قرآن مجيد اور نسائيات

اسلام ميں نسائيات كے موضوع پرغوركرنے سے پہلے اس نكتہ كاپيش نظر ركھنا ضروري ہے كہ اسلام نے ان افكاركا مظاہرہ اس وقت كيا ہے جب باپ اپني بيٹي كو زندہ دفن كرديتاتھا اوراس جلاديت كو اپنے ليے باعث عزت وشرافت تصوركرتاتھا عورت دنياكے ہرسماج ميں انتہائي بے قيمت مخلوق تھي اولاد ماں كوباپ سے تركہ ميں حاصل كياكرتي تھي لوگ نہايت آزادي سے عورت كالين دين كياكرتے تھے اوراس كي رائے كي كوئي قيمت نہيں تھي حديہ ہے كہ يونان كے فلاسفہ اس نكتہ پربحث كررہے تھے كہ اسے انسانوں كي ايك قسم قراردياجائے يايہ ايك ايسي انسان نمامخلوق ہے جسے اس شكل وصورت ميں انسان كے انس والفت كے ليے پيداكيا گياہيے تاكہ وہ اس سے ہرقسم كا استفادھ كرسكے استفادھ كرسكے ورنہ اس كا انسانيت سے كوئي تعلق نہيں ہے۔         

دورہ حاضرميں آزادي نسواں اورتساوي حقوق كانعرہ لگانے والے اوراسلام پرطرح طرح كے الزامات عائدكرنے والے اس حقيقت كوبھول جاتے ہيں كہ عورتوں كے بارے ميں اس طرح كي باعزت فكراوراس كے سلسلہ ميں حقوق كا تصوربھي اسلام ہي كادياہوا ہے ورنہ اس كي طرح كي باعزت فكر اور اس كے سلسلہ ميں حقوق كا تصور بھي اسلام ہي كا ديا ہوا ہے ورنہ اس نے ذلت كي انتہائي گہرائي سے نكال كر عزت كے اوج پر نہ پہونچا ديا ہوتا تو آج بھي كوئي اس كے بارے ميں اس انداز سے سوچنے والا نہ ہوتا يہوديت اور عيسائيت تو اسلام سے پہلے بھيان موضوعات پر بحث كياكرتے تھے انھيں اس وقت اس آزادي كاخيال كيوں نہيں آيا اورانھوں نے اس دورميں مساوي حقوق كانعرہ كيوں نہيں لگايا يہ آج عورت كي عظمت كاخيال كہاں سے آگيا اوراس كي ہمدردي كا اس قدرجذبہ كہاں سے آگيا ؟

درحقيقت يہ اسلام كے بارے ميں احسان فراموشي كے علاوہ كچھ نہيں ہے كہ جس نے تيراندازي سيكھائي اسي كونشانہ بناديا اورجس نے آزادي اورحقوق كانعرہ ديا اسي پرالزا مات عائدكرديے۔بات صرف يہ ہے كہ جب دنيا كو آزادي كاخيال پيداہوا تواس نے يہ غوركرنا شروع كيا كہ آزادي كايہ مفھوم توہمارے ديرينہ مقاصد كے خلاف ہے آزادي كايہ تصورتو اس بات كي دعوت ديتا ہے كہ ہرمسئلہ ميں اس كي مرضي كاخيال ركھاجاے اور اس پركسي طرح كادباؤنہ ڈالاجائے اوراس كے حقوق كاتقاضايہ ہے كہ اسے ميراث ميں حصہ دياجائے اسے جاگيرداري اورسرمايہ كاشريك تصوركياجائے اوريہ ہمارے تمام ركيك ، ذليل اورفرسودہ مقاصد كے منافي ہے لہذا انھوں نے اسي آزادي اورحق كے لفظ كو باقي ركھتے ہوئے مطلب برآري كي نئي راہ نكالي اوريہ اعلان كرنا شروع كرديا كہ عورت كي آزادي كامطلب يہ ہے كہ وہ جس كے ساتھ چاہے چلي جائے اور اس كے مساوي حقوق كامفھوم يہ ہے كہ وہ جتنے افراد سے چاہے رابطہ ركھے اس سے زيادہ دورحاضر كے مردوں كوعورتوں سے كوئي دلچسپي نہيں ہے يہ عورت كوكرسي اقتدار پربٹھاتے ہيں تواس كاكوئي نہ كوئي مقصد ہوتا ہے اوراس كے برسراقتدار لانے ميں كسي نہ كسي صاحب قوت وجذبات كاہاتھ ہوتاہے، اوريہي وجہ ہے كہ وہ قوموں كي سربراہ ہونے كے بعد بھي كسي نہ كسي سربراہ كي ہاں ميں ہاں ملاتي رہتي ہے اوراندرسے كسي نہ كسي احساس كمتري ميں مبتلارہتي ہے اسلام اسے صاحب اختيارديكھناچاہتاہے ليكن مردوں كاآلہ كاربن كرنہيں ۔وہ اسے حق اختيار و انتخاب ديناچاہتاہے ليكن اپني شخصيت، حيثيت، عزت اوركرامت كاخاتمہ كرنے كے بعدنہيں۔ اس كي نگاہ ميں اس طرح كا اختيار مردوں كوحاصل نہيں ہے توعورتوں كاكہاں سے حاصل ہوجائے گاجب كہ اس كي عصمت و عفت كي قدروقيمت مردسے زيادہ ہے اوراس كي عفت جانے كے بعددوبارہ واپس نہيں آتي ہے جب كے مرد كے ساتھ ايسي كوئي پريشاني نہيں ہے۔

اسلام مردوں سے بھي يہ مطالبي كرتا ہے كہ جنس تسكين كے ليے قانون كا دامن نہ چھوڑيں اور كوئي قدم ايسا نہ اٹھائيں جوان كي عزت و شرافت كے خلاف ہو چنانچہ ان تمام عورتوں كي نشاند ہي كردي گئي جن جنسي تعلقات كا جواز نہيں ہے ان تمام صورتوں كي طرف اشارہ كرديا گيا جن سے سابقہ رشتہ مجروح ہوتا ہے اور ان تمام تعلقات كوبھي واضح كرديا جن كے بعد پھر دوسرا جنسي تعلق ممكن نہيں رہ جاتا ايسے مكمل اورمرتب نظام زندگي كے بارے ميں يہ سوچنا كہ اس نے يكطرفہ فيصلہ كياہے اور عورتوں كے حق ميں ناانصافي سے كام لياہے خود اس كے حق ميں ناانصافي بلكہ احسان فراموشي ہے ورنہ اس سے پہلے اسي كے سابقہ قوانين كے علاوہ كوئي اس صنف كا پرسان حال نہيں تھا اور دنياكي ہرقوم ميں اسے نشانہ ظلم بنالياگياتھا۔

اس مختصر تمہيد كے بعد اسلام كے چند امتيازي نكات كي طرف اشارہ كياجارہاہے جہاں اس نے عورت كي مكمل شخصيت كاتعارف كرايا ہے اوراسے اس كاواقعي مقام دلواياہے ۔

عورت كي حيثيت

ومن آياتہ ان خلق لكم من انفسكم ازواجا لتسكنوا اليھاوجعل بينكم مودة و رحمة (روم۲۱)

اس كي نشانيوں ميں سے ايك يہ ہے كہ اس نے تمہاراجوڑاتمھيں ميں سے پيداكياہے تاكہ تمھيں اس سے سكون زندگي حاصل ہو اورپھرتمہارے درميان محبت اوررحمت كا جذبہ بھي قراردياہے ۔

آيت كريمہ ميں دو اہم باتوں كي طرف اشارہ كياگيا ہے:

1۔ عورت عالم انسانيت ہي كاايك حصہ ہے اوراسے مردكاجوڑا بناگياہے ۔اس كي حيثيت مرد سے كمترنہيں ہے۔

2۔ عورت كامقصدوجودمرد كي خدمت نہيں ہے، مردكاسكون زندگي ہے اورمردوعورت كے درميان طرفيني محبت اوررحمت ضروي ہے يہ يكطرفہ معاملہ نہيں ہے۔

ولھن مثل الذي عليھن بالمعروف وللرجال عليھن درجة (بقرہ ۲۲۸)

عورتوں كے ليے ويسے ہي حقوق ہيں جيسے ان كے ذمہ فرائض ہيں امردوں كو ان كے اوپرايك درجہ اورحاصل ہے ۔

يہ درجہ حاكميت مطلقہ كانہيں ہے بلكہ ذمہ داري كاہيم كہ مردوں كي ساخت ميں يہ صلاحيت ركھي گئي ہے كہ وہ عورتوں كي ذمہ داري سنبھال سكيں اوراسي بناانھيں نان ونفقہ اور اخراجات كاذمہ داربناگياہے ۔

فاستجاب لھم ربھم اني لااضيع عمل عامل منكم من ذكراوانثي بعضكم من بعض (آل عمران ۱۹۵)

تو اللہ نے ان كي دعاكوقبول كرليا كہ ہم كسي عمل كرنے والے كے عمل كوضائع نہيں كرنا چاہتے چاہے وہ مردہوي اعورت، تم ميں بعض بعض سے ہے

يہاں پردونوں كے عمل كوبرابركي حيثيت دي گئي ہے اورايك كودوسرے سے قرار ديا گيا ہے ۔

ولاتتمنوا مافضل اللہ بعضكم علي بعض للرجال نصيب ممااكتسبوا وللنساء نصيب ممااكتسبن (نساء۳۲)

اور ديكھو جوخدانے بعض كوبعض سے زيادہ دياہے اس كي تمنا نہ كرو مردوں كے ليے اس ميں سے حصہ ہے جوانھوں نے حاصل كرلياہے۔

يہاں بھي دونوں كوايك طرح كي حيثيت دي گئي ہے اورہرايك كودوسرے كي فضيلت پرنظرلگانے سے روك دياگياہے ۔

وقل رب ارحمھماكماربياني صغيرا (اسراء۲۳)

اوريہ كہوكہ پروردگاران دونوں (والدين)پراسي طرح رحمت نازل فرما جس طرح انھوں نے مجھے پالا ہے۔

اس آيت كريمہ ميں ماں باپ كو برابركي حيثيت دي گئي ہے اوردونوں كے ساتھ احسان بھي لازم قراردياگياہے اوردونوں كے حق ميں دعائے رحمت كي بھي تاكيد كي گئي ہے ۔

ياايھا الذين آمنوالايحل لكم ان ترثوا النساٴ كرھا ولاتعضلوھن لتذھبوا ببعض ماآتيمتوھن الا ان ياتين بفاحشة مبينة وعاشروھن بالمعروف فان كرھتموھن فعسي ان تكرھواشيئاويجعل اللہ فيہ خيرا كثيرا (نساء ۱۹)

ايمان والو ۔ تمھارے لے نہيں جائز ہے كہ عورت كے زبر دستي وارث بن جاٴواور نہ يہ حق ہے كہ انھيں عقد سے روك دو كہ اس طرح جو تم نے ان كو ديا ہے اس كا ايك حصہ خود لے لو جب تك وہ كوئي كھلم كھلا بد كاري نہ كريں، اور ان كے ساتھ مناسب برتاٴوكرو كہ اگر انھيں نا پسند كرتے ہو تو شايد تم كسي چيز كو نا پسند كرو اور خدا اس كے اندر خير كثيرقرارديدے،

واذا طلقتم النساٴ فبلغن اجلھن فامسكو ھن بمعروف اٴو سرحوھن بمعروف ولاتمسكوھن ضرارا لتعتدوا ومن يفعل ذالك فقد ظلم نفسہ (بقرہ ۱۳۲) اور جب عورتوں كو طلاق دو اور ان كي مدت عدر قريب آجائے تو چا ہو تو انھيں نيكي كے ساتھ روك لو ورنہ نيكي كے ساتھ آزاد كردو ،اور خبر دار نقصان پہونچانے كي غرض سے مت روكنا كہ اس طرح ظلم كروگے، اور جو ايسا كريگا وھ اپنے ہي نفس كا ظالم ہوگا ۔

مذكورہ دونوں آيات ميں مكمل آزادي كا اعلان كيا گيا ہے جہاں ازادي كا مقصد شرف اور شرافت كا تحفظ ہے اور جان ومال دونوں كے اعتبار سے صاحب اختيار ہونا ہے اور پھر يہ بھي واضح كرديا گيا ہے كہ ان پر ظلم در حقيقت ان پر ظلم نہيں ہے بلكہ اپنے ہي نفس پر ظلم ہے كہ ان كے لئے فقط دنيا خراب ہوتي ہے اور انسان اس سے اپني عاقبت خراب كر ليتا ہے جو خرابي دنيا سے كہيں زيادہ بدتر بربادي ہے ۔

الرجال قوامون علي النساء بما فضل اللہ بعضھم علي بعض وبما انفقوا من اموالھم ۔ (نساء ۳۴ ) مرد اور عورتوں كے نگراں ہيں اور اس لئے كہ انھوں نے اپنے اموال كو خرچ كيا ہے ۔

آيت كريمہ سے بالكل صاف واضح ہو جاتا ہے كہ اسلام كا مقصد مرد كو حاكم مطلق بنا دينا نہيں ہي اور عورت سے اس كي آزادي حيات كا سلب كرلينا نھيں ہے بلكہ اس نے مردكو بعض خصوصيات كي بناء پر كھر كا نگراں اور ذمہ دار بنا ديا ہے اور اسے عورت كے جان مال اور آبرو كا محافظ قرارديدياہے اس كے علاوہ اس مختصر حاكميت يا ذمہ داري كو بھي مفت نہيں قرار ديا ہے بلكھ اس كے مقابلہ ميں اسے عورت كے تمام اخراجات ومصارف كا ذمہ دار بنا ديا ہے ۔ اور كھلي ہوئي بات ہے كہ جب دفتر كا افسر يا كار خانہ كا مالك صرف تنخواہ دينے كي بنا پر حاكميت كے بيشمار اختيارات حاصل كرليتا ہے اور اسے كوئي عالم انسانيت توہين نہيں قرار ديتا ہے اور دنيا كا ہر ملك اسي پاليسي پر عمل كرليتا ہے تو مرد زندگي كي تمامذمہ دارياں قبول كرنے كے بعد اگر عورت پر پابندي عائد كردے كہ اس كي اجازت كے بغير گھر سے باہر نہ جائے اور كيلئے ايسے وسائل سكون فراہم كردے كہ اسے باہر نہ جا نا پڑے اور دوسرے كي طرف ہوس آميز نگاہ سے نہ ديكھنا پڑے تو كونسي حيرت انگيز بات ہے يہ تو ايك طرح كا بالكل صاف اور سادہ انساني معاملہ ہے جو ازدواج كي شكل ميں منظر عام پر آتا ہے كر مرد كمايا ہوا مال عورت كا ہوجاتا ہے اور عورت كي زندگي كاسرمايہ مرد كا ہوجاتا ہے مرد عورت كے ضروريات پوراكرنيكے لئے گھنٹوں محنت كرتا ہے اور باھر سے سرمايہ فراھم كرتا ہے اورعورت مرد كي تسكين كے ليے كوئي زحمت نہيں كرتي ہے بلكہ اس كاسرمايہٴ حيات اس كے وجود كے ساتھ ہے انصاف كيا جائے كہ اس قدرفطري سرمايہ سے اس قدرمحنتي سرمايہ كاتبادلہ كياعورت كے حق ميں ظلم اورناانصافي كہا جاسكتاہے جب كہ مردكي تسكين ميں بھي عورت برابركي حصہ دارہوتي ہے اوريہ جذبہ يك طرف نہيں ہوتاہے اورعورت كے مال صرف كرنے ميں مردكوكوئي حصہ نہيں ملتا ہے مردپريہ ذمہ داري اس كے مردانہ خصوصيات اوراس كي فطري صلاحيت كي بناپرركھي گئي ہے ورنہ يہ تبادلہ مردوں كے حق ميں ظلم ہوتاجاتااورانھيں يہ شكايت ہوتي كہ عورت نے ہميں كياسكون دياہے اوراس كے مقابلہ ميں ہم پرذمہ داريوں كاكس قدربوجھ لاد دياگياہے يہ خوداس بات كي واضح دليل ہے كہ يہ جنس اورمال كاسودانہيں ہے بلكہ صلاحيتوں كي بنياد پرتقسيم كارہے عورت جس قدرخدمت مردكے حق ميں كرسكتي ہے اس كاذمہ دارعورت كابنادياگياہے اورمرد جس قدرخدمت عورت كرسكتاہے اس كااسے ذمہ داربنادياگياہے اوريہ كوئي حاكميت ياجلاديت نہيں ہے كہ اسلام پرناانصافي كاالزام لگا ديا جائے اوراسے حقوق نسواں كاضائع كرنے وا لاقراردے دياجائے ۔

يہ ضرورہے كہ عالم اسلام ميں ايسے مرد بہرحال پائے جاتے ہيں جومزاجي طور پر ظالم، بے رحم اورجلاد ہيں اورانھيں جلادي كے ليے كوئي موقع نہيں ملتاہے تواس كي تسكين كاسامان گھركے اندرفراہم كرتے ہيں اوراپنے ظلم كا نشانہ عورت كوبناتے ہيں كہ وہ صنف نازك ہونے كي بناپرمقابلہ كرنے كے قابل نہيں ہے اوراس پرظلم كرنے ميں ان خطرات كاانديشہ نہيں ہے جوكسي دوسرے مرد پرظلم كرنے ميں پيداہوتے ہيں اوراس كے بعداپنے ظلم كاجوازقرآن مجيد كے اس اعلان ميں تلاش كرتے ہيں اوران كاخيال يہ ہے كہ قواميت نگراني اور ذمہ داري نہيں ہے بلكہ حاكميت مطلقہ اورجلاديت ہے حالانكہ قرآن مجيدنے صاف صاف دو وجوہات كي طرف اشارہ كردياہے ايك مرد كي ذاتي خصوصيت ہے اورامتيازي كيفيت ہے اوراس كي طرف سے عورت كے اخراجات كي ذمہ داري ہے اوركھلي ہوئي بات ہے كہ دونوں اسباب ميں نہ كسي طرح كي حاكميت پائي جاتي ہے اورنہ جلاديت بلكہ شايد بات اس كے برعكس نظرآے كہ مردميں فطري امتيازتھا تواسے اس امتيازسے فائدہ اٹھانے كے بعد ايك ذمہ داري كامركزبنادياگيا اوراس طرح اس نے چارپيسے حاصل كيے توانھيں تنہاكھانے كے بجائے اس ميں عورت كا حصہ قراردياہے اوراب عورت وہ ما لكہ ہے جوگھركے اندرچين سے بيٹھي رہے اورمرد وہ خادم قوم ملت ہے جوصبح سے شام تلك اہل خانہ كے آذوقہ كي تلاش ميں حيران وسرگرداں رہے يہ درحقيقت عورت كي نسوانيت كي قيمت ہے جس كے مقابلہ ميں كسي دولت، شہرت، محنت اورحيثيت كي كوئي قدروقيمت نہيں ہے۔

ازدواجي زندگي

انساني زندگي كااہم ترين موڑ ہوتا ہے جب دوانسان مختلف الصنف ہونے كے باوجود ايك دوسرے كي زندگي ميں مكمل طورسے دخيل ہوجاتے ہيں اورہرايك كو دوسرے كي ذمہ داري اوراس كے جذبات كاپورے طورپرلحاظ ركھناپڑتاہے ۔اختلاف كي بناپرحالات اورفطرت كے تقاضے جداگانہ ہوتے ہيں ليكن ہرانسان كودوسرے كے جذبات كے پيش نظراپنے جذبات اوراحساسات كي مكمل قرباني ديني پڑتي ہے۔

قرآن مجيد نے انسان كواطمينان دلاياہے كہ يہ كوئي خارجي رابطہ نہيں ہے جس كي وجہ سے اسے مسائل اورمشكلات كاسامناكرنا پڑے بلكہ يہ ايك فطري معاملہ ہے جس كاانتطام خالق فطرت نے فطرت كے اندروديعت كردياہے اورانسان كواس كي طرف متوجہ بھي كرديا ہے چنانچہ ارشادہوتاہے :

ومن آياتہ ان خلق لكم من انفسكم ازواجا لتسكنوا الےھا وجعل بينكم مودة ورحمة ان في ذلك لايات لقوم يتكرون (روم)

اور اللہ كي نشانيوں ميں سے يہ بھي ہے كہ اس نے تمھارا جوڑا تمھيں ميں سے پيداكياہے تاكہ تمھيں سكون زندگي حاصل ہواورپھرتمہارے درميان مودت اوررحمت قراردي ہے اس ميں صاحبان فكركے ليے بہت سي نشانياں پائي جاتي ہيں

بے شك اختلاف صنف، اختلاف تربيت، اختلاف حالات كے بعد مودت اوررحمت كا پيدا ہوجانا ايك علامت قدرت ورحمت پروردگارہے جس كے بے شمارشعبہ ہيں اورہرشعبہ ميں متعدد نشانياں پائي جاتي ہيں آيت كريمہ ميں يہ بھي واضح كردياگياہے كہ جوڑا اللہ نے پيداكياہے يعني يہ مكمل خارجي مسئلہ نہيں ہے بلكہ داخلي طورپرہر مردميں عورت كے ليے اورہرعورت ميں مردكے ليے صلاحيت ركھ دي گئي ہے تاكہ ايك دوسرے كو اپنا جوڑا سمجھ كربرداشت كرسكے اور اس سے نفرت اوربيزاري كا شكارنہ ہواوراس كے بعد رشتہ كے زيرا اثر مودت اور رحمت كابھي قانون بنادياتاكہ فطري جذبات اورتقاضے پامال نہ ہو نے پائيں يہ قدرت كاحكيمانہ نظام ہے جس سے عليحدگي انسان كے ليے بے شمار مشكلات پيداكرسكتي ہے چاہے انسان سياسي اعتبارسے اس عليحدگي پرمجبورہو يا جذباتي اعتبارسے قصدا مخالفت كرے اولياٴ اللہ بھي اپنے ازدواجي رشتوں سے پريشان رہے ہيں تواس كارازيہي تھا كہ ان پرسياسي اور تبليغي اعتبارسے يہ فرض تھا كہ ايسي خواتين سے عقدكريں اوران مشكلات كاسامناكريں تاكہ دين خدافروغ حاصل كرسكے اور كار تبليغ انجام پاسكے فطرت اپناكام بہرحال كررہي تھي يہ اوربات ہے كہ وہ شرعا ايسے ازدواج پرمجبور اور مامورتھے كہ ان كاايك مستقل فرض ہوتا ہے كہ تبيلغ دين كي راہ ميں زحمتيں برداشت كريں كہ يہ راستہ پھولوں كي سےچ سے نہيں گذرتاہے بلكہ پر خار واديوں سے ہو كر گذرتاہے ۔

اس كے بعد قرآن حكيم نے ازدواجي تعلقات كو مزيداستواربنانے كے ليے فريقين كي نئي ذمہ داريوں كااعلان كيااوريہ بات واضح كردياكہ صرف مودت اوررحمت سے بات تمام نہيں ہوجاتي ہے بلكہ كچھ اس كے خارجي تقاضے بھي ہيں جنھيں پوراكرناضروري ہے ورنہ قلبي مودت ورحمت بے ا ثرہوكررہ جائے گي اوراس كاكوئي نتےجہ حاصل نہ ہوگا ارشادہوتاہے :

ھن لباس لكم وانتم لباس لھن ۔(بقرہ ۱۸۷) عورتيں تمہارليے لباس ہيں اورتم ان كے ليے لباس ہو۔

بعني تمہارا خارجي اورمعاشرتي فرض يہ ہے كہ ان كے معاملات كي پردہ پوشي كرو اور اور ان كے حالات كواسي طرح طشت ازبام نہ ہونے دوجس طرح لباس انسان كے عيوب كو واضح نہيں ہونے ديتاہے اس كے علاوہ تمہاراايك فرض يہ بھي ہے كہ انھيں سرد و گرم زمانے سے بچاتے رہو اور وہ تمہيں زمانے كي سردوگرم ہواؤں سے محفوظ ركھيں كہ يہ مختلف ہوائيں اورفضائے كسي بھي انسان كي زندگي كوخطرہ ميں ڈال سكتي ہيں اوراس كے جان اورآبروكوتباہ كرسكتي ہيں ۔

دوسري طرف ارشادہوتاہے

نساء كم حرث لكم فاتواحرثكم اني شئتم (بقرہ)

تمہاري عورتيں تمہاري كھيتياں ہيں لہذا اپني كھيتي ميں جب اورجس طرح چاہو آسكتے ہو (شرط يہ ہے كہ كھيتي بربادنہ ہونے پائے )

اس بليغ فقرہ سے مختلف مسائل كاحل تلاش كياگياہے اولا بات كويك طرفہ ركھا گيا ہے اور لباس كي طرح فريقين كوذمہ داربناگياہے بلكہ مرد كومخاطب كياگياہے كہ اس رخ سے ساري ذمہ داري مردپرعائد ہوتي ہے اوركھيتي كي بقا كا مكمل انتظام كا شتكار كے ذمہ ہے زراعت سے اس كاكوئي تعلق نہيں ہے جب كہ پردہ پوشي اور سرد و گرم زمانے سے تحفظ دونوں كي ذمہ داريوں ميں شامل تھا ۔

دوسري طرف اس نكتہ كي بھي وضاحت كردي گئي ہے كہ عورت كے رابطہ اور تعلق ميں اس كي اس حيثيت كالحاظ بہرحال ضروري ہے كہ وہ زراعت كي حيثيت ركھتي ہے اورزراعت كے بارے ميں كاشتكار كو يہ اختيارتو ديا جاسكتا ہے كہ فصل كے تقاضوں كوديكھ كركھيت كوافتادہ چھوڑ دے اورزرعت نہ كرے ليكن يہ اختيارنہيں ديا جا سكتا ہے كہ اسے تباہ وبرباد كردے اورقبل از وقت ياناوقت زراعت شروع كردے كہ اسے زراعت نہيں كہتے ہيں بلكہ ہلاكت كہتے ہيں اورہلاكت كسي قيمت پرجائزنہيں قراردي جاسكتي ہے ۔

مختصريہ ہے كہ اسلام نے رشتہٴازدواج كوپہلي منزل پرفطرت كاتقاضاقرارديا پھر داخلي طورپراس ميں محبت اور رحمت كااضافہ كيا اورظاہري طورپرحفاظت اور پردہ پوشي كو اس كاشرعي نتےجہ قرارديا اور آخرميں استعمال كے تمام شرائط وقوانين كي طرف اشارہ كردياتاكہ كسي بدعنوانى، بے ربطي اوربے لطفي نہ پيداہونے پائے اورزندگي خوشگوار اندازسے گذرجائے ۔

بدكاري

ازدواجي رشتہ كے تحفظ كے ليے اسلام نے دوطرح كے انتظامات كيے ہيں : ايك طرف اس رشتہ كي ضرورت ،اہميت اوراس كي ثانوي شكل كي طرف اشارہ كيا اور دوسري طرف ان تمام راستوں پرپابندي عائدكردي جس كي بناپريہ رشتہ غيرضروري يا غير اہم ہوجاتاہے اور مرد كو عورت ياعورت كومردكي ضرورت نہيں رہ جاتي ہے ارشادہوتاہے

ولا تقربوا الزنا انہ كان فاحشة وساء سبيلا (اسراء)

اور خبردار زناكے قريب بھي نہ جانا كہ يہ كھلي ہوئي بے حيائي ہے اوربدترين راستہ ہے ۔

اس ارشادگرامي ميں زناكے دونوں مفاسدكي وضاحت كي گئي ہے كہ ازدواج كے ممكن ہوتے ہوے اور اس كے قانون كے رہتے ہوئے زنااوربدكاري ايك كھلي ہوئي بے حيائي ہے كہ يہ تعلق انھيں عورتوں سے قائم كياجائے جن سے عقد ہوسكتاہے توبھي قانون سے انحراف اور عفت سے كھيلنا ايك بے غيرتي ہے اوراگران عورتوں سے قائم كيا جائے جن سے عقد ممكن نہيں ہے اوران كاكوئي مقدس رشتہ پہلے سے موجودہے تويہ مزيدبے حيائي ہے كہ اس طرح اس رشتہ كي بھي توہين ہوتي ہے اوراس كاتقدس بھي پامال ہوجاتاہے ۔

پھر مزيد وضاحت كے ليے ارشاد ہوتا ہے :

ان الذين يحبون ان تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لھم عذاب اليم (نور)

جولوگ اس امركو دوست ركھتے ہيں كہ صاحبان ايمان كے درميان بدكاري اوربے حيائي كي اشاعت ہوان كے ليے دردناك عذاب ہے ۔

جس كامطلب يہ ہے كہ اسلام اس قسم كے جرائم كي عموميت اوران كااشتہار دونوں كو ناپسندكرتا ہے كہ اس طرح ا يك انسان كي عزت بھي خطرہ ميں پڑجاتي ہے اور دوسي طرف غيرمتعلق افرادميں ايسے جذبات بيدارہوجاتے ہيں اوران ميں جرائم كو آزمانے اور ان كاتجربہ كرنے كا شوق پيداہونے لگتاہے جس كاواضح نتےجہ آج ہرنگاہ كے سامنے ہے كہ جب سے فلموں اورٹي وي كے اسكرين كے ذريعہ جنسي مسائل كي اشاعت شروع ہوگٴي ہے ہرقوم ميں بے حيائي ميں اضافہ ہوگياہے اور ہرطرف اس كادور دورہ ہوگياہے اورہرشخص ميں ان تمام حركات كاذوق اورشوق بيدارہوگيا ہے جن كامظاہرہ صبح و شام قوم كے سامنے كياجاتا ہے اوراس كابدترين نتےجہ يہ ہواہے كہ مغربي معاشرہ ميں شاہراہ عام پروہ حركتيں ظہورپذيرہورہي ہيں جنھيں نصف شب كے بعد فلموں كے ذريعہ پيش كياجاتاہے اور اپني دانست ميں اخلاقيات كامكمل لحاظ ركھاجاتاہے اور حالات اس امركي نشاندہي كررہے ہيں كہ مستقبل اس سے زيادہ بدترين اور بھيانك حالات ساتھ لے كرآرہاہ ہے اورانسانيت مزيد ذلت كے كسي گڑھے ميں گرنے والي ہے قرآن مجيد نے انھيں خطرات كے پيش نظرصاحبان ايمان كے درميان اس طرح كي اشاعت كو ممنوع اورحرام قرارديدياتھا كہ ايك دوافراد كاانحراف سارے سماج پراثراندازنہ ہو اور معاشرہ تباہي اوربربادي كا شكارنہ ہو۔ رب كريم ہرصاحب ايمان كواس بلاسے محفوظ ركھے ۔

تعددازدواج

دور حاضركا حساس ترين موضوع تعدد ازدواج كا موضوع ہے جسے بنياد بنا كر مغربي دنيانے عورتوں كواسلام كے خلاف خوب استعمال كياہے اورمسلمان عورتوں كو بھي يہ باور كرانے كي كوشش كي ہے كہ تعددازدواج كاقانون عورتوں كے ساتھ ناانصافي ہے اور ان كي تحقيروتوہين كابہترين ذريعہ ہے گوياعورت اپنے شوہركي مكمل محبت كي بھي حقدارنہيں ہوسكتي ہے اور اسے شوہركي آمدني كي طرح اس كي محبت كي بھي مختلف حصوں پرتقسيم كرنا پڑے گااورآخرميں جس قدرحصہ اپني قسمت ميں لكھا ہوگا اسي پراكتفاكرناپڑے گا۔

عورت كامزاج حساس ہوتاہے لہذا اس پراس طرح كي ہرتقريرباقاعدہ طور پر اثر انداز ہو سكتي ہے اور يہي وجہ ہے كہ مسلمان مفكرين نے اسلام اورمغرب كويكجاكرنے كے ليے اوراپنے زعم ناقص ميں اسلام كوبدنامي سے بچانے كے ليے طرح طرح كي تاويليں كي ہيں اور نتے جہ كے طورپريہ ظاہركرناچاہاہے كہ اسلام نے يہ قانون صرف مردوں كي تسكين قلب كے ليے بنادياہے ورنہ اس پرعمل كرنا ممكن نہيں ہے اور نہ اسلام يہ چاہتا ہے كہ كوئي مسلمان اس قانون پرعمل كرے اوراس طرح عورتوں كے جذبات كو مجروح بنائے ۔ ان بےچارے مفكرين نے يہ سوچنے كي بھي زحمت نہيں كي ہے كہ اس طرح الفاظ قرآن كي توتاويل كي جاسكتي ہے اورقرآن مجيد كومغرب نوازقانون ثابت كيا جا سكتا ہے ۔ ليكن اسلام كے سربراہوں اوربز رگوں كي سيرت كاكياہوگا جنھوں نے عملي طور پراس قانون پرعمل كيا ہے اورايك وقت ميں متعدد بيوياں ركھي ہيں جب كہ ان كے ظاہري اقتصادي حالات بھي ايسے نہيں تھے جيسے حالات آجكل كے بے شمار مسلمانوں كو حاصل ہيں اوران كے كردارميں كسي قدرعدالت اورانصاف كيوں نہ فرض كر ليا جائے عورت كي فطرت كاتبديل ہونا ممكن نہيں ہے اوراسے يہ احساس بہرحال رہے گا كہ ميرے شوہركي توجہ يامحبت ميرے علاوہ دوسري خواتين سے بھي متعلق ہے ۔

مسئلہ كے تفصيلات ميں جانے كے ليے بڑاوقت دركارہے اجمالي طورپرصرف يہ كہا جاسكتاہے كہ اسلام كے خلاف يہ محاذ ان لوگوں نے كھولا ہے جن كے يہاں عورت سے محبت كاكوئي شعبہ نہيں ہي ہے اوران كے نظام ميں شوہريازوجہ كي اپنائيت كا كوئي تصورہي نہيں ہے يہ اوربات ہے كہ ان كي شادي كولوميرج سے تعبيركياجاتا ہے ليكن يہ انداز شادي خود اس بات كي علامت ہے كہ انسان نے اپني محبت كے مختلف مركزبنائے ہيں اور آخرميں قافلہ جنس كوايك مركزپرٹھہرادياہے اوريہي حالات ميں اس خالص محبت كاكوئي تصورہي نہيں ہوسكتاہے جس كااسلام سے مطالبہ كياجارہاہے ۔

اس كے علاوہ اسلام نے توبيوي كے علاوہ كسي عورت سے محبت كاجائزبھي نہيں ركھا ہے اور بيويوں كي تعدادبھي محدود ركھي ہے اورعقد كے شرائط بھي ركھ دےئے ہيں مغربي معاشرہ ميں توآج بھي يہ قانون عام ہے كي ہرمردكي زوجہ ايك ہي ہوگي چاہے اس كي محبوبہ كسي قدركيوں نہ ہوں سوال يہ پيداہوتاہے كہ يہ محبوبہ محبت كے علاوہ كسي اور رشتہ سے پيداہوتي ہے؟ اوراگرمحبت ہي سے پيداہوتي ہے تويہ محبت كي تقسيم كے علاوہ كياكوئي اورشئے ہے ؟حقيقت امريہ ہے كہ ازدواج كي ذمہ داريوں اورگھريلوزندگي كے فرائض سے فراركرنے كے ليے مغرب نے عياشي كانياراستہ نكلاہے اورعورت كوجنس سربازاربنادياہے اوريہ غريب آج بھي خوش ہے كہ مغرب نے ہميں ہرطرح كااختيار دياہے اور اسلام نے پابندبنادياہے ۔

يہ صحيح ہے كہ اگركسي بچہ كودرياكنارے موجوں كاتماشہ كرتے ہوئے چھلانگ لگانے كا ارادہ كرے اورچھوڑدےجئے تويقينا خوش ہوگا كہ آپ نے اس كي خواہش كااحترام كيا ہے اور اس كے جذبات پرپابندي عائدنہيں كي ہے چاہے اس كے بعدڈوب كرمرہي كيون نہ جائے ليكن اگراسے روك دياجائے گاتو وہ يقينا ناراض ہوجائے گاچاہے اس ميں زندگي كا رازہي كيوں نہ مضمرہو مغربي عورت كي صورت حال اس مسئلہ ميں بالكل ايسي ہي ہے كہ اسے آزادي كي خواہش ہے اوروہ ہرطرح اپني آزادي كواستعمال كرنا چاہتي ہے اور كرتي ہے ۔ ليكن جب مختلف امراض ميں مبتلاہوكردنياكے ليے ناقابل توجہ ہوجاتي ہے اور كوئي اظہارمحبت كرنے والا نہيں ملتاہے تواسے اپني آزادي كے نقصانات كااندازہ ہوتاہے ليكن اس وقت موقع ہاتھ سے نكل چكاہوتاہے اورانسان كے پاس كف افسوس ملنے كے علاوہ كوئي چارہ كارنہيں ہوتاہے ۔

مسئلہ تعدد ازدواج پرسنجيدگي سے غوركياجائے تويہ ايك بنيادي مسئلہ ہے جو دنيا كے بے شمار مسائل كاحل ہے اورحيرت انگيزبات يہ ہے كہ دنياكي بڑھتي ہوئي آبادي اور غذا كي قلت كوديكھ كرقلت اولاد اورضبط توليد كااحساس توتمام مفكرين كے دل ميں پيداہوا ليكن عورتوں كي كثرت اورمردوں كي قلت سے پيداہونے والے مشكلات كوحل كرنے كاخيال كسي كے ذہن ميں نہيں آيا۔

دنيا كي آبادي كے اعدادوشماركے مطابق اگريہ بات صحيح ہے كہ عورتوں كي آبادي مردوں سے زيادہ ہے توايك بنيادي سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ اس مزيدآبادي كا انجام كيا ہوگا اس كے ليے ايك راستہ يہ ہے كہ اسے گھٹ گھٹ كرمرنے دياجائے اوراس كے جنسي جذبات كي تسكين كا كوئي انتظام نہ كياجائے يہ كام جابرانہ سياست تو كر سكتي ہے ليكن كريمانہ شريعت نہيں كرسكتي ہے اوردوسرا راستہ يہ ہے كہ اسے عياشوں كے ليے آزاد كردياجائے اور كسي بھي اپني جنسي تسكين كااختياردے دياجائے يہ بات صرف قانون كي حدتك توتعددازدواج سے مختلف ہے ليكن عملي اعتبارسے تعدد ازدواج ہي كي دوسري شكل ہے كہ ہرشخص كے پاس ايك عورت زوجہ كے نام سے ہوگي اور ايك كسي اورنام سے ہوگي اور دونوں ميں سلوك، برتاواور محبت كافرق رہے گا كہ ايك اس كي محبت كامركزبنے گي اورايك اس كاخواہش كا ۔انصاف سے غوركياجائے كہ يہ كيا دوسري عورت كي توہين نہيں ہے كہ اسے نسواني احترام سے محروم كركے صرف جنسي تسكين تك محدود كردياجائے اوركيا اس صورت ميں يہ امكان نہيں پايا جاتا ہے اورايسے تجربات سامنے نہيں ہيں كہ اضافي عورت ہي اصلي مركز محبت قرارپائے اور جسے مركزبنايا تھا اس كي مركزيت كاخاتمہ ہوجائے ۔

بعض لوگ نے اس مسئلہ كايہ حل نكالنے كي كوشش كي ہے كہ عورتوں كي آبادي يقينا زيادہ ہے ليكن جوعورتيں اقتصادي طور پرمطمئن ہوتي ہيں انھيں شادي كي ضرورت نہيں ہوتي ہے اور اس طرح دونوں كااوسط برابر ہوجاتاہے اور تعدد كي كوئي ضرورت نہيں رہ جاتي ہے ليكن يہ تصور انتہائي جاہلانہ اور احمقانہ ہے اوريہ ديدہ ودانستہ چشم پوشي كے مرادف ہے كہ شوہركي ضرورت صرف معاشي بنيادوں پرہوتي ہے اورجب معاشي حالات سازگارہوتے ہيں توشوہركي ضرورت نہيں رہ جاتي ہے حالانكہ مسئلہ اس كے بالكل برعكس ہے پريشان حال عورت توكسي وقت حالات ميں مبتلا ہوكرشوہركي ضرورت كے احساس سے غافل ہوسكتي ہے ليكن مطمئن عورت كے پاس تواس كے علاوہ كوئي دوسرا مسئلہ ہي نہيں ہے، وہ اس بنياد ي مسئلہ سے كس طرح غافل ہو سكتي ہے ۔

اس مسئلہ كادوسرا رخ يہ بھي ہے كہ مردوں اورعورتوں كي آبادي كے اس تناسب سے انكار كردياجائے اوردونوں كوبرابرتسليم كرلياجائے ليكن ايك مشكل بہرحال پيداہوگي كہ فسادات اورآفات ميں عام طورسے مردوں ہي كي آبادي ميں كمي پيداہوتي ہے اوراس طرح يہ تناسب ہروقت خطرہ ميں رہتاہے اورپھربعض مردوں ميں يہ استطاعت نہيں ہوتي ہے كہ وہ عورت كي زندگي اٹھاسكيں ،يہ اوربات ہے كہ خواہش ان كے دل ميں بھي پيداہوتي ہے اس ليے كہ جذبات معاشي حالات كي پيداوارنہے-ں ہوتے ہيں ۔ان كا سرچشمہ ان حالات سے بالكل الگ ہے اوران كي دنياكاقياس اس دنياپرنہيں كيا جاسكتاہے ۔ايسي صورت ميں مسئلہ كاايك ہي حل رہ جاتاہے كہ جوصاحبان دولت و ثروت واستطاعت ہيں انھيں مختلف شاديوں پرآمادہ كياجائے اورجوغريب اورنادارہيں اورمستقل خرچ برداشت نہيں كرسكتے ہيں ان كے ليے غيرمستقل انتطام كياجائے اورسب كچھ قانون كے دائرہ كے اندرہو مغربي دنياكي طرح لاقانونيت كاشكارنہ ہوكہ دنيا كي ہرزبان ميں قانوني رشتہ كوازدواج اورشادي سے تعبيركياجاتاہے اورغيرقانوني رشتہ كوعياشي كہاجاتاہے اسلام ہرمسئلہ كوانسانيت، شرافت اورقانون كي روشني ميں حل كرناچاہتاہے اورمغربي دنياقانون اورلاقانونيت ميں امتيازكي قائل نہيں ہے حيرت كي بات ہے جولوگ ساري دنياميں اپني قانون پرستي كاڈھنڈورا پيٹتے ہيں وہ جنسي مسئلہ ميں اس قدر بے حس ہوجاتے ہيں كہ يہاں كسي قانون كااحساس نہيں رہ جاتا ہے اور مختلف قسم كے ذليل ترين طريقے بھي برداشت كرليتے ہيں جواس بات كي علامت ہے كہ مغرب ايك جنس زدہ ماحول ہے جس نے انسانيت كااحترام ترك كردياہے اوروہ اپني جنسيت ہي كواحترام انسانيت كانام دے كراپنے عيب كي پردہ پوشي كرنے كي كوشش كررہاہے ۔

بہرحال قرآن نے اس مسئلہ پراس طرح روشني ڈالي ہے

وان خفتم الا تقسطوا في اليتامي فانكحوا ماطاب لكم من النساٴ مثني اوثلاث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدةاوماملكت ايمانكم ذلك ادني الاتعدلوا (نساء)۳

اور اگرتمہيں يہ خوف ہے كہ يتيموں كے بارے ميں انصاف نہ كر سكو گے تو جو عورتيں تمھيں اچھي لگيں ان سے عقد كرو دو تين چار اور اگر خوف ہے كہ ان ميں بھي انصاف نہ كرسكوگے تو پھر ايك يا جو تمھاري كنيزيں ہيں۔آيت شريفہ سے صاف ظاھر ہوتا ہے كہ سماج كے ذھن ميں ايك تصور تھا كہ يتيموں كے ساتھ عقد كرنے ميں اس سلوك كا تحفظ مشكل ہوجاتا ہے جس كا مطالعہ ان كے بارے ميں كيا گيا ہے تو قرآن نے صاف واضح كر ديا كہ اگر يتيموں كے بارے ميں انصاف مشكل ہے اور اس كے ختم ہوجانے كا خوف اور خطرہ ہے تو غيريتيم افراد ميں شادياں كرو اور اس مسلہ ميں تمھيں چار تك آزادي ديدي گئي ہے كہ اگر انصاف كرسكوتو چار تك عقد كرسكتے ہو ہاں اگر يہاں بھي انصاف بر قرار نہ رہنے خوف ہے تو پھر ايك ہي پر اكتفاء كرو اور باقي كنيزوي سي استفادہ كرو۔

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ تعدد ازدواج ميں انصاف كي قيد ہوس راني كے خاتمہ اور قانون كي بر تري كي بہترين علامت ہے اور اس طرح عورت كے وقار واحترام كو مكمل تحفظ ديا گيا ہے ليكن اس سلسلہ ميں يہ بات نظر انداز نہيں ہوني چاہئيے كہ انصاف كا وہ تصور بالكل بے بنياد ہے جو ہمارے سماج ميں رائج ہو گيا ہے اور جس كے پيش نظر تعدد ازدواج كو صرف ايك نا قابل عمل فارمولاقرار دے ديا گيا ہے كہا يہ جاتا ہے كہ انصاف مكمل مساوات ہے اور مكمل مساوات بہر حال ممكن نہيں ہے اسي لئے كہ نئي عورت كي بات اور ہوتي ہے ارور پراني عورت كي بات اور ہوتي ہے اور دونوں كے ساتھ مساويانہ برتاؤ ممكن نہيں حالانكہ يہ تصور بھي ايك جاہلانا ہے انصاف كے معني صرف يہ ہيں كہ ہر صاحب حق كو اسكا حق ديديا جائے جسے شريعت كي زبان ميں واجبات كي پابندي اور حرام سے پرہيز سے تعبير كيا جاتا ہے اس سے زيادہ انصاف كا كوئي مفہوم نہيں ہے بنا بر ايں اگر اسلام نے چار عو رتوں ميں ہر عو رت كي ايك رات قرار دي ہے تو اس سے زيادہ كا مطالبہ كرنا نا انصافي ہے گھر ميں رات نہ گذارنا نا انصافي نہيں ہے اسي طرح اگر اسلام نے فطرت كے خلاف نٴي اور پراني زوجہ كو يكساںقرارديا ہے تو ان كے درميان امتياز برتنا خلاف انصاف ہے ليكن اگر اسي نے فطرت كے تقاضوں كے پيش نظر شادي كے ابتدائي سات دن ني زوجہ كے لئے َََََمقرر كردئے ہيں تو اس سلسہ ميں پراني زوجہ كا مداخلت كرنا نا انصافي ہے ۔ شوہر كا امتيازي برتاوٴ كرنانا انصافي نہيں ہے اور حقيقت امر يہ ہے كہ سماج نے شوہر كے سارے اختيار سلب كر لئے ہيں لھذا اسكا ہر اقدام ظلم نظر آتا ہے ورنہ ايسے شوہر بھي ہوتے ہيں جو قومي يا سياسي ضرورت كي بناٴ پر مدتوں گھر كے اندر داخل نہيں ہوتے ہيں اور زوجہ اس بات پر خوش رہتي ہے كہ ميں بہت بڑے عہديدار ياوزيركي زوجہ ہوں اوراس وقت اسے اس بات كاخيال بھي آتاہے كہ ميراكوئي حق پامال ہورہاہے ليكن اسي زوجہ كواگريہ اطلاع ہو جائے كہ وہ دوسري زوجہ كے گھررات گذارتا ہے توايك لمحہ كے ليے برداشت كرنے كو تيار نہ ہوگي جوصرف ايك جذباتي فےصلہ ہے اوراس كاانساني زندگي كے ضروريات سے كوئي تعلق نہيں ہے ضرورت كالحاظ ركھا جائے تواكثرحالات ميں اوراكثرانسانوں كے ليے متعددشادياں كرنا ضروريات ميں شامل ہے جس سے كوئي مردياعورت انكارنہيں كر سكتاہے يہ اوربات ہے كہ سماج سے دونوں مجبورہيں اوركبھي گھٹن كي زندگي گذار ليتے ہيں اور كبھي بے راہ روي كے راستہ پرچل پڑتے ہيں جسے ہرسماج برداشت كر ليتاہے اوراسے معذورقرارديديتا ہے جب كہ قانون كي پابندي اوررعايت ميں معذورقرارنہيں ديتاہے ۔

اس سلسلہ ميں يہ بات بھي قابل توجہ ہے كہ اسلام نے تعددازدواج كوعدالت سے مشروط قراردياہے ليكن عدالت كواختياري نہيں ركھاہے بلكہ ا سے ضروري قرار ديا ہے اورہرمسلمان سے مطالبہ كياہے كہ اپني زندگي ميں عدالت سے كام لے اوركوئي كام خلاف عدالت نہ كرے عدالت كے معني واجبات كي پابندي اورحرام سے پرہيز كے ہيں اور اس مسئلہ ميں كوئي انسان آزادنہيں ہے، ہرانسان كے ليے واجبات كي پابندي بھي ضروري ہے اورحرام سے پرہيزبھي ۔لہذاعدالت كوئي اضافي شرط نہيں ہے اسلامي مزاج كاتقاضہ ہے كہ ہرمسلمان كوعادل ہونا چاہيے اوركسي مسلمان كو عدالت سے باہرنہيں ہوناچاہيے جس كالازمي اثريہ ہوگا كہ قانون تعددازدواج ہرسچے مسلمان كے ليے قابل عمل بلكہ بڑي حد تك واجب العمل ہے كہ اسلام نے بنيادي مطالبہ دوياتين ياچاركاكياہے اورايك عورت كواستثنائي صورت دي ہے جوصرف عدالت كے نہ ہونے كي صورت ميں ممكن ہے اوراگرمسلمان واقعي مسلمان ہے يعني عادل ہے تواس كے ليے قانون دوياتين ياچار ہي كاہے اس كاقانون ايك كانہيں ہے جس كي مثاليں بزرگان مذہب كي زندگي ميں ہزاروں كي تعدادميں مل جائيں گي اورآج بھي رہبران دين كي اكثريت اس قانون پرعمل پيراہے اوراسے كسي طرف سے خلاف اخلاق وتہذيب ياخلاف قانون وشريعت نہيں سمجھتي ہے اورنہ كوئي ان كے كردارپراعتراض كرنے كي ہمت كرتاہے زيرلب مسكراتے ضرورہيں كہ يہ اپنے سماج كے جاہلانہ نظام كي دين ہے اورجہالت كاكم سے كم مظاہرہ اسي اندازسے ہوتاہے ۔

اسلام نے تعددازدواج كے ناممكن ہونے كي صورت ميں بھي كنيزوں كي اجازت دي ہے كہ اسے معلوم ہے كہ فطري تقاضے صحيح طورپر ايك عورت سے پورے ہونے مشكل ہيں، لہذا اگرناانصافي كاخطرہ ہے اوردامن عدالت كے ہاتھ سے چھوٹ جانے كا انديشہ ہے تو انسان زوجہ كے ساتھ رابطہ كرسكتاہے اگركسي سماج ميں كنيزوں كا وجود ہواوران سے رابطہ ممكن ہو۔ اس مسئلہ سے ايك سوال خود بخود پيداہوتا ہے كہ اسلام نے اس احساس كاثبوت ديتے ہوئے كہ ايك عورت سے پرسكون زندگي گذارنا انتہائي دشوراگذارعمل ہے پہلے تعدد ازدواج كي اجازت دي اورپھراس كے ناممكن ہونے كي صورت ميں دوسري زوجہ كي كمي كنيزسے پوري كي تو اگركسي سماج ميں كنيزوں كا وجود نہ ہويا اس قدرقليل ہو كہ ہرشخص كي ضرورت كاانتظام نہ ہوسكے تواس كنيز كا متبادل كياہوگا اوراس ضرورت كااعلاج كس طرح ہوگاجس كي طرف قرآن مجيدنے ايك زوجہ كے ساتھ كنيزكے اضافہ سے اشارہ كياہے ۔

يہي وہ جگہ ہے جہاں سے متعہ كے مسئلہ كا آغاز ہوتاہے يااورانسان يہ سوچنے پر مجبور ہوتاہے كہ اگراسلام نے مكمل جنسي حيات كي تسكين كاسامان كيا ہے اور كنيزوں كاسلسلہ موقوف كردياہے اور تعددازدواج ميں عدالت وانصاف كي شرط لگادي ہے تواسے دوسرا رستہ بہرحال كھولنا پڑے گاتاكہ انسان عياشي اوربدكاري سے محفوظ رہ سكے، يہ اوربات ہے كہ ذہني طورپرعياشي اوربدكاري كے دلدادہ افراد متعہ كوبھي عياشي كانام ديديتے ہيں اوريہ متعہ كي مخالفت كي بناپرنہيں ہے بلكہ عياشي كے جوازكي بناپرہے كہ جب اسلام ميں متعہ جائزہے اوروہ بھي ايك طرح كي عياشي ہے تومتعہ كي كياضرورت ہے سيدھے سيدھے عياشي ہي كيوں نہ كي جائے اوريہ درحقيقت متعہ كي دشواريوں كا اعتراف ہے اوراس امركا اقرارہے كہ متعہ عياشي نہيں ہے اس ميں قانون، قاعدہ كي رعايت ضروري ہے اورعياشي ان تمام قوانين سے آزاد اوربے پرواہ ہوتي ہے ۔

سركاردوعالم كے اپنے دورحكومت ميں اور خلافتوں كے ابتدائي دورميں متعہ كا رواج قرآن مجيدكے اسي قانون كي عملي تشريح تھا جب كہ اس دورميں كنيزوں كاوجود تھا اوران سے استفادہ ممكن تھا تويہ فقہاء اسلام كوسوچناچاہيے كہ جب اس دورميں سركاردوعالم نے حكم خداكے اتباع ميں متعہ كوحلال اوررائج كردياتھا توكنيزوں كے خاتمہ كے بعد اس قانون كوكس طرح حرام كياجاسكتاہے يہ توعياشي كاكھلاہوا راستہ ہوگاكہ مسلمان اس كے علاوہ كسي ر استہ نہ جائے گا اورمسلسل حرام كاري كرتارہے جيسا كہ اميرالمومنين حضرت علي نے فرماياتھا كہ اگرمتعہ حرام نہ كردياگياہوتا توبدنصيب اورشقي انسان كے علاوہ كوئي زنانہ كرتا گوياآپ اس امركي طرف اشارہ كررہے تھے كہ متعہ پرپابندي عائد كرنے والے نے متعہ كاراستہ بندنہيں كياہے بلكہ عياشي اوربدكاري كا راستہ كھولا ہے اوراس كاروزقيامت جوابدہ ہوناپڑے گا۔

اسلام اپنے قوانين ميں انتہائي حكيمانہ روش اختياركرتاہے اوراس سے انحراف كرنے والوں كوشقي اوربدبخت سے تعبيركرتاہے ۔!

 

تبصرے
Loading...