فلسطین کی تاریخ

 

قدیم زمانے میں یہ سرزمین ارض کنعان کے نام سے پہچانی جاتی تھی کیونکہ کنعانیوں نے ٢٥٠٠ سال ق۔م میں جزیرة العرب سے ہجرت کر کے اس علاقہ میں سکونت اختیار کی تھی۔

ارضِ کنعان اور فلسطین :

قدیم زمانے میں یہ سرزمین ارض کنعان کے نام سے پہچانی جاتی تھی کیونکہ کنعانیوں نے ٢٥٠٠ سال ق۔م میں جزیرة العرب سے ہجرت کر کے اس علاقہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ کریتی قبائل (ا)نے ١٢٠٠ سال ق۔م میں ارضِ کنعان پر حملہ کیا اور غزہ اور یافا کے درمیان ساحلی علاقہ میں قیام کیا ۔ کنعانیوں اور کریتی قبائل کے ادغام سے اس پورے علاقہکے لئے فلسطین کا نام استعمال ہونے لگا ۔

فلسطین کی جانب یہودیوں کی ہجرت :

تقریباً ٣٠٠ سال قبل از مسیح بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر سے نکلے اور شام کے راستہ سے ہوتے ہوئے سرزمین قدس کی جانب چل پڑے ۔ ادھر حضرت موسیٰ نے اصرار کیا کہ بیت المقدس میں داخل ہو جائیں ۔

یقَوْمِ ادْخُلُوا الاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اﷲُ لَکُمْ وَ لاتَرْتَدُّوْا عَلیٰ اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خٰسِرِیْنَ

ترجمہ: اے میری قوم! اس ارض مقدس میں داخل ہوجاؤ جسے اﷲ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور میدان سے الٹے پاؤں نہ پلٹ جاؤ کہ خسارہ والوں میں سے ہوجاؤ گے ۔ (سورہ مائدہ آیت ۔ ٢١)

لیکن بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کی نافرمانی کی کیونکہ وہ لوگ ”عمالقہ” سے الجھنا اور جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے جو کہ اس سرزمین پر رہتے تھے ۔ لہذا انہوں نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے کہا:

قَالُوْا یَامُوْسیٰ اِنَّا لَنْ نَدْخُلَھَا اَبَداً مَادَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلا اِنَّا ھٰہُنَا قَاعِدُوْنَ

ترجمہ: ان لوگوں نے کہا کہ موسیٰ ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ۔ آپ اپنے پروردگارکے ساتھ جا کر جنگ کیجیے ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ (مائدہ ٢٤)

اسی نافرمانی کی وجہ سے چالیس سال تک ان لوگوں پر اس شہر میں داخلہ حرام کر دیا گیا ۔ ارشاد ہوتا ہے :

قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَة عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً یَتِیْھُوْنَ فِی الاَرْضِ فَلا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ

ترجمہ : ارشاد ہوا کہ اب ان پر چالیس سال حرام کر دیے گئے کہ یہ زمین میں چکر لگاتے رہیں گے لہذا تم اس قوم پر افسوس نہ کرو۔ (مائدہ ۔٢٦)

یکے بعد دیگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے اس دنیائے فانی سے کوچ کیا اور انکی قوم ٤٠ سال تک تیہ کے بیابان میں سرگرداں رہی۔ اس دوران میں پرانی نسل کا خاتمہ ہو گیا اور نئی نسل وجود میں آگئی جس کی سربراہی یوشع بن نون کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے نئی نسل کو بیت المقدس میں داخل ہونے پر اکسایا ۔ مقدس سرزمین میں داخل ہوتے وقت ”اریحا” کے مقام پر ”عمالقہ” کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی اور ان کو شکست دینے کے بعد وہ لوگ ”قدس” میں داخل ہوگئے ۔

یوشع بن نون کی وفات کے بعد حضرت طالوت اور ان کے بعد حضرت داؤد نے ٤٠ سال تک ان کی سربراہی کی اور ان کے بعد حضرت سلیمان حاکم ہوئے ۔ حضرت سلیمان کے بعد فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔

١۔ جنوب میں یہودا، جس کا دارالخلافہ ”یروشلم” تھا ۔

٢۔ شمال میں اسرائیل جس کا مرکز ”شکیم” تھا ۔

بنابریں حضرت داؤد نہ مملکت اسرائیل کے بانی تھے اور نہ ہی انہوں نے سب سے پہلے یروشلم کو دارالخلافہ قرار دیا اور نہ ہی مسجد الاقصی کی تعمیر آپ کے ہاتھوں سے ہوئی بلکہ اسلامی روایتوں ،تاریخی شواہد اور آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس حضرت موسیٰ کے زمانے سے موجود تھا ۔

مسلمانوں کے ہاتھوں فلسطین کی فتح :

رسول اکرمۖ کی وفات کے بعد خلیفۂ اول نے شام (جس میں موجودہ شام اور فلسطین شامل تھا) کی جانب لشکر روانہ کیا جو کہ رومیوں کے قبضہ میں تھا ۔ اس لشکر کے سپہ سالار اسامة بن زید تھے جنہوں نے کافی دور تک پیش قدمی کی اور اردن کے نزدیک پہنچ گئے لیکن مدینہ میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو جانے کی وجہ سے یہ لشکر واپسبلا لیا گیا ۔

بالآخر خلیفۂ دوم کی خلافت کے زمانہ میں، بیت المقدس کے رہنے والوں اور خلیفۂ دوم کے درمیان ایک معاہدے کے ذریعے بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ۔ حضرت عمر بن خطاب نے وہاں کے شہریوں کے مطالبہ پر حکم دیا کہ کسی یہودی کو بیت المقدس میں رہنے کا حق نہیں ہوگا ۔ اس کے مقابلے میں وہاں کے عیسائیوں نے جزیہ دینا قبول کیا ۔

فلسطین پر مکمل قبضہ کے بعد کئی عرب قبائل وہاں پر سکونت پذیر ہوگئے ۔ غیر عرب لوگ بتدریج عرب قبائل میں ضم ہوگئے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد یہ خطہ مکمل طور پر ایک عرب علاقہ میں تبدیل ہوگیا ۔ امویوں کے زمانہ میں فلسطین، دمشق کے تابع ہوا ۔ اس زمانہ کے باقی ماندہ تعمیراتی آثار میں سے ایک ”قبة الصخرہ” ہے،جسے عبدالملک بن مروان کے حکم پر ٧٠ ھ میں تعمیر کیا گیا ۔ عباسی دور میں فلسطین، عراقی حکومت کے ماتحت رہا اور بنو عباس اور بنو امیہ کے درمیان ایک جنگ بھی اس علاقہ میں لڑی گئی جس میں عباسیوں کو فتح حاصل ہوئی۔

فاطمیوں کی خلافت کے دوران یہ علاقہ مصر کا حصہ بنا ۔ اگر چہ سلجوقی حکومت (٢) کا دائرہ ایشیائے صغیر، شام اور فلسطین تک پھیل گیا تھا اور قدس پر ان کا قبضہ بھی رہا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد دوبارہ فاطمیوں نے قدس پر اپنا قبضہ بحال کرلیا ۔ بعد میں صلیبی لشکر نے قدس پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

فلسطین ، صلیبی جنگوں کے دوران:

٤٧٦ھ (١٠٩٧ئ) میں یورپی پادریوں کے اکسانے پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ عیسائی یورپ کے مختلف شہروں سے جمع ہوئے اور فلسطین کی جانب چل پڑے تاکہ اپنے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ کی قبر کو مسلمانوں سے چھین لیں (٢)۔ اس لشکر نے اپنے راستہ میں آنے والے کئی مسلمان شہروں کو تباہ و برباد کردیا ۔ چونکہ سلجوقیوں کے ساتھ جنگ کی وجہ سے فاطمیوں کی طاقت میں کافی حد تک کمی آگئی تھی، اس لیے وہ عیسائیوں کا مقابلہ نہ کرسکے جس کے نتیجہ میں ٤٧٨ھ ( ١٠٩٩ء ) میں بیت المقدس عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔ بالآخر ٦٧٠ھ ( ١٢٩١ئ) میں مسلمانوں کی کامیابی کے ساتھ صلیبی جنگیں اپنے اختتام کو پہنچیں ۔ صلیبی جنگوں کے خاتمہ کے بعد دسویں صدی ہجری کی ابتداء تک یہ ملک مصری سلطنت کا حصہ تھا ۔

فلسطین ، عثمانی دور میں :

٩٢٣ھ (١٥١٧ء ) میں جب عثمانی ترکوں نے مصر پر قبضہ کیا تو فلسطین بھی عثمانی سلطنت میں شامل ہوگیا اور تقریباً چار سو سال تک یہ علاقہ عثمانی سلطنت کا ایک غیر اہم حصہ شمار ہوتا رہا ۔ اٹھارویں صدی عیسوی کے آخر میں نپولین نے اس علاقہ پر حملہ کیا ۔ بتدریج فلسطین پر سے عثمانی کنٹرول کم ہوتا چلاگیا اور عثمانی سلطان کی جانب سے منصوب مصری حاکموں نے (جو خود کو خدیو کہلواتے تھے) ،فلسطین کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔ اسلام کے ظہور کے بعد کی فلسطین کی تاریخ اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطین ایک اسلامی اور عرب سرزمین رہی ہے اور یہودیوں کے اس دعویٰ کی نفی کرتی ہے کہ یہ سرزمین یہودیوں سے متعلق ہے ۔

 

تبصرے
Loading...