قرآن مجید میں امانت داری کی اہمیت

 

امانت داری اتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ ہمارے پہلے امام حضرت علی  ـ نے اس کو بہترین ایمان سے تعبیر کیا ”افضل الایمان الامانة” بافضلیت ترین ایمان، امانت داری ہے۔ 

اس کی اہمیت اور عظمت کے لیے اتنا ہی کافی کہ اس کو دین اسلام میں دینداری کا معیار قرار دیا گیا ہے 

پیغبر اسلام نے فرمایا :”لاتنظروالی کثرة صلاتھم وصومہم … ولکن انظروالی صدق الحدیث واداء الامانة” ١

ان کی نماز اور روزوں کی کثرت پر نہ جائو بلکہ ان کی سچائی اور امانتداری کو دیکھو۔

امام صادق فرماتے ہیں:خدا وند عالم نے انبیائ  کو ان کی سچائی اور امانتداری کی بناپر مبعوث کیا ۔ ٢

خودقرآن کریم میں ہے کہ” پیغمبروں کو امانت داری کی بناپر رسالت عطا ہوئی ہے ٣اسی طرح خدا نے وحی کے لانے کی ذمہ داری بھی اپنے امین فرشتہ، جبرئیل کے حوالے کی۔٤

مصر کے خزانے کی حفاظت حضرت یوسف کے حوالے کی گئی کیونکہ وہ امین تھے٥ لہذاامانت دار  ہونا انسان کے کمال کی علامت اور ایمان کی پختگی کی دلیل ہے۔

صاحبان امانت 

ممکن ہے جب بھی امانت داری کا لفظ استعمال ہو تو اپنے ہم نوع افراد کی امانت ذہن میں آئے جب کہ ایسا نہیں ہی بلکہ امانت کا لفظ بڑا وسیع وبلیغ ہے اور حقیقت یہ ہے قرآنی زبان میں امانت صرف اپنے ہم نوع افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ خدا و رسول ۖ حتی اپنی ذاتی امانتوں کو بھی شامل ہے۔ ان کو ہم مختصر الفاظ میںنیچے بیان کرر ہے ہیں۔

 خداکی امانت

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر انسان کے پاس خداکی بہت سی امانتیں ہیں جن کے تئیں اس پر کچھ ذمہ داریاں عاد ہوتی ہیں۔ اس بات  کی طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ کیا۔

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے ”اے صاحبان ایمان خدا سے خیانت نہ کرو ”٦ خدا نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے مثلاً اسے ہاتھ ، پیر، آنکھ، کان، دل،دماغ اور بہت سی نعمتوں سے نوزا حتی پوری دنیا کو اس کے لئے خلق فرمایالہذا انسان کے لئے  ضروری ہے کہ وہ اس کی امانتوں کی صحیح طریقہ سے حفاظت کرے، ان کو خدا کی اطاعت میں استعمال کرے اور جو اس نے ان کے متعلق ہدایات دی ہیں ان پر عمل پیراہو۔ پس خدا کی عطاکردہ چیزوںکا اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ہی امانتداری ہے اور اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرنا خیانت ہے۔ 

 رسول ۖخدا کی امانت 

سورۂ انفال کی ستائیسویںآیت میں خدا وند عالم ارشاد فرماتاہے : اے صاحبان ایمان خدا اورسول کے ساتھ خیانت نہ کرو۔

اب سوال یہ ہے کہ رسولۖ خدا کی امانت کیا ہے جس کی ہم پر حفاظت کرنا ضروری ہے ؟ ہم یہاں پر ان میں سے دو اہم ترین امانتوں کا ذکر کرہے ہیں جن کو رسولۖ خدا نے بھی اپنی وفات کے وقت مسلمانوں کے درمیان چھوڑا تھا اور ان کے لیے ان الفاظ میں تاکید فرمائی تھی:

”انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی لن یفترقا حتی یرد علیّ الحوض”٧  میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان میں سے ایک قرآن اور دوسرے اہل بیت  ہیں، جب تک تم ان سے متمسک رہوگے میرے بعدکبھی گمراہ نہ ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہونگے یہانتک کہ حوض کوثر پر دونوں میرے پاس وارد ہونگے۔

لہذا ہم پر ضروری ہے کہ ہم اپنے پیغمبر کی امانت کی اچھی طرح حفاظت کریں تاکہ کل قیامت میں رسولۖ خدا کے سامنے شرمندہ نہ ہوں اور جس طرح بعض افراد نے آ پ کے بعد دونوں کے ساتھ خیانت کی قرآن کو جلایا اور اسکے احکامات کو بھلا کر شیطان اوراپنی خواہشات کی پیروی کی جس کی گواہی خود پیغمبر اسلامۖ ان الفاظ میں دیں گے : ”یارب انّ قومی اتخذو ہذا القرآن مہجورا”٨  بارالہا! میری قوم نے اس قرآن سے رو گردانی کی ۔

نام نہاد مسلمانوں نے صرف اسی پر اکتفا ء نہ کی بلکہ آ پ ۖ کے اہل بیت پر بھی ظلم وستم کیا اور ان کو خانہ نشین کیا جبکہ ان کی محبت کو خدا وند عالم نے ان لفظوںمیں اجر رسالت قرار دیاتھا:

”قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی”٩  میرے رسول ان سے کہدو میں تم  سے اپنے اہلبیت کی محبت کے علاوہ کوئی اجررسالت نہیں چاہتا۔

لیکن رسولۖ خدا کی وفات کے بعد اہل بیت  کے گھر میں آگ لگائی گئی اور ان کے حق کو غصب کرلیا گیا۔ اسی لئے رسول ۖخدا نے فرمایا: ”انّ من اصحابی من لا یرانی بعد ان یفارقنی”١٠  میرے کچھ صحابہ ایسے بھی ہیں جو میری وفات کے بعد مجھے ہر گز نہ دیکھ پائیں گے۔

برادران اہلسنت کی معتبر کتابوں میں ہے کہ رسولۖ خدا نے فرمایا: کل قیامت کے دن میرے بعض صحابہ کو فرشتے پکڑ کر (جہنم کی طرف ) لے جائیں گے میں خدا سے کہوں گا ”…فاقول یارب اصحابی اصحابی فیقال انک لا تدری ما احدثو ا بعدک ”بارالہا! یہ میرے صحابہ ہیں تو مجھے جواب ملے گا آپ کو معلو م نہیں کہ انھوں نے آپ کے بعد کیاکیا ہے۔  ١١

لہذا اگر ہم چاہتے کہ کل پیغمبر ۖکی شفاعت سے محروم نہ ہوں، توقرآن واہل بیت  کے فرمان پر عمل کریں قرآن کی تعلیم پر دوسری دنیاوی تعلیم کو ترجیح نہ دیں دنیاوی تعلیم سے پہلے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دلائیں اوراسی طرح اہلیبیت کی پیروی کریں، ان کے فرمان پر عمل کریں چونکہ محبت اسی وقت محبت ہے جب آدمی اپنے محبوب کی بات پر عمل کرے۔ پس قرآن اہلیبیت کے احکام پر عمل کرنا امانتداری ہے اور ان کی خلاف ورزی  خیانت ہے۔

 ذاتی امانت

جہاںانسان پر خدا، رسولۖ اور اپنے ہم نوع افراد کی امانت کے حوالے سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہیں انسان اپنی ذاتی امانت کے حوالے سے بھی ذمہ دار اور مسئول ہے۔

مرحوم طبرسی سورہ بقرہ کی١٨٧ویں آیت  ”علم اﷲ انکم کنتم تختانون انفسکم” ١٢  کے ذیل میں فرماتے ہیں. اس آیہ شریفہ میں خیانت کے معنی اپنے کومسلم حقوق اور شرعی ومعنوی لذتوںسے محروم کرنا ہے۔

پس اس آیۂ شریفہ کے مطابق انسان کا ہر وہ عمل جو اس کو اس کے مسلم حق سے مانع ہو یا اس کی عزت کو خدشہ دار کرے خیانت شمار ہوتا ہے اسی طرح خدا سے رو گردانی،باطل پرستی ، ہوس رانی،شہوت رانی،فرصت کے اوقات کو یونہی گنوا دینا، سادہ نگری، تن پروری، لمبی لمبی آرزوئیں کرنا اپنے ساتھ خیانت شمار ہوتا ہے۔                                                  

دوسرے افرادکی امانت 

 ادوسروں کی امانت دو طرح کی ہوتی ہے.

١۔کسی ایک شخص کی امانت .

٢۔چند افراد کی امانت .

خود فردی وشخصی امانت مادی ومعنوی دونوں امانتوں کو شامل ہے فقہاء کے نظریات کے مطابق مادی امانت دو طرح کی ہوتی ہے ایک قانونی اور دوسرے قراردادی۔

قرادادی امانت وہ ہے جسے مالک نے اپنے ارادہ و اختیار سے رکھا ہو یا اس کی اجازت سے رکھا گیا ہو۔

 یہ خود تین طرح کی ہوتی ہے 

١۔ امانت مالک(امانت گذار) کی مصلحت میں ہو جیسے ودیعہ۔

٢۔ وہ امانت کہ جو امانت رکھنے والے کے فائدہ میں ہو  جیسے عاریہ ،قرض۔

٣۔دونوں کے حق میں ہو جیسے اجارہ ، رہن۔

امانت شرعی وقانونی وہ امانت ہے کہ جو مالک کی اجازت کے بغیر کسی کے اختیارمیں قرار پائے جیسے پایا ہوا ما ل یا چوری شدہ مال یا وہ مال جس کے مالک کا پتہ نہ ہو اسی طرح وہ مال جو بچوں اور دیوانوں کی طرف سے کسی کے حولے کیا جائے۔

تمام مالی اور مادی امانتیں عقل و شرع کے اعتبار سے امانت شمار ہوتی ہیں لہذا ان کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔

خدا وند عالم  فرماتا ہے :”ان اﷲ یامر کم ان تؤدّو الامانات  الی اہلہا” ١٣  خدا وند عالم حکم دیتا ہے کہ امانتوںکو (پہلی فرصت میں) اس کے مالک کو واپس کرو۔

کیونکہ امانت میں خیانت کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ پیغمبر اسلامۖ اس بارے میں فرماتے ہیں :

”جو آدمی دنیا میں کسی کی امانت میں خیانت کرے اور اس کے مالک کو واپس نہ پلٹائے یہا ں تک کہ اسے موت آجائے تو وہ دین اسلام کے علاوہ دوسرے دین پر مرا ہے ”  ١٤

معنو ی امانت

معنوی امانتیں بہت زیادہ ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

انسان کا فریضہ ہے کہ وہ دوسروں کی سلامتی کا خیال رکھے۔ 

 امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند عالم نے صحت مند افراد پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ زمیں گیر اور کمزور  لو گوں کی مددکریں۔١٥

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جو کسی زخمی کا علاج نہ کرے اس کو بھی ضررپہچانے والوں میں شمار کیا جائے گا ۔١٦

اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض افراد ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس امانت کی حیثیت رکھتے ہیں لہذا انکا فریضہ ہے کہ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کریں۔

حضرت علی  ـ ڈاکٹروں کے ماہر ہونے پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :ا”سلامی حاکم پر واجب ہے کہ فاسد دانشمندوں اور غیر ماہر ڈاکٹروں کو قید کرے اور ان کو معاشرے سے دور رکھا جائے”١٧

اسرار 

لوگوں کے مخفی راز امانت ہبں لہذا ان میں خیانت نہ کرنی چاہیے یعنی ان کو دوسروں سے نہ کہنا چاہیے۔

رسولۖ خدا نے فرمایا: اے ابوذر! مجلس و محفل میں ذکر ہونے والے اسرار امانت ہیں لہذا اپنے بھائی کے راز کو فاش کرنا خیانت ہے اس سے پرہیز کرنا۔

اس بنا پر کسی کے خط کو پڑھنا، یا ٹیلیفون کو سننا یا کسی کے موبائل یا کمپیوٹر کو اس کی اجازت کے بغیر چیک کرنا خیانت او رگناہ ہے۔ 

عہد وپیمان 

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :اہم ترین امانت عہد وپیما ن کی رعایت ہے۔ ١٨ 

آپ نے ایک او ر مقام پر فرمایا: اگر تم نے اپنے دشمن سے عہدو پیمان کیا یا اس کو پناہ دی تو پھر اس کو وفا کرو ۔ ١٩

مشورہ 

تسلیم شدہ شخص اور مشورہ کرنے والے شخص کے ساتھ خیانت کرنا بدترین کام ہے بہت بڑی برائی اور جہنم کے عذاب کا سبب ہے۔  ٢٠

اجتماعی امانت 

جس طرح ایک شخص کی امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گنا ہ ہے بطریق اولی چند افراد کی امانت میں خیانت کرنا سب سے بڑا گنا ہ ہے۔ ہم یہاں پر  چند اجتماعی امانتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں: 

پوسٹ ومقام 

دین اسلا م کے اعتبار سے منصب و عہدہ منھ کا ایک پرچربلقمہ نہیں ہے کہ ہر آدمی اس کی ہوس کرے بلکہ وہ معاشرہ کی ایک امانت ہے۔ 

حضرت علی  ـ نے اپنے ایک والی کو خط میں تحریر فرمایا :

”تمہارا یہ منصب ، کھانا پانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک امانت ہے جو (اس وقت ) تمہارے پاس ہے  جس نے تم کو اس پر فائز کیا ہے اس نے اس امانت کی حفاظت بھی تمہارے سپرد کی ہے”۔  ٢١

پیغمبر اسلام ۖ ان افراد کے بارے میںفرماتے ہیں جھنوں نے ناحق عہدہ ومنصب پر قبضہ جمایا: 

”من تقدم علی قوم من المسلمین وہو ان یری انّ فیہم من ہو افضل منہ فقد خان  اللہ و رسولہ” 

”جو شخص کسی منصب کو قبول کرنے میں دوسرے مسلمانوں پر سبقت کرے حالانکہ وہ جانتا ہو کہ ان کے درمیان اس سے بہتر افرادموجود ہیں تو ایسے شخص نے خدا ورسولۖ کے ساتھ خیانت کی ” ٢٢

اسی طرح آپ نے ایک اور مقام پر فرمایا :

جوکسی مسلمان کو کوئی عہدہ سپر د کرے حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ قرآن وسنت کا علم رکھنے والے افراد موجود ہیں تو اس شخص نے در حقیقت خدا کے ساتھ خیانت کی۔ ٢٣

عمو می اسرار 

یہ بات ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ حتی ایک آدمی کے راز کو فاش کرنا گناہ اور خیانت شمار ہوتا ہے لہذا اس صورت میں چند آدمیوں یا ایک گروہ کے راز کو فاش کرنا بدر جہ اولی خیانت اور گنا ہ ہوگا۔

حضر ت علی علیہ السلام فرماتے ہیں جو کسی کے سپرد کردہ راز کو فاش کرے اس نے خیانت کی۔  ٢٤

علمی خیانت

علم کے سیکھنے اور سکھانے میں کوتاہی کرنا اسلام کی نظر میں خیانت شمار کیا جاتا ہے۔

ہمارے پیغمبرۖ نے فرمایا :سیکھنے اور سکھا نے میں ایک دوسرے کی مدد کرو کیو نکہ علم میں خیانت کرنا مال میں خیانت کر نے سے زیادہ برا ہے۔ ٢٥ 

آپ ۖ نے دوسرے مقام پر فرمایا :

”علم سے دریغ کرنے والے آدمی پر ہر چیز لعنت کرتی ہے حتی دریاکی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے بھی ” ٢٦ اس بنا پر استاد کا بغیر مہارت کے تدریس کے فرائض انجام دینا یا بغیر آمادگی کے در س دینا شاگردوں کے ساتھ خیانت ہے۔

عمومی اموال 

وہ اموال جن کا تعلق اکثر افراد سے ہے مثلاً سڑک، روڈ ، پارک ، گلی وغیرہ ان کو غلط طریقہ سے استعمال کرنا یا ان پر دوسروں کے آزار کا سبب بننا یہ  دوسروںکی امانت میں خیانت شمار ہوتا ہے ۔

شخصی اموال 

اگرچہ ممکن ہے کوئی یہ تصور کرے کہ انسان اپنے ذاتی مال کو چاہے جیسے استعمال کرسکتا ہے کیونکہ وہ اسکا اپنا مال ہے لیکن اس کا یہ خیال غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مال خدا کا ہے جس کو خدا نے اس کے پا س  بطور امانت رکھا ہے۔  اس کا فریضہ ہے کہ وہ اس میں سے بقدر ضروت استعمال کرے اور بقیہ کو ضروت مندوں کے حوالے کرے ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : 

”کیا تم یہ سوچتے ہو کہ اگر خدا نے کسی کو امانت دی ہے تو وہ اس کی بزرگی اورکرامت کی وجہ سے ہے ؟

ایسا نہیں ہے بلکہ وہ مال خدا کا ہے جس کو اس کے پاس بطور امانت رکھا ہے اوراس کو  کھانے پینے اور دیگر جائز تصرفات کے لئے اجازت دی ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ میانہ روی اختیار کرے اور مازاد کوضروت مندوں کو عطا کردے ” ٢٧

لہذا اسلام نے شخصی اموال میں کچھ محدویت قرار دی ہے تا کہ اس کو غلط استعمال سے بچایا جاسکے۔ مثلاً اسراف واحتکار کی حرمت اور خمس زکات کا وجوب۔ 

حضرت علی  ـ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اسراف دوسروں کے حق میں ایک قسم کا تصرف کرنا ہے، ارشاد فرمایا ہے:”اسراف کرنے والا اس چیز کو کھاتا ہے جو اس کا حق نہیں ہے اور (اسی طرح)جو اس کا حق نہیں ہے اس کو خرید تا ہے، جو اس کا حق نہیں اس کو پہنتا ہے” ٢٨

اسی طر ح آپ نے احتکار کو بھی معاشرے کے ساتھ خیانت قرار دیا ہے۔

”آپ نے مالک اشتر کے عہد نامہ میں فرمایا : ”یہ کام عوام کے لئے مضر اور حاکم کے لئے عیب ہے پس احتکار کو وجود میں نہ آنے دو”۔ ٢٩

امام صادق  ـ فرماتے ہیں : اگر لوگ زکات کو ادا کریں تو کوئی مسلمان فقیر اور ضروت مند نہ رہے۔ ٣٠

امانت داری کے اسباب 

١۔ایمان کی پختگی :

آدمی کا ایمان جتنا پختہ ہوگا اتنا ہی امانتدار ہوگا اگر کوئی خیانت کرے تو یہ اس کی بے تقوائی کی نشانی ہے۔

٢۔خواہشات پر کنٹرول 

٣۔لالچ اور طمع سے دوری 

خیانت کے اسباب 

١۔ عقیدہ سے انحراف 

جس آدمی کا عقیدہ خراب ہوگا وہ امانت میں خیانت کرے گا۔ 

٢۔بد گمانی 

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :بد گمان آدمی حتی اس شخص کہ ساتھ خیانت کرنے کو روا سمجھتا ہے جس نے اس کے ساتھ امانت داری سے کام لیا ہو۔

٣۔ حسد اور رشک ورزی 

حسد اور رشک ورزی خیانت کا باعث ہوتی ہے حضر ت یوسف کے بھائیوں نے ان کو حسد کی بناپر ہی کنویں میں ڈالااور اپنے باپ سے آکر جھوٹ بولاکہ یوسف  کو بھیڑ ے نے کھا لیا۔

٤۔ افسردگی 

حضرت علی علیہ السلام نے افسردہ آدمی کو امانت سپر دکر نے سے منع کیا ہے۔

افسردہ آدمی پر اس لئے اعتماد نہیںکرنا چاہیے کیونکہ وہ کم حوصلہ ہوتا ہے معمولی سے بہانہ کی وجہ سے  خیانت کر بیٹھتاہے پھر ایسا آدمی صحیح طور پرآپ کی امانت کی حفاظت نہیں کرسکتا ۔

امانتداری کے نتائج 

  ١۔ایمان محکم ہوتا ہے .

٢۔معاشرے میں عزت ہوتی ہے جیسے ہمارے رسول کو کفار عرب امین کہہ کر خطاب کرتے تھے .

٣۔امنیت کا سبب بنتی ہے .

٤۔ایک دوسرے کی نسبت اطمینان پیدا ہوتا ہے

٥۔ اقتصاد میں رونق آتی ہے .

٦۔بہت سی مشکلات حل ہو تی ہیں.

خیا نت کے نتائج 

١۔  دین میںستی کا سبب ہوتی ہے .

 ٢۔بے اعتمادی.  ٣۔ فقیری تنگدستی.   ٤۔؛نا امنی

٥۔ ایک دوسرے کے درمیان دشمنی ایجاد کرتی ہے .

حوالے

١ ۔عیون الرضا .ج ١ص٥٦

 ٢۔بحار الانوارج٧٢ص١١٦

٣۔شعراء آیہ١٠٧،١٢٥،١٤٣،١٦٢،١٧٨.

٤۔  شعراء  ٩٣،٩٤

٥۔ سورہ یوسف آیت ٥٥ 

 ٦۔انفال ٢٧ 

٧۔امالی شیخ صدوق ص٥٠٠

 ٨۔فرقان آیہ  ٣٠

٩۔ شوری ٢٣

١٠۔مسند احمد بن حنبل ج٦ص٢٩٠اور٣٠٧اور٣١٢اور٣١٧

١١۔صحیح مسلم ج ٦ص٦٨مستدرک حاکم ج٢ص٤٤٧بخاری ج ٤ص١١٠مجمع الزوائدد ہیثمی ج١٠ص٣٦٥

 ١٢۔سورہ بقرہ  ١٨٧

١٣۔ سورہ نساء ٥٨

 ١٤۔بحار الانوار ج٧٥ص١٧١

١٥۔علل الشرائع ج٢ ص ٣٦٩ طبع بیروت مکتبہ حیدریہ 

١٦۔وسائل الشیعہ ج٢ ص ٦٢٩ 

 ١٧۔تہذیب الاحکام ج٦ص ٣١٩

١٨۔شرح غررودرآمدی ج٦ص٣٤

١٩۔نہج البلاغہ ترجمہ سید جعفر شہیدی ،مکتوب ٥٣ ص٣٣٩

٢٠۔عیو ن الحکم والمواعظ،ص٢٤٢.

٢١۔نہج البلاغہ  شرح وترجمہ فیض الاسلام مکتوب٥ص٨٢٩

٢٢۔الغدیر ج٨ص٢٩١ 

 ٢٣۔ الغدیر ج٨ص٢٩١

٢٤۔شرح غررودر آمدی ج٥ص٢٦٨

 ٢٥۔بحار الانوار ج٢ ص٦٨

٢٦۔جامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر  (سیوطی)ج ٢ ص٢٦٦

٢٧۔بحار الانوارج٧٥ ص ٣٠٥ 

 ٢٨۔وسائل الشیعہ ج١٢ص٤١.

٢٩۔نہج البلاغہ شرح و ترجمہ فیض الاسلام مکتوب٥٣ص١٠١٧

٣٠۔من لا یحضرہ الفقیہ ج٢ ص٤

 

 

 

 

 

 

تبصرے
Loading...