قرآن کہتا ہے کہ تمہاری تباہی دراصل تمہاری بے حسی ہے ۔

الحمدو للہ ہم مسلمان ہیں لیکن اتفاق سے مسلمانوں کو مسلمان ہونے سے زیادہ دوسروں کو مسلمان کرنے میں دلچسپی ہے ۔ یہی تضاد ہمارے معاشرتی اور مذہبی بگاڑ کی ایک اہم وجہ بنا ہے ۔ آپ تک میرا دکھ اور تاسف پہنچتا ہے کہ نہیں ۔۔اس بات کا کوئی غم نہیں ہو گا ۔۔ہاں اگر آج اس ظلم کے خلاف نہ لکھ پائی تو خود سے نظر نہیں ملا پاؤنگی ۔ بس اسی لیئے یقین جانئے اپنے اللہ کریم سے اس کے حبیب اور اس حبیب کی پاک آل کے صدقے لکھنے کی جسارت مانگی ہے ۔

میں ریت میں سر چھپا کر ” سب اچھا ہے ” نہیں کہہ سکتی ۔ تاہم  اس بات سے اتفاق بھی رکھتی ہوں کہ ہمیں اپنے معاشرے  کی اچھی باتیں بھی کرنی چاہیئے ۔۔ لیکن اچھی باتیں کہاں سے لاؤں ۔۔ اسلامی معاشرے کے زوال کی داستان میں اخلاقی گراوٹ کا اقرار تو کرنا ہی ہو گا ۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ دنیا میں دکھ سکھ کی طرح گناہ اور ثواب کا عمل آخرت تک رہے گا لیکن اسلامی معاشرے کی پہچان ختم کرنے والوں کو نظر انداز کرنا گناہ ہو گا ۔ یہ بھی تو ہماری ہی زمہ داری ہے کہ حسب توفیق  ظلم اور ظالم کا زکر اور مظلوم کی طرف سب کی توجہ دلاتے رہیں ۔۔

روز حشر ظلم کے خلاف خاموش بیٹھنے والا بھی  “ظالموں ” کے ساتھ ہی شمار ہو گا ۔

اب دل تھام کر وہ واقعہ سنئے جو اسلام کے نام حاصل کی جانے والی مملکت خداداد کے اسلامی معاشرے میں ایک ناسور کی طرح پنپ رہا ہے ۔۔ اور اب کسی بھی  روز گلے سڑے زخم کے پیپ کی طرح ہر طرف تعفن پھیلا نے والا ہے ۔ افسوس کہ یہ واقعہ ایسا ہے جو “ ازخود نوٹس“ کے بغیر ہی گزر گیا ۔۔

“  مورخہ 9 فروری 2012  کو  چنیوٹ کے نواحی علاقہ نہالا کی رہائشی پٹھانی بی بی زوجہ امیر کے مطابق اس کے بیٹے ضمیر اور نازیہ دختر جعفر نےکورٹ میرج کرلی جس کے خلاف نازیہ کے اہل خانہ نےکموکا برادری کی پنچائت بلائی پٹھانی کاکہناہے کہ پنچایتی فیصلےمطابق نازیہ کے بھائی قاسم ، عمران ، زیب سمیت 16افرادنے اس کی بیٹی سلیم بی بی کو اسلحہ کے زورپر اغواکرلیا اور 26 روز اجتماعی زیادتی کرتے رہےعلاقہ پولیس کارروائی سے گریزاں رہی۔

اے آر وائی نیوز کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے ڈی پی او چنیوٹ رانا شہزاد اکبر نے دو پولیس کانسٹیبلوں سمیت چھ افراد کو گرفتار کرلیا متاثرہ لڑکی کا بیان قلم بند کرلیا گیا۔اب ڈی پی او کی مداخلت پر ایس ایچ او اورڈی ایس پی نے بچی کو ملزموں سے بازیاب تو کرالیالیکن ان کی عدم گرفتاری کی رشوت بھی ایک لاکھ وصول کی۔”

یہ بات تو کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اکثر دیہاتی اور قبائلی نظام میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ ونی اور کاروکاری جیسی قبیح رسم، گینگ ریپ،  زنا بالجبر ، جبری مشقت، مار پیٹ، بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی، عزت کے نام پر قتل، وراثت سے محرومی اور سوا بتیس روپے حق مہر جیسے غیر عادلانہ ، غیر منصفانہ ، ظالمانہ اقدامات اور جاہلانہ رسم و رواج سے اسلام کو رسوا اور اور پاکستان کو عالمی سطح پربدنام کیا جا رہا ہے ۔جبکہ شریعت اسلامیہ اور شرعی قوانین کا  ان  گھناؤنی رسم  و رواج کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔

آئیے اب اس خبر کے تناظر میں ایک حالیہ تجزیاتی رپورٹ پڑھتے ہیں جس میں عورتوں پر ہونے والے تشدد کی تفصیل یوں بتائی گئی ہے ۔

جولائی سے 31 دسمبر 2009 کے دوران پنجاب میں عورتوں پر ہونے والے تشدد کی دوسری ششماہی کی تجزیاتی رپورٹ ، جس میں تشدد کے واقعات، ان کی وجوہات، ایف آئی آر کی نوعیت، مظلوم عورت کے ساتھ جرم کرنے والے کے رشتہ کے لحاظ سے اعداد و شماراور معلومات مرتب کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں اس آخری چھ ماہ میں عورتوں پر تشدد کے2655 واقعات رونما ہوئے۔رپورٹ میں اغوائ، جنسی زیادتی انفرادی/اجتماعی، قتل، خود کشی، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کو دیکھا گیا ہےسب سے زیادہ واقعات 30%اغوائ، اس کے بعد18%قتل کے اس میں 126واقعات غیرت کے نام پر قتل کے بھی شامل ہیں،14%جنسی زیادتی ، اور7% خود کشی کے واقعات رونماہوئے۔جبکہ اغواءکے797واقعات،جنسی زیادتی انفرادی/اجتماعی کے 374،قتل کے359،خودکشی کے195،مار پیٹ (گھر سے باہر)کے130،غیرت کے نام پر قتل کے126،اقدام خودکشی کے121،زخمی(گھر سے باہر)کے106،جنسی طور پر ہراساں /بے عزتی کے98،مار پیٹ (گھر کے اندر)کے43،ہراساں کرنا کے43،زخمی(گھر کے اندر)کے38،خرید و فروخت کے28،اقدام قتل کے24،تیزاب کے21،جان سے مارنے کی دھمکی کے21،حبس بے جاءکے14،زبردستی کی شادی کے12،جلانا کے9،ونی کے7،کاروکاری کے6،جنسی زیادتی (محرم افراد کی)کے5،چھوٹی عمر کی شادی کے3،وٹہ سٹہ کی شادی کے3 واقعات پیش آئے ہیں۔

پنجاب بھر میں ایف آئی آر کے حوالے سے تشدد کے 79%فیصد واقعات رجسٹرڈہوئے اور 17%فیصد واقعات کے بارے میں معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔52%فیصد کیسز شہروں میں اور 48%کیسز دیہاتوں میں واقع ہوئے۔ٹوٹل 2655واقعات میں سے 2106واقعات کی ایف آئی آر درج کی گئی جبکہ 100واقعات کی کہیں بھی کوئی ایف آر درج نہیں کی گئی جبکہ 499واقعات کے متعلق ایف آئی آر درج ہونے یا نہ ہونے کی معلومات نہ مل سکیں

دوسری ششماہی میں12  سے اضلاع سامنے آئے جہاں خواتین پر تشدد کے واقعات کی تعداد سب سے زیدہ رہی۔جیسا کہ لاہور15% واقعات کے ساتھ پہلے نمبر پر، فیصل آباد12% دوسرے نمبر پر،اورسرگودھا7% واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔لاہور میں404،فیصل آبادمیں322،سرگودھا میں191،راولپنڈی میں162،

گوجرانوالہ میں139،شیخوپورہ میں 123،قصور میں 116،ملتان میں104،سیالکوٹ میں103،جھنگ میں76،ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 76،اوکاڑہ میں 73 واقعات ہوئے جن میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا

تشدد کے 2655واقعات میں کل 3005افراد تشدد کا شکار ہوئے جن 2870خواتین وبچیاںاور135مرد و بچے شامل تھے۔اگر ان کی ازدواجی حیثیت کو دیکھا جائے تو 48%غیر شادی شدہ ، 40%شادی شدہ ، 2%بیوہ اور 1%خواتین طلاق یافتہ تھیں۔9%خواتین کے بارے میں ان کی شادی شدہ حیثیت کے بارے میں معلوم نہ ہوسکا۔تشدد کا شکارلڑکیوںمیں عمرکا تناسب اس طرح تھاکہ14%کی عمر1-18سال، 5%لڑکیوں کی عمریں19-36،اور 2%خواتین کی عمریں37سال سے زائد تھیں79%فیصد خواتین کی عمریں معلوم نہ ہوسکیں۔تشدد کا شکار ہونے والے افراد میں سے غیر شادی شدہ1444، شادی شدہ1200،بیوہ65،طلاق یافتہ33 جبکہ 265 کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا

رپورٹ میں پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ اغوا ءکے797 واقعات ہیں جن میں865 عورتیں اور لڑکیاں اور ان کے ساتھ25بچے بھی اغواءکیے گئے ۔اغواءکے ان واقعات میں سب سے زیادہ 59% جاننے والے لوگوں نے عورتوں کو اغواءکیااس کے بعدرشتہ دار، محلہ دار اور مقامی لوگ شامل تھے اور محرکات میںمرضی کی شادی ، بدلہ لینے کےلئے، مقدمہ بازی کی رنجش کی بناءپر، پراپرٹی اور رقم کی لین دین پر، اور بھلا پھسلا / ورغلا کر وغیرہ جیسے محرکات شامل تھے۔22% عورتوں کو اسلحہ کے زور پر، 17%لڑکیوں کو ورغلاکر اور11%کو طاقت کے زورپر اغواءکیا گیا۔379عورتوں اور لڑکیوں کو زنا با لجبر اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناےا گےا اس میں 5واقعات ایسے بھی ہیں جن گھر کے افراد نے اپنی ہی بچیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ زنا با لجبر اور اجتماعی زیادتی کے واقعات میںقریبی جاننے والے، پڑوسی اورمقامی رہائشی لوگ شامل تھے ان کے علاوہ ڈاکٹر، شوہر کے بھائی، ڈاکو ، پولیس، سابقہ شوہر، وغیرہ شامل تھے۔ اور زیادہ کیسز میں محرکات جنسی خواہش کی تکمیل تھی۔زنا با لجبرکے واقعات میں10قریبی رشتہ دار ملزمان پائے گئے جبکہ زنا کے 6واقعات رشتہ نہ دینے کی وجہ سے اور 4واقعات صرف بدلہ لینے کی خاطر ہوئے۔

پاکستان میں عورتوں اور بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی فلاحی تنظیم ہیلپ لائن کی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق  مردوں کے 705 واقعات میں سے 253 پولیس مقابلوں اور تشدد کے 175واقعات شامل ہیں جبکہ ٹارگیٹ کلنگ کے 80، کاروکاری کے 12، انسانی بردہ فروشی کے 27، خودکشی کے 79 اور سزائے موت کے 33 واقعات رپورٹ ہوئے۔پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور تشدد کے واقعات میں سب سے نمایاں صوبہ پنجاب رہا جہاں عورتوں کے خلاف ظلم و ذیاتی کے 525 اور بچوں کے خلاف تشدد و ذیاتی کے 246 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ رہا جہاں رواں برس کے پہلے تین مہینوں میں عورتوں کے خلاف تشدد و ذیادتی کے 309 اور بچوں کے خلاف 269 واقعات سامنے آئے۔2011 کے پہلے تین مہینوں میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے اندر عورتوں کے خلاف تشدد و ذیادتی کے 189 واقعات منظر عام پر آئے جبکہ بچوں کے خلاف تشدد اور ذیادتی کے 104 واقعات رپورٹ ہوئے ، صوبہ بلوچستان میں عورتوں کے 99 اور بچوں کے تشدد اور ذیادتی کے 61 واقعات رپورٹ ہوئے۔

اگر چہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے گھروں میں خواتین ، بچوں اور دیگر اہل خانہ پر تشدد کے خلاف قانونی بل منظور کیا ، جس کے تحت گھریلو تشدد کرنے والے کو ایک اور دو سال تک قید اور دو لاکھ تک جرمانہ ہوگا جبکہ ایسے مقدمات کی سماعت تین دن میں شروع ہو کر ایک ماہ میں مکمل کی جائیگی، تاہم ضرورت اس پر عمل درآمدیقینی بنانے کی ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عورتوں کے خلاف جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ، عورتوں کی ذہنی و جسمانی صحت، معاشی بد حالی اس بات کی غماز ہے کہ  کہ ہمار ی سول سوسائٹی کے نمائندے، معزز منتخب نمائندگان، متعلقہ محکمے ، پولیس، محکمہ صحت، سماجی بہبود، وکلا اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے ان بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے میں ناکام ہو گئے ہیں ۔

معروف دانشور اور محقق مدیر اعلی  “عالمی اخبار “ محترم المقام جناب صفدر ہمدانی  اس افسوسناک واقعہ پر اپنے تاثرات یوں لکھتے ہیں ۔۔

“ میں نے کتنے دن سے اس موضوع پر لکھنا چاہا لیکن قلم چلتا نہیں، ہاتھ شل ہیں اور سوچ جیسے ماؤف۔ ہم کیسے ظالم،جابر اور بے حس معاشرے کے فرد ہیں۔ حاکموں کو تو چھوڑیں حیرت ہے کہ عام آدمی بھی اس حشر نما حادثے کو نہیں سمجھ رہا۔ ہم کیسے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو عزت دی۔ کوئی شک نہیں کہ اسلام نے عزت دی لیکن سچ یہ ہے کہ مسلمان نے یہ عزت لوٹ لی۔

یہ تو ایک ایسی خبر ہے جو سامنے آ گئی ورنہ ایسی کہانی ہر روز کہیں نہ کہیں ہوتی ہے۔ جو معاشرے بے حس ہو جائیں اور جہاں عوام میں یہ احساس ہو کہ یہ جو ہوا ہے وہ انکے ساتھ نہیں کسی اور کے ساتھ ہوا ہے وہاں سے اللہ اپنی رحمت اٹھا لیتا ہے۔ قانون کا کہیں نام نہیں۔کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ ایسے مسلمانوں کو شرم نہیں آتی کہ یہ کس منہ سے اللہ کے آخری نبی اور سارے عالمین کے لیئے رحمت نشان کا نام اپنے ناپاک ہونٹوں سے لیتے ہیں۔

برطانیہ میں مسالک کے نام پر اور دین کے نام پر چلنے والے اور مسلکی تفرقے پھیلانے والے ٹی وی چینلوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس ظلم کا ذکر کرتے۔ ان چینلوں پر بیٹھی ہوئی خواتین کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی ایک خاتون کا دکھ محسوس کرتیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں اور ہم میں سے ایک غالب اکثریت کا کردار متعفن ہے۔ سوچ یہ ہے کہ یہ سب کسی اور کے ساتھ ہوا ہے۔ انا اللہ “ ۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ جس زبان سے ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں آواز نہ بلند ہو اس زبان سے جاری خالی خولی لفظوں کا درود و سلام کوئی فیض نہیں پہنچائے گا ‘‘۔

میں بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ ان اعداد و شمار کے باوجود ہزاروں ایسے واقعات ہیں جو کسی کے علم میں بھی نہیں ہیں ۔ یہ جرائم ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں جو جہالت کی پہلی نشانی ہیں  ۔  جب بھی کسی مذہب اور نسل کی بیخ کنی کی جاتی ہے سب سے پہلا حملہ اس کی تہذیب پر ہوتا ہے ۔ آپ ہی دیکھئے کہ مسلم معاشرے کی عورت  کے ساتھ ایسا سلوک ۔۔ اس کی ایسی تذلیل کہ روح بھی کانپ اٹھے ۔۔ توبہ استغفار  ۔۔ اتنی جہالت ۔۔

اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے علم کی طاقت لائے تھے  جس سے جہالت کے  اندھیروں میں آگہی کے چراغ جلتے ہیں  ۔ علم ایک ایسی شعوری بیداری کی علامت ہے جسے کسی “ ازخود نوٹس “ کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ علم ہی وہ طاقت ہے جو ہم میں  شعوری بیداری کا عمل پیدا کر سکتا ہے ۔ جو ہم کو اپنے قول و فعل کے تضاد کو پوری زمہ داری کے ساتھ قبول کرنے اور سدھارنے کی ترغیب دے سکتا ہے ۔ اس چند روزہ زندگی کی حقیقت بتا سکتا ہے ۔۔ اپنے گناہوں کی پہچان اور سچی توبہ دلا سکتا ہے ۔

سوچیں اگر یہ سب کسی صدر، وزیر اعظم،وزیر داخلہ۔مذہبی امور کے وزیر۔کسی علامہ ، مولانا ، حقوق نسواں کے علمبردار، وکیل، جج، جنرل، بہت بڑے صحافی، مفتی یا دینی مذہبی رہنما کی بیٹی کے ساتھ ہوتا ؟ ۔۔۔۔ لیکن ان کے ساتھ  ہوا نہیں ہے ۔۔ اس لئے انہیں کسی کا دکھ نہ تو دیکھائی دیتا ہے اور نہ سنائی دیتا ہے ۔۔۔ “ بے حس حکمران “ ۔۔

سوچیں اگر یہ ہم میں سے کسی کے گھر ہوتا ۔۔  ؟  کسی کے ساتھ ہوتا ۔۔؟ ۔۔ لیکن ہمارے ساتھ  ہوا نہیں ہے ۔۔ اس لئے  ہمیں کسی کا دکھ نہ تو دیکھائی دیتا ہے اور نہ سنائی دیتا ہے ۔۔۔ “ بے حس معاشرہ “ ۔۔۔

تاریخ گواہ ہے  “ بے حسی  “  کا زہر نسلیں ڈس لیتی  ہے  ۔۔ ہماری تباہی ہماری بے حسی  ہے ۔۔۔ یہ میں نے نہیں کہا یہ قرآن کی آواز ہے۔ وہ قرآن جو اب صرف تلاوت کے لیئے رہ گیا ہے، فال نکالنے کے لیئے رہ گیا ہے، عدالت میں جھوٹی گواہی کے لیئے رہ گیا ہے، بیٹی کو اس کے سائے میں رخصت کرنے کے لیئے رہ گیا ہے، مکرہ چہروں اور بدکردار سیاست دانوں کے سر پر اٹھانے کے لیئے رہ گیا ہے، نفرتیں اور تفرقہ پھیلانے والے دین فروشوں کے لیئے رہ گیا ہے کہ وہ اسمیں سے اپنی مرضی کی آیات نکالیں اور جسے چاہیں کافر قرار دے دیں ۔

یہ وہ قرآن ہے جسمیں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اگر اسے پہاڑوں پر نازل کرتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے،اس لیئے اسے قلب محمد ص پر نازل کیا۔

اس قرآن لاریب کی ایک ایک بات حق سچ ہے لیکن مسلہ ہماری بے حسی کا ہے تو کیا ایسے میں اب  ہمارا مٹنا یقینی  نہیں ہے؟ ۔

تبصرے
Loading...