قرآن دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا

قرآن مجید جس عہد اور جس سماج میں نازل ہوا اس کا سب سے تکلیف دہ پہلو لاقانونیت ، بدامنی اور غارت گری تھی۔ لاقانونیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جزیرۃ العرب میں باضابطہ کسی حکومت کا وجود نہیں تھا، عرب کے گروہ پیش جو حکومتیں قائم تھیں ، وہ نسلی برتری اور کہتری پر یقین رکھتی تھیں اور جو انسانی سماج پیدائشی عظمت اور تحقیر کے تصور پر قائم ہو، ظاہر ہے کہ وہاں عدل وانصاف کا قائم ہونا ممکن نہیں ۔ ایسے ماحول میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا،اس کتاب میں جو سب سے پہلی آیت نازل ہوئی اس میں علم اور قلم کی اہمیت کو بتایا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ تمام انسان کا مادۂ تخلیق ایک ہی ہے۔ اس میں انسانی وحدت کی طرف اشارہ تھا۔ علم انسان کو قانون کا پابند بناتا ہے اور انسانی مساوات کے تصور سے عدل کا جذبہ ابھر تا ہے اور تکریم انسانیت کا عقیدہ پروان چڑھتا ہے ۔

اسی لیے ایک ایسا ملک جو امن وامان سے یکسر محروم تھا اور جہاں ظلم وجور اور دہشت گردی نے قانون کا درجہ حاصل کرلیاتھا، اسلام نے اس کو امن وسلامتی سے ہمکنار کیا ، انسانی اخوت کا سبق پڑھا یا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ ایک خاتون تنہا اونٹنی پر سوار ہوکر صنعاء یمن سے شام تک کا سفر کرے گی۔

اس نے اپنے متبعین کے لئے دو ایسی تعبیرات اختیار کیں، جن کے معنی ہی ’’امن و امان‘‘ اور ’’صلح وسلامتی‘‘ کے ہیں، یعنی ’’مومن اور مسلم‘‘ ۔ مومن کے معنی امن دینے والے کے ہیں اور مسلم کے معنی صلح اور دوسروں کی سلامتی کا لحاظ رکھنے والے کے۔ اس کتاب کی ابتدا بسم اللہ الرحمن الریم سے ہوئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ اور آپ ؐ کے مہربان ہونے کا ذکر ہے اور پہلی سورت کی پہلی آیت میں ہی خدا کو ’’تمام کائنات کا رب‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ رب اور لفظ بے پناہ شفقت اور ممتا کو ظاہر کرتا ہے اور تمام عالم کا رب کہہ کر پوری انسانیت ایک کنبہ اور خاندان کا درجہ رکھتی ہے۔ غرض کہ قرآن مجید امن و امان ، انسانیت اخوت اور آفاقیت کا علمبردار ہے، لیکن بدقسمتی سے سورج پر تھوکنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بعض تنگ نظر حضرات یہ کہنے کی جسارت کررہے ہیں کہ قرآن مجید میں کچھ نقص ہے، جس کی وجہ سے اس کتاب کے پڑھنے والوں میں دہشت گردی کا رجحان پیدا ہوتا ہے ، یہ ایسی بہتان تراشی ہے کہ کوئی ایسا شخص سرسری طور پر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہوگا وہ ہر گز اس سے متاثر نہیں ہوسکتا کہ یہ دن رات اور برف کو آگ کہنے کے مترادف ہے۔

عربی زبان میں دہشت گردی کو ’’ارھاب‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر مسلمان کو یقیناًاس بات کی تعلیم دی ہے کہ ان کے پاس ایسی طاقت موجود رہنی چاہئے کہ ان کے دشمنوں کو ظلم وجور کے ارتکاب کی ہمت نہ ہو اور وہ مرعوب رہیں، اس کو قرآن نے ’’قوت مرہبہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ’’ان کے لئے جس قدر ممکن ہوطاقت اور گھوڑے تیار کرکے رکھو، تاکہ تم اس کے ذریعہ اللہ اور اپنے دشمن اور دوسرے لوگ جنہیں تم نہیں جانتے لیکن اللہ انہیں جانتا ہے مرعوب رکھ سکو۔‘‘قرآن کے اس بیان سے واضح ہے کہ طاقت دشمنوں کو مرعوب رکھنے اور ان کوظلم وجور سے بازر کھنے کے لئے ہے نہ کہ بے قصور لوگوں کو نشانہ بنانے اور تباہی وبربادی پھیلانے کے لئے۔

قرآن کے احکام جہاد سے یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے کہ وہ بے قصور ، کسی بھی غیر مسلم پر حملہ کرنے اور اس کو ہلاک کردینے کی اجازت دیتا ہے ۔ اس کے لئے اس آیت کو پیش کیا جاتا ہے، جس میں کفار کو عمومی قتل کرنے کا حکم ہے۔ یہ محض غلط فہمی ہے، اس آیت کا تعلق مشرکین مکہ سے ہے۔ وہ مستقل طور پر مسلمانوں سے برسر پیکار تھے اور مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی صلح کوششوں کو قبول کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں تھے ، چنانچہ جو لوگ مسلمانوں سے برسر پیکار نہ ہوں اور جن لوگوں نے ان کو گھر سے بے گھر اور شہر سے شہر بدر نہیں کیا تھا، قرآن ان کے ساتھ حسن سلوک اور عدل واحسان کا حکم دیتا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:’’ اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک اور انصاف سے نہیں روکتا، جو تم سے دین کے معاملہ میں برسر پیکار نہیں ہیں اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا نہیں ہے، بیشک انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔

دہشت گردی میں بنیادی طور پر اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ اصل ظالم کون ہے؟ بلکہ اس کے متعلقین میں جو ہاتھ آجائے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسلام نے اس کو قطعاً غیر اصولی اور غیرانسانی حرکت قرار دیا ہے۔ قرآن نے قاعدہ مقرر کردیا ہے کہ ایک شخص کی غلطی کا بوجھ اور اس کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جاسکتی ، قرآن نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ (المائدہ:31) 

قرآن نے ان اسباب کو بھی روکنے کی کوشش کیا ہے جو دہشت گردی کا موجب بنتے ہیں ، زیادہ دہشت گردی کاسبب یہ بات ہوتی ہے کہ لوگ دوسروں کو جبراً اپنے مذہب و عقیدہ کا متبع بنانا چاہتے ہیں۔ عیسائیوں کی مذہبی تاریخ اس کی کھلی ہوئی مثال ہے۔ قرآن نے صاف اعلان کردیا کہ دین کے معاملہ میں جبرو اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے(البقرہ:256)اس لئے اس بات سے بھی منع کیا گیا کہ کوئی گروہ دوسروں کے مذہبی مقتدا اور پیشواؤں کو برا بھلا کہے کہ اس سے جذبات مشتعل ہوتے ہیں (الانعام 10)

کسی معاشرہ میں دہشت گردی کے پنپنے کا اصل سبب ظلم و ناانصافی ہے، جو گروہ مظلوم ہوتا ہے اگر وہ ظالم کا مقابلہ نہیں کرپاتا اور انصاف کے حصول سے محروم رہتا ہے تو اس میں انتقامی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جب وہ دیکھتا ہے کہ قانونی راستے بند ہیں تو غیر قانونی راستہ اختیار کرلیتا ہے اس لیے دہشت گردی کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ معاشرہ میں ظلم و جور کا دروازہ بند کیا جائے اور عدل و انصاف کو پوری غیر جانبداری کے ساتھ نافذ کیا جائے تاکہ دہشت گردی پر آمادہ کرنے والے عوامل باقی نہ رہیں، اس لئے قرآن کی بڑی تاکید کی ہے۔ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کاحکم دیتا ہے (الخل 90) قرآن نے تاکید کی ہے کہ کسی قوم سے عداوت بھی تم کو اس کے ساتھ ظلم و ناانصافی پر کمر بستہ نہ کردے اور جادۂ عدل سے ہٹانے نہ پائے۔(المائدہ:8)

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہایت شدت کے ساتھ دہشت گرد ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے حالانکہ خود مسلمان ملکی اور عالمی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں مسلمانوں کی حالت زارناقابل بیان ہے۔ مسلمان اگر اپنے ملک میں بھی خود اپنی خواہش اور مرضی سے اسلامی نظام حیات کو نافذ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو تہذیبی تصادم اور شدت پسندی کا نام دے کر مداخلت کی راہ ہموار کی جاتی ہے اور ان سے وہی کچھ کہا جاتا ہے جو انبیاء کی اقوام ان سے کہا کرتی تھیں جیسا کہ حضرت شیت ؑ اور ان کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کے سورۂ اعراف میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

تبصرے
Loading...