قرآن سب سے بڑی بیماری کی دوا

البتہ ممکن ہے مذکورہ باتیں مغرور انسانوں کے ذوق کے موافق نہ ہوں اور ان لوگوں کواچھی نہ لگیں جو کہ تقوائے الٰہی اور قرآن واہلبیت  کے علوم سے بالکل بے بہرہ ہیں نیز بشری علوم کی چند اصطلاحیں جاننے کے سبب اپنے کو خداوندمتعال کے مقابل سمجھتے ہیں، لیکن ہر عقلمند انسان اعتراف کرتا ہے کہ انسان نے جو کچھ اپنی نت نئی علمی ترقیوں کے ساتھ انکشاف اور ایجاد کیا ہے وہ اس کی مجہول و نامعلوم باتوں کے مقابل ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابل ایک قطرہ، اور انسانی مدینۂ فاضلہ کا نمونہ پیش کرنے میں تمام غیر الٰہی اخلاقی مکاتب فکر کے نظریات اوردعوے، خدا کے لامحدود علم اور علوم اہلبیت  ٪ (جن کا سرچشمہ الٰہی الہامات ہیں)کے مقابلہ میں  صفر سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

بہرحال حضرت علی  ـ انسانی معاشرہ کی سب سے بڑی بیماری کفر و نفاق اور گمراہی کو جانتے ہیں۔ یہی روحی بیماریاں ہیں جو کہ معاشرہ کو مختلف مشکلوں اور پریشانیوں سے دوچار کرتی ہیں اور ان کا علاج بھی قرآن ہی سے حاصل کرنا چاہئے: ” فَاِنَّ فِیہِ شِفَائً مِن اَکْبَرِ الدَّائِ وَ ہُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ  الْغَیُّ وَ الضَّلاَلُ ” سب سے بڑی بیماری سے مراد کفر و نفاق اور ضلالت و گمراہی ہے، اور دوا اور علاج سے مراد قرآن پر ایمان اور اس کی پیروی ہے۔

البتہ توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ بات (کہ اپنی بیماریوں کی دوا قرآن سے طلب کرو، اس لئے کہ قرآن تمام مشکلات اوربیماریوں کی دوا ہے)، اس کا مفہوم یہ نہیںہے کہ قرآن نے ڈاکٹر کے نسخہ کے مانند تمھارے جسمانی امراض کو بیان کردیا ہے اور ہر ایک مرض سے شفایابی کے لئے ایک دوا کا مشورہ دیا ہے یا اقتصادی و فوجی مشکلات کے باب میں نیز صنعت اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں مسائل کے حل کے فارمولوں کو قرآن سے لینا چاہئے، جو شخص دینی معارف سے ذرا سا بھی واقف ہے وہ ہرگز حضرت علی  ـ کے اس کلام کی توضیح ا س معنی میں نہیں کرتا، اس لئے کہ جسمانی بیماریوں اور بقیہ تمام مشکلات کا حل اپنے طبیعی وسیلوں کا محتاج ہے، قرآن کریم ان مشکلات کے حل کے لئے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کلی اصولوں کو بیان کرتا ہے اب لوگوں کا فریضہ ہے کہ قرآن کے ان کلی اصولوں کو سر مشق اور نمونہ قرار دیکر نیز عقل، خداداد قوتوں اور انسانی علوم کے تجربوں سے استفادہ کر کے اپنے مشکلات کو حل کریں اور اپنی بیماریوں کا علاج کریں۔

یہاں پر ہم عزیز قارئین کی توجہ دو نکتوں کی طرف مبذول کر رہے ہیں:

پہلا نکتہ٭ یہ ہے کہ طبیعی اور مادی اسباب و علل اگرچہ اپنے معلول اور مسبب کو مستلزم ہیں، لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ تمام موجودات کی علت العلل خداوند تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔ اسی نے عالم کے نظام کو علت و معلول کے رابطہ کی بنیاد پر خلق کیا ہے اور وہی ہمیشہ اسباب و علل کو سببیت اور علیت عطا کرتا ہے اور یہ اس کا تکوینی ارادہ ہے اور جب تک یہ تکوینی ارادہ نہ ہوگا اس وقت تک کسی فعل کا براہ راست کوئی اثر نہیں ہوگا۔

اس بنا پر تمام دردوں کی دوا اور تمام مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ بنیادی طور پر خداوند متعال کی طرف توجہ کریں اور چشم امید اسی کی طرف رکھیں، اگرچہ مشکلات کو حل کرنے میں اور بیماری سے شفا حاصل کرنے میں طبیعی اسباب و علل کا بھی سہارا لیں لیکن توحید افعالی کے اقتضاء کی بنا پر شفا اور مشکلات کے حل کو اصل میں اسی سے سمجھنا چاہئے اور اسی سے امید رکھنا چاہئے۔

دوسرا نکتہ٭ یہ ہے کہ مشکلات کے حل اور بیماریوں کے علاج کا راستہ فقط عادی اور طبیعی اسباب و علل میں منحصر نہیں سمجھنا چاہئے، یعنی ایسا نہیںہے کہ مشکلات کے حل میں مادی اور طبیعی اسباب و علل نہ پائے جانے سے یا ان کے مفید و کارآمد نہ ہونے سے مشکل کے حل، بہبودی کے حصول، امراض کی شفا یا انسان کی جائز اور برحق خواہشات کے پورا ہونے کا امکان نہ ہو۔

خداوند متعال نے علّی اور معلولی نظام خلق کرکے اپنے کو غیر طبیعی طریقے سے کوئی شے ایجاد کرنے سے عاجز نہیں کیا ہے، بلکہ سنت الٰہی اس بات پر قائم ہے کہ پہلے مرحلہ میں امور عادی اور طبیعی راستے سے انجام پائیں، لیکن امور کا انجام پذیر ہونا طبیعی طریقہ میں منحصر نہیں ہے بلکہ خاص حالات میں خداوند متعال کچھ امور کو طبیعی راستے کے بغیر بھی خود ایجاد کرتا ہے کہ اس کو بھی سنت الٰہی کہا جاسکتا ہے۔ مرض سے شفا اور بہبودی ممکن ہے طبیعی راستے سے اور ڈاکٹری علاج سے واقع ہو اورممکن ہے کہ خاص شرائط و حالات کے تحت غیر مادی علتوں کے واسطے سے، جیسے ائمۂ معصومین  ٪ یا دوسرے اولیاء خدا کی دعا سے حاصل ہو جائے۔ جیسا کہ ممکن ہے محاذ توحید کے مجاہدین مادی وسائل اور اسلحہ نیز طبیعی حالات کے اعتبار سے دشمن کے مقابل (لوگوں کی نظر میں) شکست کھانے والے ہوں، لیکن غیبی امداد اور غیر طبیعی اسباب کے ذریعے فتحیاب ہو جائیں کہ یہ بات بھی الٰہی اسباب و علل میں سے سمجھی جاتی ہے۔

قرآن کریم میں ایسے واقعات کے بہت سے نمونے مذکور ہیں جو کہ غیر مادی اور غیر طبیعی اسباب کے راستے سے واقع ہوئے ہیں، مثال کے طور پر نزول باران اگر طبیعی اسباب و عوامل کے راستے سے واقع ہو تو ضروری ہے کہ دریا اور سمندروں کا پانی سورج کی دھوپ اور گرمی کی تپش سے بخار اوربھاپ بن کر بادل کی صورت اختیار کریں، پھر دریا اور خشکی کے درجۂ حرارت کے نتیجے میں ہوا چلنے سے بادل دریاؤں کے اوپر سے زمین کے تمام علاقوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ خاص حالات کے تحت بادل میں موجود پانی، بارش کے قطروں، یا برف کے دانوں یا اولوں کی صورت میں زمین پر برسے۔

بارش کی امید اس کے طبیعی اسباب و علل کے بغیر، مادی نظر سے ایک بیجا اور نامعقول امید سمجھی جاتی ہے، لیکن حضرت نوح  ـ نزول باران کے لئے طبیعی عوامل کو نظر میں رکھے بغیر اپنی قوم کو خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ استغفار اور توبہ کرو تا کہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش ہو، (وَ یَا قَومِ اسْتَغفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوا ِلَیہِ یُرسِلِ السَّمَائَ عَلَیکُم مِدْرَاراً وَ یَزِدْکُم قُوَّةً ِلٰی قُوَّتِکُمْ وَ لاتَتَوَلَّوْا مُجرِمِینَ)١ اے میری قوم والو! اپنے پروردگار سے استغفار کرو پھر اسی کی طرف ،ہمہ تن گوش ہو جاؤ اور اس کی طرف پلٹ آؤ تاکہ خداوند متعال آسمان سے تم پر موسلادھار بارش نازل کرے اور رحمت الٰہی اور بارش کے نزول کے ذریعہ تمھاری موجودہ قوت کو اور قوت دیکرزیادہ کردے، پھر فرمایا: (وَ لاتَتَوَلَّوا مُجرِمِینَ)، خبردار! توبہ و استغفار کے بغیر اور اس حال میں کہ تم مجرم و گنہگار ہو خدا سے منھ مت پھیرو او راپنے کو رحمت الٰہی سے محروم مت کرو۔

اگر چہ نزول باران کے طبیعی اسباب و علل اور طبیعت میں جاری تمام علّی و معلولی نظام، سب قدرت الٰہی کے ہاتھ میں ہیںاور اسی کے ارادے سے کام کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و عوامل کو نظر میں رکھے بغیر خداوند متعال فرماتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو اور خدا کی طرف واپس آجاؤ، ہم آسمان سے کہہ دیں گے کہ تم پر موسلادھار برسے۔

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ خداوند متعال کا مقصود یہ نہیں ہے کہ طبیعی عوامل کے تحقق کے بغیر بارش نازل ہو، بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہم طبیعی عوامل کو پیدا کر کے تم پر بارش برسائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظریہ توحیدی مکتب فکر کے موافق نہیں ہے، اس لئے کہ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا، ایسا نہیں ہے کہ خداوند متعال نے علّی و معلولی نظام کو خلق کر کے، طبیعی اسباب و علل کے بغیر موجودات کو ایجاد کرنے سے اپنے کو عاجز کر رکھا ہے۔ خداوند متعال موجودات کی ایجاد و خلقت پر اپنی قدرت کے متعلق اس طرح فرماتا ہے: (اِذَا أَرادَ شَیئاً أَن یَّقُولَ لَہُ کُن فَیَکُوْن)2 جب بھی خداوند متعال کسی شے سے یہ کہنے کا ارادہ کرتا ہے کہ ہو جا، تو وہ شے فوراً ہوجاتی ہے۔

عض بلاؤں کی حکمت

مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ، کبھی کبھی خداوند متعال کی حکمت اور حق کی رحمانیت اس بات کا موجب ہوتی ہے کہ غیر طبیعی راستوں سے اپنے بندوں پر لطف کرے اور اپنی نعمت ان پر نازل کرے۔

اس مقصد کے لئے خداوند متعال مادی اسباب و علل کے علاوہ دوسرے اسباب و علل قرار دیتا ہے اور لوگوں سے چاہتا ہے کہ ان کے وسیلے سے لوگ اپنے کو الٰہی رحمت و نعمت کا مستحق بنائیں، یہ معنی بھی خداوند متعال کے لطف اور اس کی رحمت کا مقتضی ہے، خلقت کا نظام، حکمت کی بنیاد پر ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہدایت اور تکامل ہے، اور ہدایت و تکامل، اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ لوگ آیات الٰہی کی معرفت اور ان میں تدبر، بندگی، دین حق نیز انبیاء الٰہی کے احکام پر عمل کرتے ہوں، لیکن کبھی کبھی لوگ گناہ اور معصیت کے نتیجہ میں راہ حق سے منحرف ہو جاتے ہیں، عام طور سے لوگ جس وقت مادی عیش و آرام میں ہوتے ہیں اور اقتصادی اور مادی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتے اور ان کی ہر من پسند چیز فراہم ہوتی ہے تو اس وقت خدا اور معنویات کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں، انسانی اور الٰہی خصلتیں ان کے اندر دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگتی ہیں اور آخر کار فراموشی کی نذر ہو جاتی ہیں، نتیجہ میں ان کے اندر کفر و ضلالت اور سرکشی و گمراہی پیدا ہو جاتی ہے۔

قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: (کَلاَّ ِنَّ الِنسَانَ لَیَطْغیٰ٭ أَن رَّئٰ اہُ اسْتَغنیٰ)3 جس وقت انسان اپنے کو بے نیاز خیال کرلیتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ اور امت کی اکثریت پر سرکش اور استکباری فکر حاکم ہو تو خداوندمتعال کا لطف اور اس کی عنایت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ کسی بھی طرح سے انسانوں کو ہوشیار کرے، ان کو خواب غفلت سے بیدار کرے اور راہ حق اور طرز بندگی کی طرف واپس لے آئے۔

اس مقصد کے تحقق کے لئے کبھی کبھی بلائیں، جیسے فقر اور قحط نازل کرتا ہے اور دوسری طرف ان بلاؤں کے رفع کرنے او ران کے علاج کے لئے گناہوں سے توبہ واستغفار، خدا کی طرف توجہ اور نماز کو بتاتا ہے تاکہ نتیجہ میں خلقت کا مقصد پورا ہوسکے اور یہی انسان کی اختیاری ہدایت اور تکامل ہے۔یہ بات بھی  تعجب خیز الٰہی سنتوں میں سے ایک رہی ہے کہ کبھی کسی نبی  کو مبعوث کرتا تھا اور اس کی امت کو سختیوں میں مبتلا کرتا تھا تاکہ وہ خدا اور راہ حق سے غافل نہ ہوں، نیز مادی لذتوں میں غرق ہونا ان کو سعادت سے باز نہ رکھے۔

بہرحال بعض بلاؤں کا نزول، غافل انسانوں کی توجہ اور بیداری کا سبب ہوتا ہے اس لئے کہ سخت حالات میں انسان بہتر طور پر خدا سے اپنی احتیاج کو درک کرتا ہے اور عیش و آرام کی زندگی سے بہتر بلاؤں کی زندگی میں وہ انبیاء کی تعلیمات کو سمجھتا اور قبول کرتا ہے ، قرآن کریم فرماتا ہے: (وَ مَا أَرْسَلنَا فِی قَریَةٍ مِن نَّبِیٍّ ِلاَّ أَخَذنَا أَہْلَہَا بِاْلبَأسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُونَ)4اور ہم نے جب بھی کسی قریہ یا شہرمیں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ یا اہل شہر کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں۔

سورۂ مومنون کی آیت ٧٥ اور ٧٦ بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے:

(وَ لَو رَحِمنَاہُم وَ کَشَفْنَا مَابِہِم مِن ضُرٍّ لَلَجُّوا فِی طُغیَانِہِم یَعمَہُونَ٭ وَ لَقَد أَخَذنَاہُم بِالعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوا لِرَبِّہِم وَ مَایَتَضَرَّعُونَ)

اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف اور سختی کو دور کردیں تو بھی یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہوتے جائیں گے، اور ہم نے انھیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں۔

اس بنا پر امتوں کے بعض عذابوں اور ان کی سختیوں کا فلسفہ لوگوں کی بیداری اور راہ ہدایت کی طرف ان کا واپس آنا ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ یہ سختیاں، پریشانیاں اور بلائیں بعض امتوں کو بیدار نہ کریں اور وہ لوگ اسی طرح ضلالت و گمراہی پر اڑے رہیں، کہ اس صورت میں حجت ان پر تمام ہو جاتی ہے اور انھیں چاہئے کہ ان بلاؤں کے نزول کے منتظر رہیں جو کہ ان کی حیات اور زندگی کا خاتمہ کردیں گی۔

قرآن سورۂ انعام کی آیات ٤٢ سے ٤٤ تک، حضرت پیغمبر اسلام  ۖ کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

(وَ لَقَد أَرسَلنَا ِلیٰ أُمَمٍ مِن قَبلِکَ فَأََخَذنَاہُم بِالبَاسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّہُم یَتَضَرَّعُونَ ٭ فَلَو لا ِذْجآئَ ہُم بَاسُنَا تَضَرَّعُوا وَ لٰکِن قَسَتْ قُلُوبُہُم وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیطٰنُ مَا کَانُوا یَعمَلُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحنَا عَلَیہِم أَبوَابَ کُلِّ شَیئٍ حَتَّیٰ ِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذنَاہُم بَغتَةً فَاِذَاہُم مُبْلِسُونَ)

یعنی ”ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں، پھر ان سختیوں کے بعد انھوں نے کیوں فریاد نہیں کی، بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کوان کے لئے آراستہ کردیا ہے، پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش ہوگئے تو ہم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے” ۔

ہمیں جاننا اور سمجھنا چاہئے کہ یہ سنت الٰہی ہے جو کہ پہلے والی امتوں میں جاری رہی ہے اور نبیۖ آخرالزمان کی امت بھی اس سے مستثنیٰ نہیںہے۔

بہرحال صاحبان بصیرت اور ان لوگوں کے لئے جو کہ اپنی سعادت اور سرنوشت کی فکر رکھتے ہیں، بعض مشکلات و مصائب اور بلاؤں کا وجود، عبرت و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی کے برعکس جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ ایسے انسان بھی ہیں جو ایسے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی بھی ٹہوکے اور نصیحت سے نصیحت حاصل نہیں کرتے اور ہوش میں نہیں آتے۔

لہٰذا وہ بلائیں اور سختیاں جو معاشروںاور قوموں کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے اور ہوش میں لانے کی خاطر پیش آتی ہیں وہ سابق انبیاء  کی امتوں سے مخصوص نہیںہیں، بلکہ یہ مسئلہ الطاف الٰہی میں سے ہے جو کہ امتوں کی بیداری اور خدا کی طرف توجہ کے لئے واقع ہوتا ہے، جو بات اہم ہے وہ ایسے حوادث کے فلسفہ او رراز کو سمجھنا، گزشتہ سے عبرت حاصل کرنا، خدا کی طرف بازگشت اور توبہ ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ اس مسئلہ کی طرف توجہ کرتے ہیںاور اسی غفلت کی بنا پر اقتصادی بحرانوں سے نجات کے لئے (کہ انھیں میں سے قحط اور پانی کی کمی کا بحران ہے)، بعض عہدہ دار افراد غفلت و بے توجہی کی بنا پر یا ایمانی اور اعتقادی کمزوری کی بنا پر غیر خدا کا دامن تھام لیتے ہیں اور مسلمانوں کے بیت المال سے زیادہ پیسے خرچ کر کے اسکیمیں تیار کرتے ہیں تاکہ شیمیائی مادوں کے ذریعے بادلوں میں پانی بھر کر بارش ایجاد کریں، کتنا باطل خیال ہے! کیا بارش کی علت تامہ یہی بادل کا وجود اور ہوا کے ذریعے اس کا منتقل ہونا اور دوسرے چند محدود اسباب ہیں کہ انسان مکڑی کی طرح اپنے ہی بنے ہوئے جالوں میں پھنس کر مغرور ہو جائے نیز بندگان خدا اور مسلمان عوام کو بجائے اس کے کہ خدا او راس کے احسان و عنایت کے دامن سے متوسل ہونے کی طرف متوجہ کرے، پہاڑوں کی چوٹیوں پر بادلوں کے ٹکڑے تلاش کرے او ران کا شکار کرنے کے بعد پھر ان میں پانی بھر کر بارش برسائے؟

واقعاً یہ بات حضرت نوح  ـ اور ان کے فرزند کے واقعہ کو یاد دلاتی ہے کہ  حضرت نوح  ـ ٩٥٠ سال تبلیغ کے بعد خدا پر اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، ان کی ہدایت سے ناامیدی اور عذاب کی علامتیں ظاہر ہونے کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے سے چاہا کہ ایمان لے آئے اور کشتی پر سوار ہو جائے تاکہ اس قطعی و یقینی عذاب سے نجات حاصل کرلے۔ اس نے اپنے باپ کے جواب میں اپنے شرک آلود خیال کو اس طرح بیان کیا کہ: (سَاٰوِ اِلٰی جَبَلٍ یَعْصِمُنِْ مِنَ الْمَائِ)5 میں پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لے لوں گا تاکہ وہ مجھے غرق ہونے سے بچالے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آخر کار وہ ایمان نہ لایا اور ہلاک ہوگیا، خداوند متعال اس واقعہ کا ذکر کرکے شرک آلود فکر کی اصل کو بیان کر رہا ہے اور لوگوں کو اس سے ڈرا رہا ہے۔

اب بھی یہ شرک آلود فکر بعض لوگوں کے درمیان خصوصاً مغرب زدہ روشن فکر افراد میں رائج ہے۔ وہ لوگ بجائے اس کے کہ خدا پر ایمان رکھیں اور قلم و بیان سے لوگوں کو خدا کی طرف بلائیں، مشکلات کو دور کرنے کے لئے اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے ہاتھوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور انھیں سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔

صاحبان علم و فہم پر پوشیدہ نہیں ہے کہ ہم علمی ترقی اور انسانی علوم کی ایجادات کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ دین و قرآن اور توحیدی مکتب فکر، ہر مکتب فکر سے زیادہ انسانوں کو علم و دانش کے حصول اور انسانی افکار و خیالات سے حاصل شدہ چیزوں سے استفادہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ جس بات کی نفی پر یہاں تاکید کی جارہی ہے اور جس کے سخت اور سنگین نتائج سے خبردار کیا جارہا ہے، یہ شرک آلود فکر ہے کہ نہایت افسوس ہے کہ اس میں مبتلا افراد ہمارے معاشرے میں کم نہیں ہیں۔

بہرحال سب سے زیادہ بہتر، نزدیک اور اطمینان بخش راستہ فردی و اجتماعی مشکلات کو دور کرنے کے لئے خانۂ خدا کے درپر واپس آنا ہے اس لئے کہ راہ خدا کا انتخاب اس بات کے علاوہ کہ ہماری ابدی و اخروی سعادت کا ضامن ہے، دنیوی زندگی کے مشکلات اور بحرانوں کو بھی دور کرتا ہے، (فَقُلتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً یُرسِلُ السَّمَائَ عَلَیکُم مِدرَاراً)6

پس میںنے لوگوں سے کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو بے شک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا، نتیجہ میں باغ وجود میں آئیں گے اور نہریں جاری ہوں گی۔

اس بنا پر قرآن، نقائص اور کمیوں کو دور کرنے اور مسلمانوں کے امور میں کشائش کے لئے اپنے پیرؤوں کے لئے راہ حل پیش کرتا ہے اور ان راستوں کی افادیت کی ضمانت لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، مسلمان جیسا کہ بارہا آزما چکا ہے دوبارہ پھر آزما سکتا ہے۔

بے شک ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی ہمارے اسلامی معاشرہ پر نصرت الٰہی اور خدا کی غیبی امدادوں کے معجزنما نمونوں میں سے ایک ہے۔ جس وقت کہ تمام لوگ خدا پر توکل اور اس کے غیر سے امید قطع کر کے اسلامی حکومت کے خواہاں ہوئے، خدا نے اپنے وعدہ کی بنا پر کہ قرآن میں فرماتا ہے: (ِنْ تَنصُرُوْا اللّٰہَ یَنصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ أَقدَامَکُمْ)7 (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم بنا دے گا)، دشمن اسلام کی تمام حمایتوں کے ساتھ ڈھائی ہزار (٢٥٠٠) سالہ شہنشاہی حکومت کی تمام قوتوں کے برخلاف، لوگوں کو ان کے دشمنوں پر فتحیاب کیا، اور یہ سنت الٰہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک لوگ خدا کی طرف متوجہ رہیں گے خدا بھی ان کی مدد فرمائے گا اور جب وہ خدا کو بھول جائیں گے، غیر خدا سے مدد کی امید رکھنے لگیں گے اور خدا سے منھ موڑ لیں گے تو عذاب و ذلت سے دوچار ہو جائیں گے۔

بہرصورت، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم علم الٰہی کا نسخۂ شافیہ ہے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت و نجات، اس کے حیات بخش احکام کی پیروی میں پوشیدہ ہے، اور فردی و اجتماعی مشکلات کا راہ حل اسی میں تلاش کرنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ قرآن یعنی انسان کی سعادت کے اس ضامن کو پہچانیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں اور اس پر عمل کریں۔ البتہ قرآن کے متعلق دو طرح کی تعظیم و تکریم پائی جاتی ہے کہ ذیل میں ہم اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

قرآن کریم کی ظاہری اور حقیقی تعظیم

قرآن کریم کے احترام کے متعلق زیادہ تر جو کچھ آج اسلامی معاشروں میں موجود ہے ان کو قرآن کا ظاہری احترام کہا جاسکتا ہے، جبکہ قرآن کریم ہرگز اس لئے نازل نہیں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ ایک خاص (ظاہری) آداب و رسوم اور احترام بجالائیں، قرآن فقط حفظ کرنے اور بہترین دھن اور آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کے لئے نہیں ہے۔ قرآن زندگی اور الٰہی پیغامات کی کتاب ہے کہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی دنیوی زندگی میں اس پر عمل کریں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں، خصوصاً اسلامی معاشروں میں حکومت کے عہدہ دار افراد کا فریضہ ہے کہ نظام کی کلی سیاستوں کو اس کتاب الٰہی کی ہدایات کی بنیاد پر تنظیم کر کے ان کا اجرا کریں، تاکہ قرآن کے مکتب فکر کے پھلنے پھولنے کا مقدمہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر طور سے مہیا ہواور نتیجہ میں نزول قرآن کا مقصد پورا ہو جائے کہ اس کا مقصد یہی ہے کہ روئے زمین پر عدل و انصاف کے زیر سایہ انسان کا تکامل اور اس کی سعادت ممکن ہے۔

افسوس ہے کہ اس امید کے برخلاف، جو کچھ آج ہم قرآن کریم کی تعظیم و تکریم کے عنوان سے مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ظاہری احترام کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور قرآن کی مرکزیت کا لازمہ مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں بھلا دیا گیا ہے۔

آج بہت سے اسلامی ممالک میں بہت سے ادارے، ابتدائی کلاسوں سے کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک قرآن کریم کی تعلیم و تعلم کا انتظام کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے قرآن کے ناظرے، حفظ اور قرائت کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر سال ہم عالمی پیمانے پر قرآن کریم کے حفظ و قرائت کے مقابلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مختلف قرآنی علوم جیسے تجوید و ترتیل وغیرہ قرآن کے عقیدتمندوں کے درمیان ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان امور کے علاوہ قرآن عام مسلمانوں کے درمیان ایک خاص احترام کا حامل ہے مثلاً اس کے الفاظ و آیات کو بغیر وضو کے مس نہیں کرتے اور قرائت کے وقت ادب کے ساتھ بیٹھتے ہیں، زیادہ تر افراد قرآن کے مقابل اپنا پاؤں نہیں پھیلاتے، اس کو سب سے زیادہ بہتر جلد میں اور سب سے زیادہ مناسب جگہ پر رکھتے ہیں، خلاصہ یہ کہ اس طرح کے ظاہری احترام عام مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں۔

واضح ہے کہ مذکورہ امور کی رعایت اس آسمانی کتاب کے احترام کے عنوان سے ایک بڑی فضیلت ہے کہ جس قدر بھی ہم ان کے پابند ہوں بہتر ہے لیکن ہم نے اس آسمانی کتاب کے احترام کا حق کماحقہ ادا نہیں کیا ہے اور خداوند متعال کی اس عظیم نعمت کا شکر جو کہ نعمت ہدایت ہے، بجا نہیں لائے ہیں ، لیکن ہر نعمت کا سب سے زیادہ احترام اور شکر اس کی حقیقت کی شناخت او راس کا اس جگہ استعمال ہے کہ خدا نے جس کے لئے خلق کیا ہے۔

چنانچہ اگر ہم اس نظریہ کے ساتھ چاہیں کہ قرآن کو دیکھیں اور اس کا احترام و اکرام کریں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم اسلامی معاشروں کے کلچر میں ایک مطلوب منزلت نہیں رکھتا اور اس کا حقیقی طور پر احترام نہیں کیا جاتا۔

قرآن کریم کے احترام و اکرام سے متعلق مسلمانوں کا جو عمل بیان کیا گیا ہے، وہ اگرچہ ضروری اور لازم ہے، لیکن ان امور کی انجام دہی سے خداوند متعال کے قرآن نازل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا جو فریضہ ہے وہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ ظواہر قرآن کی معرفت، آیات الٰہی کی قرائت اور اس نسخۂ شافیہ کی ظاہری تعظیم و تکریم، اس کے مطالب اور احکام پر عمل کرنے کا مقدمہ ہیں۔ قرآن کا واقعی حق، مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں اس کو محور قرار دیئے بغیر ادا نہیں ہوسکتا۔

واضح سی بات ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کو چومنا، اس کا احترام کرنا اور اس کو بہترین دھن اور میٹھی آواز کے ساتھ پڑھنا، بغیر اس کے کہ ڈاکٹر کی ہدایات اور اس کے احکام کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، بیمار کے کسی بھی درد کا مداوا نہیں کرتا۔ ہر عقلمند یقین رکھتا ہے کہ شفا کے لئے ماہر ڈاکٹر کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے۔ ڈاکٹر کے نسخہ کا حقیقی احترام اس پر عمل کرنا ہے نہ کہ ڈاکٹر اور اس کے نسخہ کی تعظیم و تکریم کرنا ہے۔

قرآن کے متعلق بھی کہنا چاہئے کہ اگرچہ قرآن کریم کا ظاہری احترام کرنا، پسندیدہ امور اور ہر ایک مسلمان کے فرائض میں سے ہے، لیکن یہ اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا سب سے معمولی فریضہ ہے، اس لئے کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے حیات بخش احکام پر عمل کرنے کے ذریعے اس ہدایت الٰہی کی نعمت کا شکر او رواقعی احترام بجالائیں اور اپنے کو اس پُرفیض امانت سے محروم نہ کریں تاکہ نتیجہ میں ا س نور الٰہی کے ذریعے اپنی اندھیری دنیا کو روشنی بخشیں۔

قرآن، حقیقی نور

خداوند متعال کی تجلی کا ایک مظہر نور ہے۔ خداوند تعالی اپنے کو نور سے تشبیہ دیتا ہے اور فرماتا ہے: (أَللّٰہُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضِ)8 خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یہ خداوند متعال کے نور وجود کی تجلی اور چھوٹ ہے کہ جس سے زمین و آسمان اورمخلوقات کی خلقت ہوئی ہے۔ عنایت خدا کی برکت ہے کہ عالم وجود قائم و ثابت ہے اور فیض وجود، ہمیشہ اور مسلسل منبع جود کی جانب سے موجودات پر جاری و ساری ہے نتیجہ میں موجودات و مخلوقات اپنی زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کبھی کبھی کلام خدا کو بھی نور سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لئے کہ نور ہی کے پرتو میں انسان راستے کو پیدا کرتا ہے، سرگردانی اور بھول بھلیوں میں بھٹکنے سے نجات حاصل کرتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ بری اور نقصان دہ گمراہی، راہ زندگی کی ضلالت و گمراہی اور انسان کی سعادت کا خطرے میں پڑنا ہے، اس لئے حقیقی اور واقعی نور وہ ہے جو کہ انسانوں کو اور انسانی معاشروں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دے اور انسانی کمال کے صحیح راستے کو ان کے لئے روشن کرے تاکہ سعادت و تکامل کے راستے کو سقوط و ضلالت کے راستوں سے تمیز دے سکیں۔ اسی بنیاد پر خداوند متعال نے قرآن کو نور سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے: (قَدجَائَکُمْ مِنَ اللّٰہِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین)9 یقینا تمھارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آئی ہے تاکہ تم اس سے استفادہ کر کے راہ سعادت کو شقاوت سے جدا کرسکو۔ اب چونکہ بحث کا موضوع ”قرآن، نہج البلاغہ کے آئینہ میں” ہے، اس لئے ہم اس سلسلہ میں وارد شدہ آیات کی تفسیر و توضیح سے چشم پوشی کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت علی  کے بیان کی توضیح کرتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی  ـ خطبہ ١٩٨ میں اسلام اور پیغمبر اسلام  ۖ کی توصیف کے بعد قرآن کریم کا وصف بیان فرماتے ہیں: ”ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیہِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیْحُہَ وَ سِرَاجاً لایَخْبُو تَوَقُّدُہُ وَ بَحْراً لایُدْرَکُ قَعْرُہُ” پھر خداوند متعال نے اپنے پیغمبر ۖ پر قرآن کو ایک نور کی صورت میں نازل فرمایا کہ جس کی قندیلیں کبھی بجھ نہیں سکتیں، اور ایسے چراغ کے مانند کہ جس کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور ایسے سمندر کے مانند جس کی تھاہ مل نہیں سکتی۔

حضرت علی  ـ اس خطبہ میں وصف قرآن کے متعلق پہلے تین نہایت خوبصورت تشبیہوں کے ذریعے چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں کو قرآن کی عظمت سے آشنا کریں اور ان کی توجہ اس عظیم الٰہی سرمایہ کی طرف جو کہ ان کے ہاتھوں میں موجود ہے، زیادہ سے زیادہ مبذول فرمائیں۔

پہلے حضرت علی  ـ قرآن کی توصیف نور کے ذریعہ فرماتے ہیں: ”أَنْزَلَ عَلَیہِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیحُہُ” خداوند تعالی نے قرآن کو اس حال میں کہ نور ہے، پیغمبر  ۖ پر نازل فرمایا، لیکن یہ نور تمام نوروں سے مختلف ہے۔

یہ حقیقت (قرآن کریم) ایک ایسا نور ہے کہ جس کی قندیلیں ہرگز خاموش نہیں ہوسکتیں اور ان کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی۔

معقول کی محسوس سے تشبیہ کے عنوان سے قرآن کریم اس برقی انرجی کے عظیم منبع کے مانند ہے جو کہ اندھیری راتوں میں بجلی کے مرکز کے ذریعے قوی اور بڑی بڑی مرکریوں کے وسیلے سے ان راستوں کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک منتہی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو سلامتی کے ساتھ مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں، دو راہوں، چوراہوں یا چند راہوں پر راہنما چراغوں کو نصب کر کے اس شاہراہ کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور ان دوسرے راستوں سے تمیز دیتا ہے جو کہ سرگردانی اور ہولناک گھاٹیوں میں گرنے کا باعث ہوتے ہیں۔

قرآن بھی دینی اور اسلامی معاشرہ میں اور سعادت و کامیابی تلاش کرنے والوں کی زندگی میں ایسا ہی اثر رکھتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جو چراغ اس نور کے منبع سے روشنی کسب کرتے ہیں اور راہ سعادت کو روشن کرتے ہیں وہ کبھی بجھ نہیں سکتے نتیجہ میں راہ حق، ہمیشہ مستقیم اور روشن ہے، قرآن کریم اور اس کے روشن چراغ ہمیشہ قرآن کے پیرؤوں کو نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ ہوشیار رہو کہیں راہ حق سے منحرف نہ ہو جاؤ۔

اسی خطبہ میں آگے بڑھ کر حضرت علی  ـ ارشاد فرماتے ہیں: ”نُوْ راً لَیسَ مَعَہُ ظُلْمَة” قرآن وہ نور ہے جس کے ہوتے ہوئے ظلمت و تاریکی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب ایسے چراغ اور قندیلیں رکھتی ہے جو اس سے نور حاصل کرتی ہیں اور ہمیشہ ہدایت و سعادت کی راہوں کو روشن رکھتی ہیں۔

اس کے علاوہ، حضرات ائمۂ معصومین  ٪ کہ وہی وحی الٰہی کے مفسر ہیں ان چراغوں اور قندیلوں کے مانند ہیں جو کہ قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اپنے خداداد علم کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن کی حقیقت سے آشنا کرتے ہیں۔

(1)سورۂ ہود، آیت ٥٢ ۔

(2)سورہ یٰس، آیت ٨٢۔

(3)سورۂ علق، آیت ٧،٦۔                

(4)سورۂ اعراف، آیت ٩٤۔

(5)سورۂ ہود، آیت ٤٣۔

(6) سورۂ نوح، آیت  ١٠، ١١۔

(7) سورۂ محمد، آیت ٧۔

(8)سورۂ نور، آیت ٣٥۔

(9)سورۂ مائدہ، آیت ١٥۔ اس آیۂ کریمہ میں نور سے مراد در حقیقت حضرات محمد و آل محمد  ٪ ہیں اس لئے کہ قرآن کا ذکر یہاں ”کتاب مبین” کے ذریعہ کیا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کا بھی نور ہونا اس ”کتاب مبین” (روشن کتاب) کی تعبیر سے نیز دوسری آیات و روایات سے ثابت ہے (مترجم)۔

 

تبصرے
Loading...