قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟

قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟

جو کچھ روایتوں، احادیث اور قرآن مجید کی آیتوں میں آیا ہے، وہ تقریبا امر و نہی کے صیغوں کی صورت میں ہے، ان اوامر و نواہی میں سے کیسے کراہت اور استحباب کو الگ کرکے ان کو وجوب اور حرمت نہیں جانا جاسکتا ہے؟

ایک مختصر
صیغہ امر و نہی کی دلالت ہمیشہ وجوب اور حرمت پر نہیں ہوتی ہے بلکہ وجوبی امر کے علاوہ استحبابی امر بھی ہے اور نہی حرمت کے علاوہ نہی تنزیہی بھی ہے، پس اگر قرآن مجید اور روایتوں کے دستورات اور اوامر میں کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جس سے خدا وند متعال کا مراد امر یا نہی ، وجوب و حرمت نہ ہو، بلکہ استحباب و کراہت ہو، تو اس امر و نہی کو استحباب ( امر استحبابی) اور کراہت( نہی تنزیہی) تفسیر کرنا چاہئے۔

تفصیلی جوابات

امر کی وجوب پر دلالت اور نہی کی حرمت پر دلالت، اصول فقہ کے مباحث میں سے ہے۔ کیا امر و نہی اپنی ذات میں وجوب اور حرمت پر دلالت رکھتے ہیں یا یہ کہ وجوب اور حرمت دوسرے قرائن سے معلوم ہوتے ہیں؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر اصول فقہ کے علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
1۔ بعض کا اعتقاد ہے کہ صیغہ امر ( افعل) اور صیغہ نہی ( لاتفعل)، در اصل اپنی وضع میں، وجوب اور حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔
2۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: وجوب و حرمت پر امر و نہی کی دلالت عقل کے حکم سے ہے، یعنی جب پروردگار کی طرف سے کوئی امر صادر ہوا، تو صیغہ امر بذات خود وجوب پر دلالت نہیں کرتا ہے، بلکہ اگر امر میں، خدا کے حکم کے ساتھ ، ترک کا جائز ہونا نہ ہو تو، اس وقت عقل حکم کرتی ہے کہ اس کام کو انجام دینا چاہئے یا نہی کی صورت میں، اگر شارع مقدس کی نہی کے ہمراہ فعل انجام دینے کا جائز ہونا نہ ہوتو عقل حکم کرتی ہے کہ جس چیز کی شارع مقدس نے نہی کی ہے، اسے انجام نہ دیا جائے۔
مثال کے طور پر اگر پروردگارعالم نے صبح کی نماز کا حکم دیا ہو اور دوسری جانب اس کے ترک کرنے کے جائز ہونے کا کوئی قرینہ موجود نہ ہو، تو عقل یہ حکم کرتی ہے کہ صبح کی نماز مکلف پر واجب ہے۔ یا اس کے برعکس، جب شارع مقدس حکم کرتا ہے کہ غسل جمعہ بجا لاؤ۔ اگر اس امر کے ساتھ اس کو ترک کرنا جائز قرار دیا گیا ہو اور فرمایا ہو: اگر غسل جمعہ ترک کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، تو اس وقت عقل حکم کرتی ہے کہ اگر چہ غسل جمعہ شرع کے لحاظ سے مطلوب اور پسندیدہ ہے، لیکن اکر ترک بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ( یعنی وہی استحباب کے معنی) اسی طرح نہی کے بارے میں بھی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔
اس نظریہ کے قائل افراد، اصولی مباحث میں مرحوم نائنی اور ان کے پیرو ہیں۔[1] اس نظریہ کی بناء پر، اگر شارع مقدس نے ایک کلام میں اور ایک سیاق میں کیا ہو:” اغسل للجمعة والجنابة” ” روز جمعہ اور جنابت کے لئے غسل کرو” دوسرے قرائن کے پیش نظر آسانی کے ساتھ غسل جمعہ کے حکم کو استحباب اور جنابت کو اس غسل کے ( نماز کے لئے) واجب ہونے کی تفسیر کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ امر کے وجوب پر دلالت عقل کے حکم پر ہے اور عقل ایک ایسی جگہ پر اس قسم کا حکم کرتی ہے جہاں پر ترک کرنے کے سلسلہ میں کوئی جواز نہ پائے۔
3۔ مادہ اور صیغہ امر( اور نہی) امر کرنے والے کے ارادہ پر دلالت کرتے ہیں، پس اگر یہ ارادہ شدید ہوتو، وجوب (یا حرمت) پر دلالت ہے اور اگر یہ ارادہ ضعیف ہو تو تو استحباب ( یا کراہت) پر دلالت ہے۔ البتہ قوی اور شدید ارادہ میں، قرینہ کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر امر کرنے والے کا ارادہ ضعیف ہو ( اور وہ استحباب یا کراہت چاہتا ہو) تو اسے اپنی مراد کے لئے کوئی قرینہ لانا چاہئے۔ یہ قول بھی آقائے ضیاء الدین عراقی اور اس کے اصولی تابعین سے منسوب ہے۔[2]
مذکورہ تینوں نظریات کے مطابق: اگر قرآن مجید اور روایتوں کے دستورات میں ایسا قرینہ موجود ہو جس سے شارع مقدس کا امر یا نہی سے مراد وجوب اور حرمت نہ ہو، بلکہ استحباب اور کراہت کو مد نظر رکھتا ہو، تو اس صورت میں امر و نہی کو استحباب ( امر استحبابی) اور کراہت ( نہی تنزیہی) سے تفسیر کرنا چاہئے۔ جیسے مولا کا امر اس کے منع کے بعد ہو، مثال کے طور پر اگر طبیب نے بیمار سے کہا ہو پانی نہ پیو اور پانی کی جگہ پردوسرے مایعات کا استفادہ کرو اور وہی طبیب ایک ہفتہ کے بعد کہے : پانی پیو، پانی پینے کا یہ امر عرفی مفہوم میں وجوبی امر کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ ممانعت کو دور کرنے کے معنی میں ہے،[3] یعنی آج کے بعد پانی پینے کی ممانعت اٹھالی جاتی ہے، نہ یہ کہ بیمار کے لئے پانی پینا واجب ہو۔[4]
اس کے مقابلے میں، کبھی وجوب اور حرمت کے حکم میں کوئی صیغہ امر و نہی نہیں ہوتا ہے، لیکن چونکہ قرائن کا موجود ہونا امر و نہی کو وجوب و حرمت کی دلالت سے نیچے لاکر استحباب و کرامت کی طرف کھینچ سکتا ہے ، اسی قرینہ کا موجود ہونا، خبری جملوں کو وجوب و حرمت پر دلات کرسکتا ہے،  اس لحاظ سے کبھی آیات و روایات میں صیغہ خبری میں امر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن قرائن موجود ہونے کے پیش نظر اس سے وجوبی امر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ” والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثتہ قروء” [5]مطلقہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں گی” یہاں پر فعل مضارع ( یتربصن) کے صیغہ سے صیغہ امر بیان کیا گیا ہے، لیکن دوسری روایات اور قرائن سے مطلقہ عورت کے لئے عدت کی رعایت کرنا ضروری اور واجب ہے۔

ایک روایت میں عمار بن موسی نے امام صادق (ع) سے ایک مرد کے بارے میں پوچھا جس نے روزہ کی حالت میں فراموشی سے اپنی بیوی سے ہم بستری کی تھی۔ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: ” وہ غسل انجام دے اور کوئی چیز اس پر ذمہ نہیں ہے۔”[6]
امام (ع) صیغہ مضارع ( یغتسل) سے فرماتے ہیں کہ غسل کرے اور یہ غسل کے واجب ہونے کے معنی میں ہے ( یعنی اسے غسل کرنا چاہئیے) ۔ کیونکہ ہم دوسرے دلائل کے پیش نظر جانتے ہیں کہ جنابت کے لئے غسل بجالانا ضروری ہے۔ خبری جملوں کے وجوب پر دلالت ہونا اس قدر واضح ہے کہ، بعض افراد نے وجوب پر اس دلالت کو خود صیغہ امر کے وجوب پر دلالت سے قوی تر جانا ہے۔[7]
اس بنا پر امرو نہی کے استحباب اور کراہت پر دلالت کافی معمول ہے، کیونکہ حرمت کے سلسلہ می امر و نہی کے وجوب کی دلالت یہاں تک ہے کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ نہ ہو اور (امر کے لئے) ترک کی رخصت اور فعل کے جواز کے لئے (نہی) کا حکم نہ دیا ہو۔

ملاحظہ ہو

[1]۔صدر، سید محمد باقر، بحوث ‌فی ‌علم ‌الاصول، مقرر، هاشمي شاهرودی، سیدمحمود، ج 2، ص 18، قم، مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، 1417ق؛ مظفر، محمد رضا، اصول الفقه، ص 116، قم، بوستان کتاب، 1387ش.
[2] بحوث ‌فی ‌علم ‌الاصول، ج 2، ص 20.۔
[3]۔ اصول الفقه، ص 83؛ ولایی، عیسی، فرهنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ص 120، تهران، نشر نی، 1387ش.
[4]۔ اس کے علاوہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 2 کے بارے میں قرآن مجید کی مثالوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ ارشاد ہو تا ہے: «وَ إِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا»؛ اس آیت میں احرام سے باہر نکلنے کے بعد شکار کرنے کا امر کیا گیا ہے، اور یہ امر چونکہ  حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانعت کے بعد کیا گیا ہے،سرف شکار کرنے کی دلالت کرتا ہے نہ شکار کے وجوب کی  ملاحظہ ہو: اصول الفقه، ص 84.
[5]۔ بقره، 228
[6]۔ «سَأَلَهُ عَمَّارُ بْنُ مُوسَى عَنِ الرَّجُلِ يَنْسَى وَ هُوَ صَائِمٌ فَجَامَعَ أَهْلَهُ قَالَ يَغْتَسِلُ وَ لَا شَيْ‌ءَ عَلَيْهِ»؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، محقق، مصحح، غفاری، علی اکبر، ج ‌2، ص 118، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع دوم، 1413ق.
[7]۔ سبحانی، جعفر، الوسیط فی اصول الفقه، ج 1، ص 93، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1388ش

تبصرے
Loading...