کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مرجاتے ہیں تو ضلالت کے ساتھ، ان کے نزدیک کوئی متاع،

…………………………………………………

(١) نہج البلاغہ، خطبہ ١٧ ۔

کتابِ خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے جبکہ اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس کی برحق تفسیر کی جائے، اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اور فائدہ مند نہیں ہے جبکہ اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے اور اسے اس کے مواضع سے ہٹا دیا جائے۔

اسی طرح امیر المومنین حضرت علی  ـ آخری زمانہ کے لوگوں کے درمیان قرآن اور معارف دین کی حیثیت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

”وَ اِنَّہُ سَیَأتِی عَلَیکُمْ مِن بَعدِی زَمَان لَیسَ فِیہِ شَیئ أَخْفَیٰ مِنَ الْحَقِّ وَ لا أَظْہَرَ مِنَ الْبَاطِلِ وَ لااَکْثَرَ مِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ وَ لَیسَ عِندَ أَہلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَة اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِہِ وَ لا أَنفَقَ مِنہُ اِذَا حُرِّفَ عَن مَوَاضِعِہِ وَ لا فِی الْبِلادِ شَیئ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعرُوفِ وَ لا أَعرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ فَقَد نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُہُ وَ تَنَاسَاہُ حَفَظَتُہُ فَالْکِتَابُ یَومَئِذٍ وَ اَہْلُہُ طَرِیدَانِ مَنفِیَّانِ وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِی طَرِیقٍ وَاحِد ٍ لا یُؤوِیہِمَا مُؤوٍ فَالْکِتَابُ وَ اَہْلُہُ فِی ذَالِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیہِم وَ مَعَہُمْ وَ لَیْسَا مَعَہُمْ لِاَنَّ الضَّلالَةَ لاتُوَافِقُ الْہُدَیٰ وَ اِنِ اجْتَمَعَا فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلٰی الْفُرْقَةِ وَافْتَرَقُوْا عَلیٰ الْجَمَاعَةِ کَأَنَّہُم أَئِمَّةُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ ِمَامَہُمْ”١

”یقینا میرے بعد تمھارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٤٧ ۔

سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ نمایاں نہ ہوگی، سب سے زیادہ رواج خدا اور رسول ۖ پر افتراء کا ہوگا اور اس زمانے والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس سے زیادہ کوئی فائدہ مند بضاعت نہ ہوگی اگر اس کے مفاہیم کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے، شہروں میں ”منکَر” سے زیادہ معروف اور ”معروف” سے زیادہ منکَرکچھ نہ ہوگا، حاملان کتاب کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن قرآن کو بھلادیں گے، کتاب اور اس کے واقعی اہل، شہر بدر کردیئے جائیں گے اور دونوں ایک ہی راستہ پر اس طرح چلیں گے کہ کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا، کتاب اور اہل کتاب اس دور میں لوگوں کے درمیان رہیں گے لیکن واقعاً نہ رہیں گے، انھیں کے ساتھ رہیں گے لیکن حقیقتاً الگ رہیں گے، اس لئے کہ گمراہی، ہدایت کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے چاہے دونوں ایک ہی مقام پر رہیں، لوگوں نے افتراق پر اتحاد اوراتحاد پر افتراق کرلیا ہے جیسے یہی قرآن کے امام اور پیشوا ہیں اور قرآن ان کا امام و پیشوا نہیں ہے”۔

نہایت ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ آئندہ کے افراد اور دینی حالات کے متعلق قرآن اور نہج البلاغہ کی ان پیشین گوئیوں کو قابل توجہ قرار دے اور اپنے معاشرہ پر غالب و حاکم ثقافتی اور فکری حالت کو بھی ملاحظہ کریں اور اس کا ان پیشین گوئیوں سے مقائسہ کریں تاکہ خدانخواستہ اگر معاشرہ کا دینی ماحول غلط سمت میں دیکھیں تو خطرہ کا احساس کریںاور معاشرہ کے دینی ماحول کی اصلاح کریں، ہر زمانہ کے لوگوں کو چاہئے کہ ولی فقیہ اور دینی علماء کی پیروی کے ذریعہ اپنے عقیدتی حدود اور دینی اقدار کی حفاظت و حراست کا انتظام کریں اور قرآن کو نمونہ قرار دیکر اپنے کو آخری زمانہ کے فتنوں سے محفوظ رکھیں اور ان پیشین گوئیوں کا مصداق قرار پانے سے ڈریں اور پرہیز کریں۔

بہرحال امیر المومنین حضرت علی  ـ ایسی پیشین گوئی فرماتے ہیں کہ: ”ایک زمانہ میرے بعد آنے والا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی چیز حق سے زیادہ مخفی اور کوئی چیز باطل سے زیادہ مشہو رنہ ہوگی، اس زمانہ میں خدا اور رسول خدا پر افتراء سب سے زیادہ امور میں سے ہوگا جو کہ عالم نما جاہل اور دنیا پرست منافقین اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انجام دیں گے۔

تبصرے
Loading...