قارئین کرام ! ائمہ (ع)کی امامت کو دو طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ھے

قارئین کرام !  ائمہ  (ع)کی امامت کو دو طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ھے:

پھلا طریقہ:

ان احادیث کے ذریعہ جن کی تعداد بہت زیادہ اور بہت مشهور ھیں جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:

”انتما الامامان ولامکما الشفاعة “ [47]

(تم دونوں امام هو اور دونوں شفاعت کرنے والے هو)

اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

”ہذا امام ، ابن امام اخو امام، ابو الائمة “[48]

(یہ خود بھی امام ھیں اور امام کے بیٹے ، امام کے بھائی او رنو اماموںکے باپ ھیں)

اور اس طرح بہت سی روایات موجود ھیں جن سے کتب حدیث وتاریخ بھری پڑی ھیں اور ان میں امامت کی بحث تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھے۔

دوسرا طریقہ:

گذشتہ امام کے ذریعہ آنے والے امام کا بیان، اورچونکہ گذشتہ امام کا بیان ،حجت اور دلیل هوتاھے اور اس پر یقین رکھناضروری ھے جبکہ ھم گذشتہ امام کی امامت پر ایمان رکھتے ھیں اور ان کو صادق اور امین جانتے ھیں۔[49]

اب رھا ائمہ  (ع) کا بارہ هونا نہ کم نہ زیادہ تو اس سلسلہ میں بھی بہت سی روایات موجود ھیں[50] اور ھمارے لئے یھی کافی ھے کہ اس مشهور ومعروف حدیث نبوی کو مشهور ومعروف شیوخ نے بیان کیا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ارشاد فرمایا:”لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش“ [51]

 (دین اسلام قیامت تک باقی رھے گا او رتمھارے بارہ خلیفہ هوں گے جو سب کے سب قریش سے هوں گے)

ایک دوسری حدیث میں اس طرح ھے:

”ان ہذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیہ اثنا عشر“[52]

(بتحقیق یہ امر (دین) ختم نھیں هوگا یھاں تک کہ اس میں بارہ (خلیفہ) هوں گے)

اور اگر ھم اس حدیث شریف میں غور وفکر کریں (جبکہ اس حدیث کو تمام مسلمانوںنے صحیح مانا ھے) تو یہ حدیث دو چیزوں کی طرف واضح اشارہ کررھی ھے:

۱۔دین کا قیامت تک باقی رہنا۔

۲۔قیامت تک فقط بارہ خلیفہ ھی هوں گے جو اسلام ومسلمانوں کے امور کے ذمہ دار هوں گے۔

اور یہ بات واضح ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا بارہ خلیفہ سے وہ حکّام مراد نھیں ھیں جو شروع کی چار صدیوں میں هوئے ھیں کیونکہ ان کی تعداد بارہ کے کئی برابر ھے اور ان میں سے اکثر کتاب وسنت رسول کے تابع نھیں تھے لہٰذا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے حقیقی خلیفہ نھیں هوسکتے۔

تو پھر انکے علاوہ هونے چاہئیں،اور وہ حضرت علی (ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی نھیں، یہ وہ ائمہ ھیں جن سے لوگ محبت کیا کرتے تھے او ران کا اکرام کیا کرتے تھے اور انھیں سے اپنے دینی احکام حاصل کیا کرتے تھے، نیز اپنی فقھی مشکلات میں انھیں کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب بھی کوئی مشکل پڑتی تھی اس کے حل کے لئے انھیں ائمہ(ع)  کے پاس جایا کرتے تھے۔

اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں احادیث نبوی اور ان کے عدد کے بارے میں مزید اطلاع حاصل کرنا چاھے تو اس کو چاہئے کہ مخصوص مفصل کتابوں کا مطالعہ کرے۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی رحمة اللہ علیہ، عبقات الانوار سید حامد حسین طاب ثراہ وغیرہ)

حضرات ائمہ علیھم السلام

سلسلہ بحث کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ھے کہ ھم مختصر طور پر ائمہ  (ع) کے اسماء گرامی اور ان کے زمانہ کے مختصر حالات بیان کریں نیز مختصر طور پر ان کی چھوڑی هوئی میراث کے بارے میں بھی ذکر کریں او رخود ان حضرات کی مختصر طورپر سوانح حیات بیان کریں، ان تمام باتوں میں ھم اختصار کا پورا خیال رکھےں گے تاکہ ھماری کتاب بہت زیادہ ضخیم نہ هوجائے۔

اور ھماری ساری امید خداوندعالم کی ذات پر ھے کیونکہ وھی مدد کرنے والا ھے تاکہ ھم ائمہ  (ع) کی سوانح حیات کو تحریر کرسکیں اور ھر امام کے حالات بیان کریں تاکہ آج کا ھمارا زمانہ ان کی رھبری وقیادت اور ان کی چھوڑی هوئی میراث کو پہچان لے، چنانچہ انھوں نے زمانہ کے لئے ایسی ایسی میراث چھوڑی ھیں جو عالم بشریت کے لئے بہت عظیم سرمایہ اور مایہ سرفرازی وباعث عزت ھے۔

خداوندعالم ھماری مدد ونصرت فرمائے(آمین)

پھلے امام :  حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام

حضرت علی (ع)کا مشهور لقب ”امیر المومنین“ ھے آپ کو اس لقب سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے سرفراز فرمایا تھا۔[53]

آپ کی ولادت باسعادت مکہ معظمہ اورخانہ کعبہ میں ۱۳/رجب المرجب   ۳۰ عام الفیل کو هوئی۔[54]

آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بچپن ھی سے اپنے پاس رکھا تاکہ آپ کے چچا ابوطالب پر کچھ بوجھ کم هوجائے، چنانچہ خداوندعالم نے یہ چاھا کہ آپ کی تربیت اس کا محبوب رسول کرے اور ھر طرح کی مشکلات ومصائب سے محفوظ رکھے۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلممبعوث بہ رسالت هوئے تو سب سے پھلے حضرت علی علیہ السلام نے اظھار اسلام کیا۔[55]

اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تو اسی موقع پر آپ کی وزارت ، وصایت اور خلافت کے بارے میںواضح بیان دیا (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ھے) اور جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شبیہ بن کر آپ کے بستر پر سورھے تاکہ قریش یہ سمجھیں کہ ”محمد“(ص) ابھی بستر پر سورھے ھیں۔

 اور مدینہ منورہ ہجرت کے بعد آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں شرکت کی اور ھر جنگ میں پرچم اسلام آپ(ع) ھی کے ھاتھوں میں رھا، اور آپ(ع) ھر جنگ میں(سوائے جنگ تبوک کے)نبی کے ساتھ  ساتھ رھے ، چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کو اسلام کی دار السلطنت میں احتمالی خطرے کی بنا پر مدینہ میں چھوڑدیا تھا (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ھے)

خداوندعالم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کی تکریم کی خاطر رسول اللہ کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے شادی کی۔[56]

اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنی آخری عمر میں آپ کو امامت کے لئے منصوب کیا جیسا کہ حدیث غدیر میں گذر چکا ھے۔

اور چونکہ وفات نبی  کے بعد آپ کی زندگی میں بہت سے حادثات رونما هوئے لیکن آپ(ع) نے اپنی کوشش اور وعظ ونصیحت کو جار ی رکھا تاکہ ہدف اسلام آگے بڑھتا رھے اور اس مقدس راہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رھے، اور مشکل حالات کو برداشت کرتے رھے۔اور جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کو خلافت قبول کرانا چاھاتو چنانچہ آپ نے کراہةً قبول کرلی لیکن اسی مناسبت سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

”اگر حاضرین کی بھیڑ جمع هوکر میرے پاس نہ آتی او ریہ ثابت هوجاتا کہ ھمارے ناصر ومددگار موجود ھیں او راگر علماء سے خدا کا عہد وپیمان نہ هوتا کہ ظالم سے دشمنی اور مظلوم سے ھمدردی کریں تو پھر میں اس خلافت کی مھار کو اس کے سوار پر ڈال دیتا اور اس کے دوسرے کو پھلے والے کے کاسہ سے سیراب کردیتا، کیونکہ میں نے اس دنیاکو بکری کے ناک سے بہتے گندے پانی سے بھی پست پایا“۔(خطبہ شقشقیہ)

آپ کی خلافت کے دوران ناکثین (اھل جمل) قاسطین (تابع معاویہ) اورمارقین (خوارج) سے جنگ هوئی ۔[57]

آپ کی شھادت، مظلومانہ طریقہ سے شب ۲۱ / رمضان المبارک   ۴۰ھ [58]کو کوفہ میں هوئی اور آپ کو کوفہ سے باھر ”نجف“ میں دفن کردیا گیا۔

دوسرے امام :  حضرت حسن بن علی علیہ السلام

آپ کے دو مشهور ومعروف لقب ”مجتبیٰ “ او ر”زکی“ تھے۔

آپ کی ولادت باسعادت شب ۱۵/ رمضان المبارک تین ہجری کو مدینہ منورہ میں هوئی۔

آپ کی تربیت آغوش پیغمبر  اور قرآنی ماحول میں هوئی۔

آپ امام ہدیٰ [59] وسیدی شباب اھل الجنة [60]میں سے ایک ھیں آپ کی ذات ان دومیں سے ایک ھے جن کے ذریعہ ذریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمباقی ھے، آپ ھی ان چار حضرات میں سے ایک ھیں جن کے ذریعہ رسول اسلام نے نصاری نجران سے مباھلہ کیا او رآپ ھی پنجتن پاک کی ایک فرد ھیں جن کی شان میں آیہ تطھیر نازل هوئی۔

آپ نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ سات سال زندگی گذاری اور اس کے بعد اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ تمام مشکلات ومصائب میں شریک رھے اور جب حضرت علی علیہ السلام کی وفات هوئی تو خلافت آپ کے قدموں میں آگئی اور معاویہ اور شام کے رہنے والوں کے علاوہ پورے عالم اسلام نے آپ کی بیعت کی، آپ نے دین کی خاطر اپنے لشکر کو معاویہ اور اس کے لشکر سے مقابلہ کے لئے بھیجا لیکن اس کے بعد آپ کو مشهور ومعروف صلح کرنی پڑی آپ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پھلے ھی ارشاد فرمادیا تھا:

” ان ہذا سید یصلح اللّٰہ علی یدیہ بین فئتین عظیمتین“[61]

(یہ میرا بیٹا سید وسردار ھے خداوندعالم اس کے ھاتھوں پر دو عظیم گروہ کی صلح کرائے گا)

قارئین کرام !   صلح امام حسن علیہ السلام کی تفصیل یعنی اس موقع کے حالات کیا تھے امام علیہ السلام نے کس طرح ان حالات کا مقابلہ کیا،صلح کا مقصد کیا تھا ، اس صلح کے کیا کیا بند تھے، شرطیں کیاکیا تھیں، کیا معاویہ نے ان شرائط کو پورا کیا؟ ان تمام چیزوں کو اس کتاب کی ضخامت کے پیش نظر بیان نھیں کیا جاسکتا او رجو شخص ان تمام چیزوں کی تفصیل جاننا چاھے تووہ ”صلح الحسن“نامی کتاب کا مطالعہ کرے، کیونکہ مذکورہ کتاب میں مکمل طریقہ سے بحث کی گئی ھے اور اس کتاب کے متعدد ایڈیشن بھی چھپ چکے ھیں۔

بعض معترضین نے امام حسن علیہ السلام پر یہ بھی اعتراض کیا کہ آپ کی کئی بیویا ںتھیں یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کی بیویوں کی تعداد ۳۰۰ سے ۹۰۰کے درمیان تھی۔[62]

لیکن تاریخ کی تحقیق سے یہ اعتراض بے جا ثابت هوتا ھے اور یہ بات واضح هوتی ھے کہ آپ کی سات یا آٹھ بیویاں تھیں۔[63] جیسا کہ یہ بات بھی کشف هوجاتی ھے کہ آپ (ع)پنے اپنی تین بیویوں کو طلاق بھی دی ھے۔[64]

چنانچہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی صاحب نے آپ کے مسئلہ تعدد ازواج کے بارے میں حاشیہ لگایا اور کھا:

”آپ کا تعدد ازواج سے شاید مقصد یہ رھا هو کہ مختلف قبائل سے آپ کے سسرالی رشتہ داری هوجائےں کیونکہ (ابن خلدون کے قول کے مطابق) حاکم وقت اپنی رشتہ داری اورخاندان کے بل بوتہ پر حکومت کرتاتھا یھی وجہ ھے کہ تمام بنی امیہ نے اس کی حکومت کی طرف داری کی، (اور اس کی حمایت میں حکومت شام کے مخالفین کا قتل وغارت کیا)

چنانچہ امام حسن علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ آپ کی اولاد کو قتل کیا جارھا ھے اور آپ کی نسل کو ختم کرنا چاہتے ھیں تو آپ نے کثرت ازواج اور کثرت نسل کے علاوہ کوئی چارہ کار نھیں دیکھا۔[65]

آپ کو (معاویہ کے حکم سے) زھر دیا گیا او رآپ مدینہ منورہ میں ۲۸/ صفر سن پچاس ہجری [66] کو شھید کئے گئے اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔

تبصرے
Loading...