قرآن مبین اور اتحاد بین المسلمین

اتحاد بہت بڑی طاقت ہے ، اتحاد کمزور کو طاقتور بنا دیتا ہے ، اتحاد بے سر وسامانی کے باوجود قصر باطل کو ہلا دیتا ہے ، اتحاد سماج کے کچلے ہوئے افراد کو عزت عطا کرتا ہے ، دوسروں کے سامنے سر جھکانے کی ذلت سے نجات دیتا ہے ، اتحاد قلت کو کثرت پر فتح دلاتا ہے .

انبیاء و مرسلین کی آمد کا ایک بنیادی فلسفہ اتحاد و یکجہتی تھا ، عقیدے کا اتحاد ، کردار کا اتحاد، قول وعمل کا اتحاد ، انبیاء آئے تا کہ معاشرے کو باطل طاقتوں کے چنگل سے نجات دیں ، دردر کی ٹھوکریں کھانے سے بچائیں اور ایک خدا کی بارگاہ میں سر جھکائیں.

ولقد بعثنا فی کل امة رسولاً ان اعبدوااللّٰہ واجتنبوالطاغوت )سورہ ٔ نحل آیت ٣٦)

اور یقیناًہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (ہر باطل طاقت ) سے اجتناب کرو .

تو معلوم ہوا کہ اللہ کی عبادت صحیح معنوں میں کما حقہ اسی وقت ہو سکتی ہے جب باطل طاقتوں سے نجات حاصل ہو اور باطل طاقتوں سے نجات اتحاد و یکجہتی کے بغیر ایک خواب ہے جو کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا .

قرآن مجید اتحاد کا مرکز ہے

قرآن مجید نے بار بار بنی نوع انسانی کو خصوصاً مسلمانوں کو ، اپنی تلاوت کرنے والوں کو اتحاد کی طرف دعوت دی ہے کبھی ارشاد ہوا : 

واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا (آل عمران ١٠٣)

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو

اور کبھی سارے مسلمانوں کو ایک جٹ ہو کر صلح وآشتی کے ساتھ رہنے کی تاکید کی :

فاتقوااللہ واصلحو اذات بینکم (انفال ١)

تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور آپس میں صلح و بھائی چارگی کا برتائو کرو .

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ مسلمانوں کے درمیا ن عقد اخوت قائم کیا یعنی ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی بنایا جسکے بعد قرآن مجید کی یہ آیت بھی نازل ہو گئی : انما المؤ منون اخوة

سارے صاحبان ایمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔

گویا عقد اخوت رسول ہی کے زمانے کے لئے نہیں تھا ، یہ ایک دائمی حکم اور عہد وپیمان ہے جو ہمیشہ بر قرار رہے گا قرآن کی رو سے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور رہے گا ، رنگ و نسل ، قوم وقبیلہ کی کوئی تفریق نہیں ، معیار فقط اسلام ہے اور بس .

قرآن مجید میں مسلمان اور مومن کی ایک پہچان یہ بھی بتائی گئی ہے کہ” اشداء علی الکفار رحماء بینھم ”دشمنوں کے ساتھ لوہے سے زیادہ سخت اپنوں کے ساتھ ریشم سے زیادہ نرم ، دشمنوں کے لئے شعلہ ،اپنوں کیلئے شبنم ، دشمنوں کیلئے نار اپنوں کے لئے نور .

پیغمبر صادق کے وصی صادق یعنی امام جعفر صادق علیہما السلام قرآن مجید کے اس اتحاد پر ور جملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں یحق علی المسلمین الاجتہاد فی التواصل و…مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے سے مل کر رہنے ، مدد کرنے ، جو ضرورت مند ہوں ان کی ضرورتوں کو برطرف کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت آمیز امور انجام دینے میں کوشاں رہیں تا کہ قرآن مجید کی اس آیت رحماء بینھم …آپس میں رحم و کرم کرنے والے ؛..کے مصداق بن سکیں .

ایک دوسرے کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آنا ، مومن کی مدد کرنا ، اسکی پریشانیوں کو دور کرنا کس قدر ثواب رکھتا ہے امام صادق علیہ السلام کی اس حدیث کے ذریعہ اندازہ لگائیے”ایک بندۂ مومن کی ضرورت پوری کرنا ، اسکی مشکل حل کرنا اللہ کے نزدیک ایک ہزار غلام آزاد کرنے اور راہ خدا میں جہاد کے لئے ایک ہزار گھوڑے صدقہ کرنے سے کہیں بہتر ہے ”

مسلمانوں کا عروج کب تک اور کیوں کر ؟

اسمیں کوئی شک نہیں کہ جب تک مسلمان حکم خدا و رسول پر عمل کرتے ہوئے قرآن سے وابستہ رہے اور اسکی تعلیمات پر عمل پیرا رہے آپس میں متحد رہے اور جب تک مسلمانوں کا اتحاد محفوظ رہا مسلمان عزت وعظمت سے ہمکنار رہے .تاریخ شاہد ہے آغاز اسلام میں جب مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہ تھا نہ حکومت نہ ریاست نہ مال و دولت ، نہ جنگی ساز و سامان ، حد یہ ہے کہ پیٹ بھر کھانے کو نہ تھا ، جسم چھپانے کو لباس بھی نہ تھا (نماز کے وقت ایک صحابی منتظر رہتا تھا کہ دوسرا صحابی نماز پڑھ چکے تواس کا لباس پہن کر نماز ادا کرے )فاقوں میں زندگی بسر ہو رہی تھی ،کچھ نہ تھا صرف ایک چیز تھی ”اتحاد ”اس اتحاد کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے یہی مسلمان پورے عرب پر چھا گئے عرب ہی نہیں ایران و روم جیسی اس زمانے کی سپر طاقتیں ان کے قبضے میں آگئیں ، سر سے پیر تک اسلحوں میں ڈوبے ہوئے بڑے بڑے لشکروں کو پچھاڑ دیا ، سچ ہے اتحاد بہت بڑی طاقت ہے .

مسلمانوں کا زوال کب سے اور کیسے ؟

اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے جب تک مسلمان حکم خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے آپس میں متحد رہے مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن رہے لیکن جب ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا ”اس حکم قرآن کو مسلمانوں نے نظر انداز کردیا اور حرص و ہوس کے شیطانی جال میں گرفتار ہو کر جھوٹی شہرت و ریاست کی خاطر ، منصب و اقتدار کی خاطر دنیا پرستی اور نفس پرستی کا شکار ہو گئے ، جسکے نتیجے میں مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے ، ایک فرقہ نے دوسرے فرقہ پر کفر کا فتویٰ لگانا شروع کردیا ، ایک گروہ دوسرے گروہ کے خون کا پیاسہ ہو گیا تو دشمنوں کو ان اختلافات سے فائدہ اٹھا کر انتقام لینے کا موقع مل گیا ، مسلمانوں کا خون پانی سے سستا ہوگیا ، وہ اسلام جو مسلمانوں کے لئے باعث فخر تھا ،باعث شرم بن گیا ، قرآن مجید نے بہت پہلے ہی مسلمانوں کو ان ساری باتوں کی طرف متوجہ کر دیا تھا .

ولا تنازعوافتفشلوا و تذہب ریحکم (انفال ٤٦)

خبر دار آپس میں لڑائی جھگڑے سے دور رہنا ورنہ کمزور پڑ جائو گے اور تمہاری بنی ہوئی یہ ہوا اکھڑ جائے گی تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا .

حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا:”ایاکم والفرقة ….

اختلاف و افتراق سے بچو !

جو شخص لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے وہ شیطان کا لقمہ بن جاتا ہے جس طرح بھیڑوں اور بکریوں کے گلہ سے الگ ہو جانے کی صورت میں بھیڑ یا بکری بھیڑئیے کی نذر ہو جاتے ہیں (نہج البلاغہ خطبہ ١٢٧)

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان کو یہ کہتے ہوئے سنے یا للمسلمین اے مسلمانو!ہماری مدد کو آئو اور اسکی مدد نہ کرے اسکا ہم سے کوئی تعلق نہیں .

قرآن مجید اور معصومین کے کلمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اسلام اورایمان کے بارے میں نظر ثانی کرتے ہوئے ہمیں کچھ سوچنا چاہئے :اگر مسلمان اب بھی متحد ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں جب امریکہ ، اسرائیل اور استعماری طاقتیں صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح موجودہ دور کے مسلمانوں کے سامنے بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیںگی اور انتم الاعلون اے مسلمانو! تم سب سے برتر ہو یہ نغمۂ قرآنی ہر زبان پر جاری ہو جائے گا 

تبصرے
Loading...