قرآن اور عورت

خون ریزی کرے گا جب کہ ہم تیری حمد و ثناء کی تسبیح اور پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔” (بقرہ ۳۰) پھر یہ سلسلہ تفاضل و تفاخر قابیل و ہابیل میں ہوا جب خدا وند قدوس نے ایک کی قربانی قبول فرمائی اور دوسرے کی رد کر دی۔ وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ م إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ۔ “اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں۔ جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہامیں ضرور تجھے قتل کر دوں گا (پہلے نے کہا ) اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے ۔” (مائدہ :27) یہ سلسلہ تفاضل و تفاخر یعنی ایک دوسرے پر فوقیت کا دعویٰ آج بھی موجود ہے ہر جگہ رائج ہے حالانکہ مرد اور عورت دونوں انسان ہیں، دونوں کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ “وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔” (موٴمن :67) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِیْنٍ ج ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَة ً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ “ضاور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا پھر ہم نے اسے محفوظ جگہ میں نطفہ بنا دیا۔” ( الموٴمنون :12.13) مرداور عورت خلقت کے لحاظ سے مساوی اور برابر ہیں، دونوں کی خلقت مٹی سے ہوئی، نطفہ سے پیدائش کے بعد تمام مراحل میں ایک جیسے ہیں پھر ذکر و انثیٰ یعنی مرد اور عورت کی پیدائش کے حوالے سے ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : یَاأَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۔ “اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ،پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔”(حجرات: 13) ہاں تو خلقت ایک جیسی، محل خلقت ایک جیسا ، اساس خلقت ایک ، اس کے باوجود تفاضل و تفاخر کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ آخر کیوں ؟ اسلام نے خواہ مرد سے مرد کا مقابلہ ہو یا عورت کا عورت سے تقابل ہو، یا مردا ور عورت کا آپس میں تفاخر ہو، ان سب میں برتری کا معیار صرف تقویٰ، خوف خدا اور عظمت ِرب کے احساس کو قرار دیا ہے ارشاد ہو رہا ہے: إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہ أَتْقَاکُمْ۔ “اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ” (حجرات :13) مرد اور عورت کے باہمی فخر و مباہات کا سلسلہ ایسا چلا کہ عورت کو بے چارا بنا دیا گیا۔ قبل از اسلام تو انسانیت کے دائرہ سے بھی خارج قرار دیا گیاتھا، یونانیوں میں عورت کا وجود ناپاک اور شیطانی تصور کیا جاتا تھا۔ عورت فقط خدمت اورنفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ تھی۔ رومی لوگ عورت کو روح انسانی سے خالی جانتے تھے وہ اسے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ساسانی بادشاہوں کے زمانے میں عورت کا شمار اشیاء خرید و فروخت میں ہوتا تھا، یہودیوں میں عورت کی گواہی نا قابل قبول تھی۔ زمانہ جاہلیت کے عرب تو بیٹی کی پیدائش کو اپنے لئے موجب ننگ و عار جانتے تھے۔ہندو اور پارسی ،عورت کو ہر خرابی کی جڑ ، فتنہ کی بنیاد اور حقیر ترین چیز شمار کرتے تھے۔ چین کے فلسفی (کونفوشیوس) کا قول ہے عورت حکم و احکام دینے کے قابل نہیں ہے ،عورت کو گھر میں بند رہنا چاہئے تاکہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔قبل از اسلام جزیرہ نما عرب میں عورت زندہ رہنے کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ بیٹی کی پیدائش ننگ و عار اور فضیحت و شرمساری کا موجب تھی ۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا اور ایسی عظمت دی جس کا تصور کسی غیر مسلم معاشرے میں ممکن نہیں ہے ۔ اسلام میں عورت کی عظمت کا کیا کہنا کہ جب بیٹی ملنے آتی تو علت غائی ممکنات ، انبیاء کے سرداربنفس نفیس تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاتے اور اپنی مسند پر بٹھاتے عظمت عورت کا ذریعہ جناب فاطمہ ہیں ۔ قبل از اسلام اہل عرب بیٹی کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے ۔جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے۔ وَاِذَا الْمَوْء دَةُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔ “اور جب زندہ در گور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ۔” (تکویر :9-8) یہ قبیح رسم اس قدر عام تھی کہ جب عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھودکر اسے وہاں بیٹھا دیا جاتا پھراگر نوزائیدہ لڑکی ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا ،اسی لئے اس دور کے شعراء میں ایک شاعر بڑے فخریہ انداز میں کہتا ہوا نظر آتا ہے: سمیتھا اذا ولدت تموت والقبر صہرضامن زمیت (مجمع البیان ج 10ص444) “میں نے اس نوزائدہ لڑکی کا نام اس کی پیدائش کے وقت تموت (مر جائے گی) رکھا اور قبر میرا داماد ہے، جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کر دیا۔” بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کی رسم بڑی دردناک ہے۔ ان واقعات کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اس نے (متأثر ہونے کے بعد سچا اسلام قبول کیا ) ایک آپ کی خدمت میں آ کر عرض کرنے لگا یا۔ رسول اللہ اگر میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا: “خد ا رحم الراحمین ہے ۔” اس نے عرض کیا یا رسول اللہ !میرا گناہ بہت بڑا ہے۔ فرمایا! وائے ہو تجھ پر تیرا گناہ کتنا ہی بڑا ہی کیوں نہ ہو خدا کی بخشش سے تو بڑا نہیں ؟۔ اس نے کہا !اگر یہ بات ہے تو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں زمانہ جاہلیت میں ،میں دور دراز سفر پر گیا ہوا تھا، ان دنوں میری بیوی حاملہ تھی چار سال بعد گھر لوٹاتو میری بیوی نے میرا ستقبال کیا ،گھر میں ایک بچی پر نظر پڑی، میں نے پوچھا یہ کس کی بیٹی ہے ؟ بیوی نے کہا !ایک ہمسائے کی بیٹی ہے۔ میں نے سوچا یہ ابھی اپنے گھر چلی جائے گی، لیکن مجھے اس وقت بہت تعجب ہوا جب وہ نہ گئی ،آخر کار مجھے پوچھنا ہی پڑا ،میں نے بیوی سے پوچھا ۔سچ بتایہ کس کی بیٹی ہے ؟ بیوی نے جواب دیا۔ آپ سفر پر تھے، یہ پیدا ہوئی، یہ تمہاری ہی بیٹی ہے۔ وہ شخص کہتا ہے۔ میں نے ساری رات پریشانی میں گزاری ،کبھی آنکھ لگتی اور کبھی بیدار ہو جاتا، صبح قریب تھی میں بستر سے اٹھا میں نے بچی کو ماں کے ساتھ سویا ہوا دیکھا ، بڑی خوبصورت لگ رہی تھی اسے جگایا اور کہا۔ میرے ساتھ چلو ہم نخلستان کی طرف چلے وہ میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی، جب ہم نخلستان میں پہنچے میں نے گڑھا کھودنا شروع کیا، وہ میری مدد کرتی رہی ،مٹی باہر پھینکتی رہی، میں نے اسے بغل کے نیچے سے ہاتھ رکھ کر اٹھایا اور اسے گڑھے میں پھینک دیا۔ یہ سننا تھا رسول اعظم کی آنکھیں بھر آئیں ۔ اس نے بات کو آگے بڑھایا، میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تاکہ وہ باہر نہ نکل سکے اور دائیں ہاتھ سے مٹی ڈالنے لگا اس نے بہت کوشش کی اور بڑی مظلومانہ انداز میں فریاد کرتی تھی اور بار بار کہتی تھی بابا جان! کچھ مٹی آپ کی داڑھی اور کپڑوں میں پڑ گئی ہے، وہ ہاتھ بڑھا کر اس مٹی کو صاف کرنے لگی ،لیکن میں پوری قساوت اور سنگدلی سے اس پر مٹی ڈالتا رہا، یہاں تک اس کے نالہ و فریاد کی آخری آواز آئی اور وہ خاک میں دم توڑ گئی۔ حضرت رسول اعظم نے دکھی حالت میں یہ داستان سنی، پریشانی ظاہر تھی۔اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے فرمایا: اگر رحمت خدا کو اس کے غضب پر سبقت نہ ہوتی تو حتمًاجتنا جلدی ہوتا خدا اس سے انتقام لیتا۔ (القرآن ،یواکب الدہر،ج 2ص 214) جزیرہ عرب کے کفار توہین کے انداز میں ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور فرشتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش پر ان کا چہرہ مارے غصہ کے سیاہ ہو جاتاہے جیسا کہ ارشاد خدا ندی ہے: أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنَاتٍ وَّأَصْفَاکُمْ بِالْبَنِیَنَ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَانِ مَثَلاً ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ أَوَمَنْ یُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَةِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ وَجَعَلُوا الْمَلاَئِکَةَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَانِ إِنَاثًا أَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ ۔ “کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے (اپنے لیے)بیٹیاں بنا لیں ہیں اور تمہیں بیٹے چن کردیئے حالانکہ ان میں سے جب کسی ایک کوبھی بیٹی کامثردہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدا ئے رحمان کی طرف منسوب کی تھی تواندر اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ کیا وہ جو ناز و نعم کے زیورمیں پلی ہے اور جھگڑے کے وقت (اپنا) مدعا بھی واضح نہیں کرسکتی۔ (اللہ کے حصہ میں آتی ہے؟) اورا ن لوگوں نے فرشتوں کو جو خدا کے بندے ہیں (خدا کی)بیٹیاں بنا ڈالا ۔ کیا وہ فرشتوں کی پیدائش کو کھڑے دیکھ رہے تھے؟ (زخرف،16تا19)

ہو سکتاہے کہ یہ خیال زمانہ جاہلیت کی خرافات سے عربوں تک پہنچا ہو لیکن عرب ظلم و جور میں بہت آگے بڑھ گئے وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ (زخرف،16تا19) ارشاد خدا وندی ہے: وَیَجْعَلُونَ لِلَّہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہ وَلَہُمْ مَّا یَشْتَہُوْنَ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثَی ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَّا بُشِّرَ بِہ أَیُمْسِکُہ عَلٰی ہُوْنٍ أَمْ یَدُسُّہ فِی التُّرَابِ أَلاَسَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ “اور انہوں نے اللہ کے لیے بیٹاں قرار دے رکھی ہیں جس سے وہ پاک و منزہ ہے اور یہ لوگ اپنے لیے وہ اختیار کرتے ہیں جو یہ پسند کریں یعنی لڑکے اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غصے کی وجہ سے ان کا منہ سیاہ ہوجاتاہے اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا انہیں اس ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دیا جائے یا انہیں زیر خاک دفن کردیا جائے۔دیکھو کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ ” ( سورہ نحل آیت 57-58-59 ) بہر حال اسلام سے قبل بیٹی( لڑکی) انسان ہی نہیں سمجھی جاتی تھی اور آج بھی بیٹے کی پیدائش پر خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں ، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں ،ہدیہ تبریک پیش کیا جاتاہے ۔

اوربیٹی کی پیدائش پر بس سردمہری ،سکوت اورخاموشی کا مظاہرہ ہوتا ہے آخر ایسا کیوں ہے؟

عرب کی بد قسمتی کے اسباب

نعمان ابن منذر کے زمانے میں جنگ کے بعد عورتیں (لڑکیاں) قید ہوئی تھیں، مصالحت کے بعد ہر چیز کی واپسی شروع ہو ئی تو بعض لڑکیاں واپس نہ آئیں۔ انہوں نے قبیلے میں آنے سے انکار کر دیا اور اپنے شوہروں کے پاس رہنے کو ترجیح دی یعنی جن کے پاس رہ رہی تھیں وہیں رہنا پسند کیا ۔ عرب پریشان ہوئے ایک تو قید ہونے کا خدشہ تھا دوسرا بیٹے کام کرتے ہیں،کمائی کرنے والے ہوتے ہیں اور بیٹیاں خرچ خرچ کرتی ہیں لہٰذا احتمال ہے کہ ان دو وجہوں سے یہ (زندہ درگور کرنے کی) قبیح رسم رواج پکڑگئی ہو ۔ اسلام نے جس طرح انسانیت کی عظمت کو اجاگر کیا اور انسان کو اس کے مکرم و محترم اشرف المخلوقات ہونے کی طرف متوجہ کیاہے ۔ اسی طرح عورت کونہ صرف مرد کی طرح مخلوق قرار دیا بلکہ انسانیت میں مکمل حصہ دار قراردیا۔ عورت کی بے چارگی کو دورکیا اور اس کی عزت و عظمت کو واضح کیا ہے ۔ مغربی لوگوں نے عورت کو کھلونا اور کاروبار کا ذریعہ اوراپنی خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ بنایا ،یہ آزادی نہیں بلکہ بدترین غلامی ہے ۔اسلام نے واضح کیا کہ (اے مرد)عورت بھی تیری ہی طرح انسان ہے ، تیری ہی طرح اشرف المخلوقات ہے۔ تیری ہی طرح مکرم اورمعزز مخلوق ہے بلکہ(اے مرد ) جب عورت ماں کا درجہ پاتی ہے تو تیری جنت کی ضامن بن جاتی ہے۔ اسی کے قدموں میں جنت ہے، اسی کی خدمت میں صلہ میں تو جنت کا حقداربنتاہے پس(اے مرد) تو انسانیت اختیار کراور عورت کو انسان سمجھ ۔اس کی عزت کر تاکہ تیری عزت ہو ۔ ارشاد خدا وندی ہے۔ یَاأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَاءً ج ” لوگو اپنے خدا سے ڈرو جس نے تمہیں ایک فرد سے پیدا کیا اور اسی(خمیر) سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد عورت (روئے زمین پر) پھیلائے۔”(نساء:1) مزیدارشاد ہے: ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْہَا۔ “وہی ہے جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے سکون حاصل کرے۔ “(اعراف :189) اسلام اور قرآن عورتوں کا مذاق اڑانے اور ان سے مسخرہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد خدا ندی ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَیَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یَّکُونُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلاَنِسَاءٌ مِّنْ نِّسَاءٍ عَسٰی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج “اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے مسخرہ نہ کرلے ہو سکتاہے وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اورنہ ہی عورتیں (یا مرد)عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ ( سورہ حجرات آیت 11) اے مومنون !قرآن ایک دوسرے کی عزت کا درس دیتاہے ایک دوسرے کا احترام اورعورتوں کی عزت ۔عورت مرد ہی کا حصہ ہے۔ مرد کی تخلیق سے بچی ہوئی خاک سے پیداہوتی ہے، مرد کی اولادکا ظرف ہے: مرد کی حصہ دار ہے، مرد کے سکون کا ذریعہ ۔اورمرد کی ساتھی ہے یہ مرد کا لباس ہے اور مرد اس کالبا س ہے۔ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّط “وہ تمہارے لیے لباس ہیں ا ور تم ان کے لیے لباس ہو”۔ ( سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۸۷) عورت کی بدقسمتی تذلیل کا ایک سبب یہ غلط تصور ہے کہ حضرت آدم ں کی مشکلات کی موجب جناب حوا ہیں۔ انہیں کی وجہ سے حضرت آدم ں جنت سے نکالے گئے ،انہیں کی وجہ سے در بدر اورپریشان حال ہوئے اور مصیبت میں پھنس گئے۔ اسرائیلی روایات سے قطع نظر اس نظریہ کی کوئی اساس نہیں ہے اور قرآن مجید کے مطالعہ سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ جنت میں عیش وآرام،جنت سے نکلنے اورشیطانی وسوسوں وغیرہ کاجب بھی ذکر ہوا ہے تو آدم و حوا دونوں کا تذکرہ ہو ہے حضرت آدم علیہ السلام مسجود ملائکہ قرار پائے ، فرشتوں کے ساتھ علمی مقابلہ میں غالب رہے۔ حضرت آدم علیہ السلام ہی کو الٰہی نمائندگی ملی لیکن جب جنت میں رہائش اخراج اور پریشانی کا ذکر ہوا تو کسی ایک جگہ بھی حضرت حوا کو مورد الزام نہیں ٹھہریا گیا اور جب بھی ذکر ہوا تو دونوں ہی کا ہوا۔ جیساکہ ارشاد خدا وندی ہے : وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنْ الظَّالِمِیْنَ ۔ “اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکون کے ساتھ قیا م کرو، جہاں سے چاہو کھاؤ لیکن ا س درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں سے ہوجاوٴ گے۔” (سورہ بقرہ آیت نمبر ۳۵) مزید ارشاد ہوا ہے: وَیَاآدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ فَکُلاَمِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَاتَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنْ الظَّالِمِیْنَ ۔ “اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ اس جنت میں سکونت اختیار کرو جہاں سے چاہو کھاؤ مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں(زیادتی کرنے والوں میں ) سے ہو جاؤگے ۔ ” ( سورہ اعراف آیت نمبر۱۹) ان آیات قرآنی میں آدم علیہ السلام و حوا دونوں کا ذکر ہواہے اور جب شیطانی وسوسہ کا تذکرہ ہوتو بھی دونوں کا ذکر کیا گیا ۔ ارشادِ خداو ندی ہے: فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْطَانُ عَنْہَا فَأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ “پس شیطان نے ان دونوں کو پھسلایا اورجس (نعمت) میں دونوں قیام پذیر تھے اس سے نکلوادیا۔ ( سورہ بقرہ ۳۶) نیز ارشاد ہے : فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطَانُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا ورِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْآتِہِمَا وَقَالَ مَا نَہَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ أَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ وَقَاسَمَہُمَا إِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ فَدَلاَّہُمَا بِغُرُوْرٍ۔ج “پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ اس طرف سے ان دونوں کے لیے پوشیدہ مقامات جو ان سے چھپائے گئے تھے ان کے لیے نمایاں ہوجائیں اور کہا تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا تھا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا زندہ جاوید نہ بن جاؤ ۔ ” (سورہ اعراف آیت نمبر ۲۰۔۲۱) ان قرآنی آیات میں شیطان کے وسوسے کاتعلق دونوں سے ہے اور اس طرح پھسلائے اوربہکائے جانے والے بھی آدم علیہ السلام حوا دونوں ہیں لہٰذا صرف حوا کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں ہے ۔ پھرجب جنت سے نکل جانے کاحکم ہو اتو دونوں ہی کو بلکہ شیطان کو بھی حکم دیا اورشیطان کی دشمنی کا تذکرہ بھی دونوں کے لیے ہوا۔ جیساکہ ارشادِ خداوندی ہے : قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا “ہم نے کہا تم سب یہاں سے نیچے اترجاؤ ۔ ” (سورہ بقرہ آیت نمبر۳۸) نیزارشاد خدا وندی ہے: قَالَ اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج وَلَکُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ إِلٰی حِیْنٍ ۔ “ایک دوسرے کے دشمن بن کے نیچے اتر جاؤ اور زمین پر ایک مدت تک تمہارا قیام و سامان ہوگا۔اللہ کی طرف سے یہ فرمان دونوں کے لیے آیا تھا۔” ( سورہ اعراف آیت نمبر۲۴) مزیدارشاد ہوا ہے: وَنَادَاہُمَا رَبُّہُمَا أَلَمْ أَنْہَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَّکُمَا إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ۔ “اور ان کے رب نے انہیں پکارا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت(کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں بتایا نہ تھاکہ شیطان یقینا تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ ( سورہ اعراف آیت نمبر۲۲) ارشاد خداو ندی ہے: فَقُلْنَا یَاآدَمُ إِنَّ ہَذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلاَیُخْرِجَنَّکُمَا مِنْ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰی ۔ “پھر ہم نے کہا اے آدم! یہ تم اور تمہاری زوجہ کا دشمن ہے کہیں یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم پر مصیبتیں نہ آپڑیں ۔” ( سورہ طہ ۔۱۲۲) قرآنی آیات کے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ درخت سے دونو ں کو منع کیا گیا تھا ۔وسو سہ شیطانی دونوں کے لیے تھا۔ جنت سے اترنادونوں کے لیے تھا۔شیطان کے دشمن ہونے کا تذکرہ دونوں کے لیے تھا۔بلکہ دشمنی کے سلسلہ میں خطاب بھی دونوں کوہوا۔ لہٰذا واضح ہوا کہ اس مسئلہ میں جنا ب حوا ہی تنہا قصور وار نہیں ہیں البتہ شوہر نامدار کی شریک کار ضرور ہیں۔ ایک آیت میں تو براہ راست صرف آدم علیہ السلام کیلئے ہی وسوسہ شیطانی کا ذکر ہوا ۔ جیساکہ ارشاد خدا وندی ہے: فَوَسْوَسَ إِلَیْہِ الشَّیْطَانُ قَالَ یَاآدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلیٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّایَبْلٰی “پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا آے آدم! کیا میں تمہیں اس ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں نہ بتاؤں ۔ ( سورہ طہ ۔۱۲۰) بہرحال بحسب الظاہر حضرت آدم علیہ السلام ہی کے لیے احکام تھے خدا کے فرامین انہیں کیلئے ہی تھے زحمت ودقت بھی ان کیلئے ہی تھی لباس کااترنا بھی انہی کے لیے تھا حضرت حوا بہ حیثیت زوجہ ان امورمیں مبتلا ہوئیں ۔ جیسا کہ ایک مقام پر خدا وند نے یہاں تک فرمایا ہے : وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہ عَزْمًا “اور تحقیق ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد لیا تھا لیکن وہ بھول گئے( ترک کر دیا ) ہم نے ان میں کوئی عزم نہیں پایا ۔ (سورہ طہ ۔۱۲۰) قرآن کاعظیم احسان ہے کہ اس نے عورت کی بے چارگی اورمظلومی کو اجاگرکیااوربتایاکہ حضرت حوا زوجہ ہونے کی وجہ سے شریک کار تھیں ۔خدا کے نمائندے آدم علیہ السلام پر ہی احکام کانزول ہوا اور انہی سے عہد لیا گیا تھا جو پورا نہ ہو سکا۔ کیوں؟ کیا اس کی وجہ سے عصمت میں فرق نہیں پڑے گا ۔ اس کا تذکرہ کسی مناسب مقام پر کریں گے۔ حضرت حوا ان معاملات میں مورد الزام نہیں ٹھہرتیں لہٰذا بے چاری عورت پر اشکال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ عورت بھی انسان ہے، عورت بھی مکلف ہے، مردوں کی طرح سے عورتیں بھی صالح ہیں اور عظمت عورت میں کوئی کلام نہیں ۔مرد کی طرح عورت بھی اشرف المخلوقات اور انسان ہے ۔ عورت مرد کے مساوی ہے فرق صرف فضیلت اور تقویٰ کی وجہ سے ہے ۔ مرد وعورت احکام میں برابر ہیں صرف خون کے مسائل میں عورت کے احکام جدا ہیں اور جہاد عورت سے ساقط… وگرنہ احکام میں مساوی ہیں۔ جز او سزا میں بھی مساوی ہیں ، اعزاز و اکرام اور اہانت و تذلیل میں مساوات ہے، خلقت و زندگی ایک ہے اور اساس زندگی بھی ایک ہی ہے ۔ پس جب معیارِ تفاضل بھی ایک جیساہے لہٰذا جزا وسزا بھی ایک جیسی ہی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے: وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُو۱لٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَایُظْلَمُونَ نَقِیرًا ۔ “اور جو نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوں تو لہٰذا( سب) جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔( سورہ نساء ۔۱۲۴ ) ارشاد خدا وندی ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیَاةً طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ “جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم انہیں ان کے اعمال کی بہترین جزا ضرور دیں گے۔( سورہ نحل ۔ ۹۷) بہرحال عورت و مرد اعمال اور جزا میں مساوی ہیں ہرکسی نے اپنا انجام خود بنانا ہے اورہر فرد اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو گا ۔ جیساکہ ارشاد خدا وندی ہے: وَلاَتَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ أُخْرٰی “کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ( سورہ بنی اسرائیل ۔۱۵) یہ تصور کہ مرد حاکم ہے ۔یہ انتظامی معاملہ ہے اورنظام کی درستگی کیلئے ہے ، جیسے مرد حاکم ہے اورکئی اشخاص اس کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ گھر کا سربراہ مرد ہے وگرنہ کوئی مرد ہے جو سیدہ سلام اللہ علیہا کے ہم پلہ ہو ؟ کوئی ہے جس کی کار گزاری اورجس کا کام ثانی زہراء جیساہو پس مساوات ہی مساوات ہے اور فضیلت کا معیار تقویٰ ہے ۔ بہر حال قرآن مجید کی رو سے مرد و زن کی خلقت کا طریق کار ایک ہے، معیار تفاضل و تفاخر ایک ہے اوروہ ہے عمل خیر ! جیساکہ ارشاد خدا وندی ہے: أَنِّی لَاأُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ “تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں ہو گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت کیونکہ تم ایک دوسرے کا حصہ ہو۔” ( سورہ آل عمران ۔۱۹۵) مرد عورت دونوں کی اہمیت ہے اور دونوں کا عمل وزنی ، معتبر اور قابل اعتبار ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کا حصہ ہیں تو پھرفوقیت اور چودھراہٹ کیسی ؟ نظام خانوادگی میں ایک ہیں، نظام تناسل میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، سکون حاصل کرنے میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔دونوں ایک ہیں اورمن تو شدم تو من شدی کے مصداق ہیں۔ جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے: وَمَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ اَ وَ اُنْثیٰ وَھُوْ مَوٴْمِنٌ فَاوٴُلٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ ” اورجو نیکی کرے گا مرد ہو یا عورت اوروہ صاحب ایمان بھی ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جس میں انہیں بے شمار رزق ملے گا ۔ ( سورہ مومن ۔۴۰) درحقیقت بعضکم من بعض فرما کر یہ واضح کردیا گیا کہ زندگی کی َضروریات اور تدبیر امور میں دونوں برابر ہیں اور ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ دونوں (مرد عورت) ایک جیسے ہیں ،اس کے علاوہ عورت کودو امتیازی صفات دی گئیں ہیں۔ ۱۔ عورت کی وجہ سے نوع انسان کی بقا و ارتقا ء ۲۔ عورت واجد لطاقت و حساسیت ہے جس کی معاشرہ میں اہمیت ہے اور پھردنیاو آخر کے سب امور میں اشتراک ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہ بِہ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَط وَاسْأَلُوا اللہ مِنْ فَضْلِہ ط اِنَّ کَانَّ اللہ کَانَ بِکُلِّ شَیْیءٍ عَلِیْمًا۔ “اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی اسکی تمنا نہ کیا کرو، مردوں کو اپنی کمائی کا صلہ اور عورتوں کو اپنی کمائی کا صلہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل وکرم مانگتے رہو حقیقتاً اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتاہے۔” (سورہ نساء ۔ ۳۲) بحسب الظاہر دنیاکا کام نظرآرہا ہے لیکن آیت میں عمومیت ہے ۔ دنیا وآخرت کا کام جو بھی کرے گا ۔ جس قدر کرے گا ۔ جس خلوص و محنت سے کرے گا ۔ اسی قدر نتیجہ اورثمر حاصل کرے گا ۔(خواہ وہ مرد ہو یا عورت ) اے انسان مومن توتکبر سے باز آ۔ غرور نہ کر ۔ خود کو کسی سے برتر بہتر نہ سمجھ ۔ تیرے گھر میں مزدوری کرنے والا، اللہ کے نزدیک تجھ سے زیادہ عزت والا ہو ہوسکتا ہے ۔ 

یہ بھی ممکن ہے کہ تیری زوجہ عمل و کردار میں تجھ سے زیادہ بہتر ہو پس معیار فضیلت تقوی ٰ ہے۔

قرآن مجید میں بعض عورتوں کا تذکرہ

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ،ام البشر جناب حوا ، آدم علیہ السلام کی(تخلیق سے) بچی ہوئی مٹی سے پیدا ہوئیں۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجُھَا ۔ “اوراس کا جوڑا اسی کی جنس سے پیدا کیا۔” (نساء:۱) وَمِنْ آیَاتِہ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا ۔ “اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہیں سے پیدا کیا تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو۔” (روم:۲۱) وَاللہ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا۔ “اللہ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں۔” (نحل:۷۲) تمہاری ہی مٹی سے پیدا ہونے والی عورت تمہاری طرح کی انسان ہے، جب ماں باپ ایک ہیں تو پھر خیالی اور وہمی امتیاز و افتخار کیوں؟ اکثر آیات میں آدم اور حوا اکٹھے مذکور ہوئے ہیں ،پریشانی کے اسباب کے تذکرہ میں بھی دونوں کا ذکر باہم ہوا ہے۔دو آیات میں صرف آدم کا ذکر کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اے انسان کسی معاملہ میں حوا کو مورد الزام نہ ٹھہرانا ،وہ تو شریک سفر اور شریک زوج تھی۔ وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہ عَزْمًا ۔ “اور ہم نے پہلے ہی آدم سے عہد لے لیا تھا لیکن وہ اس میں پر عزم نہ رہے۔” (طہ:۱۱۵) قَالَ یَاآدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی ۔ “ابلیس نے کہا اے آدم! کیا میں تمہیں اس ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں نہ بتاؤں۔ (طہٰ:۱۲۵) آپ لوگوں نے ملاحظہ کیا کہ ان آیات میں حضرت حوا شریک نہیں ہیں اور تمام امور کی نسبت حضرت آدم ہی کی طرف ہے۔ (۲)زوجہ حضرت نوح علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام پہلے نبی ہیں جو شریعت لے کر آئے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحًا وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ۔ “اللہ نے تمہارے دین کا دستور معین کیا جس کا نوح کو حکم دیا گیا اور جس کی آپ کی طرف وحی کی ۔”(شوریٰ :۱۳) حضرت نوح علیہ السلام نے ۹۵۰سال تبلیغ کی ۔ارشاد رب العزت ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوْحًا إِلٰی قَوْمِہ فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِیْنَ عَامًا “بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کے درمیان ۵۰سال کم ایک ہزار سال رہے۔” (عنکبوت:۱۴) حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم ہوا ۔ وَاصْنَع الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ۔ “اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی بنائیں اور حکم ہوا کہ اللہ کے حکم سے کشتی کو بناؤ۔”(ہود:۳۷) وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْہَا بِاِسْمِ اللہ مَجْرَاًہَا وَمُرْسَاہَاط إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَحِیْمٌ وَہِیَ تَجْرِیْ بِہِمْ فِیْ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ ۔ “اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہو جاوٴ اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے بتحقیق میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی ۔ (ہود:۴۲۔۴۱) حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے کشتی میں سوار ہونے کیلئے کہا اس نے (اور زوجہ نوح نے ) انکار کیا اور کہا میں پہاڑ پر چڑھ جاوٴں گا اور محفوظ رہوں گا۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا وَلاَتَکُنْ مَّعَ الْکَافِرِیْنَ قَالَ سَآوِیْ إِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَاءِ ط قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللہ إِلاَّ مَنْ رَّحِمَ وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ۔ “نوح نے اپنے بیٹے سے کہا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو اس نے کہا میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا ۔ نوح ۔ نے کہا آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا ۔ (ہود:۴۳۔۴۲) اور کشتی کوہ جودی پر پہنچ کر ٹہر گئی ۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: وَقِیْلَ یَاأَرْضُ ابْلَعِیْ مَائَکِ وَیَاسَمَاءُ أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَاءُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ۔ “اور کہا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا ۔ اور پانی خشک کر ہو گیا اور کام تمام ہوگیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور ظالموں پر نفرین ہو گئی ۔ (ہود :۴۴) کشتی ہی بچاؤ کا واحد کا ذریعہ تھی۔ قرآن مجید نے حضرت نوح ۔کی زوجہ کو خیانت کار قرا دیا ہے نبی کی بیوی ہونے کے با وجود جہنم کی مستحق بن گئی ۔ ارشاد رب العزت ہے : ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوْحٍ وَّامْرَأَةَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ “خدا نے کفر اختیا رکرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ ان کو میں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور ان کیلئے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہو جاؤ۔(تحریم :۱۰) اپنا عمل ہی کامیابی کا ضامن ہے رشتہ داری حتی نبی کا بیٹا ہونا کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا ۔ (۳)زوجہ حضرت لوط حضرت لوط ،حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے ان کی قوم سب کے سامنے کھلم کھلا برائی میں مشغول رہتی ۔ لواطت ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ پتھروں کی بارش سے انہیں تباہ کر دیا گیا ۔حضرت لوط۔کی زوجہ بھی تباہ ہونے والوں میں سے تھی جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے : وَلُوْطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِہ أَتَأْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ أَئِنَّکُمْ لَتَأْ تُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِّنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہ إِلاَّ أَنْ قَالُوْا أَخْرِجُوْا آلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ إِنَّہُمْ أُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ فَأَنْجَیْنَاہُ وَأَہْلَہ إِلاَّ امْرَأَتَہ قَدَّرْنَاہَا مِنَ الْغَابِرِیْنَ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ “اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم آنکھیں رکھتے ہوئے بدکاری کا ارتکاب کر رہے ہو کیا تم لوگ شہوت کی وجہ سے مردوں سے تعلق پیدا کر رہے ہو اور عورتوں کو چھوڑے جا رہے ہو در حقیقت تم بالکل جاہل لوگ ہو ۔ تو ان کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ لوط کے خاندان کو اپنی بستی سے باہر نکال دو کہ یہ لوگ بہت پاک باز بن رہے ہیں تو لوط اور ان کے خاندان والوں کو بھی (زوجہ کے علاوہ) نجات دے دی اس (زوجہ) کو ہم نے پیچھے رہ جانے والوں میں قرار دیا تھا اور ہم نے ان پر عجیب قسم کی بارش کر دی کہ جس سے ان لوگوں کو ڈرایا گیاتھا ان پر(پتھروں) کی بارش بہت بری طرح برسی ۔ ” (نمل، ۵۴ تا ۵۵) 

حضرت لوط کی زوجہ خیانت کار نکلی اور عذاب میں مبتلا ہوئی جیسا کہ حضرت نوح ۔کی زوجہ کا حا ل ہوا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے ۔ ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوْحٍ وَّاِمْرَأَةَ لُوْطٍ “خدا نے کفر اختیا رکرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے۔” (تحریم :۱۰) زوجہ نوح کی طرح زوجہ لوط بھی ہلاک ہو گئی ۔ (۴)زوجہ حضرت ابراہیم – حضرت ابراہیم خلیل اللہ عظیم شخصیت کے مالک ہیں انہیں جد ّالانبیاء سے تعبیر کیا گیا ہے اورتمام ادیان ان کی عظمت پر متفق ہیں۔ حضرت ابراہیم کی قوم بت پرست تھی دلائل و براہین کے ساتھ انہیں سمجھایا پھر ان کے بتوں کو توڑا توبت شکن کہلائے ۔ ان کو آگ میں ڈالا گیا تو وہ گلزار بن گئی۔ خواب کی بنا پربیٹے کو ذبح کرنا چاہا تو اس کا فدیہ ذبح عظیم فدیہ کہلایا ۔ ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیرکی اور مکہ کی سر زمین کو آباد کیا ۔ ہمارا دین ،دین ابراہیم سے موسوم ہوا ۔ ان کی بت شکنی کے متعلق ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : وَتَاللہ لَأَکِیْدَنَّ أَصْنَامَکُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِینَ فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا إِلاَّ کَبِیْرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ قَالُوْا أَنْتَ فَعَلْتَ ہَذَا بِآلِہَتِنَا یَاإِبْرَاہِیْمُ قَالَ بَلْ فَعَلَہ کَبِیْرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوْہُمْ إِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ۔ فَرَجَعُوْا إِلٰی أَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْا إِنَّکُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُوُنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئُوْسِہِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰؤُلَاءِ یَنْطِقُوْنَ۔ “اور اللہ کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی ضرور تدبیرسوچوں گا چنانچہ حضرت ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت ) کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔ (انبیاء ۵۷ں۵۸) کہا اے ابراہیم !کیاہمارے ان بتوں کا یہ حال تم نے کیا ہے؟ ابراہیم نے کہا بلکہ ان کے اس بڑے (بت) نے ایسا کیا ہے تم ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں ( یہ سن کر) وہ ضمیر کی طرف پلٹے او ر دل ہی دل میں کہنے لگے حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو پھر انہوں نے اپنے سروں کو جھکا دیا اور (ابراہیم سے) کہا تم جانتے ہو کہ یہ نہیں بولتے ۔ (انبیاء۔۶۲تا۶۵) نمردو کے حکم سے اتنیآگ روشن کی گئی کہ اس کے اوپر سے پرندہ نہیں گزر سکتا تھا۔پھر ابراہیم کو گوپھن میں رکھ کرآگ میں ڈال دیاگیا۔ مزید ارشاد فرمایا: قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا آلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ قُلْنَا یَانَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ ۔ “وہ کہنے لگے اگر تم کو کچھ کر نا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداوٴں کی نصرت کرو ۔ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کیلئے سلامتی بن جا ۔” (انبیاء :68-69) ابراہیم و نمرود کا مباحثہ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَاجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رَبِّہ أَنْ آتَاہُ اللہ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّی الَّذِیْ یُحْیِی وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیی وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِنَّ اللہ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللہ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ۔ “کیا تم نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بناء پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا زندگی او رموت دینا میرے اختیار میں بھی ہے ابراہیم نے کہا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا! یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہوکر رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔” (بقرہ:۲۵۸) حضرت ابراہیم اسماعیل اور ہاجرہ کو مکہ چھوڑ آئے تو ارشاد فرمایا : رَبَّنَا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ۔ “اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایاہے۔” (ابراہیم:۳۷) خواب کی وجہ سے اسماعیل کا ذبح ارشاد رب العزت ہے: قَالَ یَابُنَیَّ إِنِّیْ أَرٰی فِی الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللہ مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَّاإِبْرَاہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ ” ابراہیم نے کہااے بیٹا !میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے اسماعیل نے کہا اے ابا جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گے۔پس جب دونوں نے حکم خدا کو تسلیم کیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم !تو نے خواب کو سچ کر دکھایاہے۔بیشک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں ۔یقینا یہ بڑا سخت امتحان تھا۔ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔

تبصرے
Loading...