قرآن کے بارے میں ایک ضروری یاد دہانی

جو شخص معرفت الہٰی سے زیادہ فیضیاب ہو اور پروردگار کی عظمت جلال کا ادراک کسی قدر نصیب ہو اہو ایسے سعادت مند کی نگاہ میں کلام الہی قرآن مجید بے حد عظیم ہے اس لئے جس قدر ممکن ہو اس کے ادب و احترام اور تعظیم بجا لانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گا۔ پھر بھی وہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھرائے گا کہ کماحقہ کلام الہٰی کا حق اد ا نہ کرسکا۔ ایسا انسان کبھی وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرے گا یعنی حدث کی حالت میں قرآن کے جلد اور حواش

جو شخص معرفت الہٰی سے زیادہ فیضیاب ہو اور پروردگار کی عظمت جلال کا ادراک کسی قدر نصیب ہو اہو ایسے سعادت مند کی نگاہ میں کلام الہی قرآن مجید بے حد عظیم ہے اس لئے جس قدر ممکن ہو اس کے ادب و احترام اور تعظیم بجا لانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گا۔ پھر بھی وہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھرائے گا کہ کماحقہ کلام الہٰی کا حق اد ا نہ کرسکا۔

ایسا انسان کبھی وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرے گا یعنی حدث کی حالت میں قرآن کے جلد اور حواشی تک کو مس نہ کرے نجس شدہ ہاتھ سے چاہے خشک ہی کیوں نہ ہو قرآن کو نہ چھوئے اور حالت حدث میں اس کو اپنے ساتھ نہ رکھے۔اگر قرآن ہمیشہ ساتھ وہ تو ہمیشہ باوضو رہے۔ بیٹھتے وقت قرآن کی طرف پشت نہ کرے۔اس کی طرف پاوٴں لمبے کرکے نہ بیٹھے کوئی اور چیز قرآن کے اوپر نہ رکھے ۔ قرآن کی تلاوت کے وقت با ادب روبہ قبلہ بیٹھے حضور قلب ،نہایت آرام سے حکمت و موعظہ سے تاثر لیتے ہوئے غورفکر کے ساتھ تلاوت کرے چونکہ فرمان پروردگار ہے افلایتدبرون القران ام علی قلوب اقفالھا (سورہ محمد آیت۲۴) “کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی)غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے ) ہیں۔”

اگر کوئی دوسرا تلاوت میں مشغول ہو تو اسے سنے اور احتراماً خاموشی اختیار کرے جیسا کہ حکم خدا ہے
واذا قرات القران فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون(سورہ اعراف آیت۲۰۴)” جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کے سنو اور چپ چاپ رہو تاکہ (خدا) تم پر رحم کیا جائے۔”

اگر کسی ایسی مجلس میں حاضر ہو جہاں اہل مجلس آداب و احترام کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوں اور کان لگا کر نہیں سنتے ہوں تو وہاں قرآن کی تلاوت نہ کرے۔ کتاب گلزار اکبری گلشن اکیاون میں ابو الوفاء ہروی سے نقل کیا گیا ہے ۔وہ فرماتے ہیں میں بادشاہ وقت کے دربار میں قرآن کی تلاوت کر رہا تھا حاضرین نہیں سن رہے تھے اور باتوں میں مصروف تھے ،رات میں نے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدلا ہو اتھا مجھے خطاب کرتے ہوئے فرمایا “اتقراء القران بین یدی قوم وھم یتحدثون ولا یستمعون انک لا تقرابعد ھذالا ماشاء اللّٰہ”کیا تم قرآن کی تلاوت ایسے گروہ کی مجلس میں کرتے ہوجو آپس میں مصروف گفتگو رہتے ہیں اور نہیں سنتے ہیں۔اور بے شک تم آج کے بعد (آداب قرآن کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ) قرآن کی تلاوت نہ کر سکو ں گے مگرخدا کی مرضی شامل حال ہو ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنے آپ کو گونگا پایا۔لیکن آپ نے فرمایا تھا الا ماشاء اللہ (مگر مرضی خدا کی شامل حال ہو) اس لئے امید تھی کہ میری گوئی بحال ہو جائے گی ،چارمہینے گزرنے کے بعد اسی جگہ جہاں میں نے پہلے خواب دیکھا تھا پھر جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خواب میں دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔فرمانے لگے قدتبت یقینا تم نے توبہ کی ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) من تاب تاب علیہ جو شخص تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے خدا بھی اس کی مغفرت کی طرف رجوع کرتا ہے۔بعد میں فرمایا اپنی زبان باہر نکالو میں نے باہر نکالا تو آپ نے اپنی اشارہ کی انگلی سے میری زبان کو مس کیا اور متنبہ کرتے ہوئے فرمایا “اذا کنت بین یدی قوم تقرء کلام فقطع قرائتک حتی یسمعوا کلام رب العزة “جب تم کسی جماعت کے درمیان قرآن پڑھو(اور وہ نہ سنے) تو اپنی تلاوت کو روک دو جب تک اہل مجلس کلام ربّ العزت کو سننے کے لئے تیار نہ ہوں۔ جب میں نیند سے بیدار ہوا تو میری گویائی لکنت بحال ہوچکی تھی۔ کتاب مذکور کے گلشن۸۰ میں دینی مقدسات کے احترام اور توہین کے بارے میں کچھ حکایتیں نقل کی ہے شائقین رجوع فرمائیں۔یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ جس طرح قرآن عظیم کی اہانت و استخفاف گناہ کبیرہ اور حرام ہے اسی طرح چہاردہ معصومین (علیہم السلام)سے منقول روایات اور احادیث کا مجموعہ جیسے صحیفہ سجادہ وغیرہ کی ہتک حرمت بھی حرام ہے۔مثلاً ان کو لا پراوہی سے زمین پھینک دینا یا ان پر پاوں رکھنا وغیرہ جو عرف عام میں توہین سمجھا جائے تو حرام  ہے۔

تبصرے
Loading...