فھم قرآن كی روش سے آشنائی

وحی كے پیغام كی حصول یابی اس طریقے سے كہ قرآن كے قصص، اس كی تشبیھات، مواعظ و نصائح، وصایا، وعدے و وعید كے درمیان سے انسانی سماج كے درد و الم اور افراد كی ضروریات كو درك كرسكے، اس كے لئے ایك خاص روش كی ضرورت ھے، ایك طرف سے قرآن كے صاف و شفاف اور خالص ( مطالب ) نئی تاویلوں كا شكار نہ ھوں ۔ دوسری طرف زمانۂ نزول كے قدیم حوادث آج كی ترقی یافتہ پیچیدگیوں سے پیچھے نہ رہ جائیں ۔

فھم قرآن كی اس روش اور اصول كی جستجو كے سلسلہ میں ھم نے ایك انٹرویو عظیم استاد اور قرآنی مفكر جناب حجت الاسلام آقائی محمد باقر حجتی سے لیا ھے  

قرآن مجید نے بعض آیتوں میں اپنے كو مبین كے عنوان سے معرفی كی ھے ۔ ” تِلْكَ آیَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِینِ ” ۔ (قصص/ ۲) یہ بیان كر نے والی كتاب كی آیتیں ھیں ،

اور عملی میدان میں بھی اس كے مخاطبین پھلے دور میں اپنی سعی و كوشش كے مطابق اس سے مستفید ھوتے تھے ۔ اور اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی كی كیفیت كو منظم كرنے كے لئے اس سے متمسك ھوتے تھے، اگر چہ اس دور اور اس كے بعد زمانے میں كچھ لوگوں نے انسانوں كو فھم قرآن سے متعلق بالكل مجبور معرفی كرتے اور بتاتے تھے ۔ یا قرآن كے كلام اور اس كی زبان كو ما فوق بشر زبان سمجھتے تھے ۔ قرآن كی بہ نسبت اپنی اس ( كھوكھلی ) تعظیم كے ذریعہ انھوں نے اس كتابِ حیات كو تاثیر گزاری كے میدان سے خارج كردیا تھا ۔

وحی كے پیغام كی حصول یابی اس طریقے سے كہ قرآن كے قصص، اس كی تشبیھات، مواعظ و نصائح، وصایا، وعدے و وعید كے درمیان سے انسانی سماج كے درد و الم اور افراد كی ضروریات كو درك كرسكے، اس كے لئے ایك خاص روش كی ضرورت ھے، ایك طرف سے قرآن كے صاف و شفاف اور خالص ( مطالب ) نئی تاویلوں كا شكار نہ ھوں ۔ دوسری طرف زمانۂ نزول كے قدیم حوادث آج كی ترقی یافتہ پیچیدگیوں سے پیچھے نہ رہ جائیں ۔

فھم قرآن كی اس روش اور اصول كی جستجو كے سلسلہ میں ھم نے ایك انٹرویو عظیم استاد اور قرآنی مفكر جناب حجت الاسلام آقائی محمد باقر حجتی سے لیا ھے، ( كہ جنھوں نے گزشتہ سالوں میں علوم اور معارف قرآنی كی تدریس و تالیف میں بڑی خدمتیں انجام دیں ھیں ۔) ھم اس انٹرویو كو قارئین محترم كی خدمت میں پیش كیا جارھا ھے ۔

اس انٹرویو میں شركت كی بناپر جناب عالی كا شكریہ ادا كرتے ھیں، ذرا فھم قرآن كے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں،آپ كی بڑی مھربانی ھوگی۔ اور بنیادی طورپر روشِ فھم قرآن مجید كے لئے كن مراحل كو طے كرنا چاھئے ؟

قرآن كریم تاریخِ بشریت میں تمام كتابوں كے درمیان چند اعتبار سے بے مثال و بے نظیر ھے ۔ پھلے یہ كہ وہ خدائی پیغام كی آخری كتاب ھے ۔ تاریخ میں اس پیغام كے بعد كسی دوسرے پیغام كا خدا كی طرف سے دوسرے پیغمبر كے ذریعہ آنے كا ھمیں پتہ نھیں ملتا ۔ كہ جو آسمانی كتاب بھی ركھتا ھو اور پیغمبر جو لوگوں كی طرف خدا كی جانب سے ( ھدایت كے لئے ) بھیجا گیا ھو ۔

دوسرے یہ كہ قرآن كریم ھوبھو اور مكمل طورپر خدا كا كلام ھے ۔ اور خدا كا بنایا ھوا ھے ۔ جیسے عالم طبیعت كی دوسری موجودات ھیں اور یہ ایك ایسی موجود ھے كہ انسان جس كا مثل لانے كے لئے زور آزمائی بھی كرے تو اس كا مثل نھیں لاسكتا ھے، كیونكہ بشر اس جیسے كلام كو وجود نھیں دے سكتا ھے ۔

قرآن تمام نصوص ( كتابوں ) اور متون كے درمیان تنھا وہ نص ( كتاب ) ھے، جو ھر تحریف اور ترمیم سے محفوظ ھے ۔

یہ تین خصوصیت صرف قرآن سے مخصوص ھے ۔ یعنی اگر ھم ایك آسمانی یا غیر آسمانی تاریخی نص كا پتہ لگائیں تو اس میں ضرور تحریف اور ترمیم پائیں گے ۔ وہ كلام مرور زمانہ كی وجہ سے تحریف و ترمیم سے محفوظ نہ رہ سكا، اپنے اور بیگانوں كے اعتراف كے مطابق یعنی مسلمان اور غیر مسلمان دونوں نے ( اعتراف كیا ھے ) كہ یہ مسلمانوں كی آسمانی كتاب اور آسمانی نص تمام نصوص كے درمیان اس اعتبار سے یعنی اس كا ( تحریف سے ) محفوظ رھنا بے مثال ھے اور بھت سے روشن فكروں نے بھی اس بارے میں اعتراف كی زبان كھولی ھے ۔ ان تین خصوصیت كو مدّ نظر ركھتے ھوئے، سرسری طور سے اس كی طرف نظر نھیں كی جا سكتی ۔ اور اس كے ھر حرف میں كلمہ كی بات ھی چھوڑیئے، جملے اور سورے كی بات ھی چھوڑیئے، خلاصۂ كلام یہ كہ كل قرآن میں عمیق اور گہری نظر ڈالنا چاھئے نیز اس كے دوسرے پھلو میں غور و فكر كریں، اسی وجہ سے قرآن كریم نے كبھی كبھی قرآن میں تدبر نہ كرنے كی وجہ سے ھماری مذمت كی ھے ۔ قرآن ھمیں غور و فكر اور تدبر كرنے كا حكم دیتا ھے ۔ یعنی نزول وحی كے دوسرے پھلو كو بھی مدّنظر ركھنا چاھئے، جیسا كہ اس بات كی طرف اشارہ كیا جاچكا ھے ۔ یھاں تك كہ اس كے حروف اور الفاظ كے استعمال میں بھی غور و فكر اور عمیق و وسیع پیمانہ پر دقت كرنی چاھئے ۔

اس صورت میں قرآن مسلمانوں كے لئے كار ساز بن سكتا ھے ۔ ورنہ اگر پرانی روش پر قرآن كی تفسیر میں اقدام كرنا چاھیں ۔ اگرچہ فردی ضرورتیں پوری ھوجائیں گی، لیكن دوسروں كی ضرورتوں كو پوری نھیں كر سكتی، جس طرح كہ عملی طور پر اس كی ضرورت پوری نھیں ھوئی ھے ۔

روایات كے مطابق اھل قرآن میں ھرگز كسی فرد كا پتہ نھیں لگایا جاسكتا ۔ جو دوسروں كا مطیع اور ذلیل و خوار ھو، بلكہ سبھی كامیاب و سر بلند ھیں ۔ لیكن اس شرط كے ساتھ كہ قرآن كو صحیح طریقہ سے حاصل كیا ھو ۔

فارسی ) اصطلاح میں كہ قرآن كے انجن كو روشن كریں تاكہ وہ اپنے سنگین اور بھاری و بھركم بوجھ كو ركھ كر كھینچ سكے اور مسلمانوں كو زمین كی وراثت كے مقصد تك پھونچا دے ۔

قرآن كا خود ایك خاص بیان اور اس كی ایك زبان ھے، جس كو خلاصہ كے طور پر خدا كا بیان اور اس كا لب و لھجہ كھا جاسكتا ھے ۔ پیغمبر اسلام (ص) دو قسم كی گفتگو كرتے تھے ۔

ایك یہ كہ خود گفتگو كرتے تھے ۔ لیكن اس كا مضمون وحی ھوتا تھا ۔ یعنی خداوند عالم نے پیغمبر (ص) كو مطالب كو تفصیل سے بیان كرنے اور لوگوں كے اعتراضات كا جواب دینے كے لئے وحی كرتا تھا ۔

” اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوحَی اِلَیَّ “

ھم صرف وحی پروردگار كی اتباع كر تے ھیں،

نہ صرف یہ كہ ان كا كلام وحی تھا، بلكہ ان كا ھر فعل جو لوگوں كی ھر حاجت كو بیان كرنے كے لئے پیغمبر كے وجود مقدس سے صادر ھوئے ھیں ۔ اس كی بنیاد وحی پر ھوتی تھی ۔

یعنی ان كی رفتار و گفتار اور ان كی تقریر و تائید سب كو وحی مانا جاتا ھے ۔

دوسری قسم جو كچھ وحی كے عنوان سے فرماتے تھے ۔ اگر خود ان كے بیان اور گفتگو كے قالب میں ھوتا تو اس كو حدیث كھا جاتا تھا ۔ اور اگر بعینہ خدا كے بیان كو منتقل كرتے تو اس كو قرآن كھا جاتا تھا اور یہ بات مسلم ھے كہ بشر كا كلام اس عظمت و اھمیت اور قداست كا حامل نھیں ھے ۔ جس عظمت و اھمیت و قداست كا حامل خدا كا كلام (قرآن) ھے ۔ بشر كی صنعت كا محصول وہ قیمت نھیں ركھتا ھے جو قدر و قیمت طبیعی صنعت كا محصول ركھتا ھے كہ جن كا بنانے والا خدا ھے ۔ یعنی بشری صنعت اتنی اھمیت كی حامل نھیں ھے جتنی اھم قدرتی چیزوں كی ھے ۔ اگرچہ اس كی صنعت اور ٹكنالوجی اپنے عروج كو پھونچ چكی ھو ۔

لھٰذا ھمیں كلام خداوندی میں موجود زاویوں میں ھر ایك زاویہ پر غور و فكر كرنا چاھئے، اس كا مطلب یہ نھیں كہ حقیر نے اس سلسلہ میں كوئی كام كیا ھو، لیكن اگر اجمالی طور پر ھم نے قرآن كریم كے زاویوں میں سے تھوڑا بھت اپنی تحقیق و جستجو كا مقصد قرار دیا تو یقیناً ھم عمیق مطالب تك پھنچ جائیں گے كہ جو اس كے شائستہ و لائق ھے، كیونكہ فھم قرآن كے بارے میں ابھی تك علماء و مفكرین نے جو سعی و كوشش انجام دی ھے اور پیش آنے والی ضرورتوں كے جواب میں قرآن كریم سے جو استفادہ كیا ھے نیز صحیح مطالب و معانی درك كئے ھیں، انھیں كی روشنی میں خود قرآن ھی میں ان كی تلاش و تحقیق كرنے كی سعی و كوشش كریں، اگرچہ یہ كام بھت مشكل ھے، اسے گروھی شكل میں انجام دینا چاھئے، یعنی تمام دانشور و علماء جنھوں نے علوم قرآنی، خواہ وہ تفسیر ھو یا غیر تفسیر اور سارے علوم جو قرآن سے وابستہ ھیں نیز تمام اقتصادی وسائل میں ارتباط برقرار ھو اور قرآن كے متعلق ایك نیا كام انجام دیں تاكہ قرآن كریم اسلامی معاشروں كی ضرورتوں كا مكمل اور قانع كنندہ جواب دے ،

حقیر كی نظر میں قرآن كی زبان یہ ھے ۔ ” و ما ارسلنا من رسول الا بلسان قومه ” (ابراهيم / ۴ )

اور ھم نے جس رسول كو بھیجا اسی قوم كی زبان میں بھیجا ،

قرآن كی زبان اس كی قوم كی زبان یعنی عربی ھے ۔ تمام زبانوں اور تمام سماج كے درمیان سے پیغمبر (ص) كو عرب سماج كے اندر سے انتخاب كیا گیا ۔ پیغمبر كو عرب سماج سے انتخاب كرنے كی علت یہ ھے كہ اگرچہ ھر رسول اپنی قوم كی زبان میں خدا كی طرف سے مبعوث ھوتا رھا ھے ۔ لیكن عربی زبان ایك فصیح و بلیغ زبان ھے ۔ یعنی وہ خاموشی اور كنوگاپن جو عجمی زبان میں پایا جاتا ھے ۔ عربی زبان میں نھیں ھے، وہ خصوصیت جو عربی زبان میں پائی جاتی ھے، وہ كسی اور زبان میں نھیں پائی جاتی ھے، لیكن عربی زبان میں ممكن ھے ایك لفظ بھت سے معانی ركھتا ھو در آں حالیكہ وہ الفاظ جو دیگر اقوام اور دوسری زبانوں میں پائے جاتے ھیں، وہ اس عربی زبان كی طرح فصیح و بلیغ نھیں ھیں ۔ یعنی عربی زبان (كے الفاظ ) كوتاہ ھونے كے ساتھ ساتھ پُر معنی بھی ھیں ۔ مختصر سی عبارت میں بیشترین معانی كا افادہ كرتے ھیں ( یعنی مختصر الفاظ میں بھت ھی عظیم معانی كو سمو دیتا ھے ) ۔ مثال كے طور پر اگر فارسی میں ایك معانی كو لفظی قالب میں پیش كرنا چاھیں تو عاجز و مجبور ھیں كہ لفظ اور عبارت كو طولانی كریں، تاكہ صحیح طور پر معانی كو درك كر سكیں، مثلاً ھم نے كھا كہ میں گیا، شیر خریدا، معلوم نھیں یہ كھنے والا چڑیا گھر كا مالك ھے، جس نے شیر خریدا یا كوئی معمولی انسان ھے ۔ جس نے شیر (دودھ ) خریدا ۔ یا سماور یا پانی كی ٹوٹی خریدی ۔

لیكن جب ( اسد ) یا ( لبن ) كھتا ھے تو ھر لفظ كے معنی واضح ھیں ( اسد ) كے معنی حیوان درندہ ھے اور ( لین ) كے معنی دودھ كے ھیں

حروف كی تعداد كے اعتبار سے شیر اور اسد ایك ھی جیسے ھیں، لیكن لفظ اسد سے حیوان درندہ سمجھتے ھیں ۔ دودھ وغیرہ نھیں، اس كے علاوہ شیر درندہ كی بھی بھت سی قسمیں ھیں ۔ ( بعض ) كی گردن میں بال نھیں پائے جاتے ( بعض ) مذكر ھیں (بعض) مونث ھیں، ان میں ھر ایك كے لئے عربی زبان میں الگ الگ الفاظ پائے جاتے ھیں، ( مانند ) اسد، لیث، غضنفر، قسورہ اور ھم نے بارھا سنا ھے كہ ابن عباس فرماتے تھے كہ میں ابھی تك فاطر كے معانی كو نھیں سمجھا ھوں، كیا وہ عرب نھیں تھے ؟ فاطر، خالق، باری سب كے معانی پیدا كرنے والا ھے ۔ لیكن كیوں ان میں سے ھر ایك لفظ كوئی ایك خاص جگہ استعمال ھوتا ھے، اگر ان الفاظ میں سے ھر ایك كو عربی كھا جاتا ھے ۔ اور میں بھی لباس عربیت سے متصف رھوں، میرے عربی ذوق كا تقاضا یہ ھوگا كہ میں لفظ فاطر سے ایسے معانی كو درك كروں جو لفظ خالق سے استفادہ نہ كیا جاسكتا ھو، یعنی قرآن مجید میں ھر لفظ ایك خاص مقام اور مناسبت ركھتا ھے ان خصوصیات كے ساتھ جو اس لفظ كے عام معنی میں پائی جاتی ھے، اگر خداوند عالم فرماتا ھے :

اَ فِی اللهِ شَكّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْض” ( سورہ ابراھیم / ۱۰ )

كیا تمھیں اللہ كے بارے میں شك ھے،جو آسمان وزمین كا پیدا كرنے والا ھے ،

گویا خدا تعجب كر رھا ھے ( كیوں كہ اس میں تاتیر پذیری كا گزر نھیں ھے ) لیكن (یہ جملہ ) اس لھجہ میں ھے كہ اگر خدا كے علاوہ كوئی اس جملہ كو كھتا، تو اسے تعجب كا عنوان دیا جاتا، كیوں نھیں كھا :

اَ فِی اللهِِ شَكّ خَالقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْض

كیا تمھیں اللہ كے بارے میں شك ھے جو آسمان و زمین كا پیدا كرنے والا ھے، یا دوسرے الفاظ كا استعمال نھیں كیا، علماء حضرات كا كھنا ھے كہ قرآن میں مترادف الفاظ نھیں ھیں، قرآن كے ترجموں اور كبھی كبھی تفسیروں میں بھی ان سب كلمات كو پیدا كرنے والے ( خالق ) كے معانی میں استعمال كرتے ھیں، اور دوسرے الفاظ مانند فطر، فصل، فطم اور دوسرے كلمات جن كا آغاز حرف ( فاء ) سے ھوتا ھے، جدا كرنے اور شگاف كرنے كے معنی میں ھیں، ابن عباس فرماتے ھیں كہ میں فاطر كے معانی كو نھیں سمجھتا، یعنی جس طرح ایك خالص عرب اس سے كوئی معنی سمجھتا ھے وہ اس طرح نھیں سمجھتے تھے ۔ اور فرماتے تھے كہ فاطر میں كوئی ایسی خصوصیت ھے كہ ایسے موقع پر استعمال كیا جا رھا ھے آیا وہ خدا جو فاطر ھے اس كے بارے میں شك كیا جاسكتا ھے، یعنی استفھام كا لھجہ ھے ۔ ابن عباس كو اس لفظ كے معنی صحراء میں ملے، انھوں دیكھا كہ ایك كنویں كے بارے میں دو مرد نزاع و جھگڑا كر رھے ھیں، ایك كہہ رھا ھے، ” انا فطرتھا ” ، یعنی میں نےاس (كے كھودنے كے ) كام كی پھل كی تھی، تم میرے بعد آئے، ابن عباس فرماتے ھیں كہ اس وقت میں نے سمجھا كہ فاطر، موجود كے آغاز كرنے والے كو كھتے ھیں، ورنہ ایك ھنر مند بھی خالق ھے لیكن ان كا آغاز كرنے والا ( آغازگر ) نھیں ھے ۔

اس آیت كا مفھوم یہ ھے كہ تمام سلسلہ عِلَل و مَعَالِیل اور تمام اسباب و مسببات اور تمام متحركات اور محركات كی بازگشت ایك ایسے محرّك كی طرف ھو جو خود متحرك نہ ھو، ایسے سبب كی طرف بازگشت كر رھا ھو كہ وہ خود مسبب نہ ھو ۔ اس كی ایك ایسی علت كی طرف بازگشت ھو رھی ھو جو خود معلول نہ ھو، ورنہ دور و تسلسل كا سبب بنے گا، اور تسلسل بھی دلیل عقلی سے یعنی برھان تطبیق و سلم اور دوسری دلیلوں كی رو سے باطل ھے ۔ پس كوئی بھی انسان خدا كے بارے میں شك نھیں كرسكتا، چونكہ وہ آغاز كرنے والا ھے ۔ یعنی اس كائنات كے آغاز كرنے والے كو پھچاننا چاھئے ۔ اور وہ خدا ھے ۔ سورۂ بقرہ كی ابتداء میں جس وقت وہ متقین، كفار اور منافقین كے اوصاف كو بیان كر رھا ھے، ھم دیكھتے ھیں كہ اسلامی معاشرہ نزول قرآن كے وقت تین گروہ سے تشكیل پایا تھا ۔ كیوں كہ قرآن كا لوگوں كے سامنے پیش كرنا ۔ ایسا ھی تھا ۔ جیسے موجودات عالم طبیعی كے سامنے آفتاب كا پیش كرنا ۔

اگر پھول ھے، خوشبو بھی ھوگی، اگر میتہ اور مردار ھے تو بدبو بھی ھوگی، كچھ چیزیں چھپی اور زیر پوشش ھیں، ان كے اندر سے اتنی بدبو نھیں آتی ۔ دوسر ے الفاظ میں كچھ تو قرآن كے سایہ میں ھیں، ان كی روح میں وسعت پیدا ھوتی رھتی ھے، كچھ لوگ مردہ ھیں ۔

انَّ الَّذِینَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْھِمْ ءاََنذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنذِرْھُمْ لاَیُؤْمِنُونَ ، خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِھِمْ وَ عَلَی سَمْعِھِمْ وَ عَلَی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَةٌ وَ لَھُمْ عَذَاب عَظِیم ” ( بقرہ ۷،۶ )

اے رسول جن لوگوں نے كفر اختیار كیا، ان كے لئے ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ھے ۔ یہ ایمان لانے والے نھیں ھیں، خدا نے ان كے دلوں اور ان كے كانوں پر گویا مھر لگادی، اور ان كی آنكھوں پر پردے پڑے ھیں، آخرت میں ان كے لئے عذاب عظیم ھے ۔

ان كے وجود كی بدبو آس پاس كے ماحول كو خراب كر رھی ھے، یعنی كفار تیسرا گروہ ھے،

” وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَ بِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ مَا ھمْ بِمُؤْمِنِینَ ” ( بقرہ ۸ )

كچھ لوگ ایسے بھی ھیں، جو یہ كھتے ھیں كہ ھم خدا اور آخرت پر ایمان لائے، حالانكہ وہ ایمان نھیں لائے ۔

یہ اپنے كو نفاق آمیز كپڑے كے نیچے چھپائے ھو ئے ھیں، جس كی بدبو ابھی كسی كی ناك تك نھیں پھونچ رھی ھے ۔

آپ مشاھدہ كریں كہ ان آیات میں خداوند عالم ” وَ اُوْلَٰئِكَ ھُمْ الْمُفْلِحُونَ ” كے بعد كفار كی معرفی كر رھا ھے، درمیان میں كوئی حرف استعمال نھیں كررھا ھے ۔ اور فرمارھا ھے :

” اِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا … “

لیكن جب منافقین كی معرفی كر رھا ھے ۔ تو حرف واؤ كو ذكر كررھا ھے :

” وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَ بِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ مَا ھمْ بِمُؤْمِنِینَ “

ھم اگر عربی ذوق سے آشنا ھوں، تو معلوم ھوگا كہ خالص و اصیل عرب حروف عطف مانند واؤ، ثم، فاء، بل، لا وغیرہ كو ایك خاص جگہ پر استعمال كرتے ھیں، عرب اس وقت واؤ كا استعمال كرتے ھیں، جب اس سے اشتراك كے معانی كا استفادہ كرنا چاھتے ھیں ۔ ( اس سے قبل ھم نے عرض كیا ھے كہ قرآن عربی میں ھے، اور خدا نے تمام زبانوں كے درمیان فقط عربی زبان كو اپنے مقاصد كو بیان كرنے كے لئے مناسب سمجھا ھے، پس اگر كوئی اس زبان كو سمجھ لے اور اس كو عمدہ طریقہ سے ھضم كرلے تو اس پر حجت تمام ھو جاتی ھے )

خدا وند عالم، پیغمبر (ص) سے ارشاد فرماتا ھے :

” وَ اِنْ اَحَدٌ مِنْ الْمُشْرِكِینَ اسْتَجَارَكَ فََاَجِرْہُ حَتَّیٰ یَسْمَعَ كَلَامَ اللهِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہُ ذَلِكَ بِاَنَّھُمْ قَوْم لاَ یَعْلَمُونَ ” ( توبہ/ ۶ )

اگر یہ مشركین تم سے پناہ مانگیں، تو ان كو پناہ دو، تاكہ وہ اللہ كے كلام كو سنیں، پھر ان كو آزاد كركے ان كو كسی امن كی جگہ پھونچا دو ۔ اور یہ مراعات اس وجہ سے ھے كہ یہ جاھل لوگ ھیں ۔

انھیں پناہ دو تاكہ خداوند عالم كا كلام سنیں كیونكہ وہ عرب ھیں ۔ وہ اپنی عربی فطرت و طبیعت كے ساتھ كلام خدا كو ھضم كرسكتا ھے ۔ اسی وجہ سے خاص طور پر فرمایا كلام اللہ، یعنی خدا كا كلام موثر ھے ۔ آپ جب كسی ایك طبیعت كے پھلو میں بیٹھیں گے ، تو آپ كا دل كھل جاتا ھے اور دل كو سكون و اطمینان ملتا ھے ۔ لیكن اگر مصنوعی محصول كے پھلو میں ایك مدت تك بیٹھیں پھر بھی آپ میں كسی قسم كی دگرگونی ایجاد نھیں ھوگی ، كلام اللہ ، یعنی اثر ڈالنے والا ، لغت میں كلام كے معنی، زخم كے ھیں ۔ اور زخم كی خصوصیت یہ ھے كہ وہ اپنا اثر چھوڑ دیتا ھے ۔ اس كا اثر باقی رھتا ھے، عرب یہ سب كچھ سمجھتا ھے ۔ اگر ایمان لایا تو بھت اچھا، اگر نھیں لایا تو اس كو امن كی جگہ پھونچا دو ۔

ھم كو قرآن میں كلام خدا كی ظریف علت كے استعمال كی تحقیق كرنی چاھئے، واؤ حرف عطف دو چیز كے درمیان اشتراك اور جمع كے لئے آتا ھے، اس بناپر یہ كھنا چاھئے كہ منافقین اور كفار كے درمیان ایك اعتبار سے اور منافقین و مومنین كے درمیان ایك دوسرے اعتبار سے اشتراك پایا جاتا ھے ۔ یقینا ظاھری شكل و صورت كے اعتبار سے منافقین، مسلمین كی طرح ھیں، لیكن باطنی لحاظ سے وہ كفار سے اشتراك ركھتے ھیں ۔

بھر حال واؤ كا كام جمع كرنا ھے، چاھے واؤ عطف ھو، چاھے استیناف، ھر حال میں اشتراك كے معنی پائے جاتے ھیں ۔ سر انجام اگر انسان ظاھری یا باطنی طور پر ایمان كے حٓدود سے باھر پیر پھلائے گا تو ھلاكت كے گڑھے میں گرجائے گا ۔ پھر اس سے نكل نھیں سكے گا ۔

” اِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا … ” یعنی جو شخص اہنے كفر پر ڈٹا رھتا ھے، تو اس كا دل سیاہ اور اس كا وجود تاریك ھو جاتا ھے، لھذا اس كا علاج كیا جائے یا نہ كیا جائے ۔ دونوں برابر ھے ۔ اس كو شفا حاصل نھیں ھوگی ۔ نہ تو كوئی گولی اس كا علاج كر سكتی ھے، اور نہ كوئی كیپسول اور نہ كوئی آپریشن كوئی بھی شئے اس كا علاج نھیں كر سكتی ھے ۔

پس مومنین اور كفار كے درمیان ایك اجنبیت پائی جاتی ھے ۔ اسی وجہ سے خدا نے ( مومنین كے ذكر كے بعد بغیر واؤ كے كفار كا ذكر كیا ھے ) درمیان میں واؤ كا استعمال نھیں كیا، وہ اجنبیت جو اس كو راہ مستقیم كی طرف واپس جانے كو محال كردیتی ھے ۔ اور وہ جتنا بھی تیزی سے آگے بڑھتا رھے گا ۔ اتنا ھی سیدھے راستے سے دور ھوتا جاتا ھے ۔ یھاں تك كہ وہ اس مقام پر پھونچ جاتا ھے ۔ جس مقام سے وہ كبھی بھی اپنے پھلے مقام كی طرف واپس نھیں جاسكتا، اس لئے كہ وہ خود اپنے اختیار سے اپنے راستے سے منحرف ھوچكا ھے ۔ اور جو شخص بھی اپنے كفر پر باقی اور حقائق كے انكار پر ڈٹا رھتا ھے ۔ قھری طور پر اس كا یھی انجام ھانا چاھئے ۔

” ختم اللہ علیٰ قلوبھم “

یعنی ان لوگوں نے اپنے تمام حواس و ادراك كے راستوں كو بند كر ركھا ھے ۔

لیكن منافقین كے بارے میں فرماتا ھے :

” وَ مِنْ النَّاس … “

یعنی ان كے لئے دو واپسی كا راستہ پایا جاتا ھے ۔ یا وہ كفار كی طرف چلے جائیں یعنی كھل كر اپنے كفر كا اعلان كردیں جیسا كہ ھوا ھے ۔ اور اسلامی معاشرے كی سمجھ میں آگیا كہ یہ كافر تھے، یا ان كے ساتھ تھے، جیسے ابو عامر راھب جس نے مسجد ضرار تعمیر كرائی تھی، لیكن بعد میں خدا نے اس كا راز فاش كردیا كہ یہ مسجد مسلمانوں كی دلسوزی كے لئے نھیں بنائی گئی ھے، بلكہ مسلمانوں كے درمیان تفرقہ پھیلانے اور خدائی راہ كو مسدود كرنے كے لئے بنائی گئی تھی، وہ كافر ھوگیا، پیغمبر نے اس كا خون مباح قرار دے دیا، وہ روم بھاگ گیا، تاكہ وھاں جاكر كفار كو اكھٹا كرے اور پھر پیغمبر سے جنگ كرے، پھلے تو یہ كہہ رھا تھا كہ مسجد كو خدا كی خوشنودی اور مسلمانوں كے آرام كے لئے تعمیر كروا رھا ھے ۔ تاكہ بوڑھے مرد اور اور عورتیں جو بارش كے اوقات ، اندھیری رات اور ٹھنڈی كے موسم میں مسجد پیغمبر میں نھیں جا سكتے، وہ یھاں آكر عبادت كریں، لیكن آھستہ آھستہ اس كا راز كھل گیا، لھٰذا وہ بھاگ كھڑا ھوا ، اور راستے ھی میں واصل جھنم ھوگیا ۔

منافقیں كے لئے ایمان كی طرف راستہ پایا جا رھا ھے ۔ چونكہ ان كی شكل و صورت اسلامی ھے ۔ اور اندر سے بھی واپسی كی امید پائی جارھی ھے ۔ اور اس معانی كو ھم لفظ واؤ كے ذریعہ سمجھتے ھیں، لیكن كفر پر ڈٹے رھنے والا كافر، مومن سے كسی قسم كا كوئی اشتراك نھیں ركھتا ھے، بلكہ دونوں كے درمیان بڑا فرق پایا جا رھا ھے ۔

استاد، جناب عالی قرآن كے حرف، كلمات، اور آیات كے بارے میں آپ نے گفتگو كی، حتما یہ ساری چیزیں الفاظ قرآن كے وحی ھونے كی مرھون منت ھیں، لیكن خود الفاظ قرآن كے وحی ھونے میں تھوڑا ابھام پایا جاتا ھے ۔ ذرا مھربانی فرماكر یہ بتائیں كہ مقاصد الھی نے كس مرحلہ میں الفاظ كا لباس پہنا ھے ؟ كیا جبرائیل نے انھیں الفاظ كو وھاں سے حاصل و دریافت كیا ھے، اور پیغمبر كی طرف منتقل كیا ھے، یا یہ كہ جبرائیل كے ذریعہ ان معانی اور مفاھیم كے منتقل كرتے وقت خدا نے معانی كو الفاظ كے زیور سے راستہ كردیا ھے ؟ یا یہ كہ جبرائیل نے معانی كو وھاں سے حاصل و دریافت كیا ھے ۔ اور خود انھوں نے ان معانی كو الفاظ كے زیور سے آراستہ كر دیا ھے ؟ ۔

قرآن بعینہ خدا كا كلام ھے، جیسے اس نے عالم خلق میں اس درخت اور اس حیوان كو خلق كیا ھے ۔ جبرائیل نے عین الفاظ كو حاصل و دریافت كیا ھے ۔ اور پیغمبر تك منتقل كیا ھے، یھی وجہ تھی ۔ كہ پیغمبر اطمینان سے ان سے مضمون كو حاصل كرتے تھے، اور یہ كہ الفاظ ادھر ادھر نہ ھوجائیں، بڑی تیزی سے حفظ كرتے تھے، اور وحی كے دریافت كرنے میں عجیب و غریب شوق ركھتے تھے ۔ جبرئیل نے عین لفظ كو حاصل و دریافت كیا ھے ۔ لیكن نہ وہ لفظ جو منہ كے مخرج سے ٹكرا كر نكلتا ھے، اگر ھم كلام اللہ كے الفاظ پر توجہ كریں، تو ھماری مشكل حل ھوجائے گی، لیكن یہ كہ كلام الٰھی كیسے صادر ھوتا ھے، اس كا تعلق ماوراء طبیعت سے ھے ۔ وہ مادیات یعنی فیزیكی پیرا میٹروں سے قابل درك نھیں ھیں، جیسے خدا كے اوصاف جنت و جھنم كے اوصاف ھم كبھی بھی ان كی حقیقت كی گھرائی تك نھیں پھونچ سكتے ۔ مثلا جنت كے اوصاف كو فقط اس لئے بیان كیا ھے تاكہ ھمارا ذھن مطلب كے نزدیك ھوجائے ۔ تاكہ اس كا ایك خاكہ ذھن میں آجائے، ورنہ جنت كے اوصاف كا ایك دوسرے عالم سے تعلق ھے، جس كا نام آخرت ھے ۔

عقلی مطالب كی محسوس شكل میں تصویر كشی نھیں كی جا سكتی ۔ مگر یہ كہ اس كو تشبیہ دیں، اگر قرآن میں انار و انگور ( كا ذكر ) ھے ان كی كامل وضاحت نھیں كی جاسكتی، اسی وجہ سے مختلف قسم كی مَثَل لائی گئی ھے، تاكہ معقول كو محسوس كے ذریعہ ذھن سے نزدیك كریں، نہ یہ كہ ان كے ذریعہ معقول كو تشخیص دیں، لیكن جس كا تعلق حیات سے ھے، اس كو ملموس طریقے سے قرآن میں ذكر كیا ھے ۔ مثال كے طور پر سیاسی، اجتماعی، انفرادی اخلاقی پھلو سے جو امكان پذیر ھے ۔

لیكن جھاں پر قابل لمس نھیں ھے ۔ اس جگہ خدا وند عالم مثل بیان كر تا ھے ۔ یا اس كی تشبیہ بیان كرتا ھے ۔ اس موقع پر ممثل لہ كو پھچاننا چاھئے ۔ خود مثل كے اركان ملموس ھیں، اگرچہ وجود خارجی میں اس كا كوئی مصداق نھیں پایا جاتا ھے، لیكن پھر بھی مثل بیان كرتا ھے :

ایَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُونَ لَہُ جَنَّة مِنْ نَخِیلٍ وََ اَعْنَاب ” ( بقرہ آیت ۲۶۶ )

كیا تم میں سے كوئی یہ پسند كرتا ھے كہ اس كے پاس كھجور اور انگور كے درخت ھوں ۔

عمل كے حبط ھوجانے كے بارے میں مثل بیان كرتا ھے كہ انسان ایك مدت تك كام كرتا ھے ۔ لیكن آخر میں وہ سب برباد ھوجاتا ھے ۔ در آں حالیكہ ضروری نھیں ھے كہ واقعا كوئی باغ رھا ھو … ۔

ھاں یہ خدا كا كلام ھے، اور خود اس كی گفتگو ھے ۔ لیكن بحث كی گئی ھے كہ آیا خدا كا كلام قدیم ھے یا حادث، یہ بحث ھماری اس وقت كی بحث سے متعلق نھیں ھے ۔ اگرچہ روشن ھے كہ خداوند عالم، كلام كو ایجاد كرتا ھے ۔ اور تكلم خدا كی صفت فعل ھے یہ كبھی بھی قدیم نھیں ھوسكتی، ھاں اس كا علم اس كی قدرت اس كا قدیم ھونا اس كی عین ذات ھے، لیكن خدا كا متكلم ھونا اس كی صفت فعل ھے ۔ اس كی عین ذات اور قدیم نھیں ھوسكتی، ورنہ اس كو ھمیشہ كلام ایجاد كرنا چاھئے، یا ھمیشہ اپنے بندوں كو روزی دینا چاھئے، در حالیكہ ” یقبض و یبسط” پتہ پلتا ھے كہ حادث ھے ،

خلاصہ یہ كہ قرآن خدا كا كلام ھے ۔ اس وجہ سے اس كا مثل نھیں لایا جا سكتا، ایك درخت كے پتے كو اسی طرح نھیں بنایا جا سكتا، ایك مكھی كو نھیں خلق نھیں كیاجاسكتا ھے :

” یَاَیُّھا النَّاسُ ضرب مثل فَاسْتَمِعُوا لَہُ اِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اȎِلَنْ یَخْلُقُوا ذُبَابًا ” (حج / ۷۲ ) سے معلوم ھوتا ھے ۔ كہ وہ حادث ھے ۔

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاے جوگو تمھارے لئے ایك مثل بیان كی گئی ھے ، لھٰذا اسے غور سے سنو، یہ لوگ جنھیں تم خدا كو چھوڑ كر آواز دیتے ھو ۔ یہ سب مل بھی جائیں، تو ایك مكھی نھیں پیدا كر سكتے ھیں ،

اس فضائی دور میں یا گزشتہ ادوار میں بلكہ آئندہ بھی قیامت تك ایك مكھی كو نھیں پیدا كیا جاسكتا، اگرچہ ھر قسم كے اسباب كو اس كے لئے فراھم كردیا جائے، چاھے وہ اسباب اپنی خصوصیت كے ساتھ میلیونوں تك پھونچ جائیں،

فھم قرآن كو ابتدا سے شروع كرنا چاھئے ۔ حروف شناسی یعنی قرآن كے الفاظ كو عربی اور قرآنی صورت میں شناسائی كریں، ایك دانشمند كے بقول كسی بھی قرآنی كام كے شروع كرنے اور قرآن سے كسی ضرورت كا مطالبہ كرنے سے قبل اس چیز كو درك كرنا چاھئے كہ یہ كتاب عربی ھے، وہ اپنی عربیت پر فخر كرتی ھے ۔ مطالعہ كر كے حقائق كو حاصل كرنا چاھئے كہ یہ قرآنی الفاظ كس رو سے بھترین تعبیر اور بھترین لفظ اور ساخت و ساز كے ھیں ،

مثلا اس گھاس میں كیا رمز پایا جاتا ھے كہ اس كی جڑ بے رنگ پانی اور بے مزہ خاك سے استفادہ كرتی ھے ۔ اور جب اس میں تنا، شاخ، اور پتّہ نكل آتا ھے ۔ اس كا رنگ بدل جاتا ھے ۔ اور اس میں مزہ پیدا ھو جاتا ھے ۔

سب سے پھلے جو ایك خالص عرب قرآن سے معانی سمجھتا ھے اسے درك كرنا چاھئے ۔ پھر اس كے بعد قرآن سے دوسرے مطالب كی درخواست كرنی چاھئے ۔ یعنی قرآن كے الفاظ كی جان وھی چیز ھے ۔ جس كو عرب درك كرتے ھیں، پھلے اس كو حاصل كرنا چاھئے ۔ پھر اس كو نئے قالب اور نئے سانچے میں ڈھالنا چاھئے۔ تب اس میں كوئی اشكال نھیں ھونا گا، ورنہ جو ھمیں قرآن سے آج ملتا ھے، خاص كر عبارت كے ترجموں میں وہ بے روح كے جسم كے مانند ھے ۔ اس كی اصل روح وھی معنائے اول ھیں، ھم اس وقت فاطر سے خالق سمجھتے ھیں ۔ لیكن عرب سمجھتا ھے، ” انا فطرتھا “یعنی میں مخلوق كا آغاز كرنے والا ھے ۔ ابن عباس كے مطالعہ كا سرچشمہ صحراء تھا، كیونكہ صحرائی عربوں كی زبان خالص تھی ۔ عرب اپنی فطرت كے تحت عربی لغات كو سمجھتا ھے، لغت كی روح اس كے ھاتھ میں تھی، نہ معانی جو مرور زمانہ سے اس لغت میں استعمال ھونے لگے، مثلا كلمہ انتقاد یعنی كھوٹے سكے كو خالص سكے سے جدا كرنا، لیكن اس دور میں ھم نے اس كے معانی میں عمومیت دے دی، اور ھر نا خالص سے خالص كو جدا كردینے كو انتقاد كھتے ھیں، اس وقت اس كے معانی میں كافی وسعت ھوگئی ھے ۔ لیكن ابتدا میں صرف سكّے كی بحث میں استعمال ھوتا تھا، نقود و نقدین یعنی سونا چاندی وغیرہ یہ معانی پوری تاریخ میں معنای اول پر حمل ھوا ھے، لیكن اس وقت ان معانی میں كیوں استعمال ھونے لگا ھے، اس كے تاریخی تناسب كو دیكھنا چاھئے ۔

آپ كی فرمائش كے مطابق ھمیں ھمیشہ قرآن كے الفاظ كو پھچاننے كے لئے (پچھلی تاریخ كی طرف ) پلٹنا چاھئے اور نزول آیات كی فضا اور اس كے معنائے اصلی كی حقیقت كو اس فضا میں شناسائی كرنی چا ھئے، كیا اس دور میں معانی قرآن كی پیدائشی تاریخ سے متن قرآن كو جدا كرنا، اس كی جاویدانگی اور قرآنی پیغاموں كی عمومیت سے تضاد نھیں ركھتا ھے ؟

وہ نئے معنی جو لفط كے لئے مرور زمانہ كی وجہ سے وجود میں آتے ھیں، كوئی اشكال كا سبب نھیں بنتے پیغمبر (ص) نےخود الفاظ كو جدید معانی میں استعمال كیا ھے ۔ اور درحقیقت انھوں نے حقیقت متشرعہ اور حقیقت شرعیہ كا موقع فراھم كیا ھے ۔ آخر كار اس چیز كو جاننا چاھئے كہ اس نئے معانی كا اس كے اصلی معانی سے كیا ربط ھے ۔ كیوں نماز كو نماز كھتے ھیں، حالانكہ اس كے اصل معانی دعا كے ھیں ۔ اس كے اصلی معانی كی طرف توجہ كرنا چاھئے،صلٰو ۃ یعنی دعا اس بنا پر كہ اكثر نماز میں خدا سے نیائش اور دعا ھے، اس اصطلاحی نماز كا نام بھی صلٰو ۃ ركھا گیا ۔ آیا اگر معانی اصلی اور نزول كی فضا كی طرف توجہ كی تاثیر زیادہ ھے، افسوس اس صورت میں ھم روایات تفسیری جو شان نزول كو بیان كرتی ھیں، اس میں ایك قسم كی تاریخی فقر كے شكار ھیں، فھم قرآن میں ایك قسم كا ابھام اور خلل ڈالنے والا ایھام ایجاد نھیں ھوتا ؟

اگر منابع میں تلاش كریں، تو یقیناً روایات بھی پائی جاتی ھیں، لیكن اس كے لئے فرصت اور كافی افراد كی ضرورت ھے، اچھا خاصہ مالی بجٹ بھی چاھئے ۔ اس وقت جو ھمارے پاس اسباب نزول پائے جاتے ھیں، اھل سنت كے منابع سے لئے گئے ھیں، اسباب نزول جو ھم شیعوں كے پاس تھے وہ مل نھیں رھے ھیں، جیسے ابن شھر آشوب كا اسباب نزول صرف ان كے قلمی آثار میں اس كی فھرست ملتی ھے ۔ اسباب نزول كو حدیث كے معیار سے تحقیق كریں ۔ تاكہ اس سبب نزول كو حاصل كریں اور ایسا بھی نھیں ھے كہ وہ سبب اس زمانے سے مخصوص تھے، بلكہ یہ سبب ھمیشہ ھر زمانے میں پائے جاتے رھے ھیں ،در واقع تاریخ تكرار ھوتی رھتی ھے ۔ طول تاریخ میں انسان كے كام میں كافی اشتراك پایا جاتا رھا ھے ۔ سر انجام اگر اس زمانے كا سبب نزول مل گیا، ھمارے زمانے میں بھی ایسے اسباب پائے جاتے ھیں، جو ھم كو اس سے مربوط آیت كی طرف ھدایت كرتے ھیں ۔ اور اس كے لئے علم حدیث كے اسناد میں تحقیق كی ضرورت ھے، اس كا تعلق مطالعات حدیث سے ھوتا ھے ،

انقلاب كے بعد تھوڑا بھت دین زندگی كے امور میں داخل ھوگیا، لیكن پھر بھی ھم ابھی ابتدائی راہ میں ھیں، اس كے لئے ایك ھمہ گیر و منظم كوشش كی ضرورت ھے ۔

قرآن كی اپنے زمانے كے مسائل پر نگرانی كیسی ھے ؟ كس حد تك تسلیم كیا جاسكتا ھے كہ قرآن اپنے زمانہ كی تھذیب و تمدن سے تاثیر پذیر ھوا ھے ؟ قرآنی قصے جو شبكہ؟؟؟؟؟ جزیرہ العرب كے باشندوں كے نظریہ كے مطابق جن كے لگنے، باغ و باغچہ اور دوسرے مھم مسائل كو پیش كرتے ھیں، اس كو زمان و مكان سے ھٹ كر ھونے كی كس طرح توجیہ كرتے ھیں ۔

قرآن كبھی بھی دوسروں كے اثر كو قبول نھیں كرتا، قرآن كبھی بھی متأثر نھیں ھوتا ھے ۔ جن كے لگنے كی بات صرف ایك اڑتی پڑتی خبر اور اس زمانے سے محدود نھیں تھی بلكہ اس كی ایك حقیقت ھے، درحقیقت وہ اس وقت بھی تھی اور اس وقت بھی ھے ۔

كیا جن انسان میں حلول نھیں كرتے، كیا جن انسان كو نھیں لگتے ؟

ھاں، ھم جن كو نھیں پھنچان سكتے، خود اس كے نام سے معلوم ھے كہ وہ پوشیدہ ( موجود ) ھے ۔ اس كو ھم دیكھ نھیں سكتے ۔ خدا فرما رھا ھے كہ ایسی موجود پائی جارھی ھیں ۔ لیكن تم آنكھ سے دیكھ نھیں سكتے اور اگر كبھی دیكھ بھی لیا تو اس كی تشخیص نھیں دے سكتے ۔ لیكن وہ بھی تمھاری طرح ھیں ۔ سورۂ جن اور اس كے متعلق آیتیں قرآن میں دیكھی جاسكتی ھیں ۔ اگر قرآن كو ھمہ گیر ھونا چاھئے تو اس بارے میں كوئی محدودیت نھیں ھے ۔ جو كچھ ھے وہ گزشتہ سے متعلق ھے اس وقت بھی ھے اور آئندہ بھی رھے گا ۔ ھمارے اس دور میں بھی ایسے واقعات اور سوالات ھیں جن كا قرآنی آیتیں جواب دے رھی ھیں ۔ قرآن ثابت رھنے والی چیزوں كے مانند ھے ۔ جو مرور زمانہ سے بدلتا نھیں ھے جیسے پانی پینا ۔ جو زندگی كی بقاء كے لئے ضروری ھے ۔ ھر انسان كو پانی پینا چاھئے یہ كھا جاسكتا ۔ چونكہ دقیانوس كے زمانے كے لوگوں كو پانی كی ضرورت تھی، وہ چلے گئے، اب ترقی ھوچكی ھے ۔ پس اس وقت بھی بشر میں كوئی تبدیل نھیں ھوا ۔ اس وقت بھی جھوٹ، ظلم، كم فروشی بری چیز ھے ۔ عھد كا پورا كرنا اور سچائی اچھی چیز ھے ۔ ( آج بھی ایسا ھے ) اور ھمیشہ ایسا ھی رھے گا۔

روایات كی بنیاد پر آیات قرآن میں ظاھر و باطن پایا جاتا ھے ۔ ذرا یہ بتائیں كہ اس اعتبار سے قرآن كے نازل ھونے كی كیا حكمت ھے ؟ كیا یہ مختلف ازمان كے لوگوں كے سمجھ اور فھم كی استعداد اور قابلیت سے متعلق ھے كہ كچھ اس كے ظاھر سے مستفید ھوں اور كچھ اس كے باطن سے یا كوئی دوسری وجہ پائی جارھی ھے ؟

تاویل، بطن یا بطون ( كی بحث ) بھت مھم اور مبنائی ھے ۔ اس كی تفصیل سے بحث كرنے كے لئے كافی فرصت كی ضرورت ھے كہ درحقیقت تاویل كے كیا معنی ھیں، اس بارے میں بحث كرنی دوسری نشستوں میں زیادہ بھتر ھے عام طور سے تاویل، لفظ كو غیر راجح محتمل معانی پرحمل كرنے كوكھتے ھیں، درحالیكہ قرآن میں لفظ تاویل كو ھرگز اس معنی میں نھیں استعمال كیا گیا ھے ۔ اس بناپر ھم سنت قطعی اور عقلی دلیل كے ذریعہ كسی لفظ كو غیر واضح معانی پر، جس كو باطن كھتے ھیں ۔ حمل كریں، جو چیز پوشیدہ ھے، ھم صرف اس كو ایك چیز ھونے كا احتمال دیتے ھیں، كلام كو اس پر حمل كریں، اس كے لئے ایك ھمہ گیر بحث كی ضرورت ھے كہ یہ تمام الفاظ تاویل جو كا قرآن میں استعمال ھوئے ھیں ۔ ان مختلف معانی اور كلمماتِ تاویل كے درمیان ان كا كیا تعلق ھے ۔

تبصرے
Loading...