فريقين كى دو كتابيں

ان گنتى كے چند علماء ميں سے ايك اہل سنت عالم دين ”ابن الخطيب مصري” ہيں جنہوں نے ”الفرقان فى تحريف القرآن”نامى كتاب لكھى جو 1948عيسوى بمطابق (1367 ہجرى قمري) ميں نشرہوئي ۔ ليكن بروقت الازہر يونيورسٹى كے علماء اس كتاب كى طرف متوجہ ہوگئے اور انہوں نے،اس كتاب كے نسخوں كو جمع كركے ضائع كر دیا ليكن اس كے چند نسخے غير قانونى طور پر آس پاس كے لوگوں تك پہنچ گئے۔

ن گنتى كے چند علماء ميں سے ايك اہل سنت عالم دين ”ابن الخطيب مصري” ہيں جنہوں نے ”الفرقان فى تحريف القرآن”نامى كتاب لكھى جو 1948عيسوى بمطابق  (1367 ہجرى قمري) ميں نشرہوئي ۔ ليكن بروقت الازہر يونيورسٹى كے علماء اس كتاب كى طرف متوجہ ہوگئے اور انہوں نے،اس كتاب كے نسخوں كو جمع كركے ضائع كر دیا ليكن اس كے چند نسخے غير قانونى طور پر آس پاس كے لوگوں تك پہنچ گئے۔

اسى طرح ايك كتاب (فصل الخطاب فى تحريف كتاب ربّ الا رباب) كے نام سے شيعہ محدث حاجى نورى كے توسط سے لكھى گئي جو 1291ہجرى قمرى ميں شائع ہوئي۔اس كتاب كے شائع ہوتے ہى حوزہ علميہ نجف اشرف كے بزرگ علماء نے اس كتاب كے مطالب سے اظہار برائت كيا اور اس كتاب كى جمع آورى كا حكم ديديا۔ اور اس كے بعد كئي كتابيں اس كے رد ميں لكھى گئيں۔جن ميں سے چند ايك كے نام يہ ہيں۔

1۔نامور فقيہ مرحوم محمود بن ابى القاسم المعروف بہ معرب طہرانى (متوفى سال 1313ھ۔ق) نے (كشف الارتياب فى عدم تحريف الكتاب)نامى كتاب لكھى جو كتاب فصل الخطاب كا ردّ تھا۔

2۔مرحوم علامہ سيد محمد حسين شہرستانى (متوفي1315ھ۔ق )نے بھى ايك كتاب بنام (حفظ الكتاب الشريف عن شبہة القول بالتحريف)حاجى نورى كى كتاب فصل الخطاب كے جواب ميں لكھى ۔

3۔مرحوم علامہ بلاغى (متوفى 1352ھ۔ق ) حوزہ علميہ نجف كے عظيم محقق نے بھى اپنى مشہور كتاب (تفسير آلاء الرحمن ) ميں ايك قابل ملاحظہ باب، فصل الخطاب كے رد ميں لكھا ہے –

4۔ہم نے بھى اپنى كتاب (انوار الاصول ) ميں عدم تحريف قرآن مجيد كے بارے ميں انتہائي مفصل بحث كى ہے اور فصل الخطاب كے شبہات كا دندان شكن جواب ديا ہے۔

مرحوم حاجى نورى اگرچہ عالم دين تھے ليكن بقول علامہ بلاغى انہوں نے ضعيف روايات پر اعتماد كيا ہے اور مذكورہ كتاب شائع ہونے كے بعد خود بھى نادم و پشيمان ہوئے۔ اور حوزہ عليمہ نجف اشرف كے تمام بزرگ علماء نے اس اقدام كو واضح طور پر ايك غلطى قرار ديا ہے۔

اور دلچسپ بات يہ ہے كہ كتاب فصل الخطاب كے شائع ہونے كے بعد ہر طرف سے حاجى نورى كى مخالفت كا ايسا عظيم طوفان اٹھا كہ وہ خود اپنے دفاع ميں ايك رسالہ لكھنے پر مجبور ہوگئے جس ميں انہوں نے لكھا كہ ميرى مراد عدم تحريف قرآن مجيد تھى لوگوں نے ميرى تعبيرات سے سوء استفادہ كيا ہے۔

مرحوم علامہ سيد ھبة الدين شہرستانى كہتے ہيں كہ ميں اس وقت سامرا ميں تھا اور ميرزا شيرازى بزرگ نے اس وقت سامرا كو علم و دانش كا مركز بنا ديا تھا ۔جس محفل ميں بھى ہم جاتے ہر طرف سے حاجى نورى اور اُن كى كتاب كے خلاف صدائيں بلند ہوتى تھيں ۔ اور بعض لوگ تو انتہائي نازيبا الفاظ كے ساتھ ان كو ياد كرتے تھے

تبصرے
Loading...