فضیلت دعا

عبادتِ خداوندی ایک ریاضت ہے جس کا صلہ ذاتِ احدیت نے دعا کے ذریعے سے بندے تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا ہے۔ خداوند تعالیٰ کو وہ عبادت پسند نہیں جس کی تکمیل پر قادر مطلق سے کچھ مانگا نہ جائے‘ لہٰذا دعا مانگنا ضروری ہے اور باعث خوشنودی خدا ہے۔

اس کی مثال یوں ہے کہ مزدوری کرنے کے بعد یعنی فریضہ عبودیت ادا کرنے کے بعد رحمت خداوندی کا طالب اس کا عبدصالح بن جاتا ہے اور اگر نہیں مانگتا تو اسے نخوت و رعونت میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو اپنے رب کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے لازم ہے کہ رب العالمین سے مانگا جائے اور مانگنے کا طریقہ صرف دعا ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ارشاد ربانی ہے کہ جو لوگ میری عبادت میں تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔ پھر فرمایا: اس عبادت سے مراد دعا ہے۔ ھو الدعا افضل العبادہ۔

علی بن ابراہیم روایت کرتے ہیں زرارہ نے کہا: ابراہیم علیہ السلام اَوّاہٌ حلیم تھے‘ اس سے کیا مراد ہے؟

فرمایا: وہ بہت زیادہ دعا کرنے والے تھے۔

امام پنجم سے پوچھا گیا کون سی عبادت افضل ہے؟

فرمایا: اللہ کے نزدیک اس سے بڑی عبادت نہیں ہے کہ اُس سے سوال کیا جائے۔ خداکا دشمن وہ ہے جو دعا مانگنے میں تکبر کرتا ہے اور جو اللہ کے خزانوں میں ہے نہیں مانگتا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی میسربن عبدالعزیز سے فرمایا:

یامیسرُ انہ لیس من باب یقرعُ اِلاَّ یُوشِک ان یفتح لِصَاحِبہ

اے میسر جو دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا قریب ہے کہ وہ اس پر کھل جائے۔

کہا: ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا: امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اللہ کے نزدیک احسن عمل دعا ہے‘ اور افضل عبادت پاک دامنی ہے اور وہ خود سب سے زیادہ دعا کرنے والے تھے۔

دعا مومن کا ہتھیار ہے

فرمایا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:

الدعاءُ سلاحُ المومِن وعمودُالدین ونورُ السموات والارض

“دعا مومن کا ہتھیار ہے‘ دین کا ستون ہے نیز آسمانوں اور رفیق کا نور ہے”۔

بسااوقات انسان دشمنوں میں گھر جاتا ہے‘ مصائب و آلام یکے بعد دیگرے اُسے پریشان کر دیتے ہیں۔ مصیبتیں چاروں طرف منڈلا رہی ہوتی ہیں‘ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارنے کے لیے جی چاہتا اور کسی ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دشمن کا مقابلہ کرکے اُسے شکست فاش دی جائے اور خود منزل کامرانی تک پہنچنے کی سعی جمیل کی جائے‘ وہ ہتھیار جو اس گرانی‘ پریشانی اور تنگ دامانی میں کام آئے وہ دعا ہے۔

لازم ہے کہ صبح و شام اپنے رب قدیر کو پکارا جائے تاکہ رزق فراواں ہو اور ہمہ قسم کے دشمنوں سے بھی نجات ملے۔ بعض اصحاب نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: دعا کیا ہے؟

فرمایا: انبیاء کا ہتھیار ہے تم بھی اپنے لیے لازم کرلو۔

عبداللہ بن سنان ابی عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: فرمایا : الدُّعا انفَذَ مِنَ السِّنان ۔

دُعا ردّ بلا ہے

فی زمانہ تقریباً ہر آدمی گرفتار بلا ہے۔ وہ کسی نہ کسی مصیبت میں ضرور مبتلا ہے‘ خواہ وہ پریشانی کاروبار کی ہو‘ اولاد کی طرف سے ہو‘ رشتہ داروں نے تنگ کر رکھا ہو یا پڑوسی وبالِ جان بنے ہوں‘ بہرحال بلاؤں کا جم غفیرہے جس نے بیچارے بنی نوع انسان کو چہار جہت سے محصور کر رکھا ہے۔ ایسی کیفیت میں چھٹے امام نے فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ دعا کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ دعا نازل ہونے والی بلا کو اس طرح توڑ دیتی ہے جیسے دھاگا توڑ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ مستحکم ہو۔ اسی زمرے میں چوتھے امام کا فرمام بھی ملتا ہے کہ روزِ قیامت تک بلا اور دعا ساتھ ساتھ ہیں لیکن دعا بلا کو ردّ کر دیتی ہے اگرچہ بلا کیسی ہی سخت ہو۔

فلسفہ دعا سمجھتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ بلا ہمیشہ سخت ناگوار‘ ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہوتی ہے اور یہ مومن/مومنہ کے امتحان کے لیے یاشامت اعمال کا شاخسانہ بن کر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک قضا بھی ہے جو نازل ہو چکی ہوتی ہے یا نازل ہونے والی ہے۔ بہرحال دونوں (بلا و قضا)سخت ہیں اور ان کا مقابلہ بڑے صبروتحمل اور ضبط و نظم کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات میں معصومین نے ہمارے لیے کچھ ہدایات بطور مشعل راہ چھوڑی ہیں۔ فرمایا کہ اکثر دعا کیا کرو کیونکہ وہ ہر رحمت کی کنجی ہے اور نجات کا ایک ذریعہ ہے۔ خزانہ خدا سے تب ہی ملے گا جب مانگو گے اور مانگنے کا انداز سوائے دعا کے نہیں ہے۔ دستور زمانہ ہے جب دروازہ کھٹکھٹاؤ گے تب ہی کھلے گا۔ پس دعا سے رب کریم کے ہاں دروازہ ہائے حاجات وا ہوتے ہیں اور رحمن و رحیم کا دَر ایسا دَر ہے جس دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جانتا۔

ہمارے لیے بڑی بات ہے کہ ہم ارشادات آئمہ کے مطابق مانگنا سیکھ جائیں اور وہ الحمدللہ دعا کے توسل سے ہے۔ اس سلسلہ میں امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے جسے ابی ولاد نے ہمارے تک پہنچایا ہے۔ فرمایا امام الہدیٰ نے:”دعا کو اپنے لیے لازم قرار دو اور اللہ سے طلب کرو کیونکہ یہ طلب بلا کو رد کرتی ہے اگرچہ وہ مقدر ہو چکی ہو اور صرف جاری ہونا باقی ہو”۔ فرمایا جب اللہ سے دعا کی جائے گی اور عاجزی و انکساری سے سوال کیا جائے گا تو بلا رد کر دی جائے گی اور قضا بحکم خدا ٹل جائے گی۔

دعا شفائے مرض ہے

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے عزیز ترین صحابی کمیل ابن زیاد کو جو دعا تعلیم فرمائی تھی اس میں دعا کا ذکر نہایت ارفع و اعلیٰ ہے اور اسی نام کے ساتھ پھر شفاء کو بھی منطبق کر دیا ہے۔ فرمایا‘ یوں پڑھو:

اِسمُہ دَواءٌ وذِکرُہ شِفَاءٌ۔

“اللہ کی یاد بطور عبادت دوا بھی ہے اور شفا بھی تو جس کا نام لینا شفا ہے”۔ اس کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنا کس قدر افراط شفاء کا موجب ہوگا۔

علابن کامل نے امام ششم کے الفاظ علی بن ابراہیم کے ذریعے سے ہم تک یوں پہنچائے ہیں:

قَالَ لِی ابوعبداللّٰہ عَلَیکَ بِالدِّعَاءِ فَاِنّہ شِفَآءُ مِن کُلِّ دَاءٍ

“دعا کرتے رہا کرو کیونکہ وہ ہر درد کی دوا ہے”۔

دُعا میں تقدم

اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان مصائب و آلام سے گھبرا کر مبہوت ہو جاتا ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے‘ ایسے میں اس کے دل میں خیال آتا ہے دعا کر کے دیکھیں شاید بلا ٹل جائے‘ دراصل مصلحت ایزدی سے ایک اشارہ ہوتا ہے کہ میرے بندے دعا مانگ لے‘ جب نزول بلا کا خوف ہو تو گھبرایئے نہیں بلکہ کہیے اللہ ربی‘ اللہ ربی اور پھر دعا کی تیاری کیجیے۔ فرمایا‘ امام صادق نے:

مَن تخوّف من بلاء یصیبہ فتقدم فیہ بالدعاء لم یرہ اللّٰہ عزَّوجّلَ ذٰلِکَ البَلاء ابدَاً

جس کو نزول بلا کا خوف ہو اس صورت میں اسے پہلے دعا کرنی چاہیے اللہ اُسے کبھی اس بلا کی صورت نہ دکھائے گا۔

ان حالات میں انسان کے لیے ضروری ہے کہ راحت کے وقت زحمت کے متوقع مکافات کی دعا مانگا کرے‘ ہو سکتا ہے اس بلا کا نزول نہ ہو اور آئندہ لمحات میں آسودہ رہے۔

دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دعا کرنے والا خدا کے شاکر بندوں میں شمار ہوگا۔

رب العزت اسے نگاہ التفات سے دیکھے گا کیونکہ اس نے آسودگی میں آلودگی کو مدنظر رکھا ہے۔ دعا کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کو یاد کرتا رہا ہے اور آنے والی مصیبتوں سے اپنے آپ کو اپنی عاجزی اور انکساری سے بچا لیا ہے۔ اس زمرے میں خصوصی طور پر یاد رکھنا ہوگا کہ اپنی دعا پر یقین کامل ہونا مساعد حالات میں بھی دعا کو فراموش نہ کرے اور اس اطمینانِ قلب کے ساتھ انے تیقن کو مستحکم رکھے کہ وہ یقینا باب اجابت تک پہنچے گی۔

تبصرے
Loading...