فرامین مولا علی۳۷۶ تا ۴۸۰(نھج البلاغہ میں)

(۳۷۶)

حق ہمیشہ سنگین ہوتا ہے مگرخوشگوار ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ آسان ہوتا ہے مگرمہلک ہوتا ہے۔

(۳۷۷)

دیکھو اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں بھی عذاب سے مطمئن نہ ہو جانا کہ عذاب الٰہی کی طرف سے صرف خسارہ والے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اس امت کے بد ترین کے بارے میں بھی رحمت خداسے مایوس نہ ہو جانا کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف کافروں کا حصہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف ان گناہ گاروں سے ہے جن کا عمل انہیں سرحد کفر تک نہ پہنچا دے ورنہ کافر تو بہرحال رحمت خداسے مایوس رہتا ہے۔

(۳۷۸)

بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے۔اوریہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

(۳۷۰)

ابن آدم ! رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو اورایک رزق وہ ہے جو تم کو تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ پہنچو گے تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔لہٰذا ایک سال کے ہم و غم کو ایک دن پر بار نہ کردو۔ہر دن کے لئے اسی دن کی فکر کافی ہے۔اس کے بعد اگر تمہاری عمر میں ایک سال باقی رہ گیا ہے تو ہرآنے والا دن اپنا رزق اپنے ساتھ لے کرآئے گا اوراگر سال باقی نہیں رہ گیا ہے تو سال بھر کی فکر کی ضرورت ہی کیا ہے۔تمہارے رزق کو تم سے پہلے کوئی پا نہیں سکتا ہے اور تمہارے حصہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے بلکہ جو تمہارے حق میں مقدر ہوچکا ہے وہ دیر سے بھی نہیں آئے گا۔

سید رضی  : یہ ارشاد گرامی اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے مگر یہاں زیادہ واضح اور مفصل ہے لہٰذا دوبارہ ذکر کردیا گیا ہے۔

(۳۸۰)

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرنے والے ہیں جس سے پیٹھ پھیرانے والے نہیں ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی قسمت پر سر شام رشک کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہوتے ان پر رونے والیوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔

(۳۸۱)

گفتگو تمہارے قبضہ میں ہے۔جب تک اس کااظہار نہ ہو جائے ۔اس کے بعد پھر تم اس کے قبضہ میں چلے جاتے ہو۔لہٰذا اپنی زبان کو ویسے ہی محفوظ رکھو جسے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو۔کہ بعض کلمات نعمتوں کو سلب کر لیتے ہیں اورعذاب کو جذب کرلیتے ہیں۔

(۳۸۲)

جوبات نہیں جانتے ہو اسے زبان سے مت نکالو بلکہ ہر وہ بات جسے جانتے ہو اسے بھی مت بیان کرو کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قراردئیے ہیں اور انہیں کے ذریعہ روز قیامت حجت قائم کرنے والا ہے۔

(۳۸۳)

اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں معصیت کے موقع پرحاضر دیکھے اور اطاعت کے موقع پر غائب پائے کہ اس طرح خسارہ والوں میں شمار ہو جاؤ گے ۔اگر تمہارے پاس طاقت ہے تو اس کا اظہار اطاعت خدا میں کرو اور اگر کمزوری دکھلانا ہے تو اسے معصیت کے موقع پر دکھلاؤ۔

(۳۸۴)

دنیا کیحالات دیکھنے کے باوجود اس کی طرف رجحان اور میلان صرف جہالت ہے۔اورثواب کے یقین کے بعد بھی نیک عمل میں کوتاہی کرنا خسارہ ہے۔امتحان سے پہلے ہر ایک پر اعتبار کرلینا عاجزی اور کمزوری ہے۔

(۳۸۵)

خداکی نگاہ میں دنیا کی حقارت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کی معصیت اسی دنیا میں ہوتی ہے اور اس کی اصلی نعمتیں اس کوچھوڑنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔

(۳۸۶)

جو کسی شے کا طلب گار ہوتا ہے وہ کل یا جزء بہرحال حاصل کر لیتا ہے۔

(۳۸۷)

وہ بھلائی بھلائی نہیں ہے جس کا انجام جہنم ہو۔اوروہ برائی برائی نہیں ہے جس کی عاقبت جنت ہو۔جنت کے علاوہ ہر نعمت حقیر ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر مصیبت عافیت ہے۔

(۳۸۸)

یاد رکھو کہ فقرو فاقہ بھی ایک بلاء ہے اور اس سے زیادہسخت مصیبت بد ن کی بیماری ہے اور اس سے زیادہ دشوار گذار دل کی بیماری ہے۔مالداری یقینا ایک نعمت ہے لیکن اس سے بڑی نعمت صحت بدن ہے اور اس سے بڑی نعمت دل کی پرہیز گاری ہے۔

(۳۸۹)

جس کو عمل پیچھے ہٹا دے اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔یا ( دوسری روایت میں ) جس کے ہاتھ سے اپنا کردار نکل جائے اسے آباء واجداد کے کارنامے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

(۳۹۰)

مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کوان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جوحلال اور پاکیزہ ہیں ۔

کسی عقل مند کویہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنے گھرسے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے کوئی ایک کام ہو۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ‘ آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے ‘حلال اورپاکیزہ لذت حاصل کرے۔

(۳۹۱)

دنیامیں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے ۔اورخبر دار غافل نہ ہو جاؤ کہ تمہاری طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔

(۳۹۲)

بولو تاکہ پہچانے جاؤ اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔

(۳۹۳)

جو دنیا میں حاصل ہو جائے اسے لے لو اور جو چیز تم سے منہموڑ لے تم بھی اس سے منہ پھیر لو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو طلب میں میانہ روی سے کام لو۔

(۳۹۴)

بہت سے الفاظ حملوں سے زیادہاثر رکھنے والے ہوتے ہیں۔

(۳۹۵)

جس پر اکتفا کرلی جائے وہی کافی ہے۔

(۳۹۶)

موت ہو لیکن خبردار ذلت نہ ہو۔

کم ہو لیکن دوسروں کو وسیلہ نہ بانا پڑے۔

جسے بیٹھ کر نہیں مل سکتا ہے اسے کھڑے ہو کر بھی نہیں مل سکتا ہے۔

زمانہ دونوں کا نام ہے۔ایکدن تمہارے حق میں ہوتا ہے تو دوسرا تمہارے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر تمہارے حق میں ہو تو مغرور نہ ہو جانا اوہر تمہارے خلاف ہو جائے تو صبر سے کام لینا۔

(۳۹۷)

بہترین خوشبو کا نام مشک ہے جس کاوزن انتہائی ہلکا ہوتا ہے اورخوشبو نہایت درجہ مہک دار ہوتی ہے۔

(۳۹۸)

فخرو سر بلندی کوچھوڑ دو اورتکبر و غرور کو فنا کردواور پھراپنی قبر کو یاد کرو۔

(۳۹۹)

فرزند کا باپ پر ایک حق ہوتا ہے اورباپ کا فرزند پرایک حق ہوتا ہے۔باپ کاحق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ اور فرزند کاحق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھاسانام تجویزکرے اوراسے بہترین ادب سکھائے ۔اور قرآن مجید کی تعلیم دے ۔

(۴۰۰)

 چشم بد ۔فسوں کاری۔جادوگری اورفالن یک یہ سب واقعیت رکھتے ہیں لیکن بدشگونی کی کوئی حقیت نہیں ہے اور بیماری کی چھوت چھات بھی بے بنیاد امر ہے۔

خوشبو سواری‘ شہد اور سبزہ دیکھنے سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔

(۴۰۱)

لوگوں کے ساتھ اخلاقیات میں قربت رکھنا ان کے شر سے بچانیکا بہترین ذریعہ ہے۔

(۴۰۲)

ایک شخص نے آپ کے سامنے اپنی اوقات سے اونچی بات کہہ دی۔تو فرمایا: تم تو پر نکلنے سے پہلے ہی اڑنے لگے اورجوانی آنے سے پہلے ہی بلبلانے لگے۔

سید رضی :شکیر پرندہ کے ابتدائی پروں کو کہا جاتا ہے اورسقب چھوٹے اونٹ کا نام ہے جب کہ بلبلانے کاسلسلہ جوانی کے بعد شروع ہوتا ہے۔

(۴۰۳)

جو مختلف چیزوں پر نظر رکھتا ہے اس کی تدبیریں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔

(۴۰۴)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ” لاحول ولا قوة الا باللہ “ کے معنی کیا ہیں ؟ توفرمایا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں اور جو کچھ ملکیت ہے سب اسی کیدی ہوئی ہے تو جب وہ کسی ایسی چیز کا اختیار دیتا ہے جس کا اختیار اس کے پاس ہم سے زیادہ ہے تو ہمیں ذمہ داریاں بھی دیتا ہے اور جب واپس لے لیتا ہے تو ذمہ داریوں کو اٹھا لیتا ہے۔

(۴۰۵)

آپ نے دیکھا کہ عماریاسر مغیرہ بن شعبہ سے بحث کر رہے ہیں تو فرمایا عمار! اسے اس کے حال پرچھوڑ دو۔اس نے دین میں سے اتنا ہی حصہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب تر بنا سکے اورجان بوجھ کر اپنے لئے امور کو مشتبہ بنالیا ہے تاکہ انہیں شبہات کو اپنی لغزشوں کا بہانہ قراردے سکے ۔

(۴۰۶)

کس قدر اچھی بات ہے کہ مالدار لوگ اجر الٰہی کی خاطر فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں لیکن اس سے اچھی بات یہ ہے کہ فقر اء خدا پر بھروسہ کرکے دولت مندوں کے ساتھ تمکنت سے پیش آئیں۔

(۴۰۷)

پروردگار کسی شخص کو عقل عنایت نہیں کرتاہے مگر یہکہ ایک دن اسی کے ذریعہ اسے ہلاکت سے نکال لیتا ہے۔

(۴۰۸)

جو حق سے ٹکرائے گا حق بہر حال اسے پچھاڑ دے گا۔

(۴۰۹)

دل آنکھوں کا صحیفہ ہے۔

(۴۱۰)

تقویٰ تمام اخلاقیات کا راس و رئیس ہے۔

(۴۱۱)

اپنی زبان کی تیزی اس کے خلاف استعمال نہ کرو جس نے تمہیں بولنا سکھایا ہے اور اپنے کلام کی فصاحت کا مظاہرہ اس پر نہ کرو جس نے راستہ دکھایاہے۔

(۴۱۲)

اپنے نفس کی تربیت کے لئے یہی کافی ہے کہ ان چیزوں سے اجتناب کرو جنہیں دوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو۔

(۴۱۳)

انسان جواں مردوں کی طرح صبر کرے گا ورنہ سادہ لوحوں کی طرح چپ ہو جائے گا۔

(۴۱۴)

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اشعث بن قیس کو اس کے بیٹے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بزرگوں کی طرح صبر کرو ورنہ جانوروں کی طرح ایک دن ضرور بھول جاؤ گے ۔

(۴۱۵)

آپ نے دنیا کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دھوکہ دیتی ہے ۔نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے۔اللہ نے اسے نہ اپنے اولیاء کے ثواب کے لئے پسند کیا ہے اور نہدشمنوں کے عذاب کے لئے۔اہل دنیا ان سواروں کے مانند ہیں جنہوں نے جیسے ہی قیام کیا ہنکانے والے نے للکار دیاکہ کوچ کا وقت آگیا ہے اور پھر روانہ ہوگئے ۔

(۴۱۶)

اپنے فرزند حسن  سے بیان فرمایا: خبردار دنیا کی کوئی چیز اپنے بعد کے لئے چھوڑ کرمتجانا کہ اس کے وارث دو ہی طرح کے لوگ ہوں گے۔یا وہوں گے جو نیک عمل کریں گے تو جو مال تمہاری بد بختی کا سبب بنا ہے وہی ان کی نیک بختی کا سبب ہوگا اور اگر انہوں نے معصیت میں لگادیا تو وہ تمہارے مال کی وجہ سے بد بخت ہوں گے اورت م ان کو معصیت کے مددگار شمار ہوگے اور ان دونوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس تم اپنے نفس پر ترجیح دے سکتے ہو۔

سید رضی : اس کلام کو ایک دوسری طرح بھی نقل کیا گیا ہے کہ ” یہ دنیا جو آج تمہارے ہاتھ میں ہے کل دوسرے اس کے اہل رہ چکے ہیں اور کل دوسرے اس کے اہل ہوں گے اور تم اسے دور میں سے ایک کے لئے جمع کر رہے ہو یا وہ شخص جو تمہارے جمع کئے ہوئے کو اطاعت خدا میں صرف کرے گا تو جمع کرنے کی زحمت تمہاری ہوگی اور نیک بختی اس کے لئے ہوگی۔یا وہ شخص ہوگا جو معصیت میں صرف کرے گا تو اس کے لئے جمع کرکے تم بد بختی کا شکار ہوگے اوران میں سے کوئی اس بات کا اہل نہیں ہے کہ اسے اپنے نفس پر مقدم کرسکو اور اس کے لئے اپنی پشت کو گرانبار بناسکو لہٰذا جوگزرگئے ان کے لئے رحمت خدا کی امید کرو اورجوباقی رہ گئے ہیں ان کے لئے رزق خداکی امید کرو ۔

(۴۱۷)

ایک شخص نے آپ کے سامنے استغفار کیا ”استغفر اللہ “ تو آپ نے فرمایا کہ تیریر ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ۔یہ استغفار بلند ترین لوگوں کا مقام ہے اوراس کے مفہوم میں چھ چیزیں شامل ہیں : (۱) ماضی پر شرمندگی(۲) آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم محکم (۳) مخلوقات کے حقوق کا ادا کردینا کہ اس کے بعد یوں پاکدامن ہو جائے کہ کوئی مواخذہ نہ رہ جائے (۴) جس فریضہ کو ضائع کردیا ہے اسے پورے طور پر ادا کردینا۔(۵) جو گوشت مال حرام سے اگا ہے اسے رنج و غم سے پگھلا دینا یہاں تک کہ کھال ہڈیوں سے چپک جائے اورنیا گوشت پیدا ہو جائے (۶) جسم کو ویسے ہی اطاعت کا مزہ چکھاؤ جیسے طرح معصیت سے لطف اندوز کیا ہے ۔اس کے بعد کہو ”استغفر اللہ “

(۴۱۸)

بردباری خود ایک پورا قبیلہ ہے۔

(۴۱۹)

ابن آدم کس قدر مسکین ہے کہ اس کی موت بھی پوشیدہ ہے اور اس کی بیماریاں بھی صیغہ راز میں ہیں اور اس کے اعمال بھی سب محفوظ کئے جا رہے ہیں۔حالت یہ ہے کہ مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتا ہے۔اچھو لگنے سے مرجاتا ہے اور پسینہ اسے بدبودارب نادیتا ہے ۔

(۴۲۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ادھر سے ایک خوبصورت عورت کا گذر ہوگیا اور لوگوں نے اسے کنکھیوں سے دیکھنا شروع کردیا تو آپ نے فرمایا: ” ان مردوں کی آنکھیں تاکنے والی ہیں اور یہ نظر بازی ان کی خواہشات کو برانگیختہ کرنے کا ذریعہ ہے لہٰذا جب بھی تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی عورت کو دیکھے جو پسند آنے والی ہو تو اپنے اہل سے روابط پیدا کرے کہ یہ عورت بھی اپنی ہی عورت جیسی ہے“

یہ سن کر ایک خارجی نے کہا کہ اللہ اس کا فرکو قتل کرے کس قدر فقیہ ہے۔تو لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ خبردار۔ٹہرو۔گالی کا بدلہ گالی ہوتا ہے یا خطا سے درگزر کرنا ہوتا ہے۔

(۴۲۱)

تمہارے لئے اتنی ہی عقل کافی ہے کہ گمراہی کا راستہ ہدایت کے راستہ سے الگ ہو جائے ۔

(۴۲۲)

نیکیاں انجام دو اور اس میں سے کسی چیز کوبھی حقیر نہ سمجھو کہ نیکی چھوٹی بھی بڑی ہوتی ہے اور تھوڑی بھی بہت ہوتی ہے۔خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ کوئی شخص کا رخیر کے لئے مجھ سے بہتر ہے ورنہ خدا کی قسم ایسا ہی ہو جائے گا۔نیکی اور برائی دونوں کے اہل ہوتے ہیں اگر تم اسے چھوڑ دوگے تو جو اس کا اہل ہوگا وہی اسے انجام دیدے گا۔

(۴۲۳)

جو اپنے باطن کی اصلاح کرے گا پروردگار اس کے ظاہر کو درست کردے گا اور جو اپنے دین کے لئے عمل کرے گا خدا اس کی دنیا کے لئے کافی ہو جائے گا اور جو اپنے اور اللہ کے معاملات کو درست کرے گا پروردگار اس کے اوردوسرے انسانوں کے معاملات کو بھی ٹھیک کردے گا۔

(۴۲۴)

بردباری ڈھانک لینے والا پردہ ہے اور عقل تیز ترین تلوار ہے لہٰذا اپنے اخلاق کی کمزوریوں کو تحمل سے چھپاؤ اور اپنی خواہشات کا عقل کی تلوارسے مقابلہ کرو۔

(۴۲۵)

اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جنہیں پروردگار مخصوص نعمتیں دوسرے بندوں کے فائدہ کے لئیعنایت کرتاہے تو اس کے بعد جب تک وہ داد و دہش کرتے رہتے ہیں ان نعمتوں کو ان کے ہاتھوں میں باقی رکھتا ہے اور جب جودو کرم کو روک دیتے ہیں تو ان سے واپس لے لیتا ہے اور دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے۔

(۴۲۶)

کسی بندہ کے لئے یہ مناسب نہی ہے کہ دو چیزوں پر بھروسہ کرے۔ایک عافیت اورایک مالداری۔ کہ عافیت دیکھتے دیکھتے بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مالداری دیکھتے دیکھتے غربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

(۴۲۷)

جو اپنے درد دل کو کسی مومن سے بیان کرے گویا اس نے خدا سے بیان کیا اور جو اس کی فریاد کسی کافر سے کرے تو گویا اس نے خدا کی شکایت کی۔

(۴۲۸)

ایک عید کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ ”یہ عید صرف ان کے لئے ہے جن کا روزہ قبول ہو جائے اور جن کی نماز قابل قدر ہو جائے اور ویسے جس دن بھی پروردگار کی معصیت نہ کی جائے مسلمان کے لئے وہی روز۔روز عید ہے۔

(۴۲۹)

روز قیامت سب سے زیادہ حسرت ناک صورت حال اس شخص کی ہوگی جو اطاعت خداسے ہٹ کر مال حاصل کرے اورپھر اس کا وارث وہ ہو جائے جو اسے اطاعت خدا میں صرف کردے کہوہ اسی مال سے جنت میں چلا جائے گا اورکمانے والا اسی سے جہنم کا حقدار ہو جائے گا ۔

(۴۳۰)

معاملات میں سب سے زیادہ خسارہ والا اور کوششوں میں سب سے زیادہ ناکام وہ شخص ہے جو اپنے جسم کو مال کی طلب میں خستہ حال کردے اور پھر بھی مقدر ساتھ نہ دے کہ اس طرح دنیا سے حسرتیں لے کر چلا جاتا ہے اور آخرت میں بہر حال اس کی پاداش کو برداشت کرناپڑتا ہے۔

(۴۳۱)

رزق دو طرح کا ہوتا ہے ۔ایک وہ ہے جو خود تلاش کرتا ہے اور ایک وہ ہے جسے تلاش کیاجاتا ہے۔لہٰذا یاد رکھو کہ جو دنیا کا طلب گار ہوتا ہے اس کی طلبگار موت ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے اس دنیا سے نکال باہر کرے اور جوآخرت کا طلب گار ہوتا ہے دنیا خود اسے تلاش کرتی ہے یہاں تک کہ اپنا پورا حق حاصل کرلے۔

(۴۳۲)

اولیاء خدا وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں جب لوگ صرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور آخرت کے امور میں مشغول رہتے ہیں جب لوگ دنیا کی فکرمیں لگے رہتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات کو مردہ بنا دیتے ہیں جن سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں مار ڈالیں گی اور اس دولت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان کا ساتھ چھوڑ دے گی۔یہ لوگ اس چیز کو قلیل تصور کرتے ہیں جسے لوگ کثیر سمجھتے ہیں اور اس چیز کو فوت ہو جانا سمجھتے ہیں جسے لوگ حاصل کرلینا تصورکرتے ہیں۔اس چیز کے دشمن ہیں جس سے لوگوں کی دوستی ہے اور اس چیز کے دوست ہیں جس کے لوگدشمن ہیں۔انہیں کے ذریعہ قرآن کو پہچانا گیا ہے اور یہ بھی قرآن ہی کے ذریعہ پہچانے گئے ہیں۔قرآن ان کے کردار سے قائم ہے اور یہ قرآن کی برکت سے زندہ ہیں۔یہ جس چیز کے امیدوار ہیں اس سے بالاتر کوئی تمنا نہیں سمجھتے ہیں اور جس چیز سے خوفزدہ ہیں اس سے زیادہ خوفناک کوئی مصیبت نہیں سمجھتے ہیں۔

(۴۳۳)

یہ یاد رکھو کہ لذتیں ختم ہونے والی ہیں اور ان کا حساب باقی رہنے والا ہے۔

(۴۳۴)

امتحان کرو تاکہ نفرت پیدا کرو۔

سید رضی  : بعض حضرات نے اس قول کو رسول اکرم کے نام سے نقل کیا ہے۔حالانکہ یہ کلام امیر المومنین  ہے اور اس کا شاہد ثعلب کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ مامون نے اس فقرہ کو سن کر کہا کہ اگر حضرت علی  نے اس طرح نہ فرمادیا ہوتا تو میں اسے یوں کہتا کہ ”نفرت کرو تاکہ آزمالو“

(۴۳۵)

اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ کسی بندہ کے لئے شکر کا دروازہ کھول دے اور پھر اضافہ نعمت کا دروازہ بند کردے یا دعا کا دروازہ کھول دے اورقبولیت کا دروازہ بند کردے یا توبہ کا دروازہ کھول دے اورمغفرت کا دروازہ بند کردے ۔

(۴۳۶)

کرم کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی جڑیں ان اہل کرم میں ہوتی ہیں جن کا کرم جانا پہچانا ہوتا ہے۔

(۴۳۷)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ انصاف اور سخاوت میں زیادہ بہتر کون سا کمال ہے ؟ تو فرمایا کہ انصاف ہر شے کو اس کی منزل پر رکھتا ہے اور سخاوت اسے اس کی منزل سے باہرنکال دیتی ہے۔انصاف سب کا انتظام کرتا ہے اور سخاوت صرف اس کے کام آتی ہے جس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔لہٰذا انصاف بہر حال دونوں میں افضل اور اشرف ہے۔

(۴۳۸)

لوگ ان چیزوں کے دشمن ہیں جن سے ناواقف ہیں۔( اوریہی دین کی دشمنی اور آل محمد سے عداوت کا بھی راز ہے )

(۴۳۹)

تمام زہد قرآن مجید کے دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے ” جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس کا فاسوس نہ کرو اورجو ملجائے اس پر مغرورنہ ہو جاؤ “لہٰذا جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اورآنے والے سے مغرورنہ ہوجائے اس نے سارا ہد سمیٹ لیا ہے ۔

(۴۴۰)

رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدر کمزوربنا دیتی ہے۔

(۴۴۱)

حکومتیں مردوں کے کردار کا میدان امتحان ہیں۔

(۴۴۲)

کوئی شہر تمہارے لئے دوسرے شہر سے زیادہ حقدار نہیں ہے۔بلکہ بہترین شہر وہ ہے جو تمہارا بوجھ اٹھائے رہے۔

(۴۴۳)

مالک اشتر کی خبر شہادت آنے کے بعدفرمایا: ”مالک کو کوئی کیا پہچان سکتا ہے۔واللہ اگر وہ پہاڑ ہوتا تو سب سے بلند تر ہوتا۔اور اگرپ تھر ہوتا تو سب سے زیادہ سخت تر ہوتا۔اس کی بلندیوں کونہ کوئی سم روند سکتا ہے اور نہ ہاں کوئی پرندہ پرواز کرسکتا ہے۔

سید رضی : فند پہاڑوں میں منفرد پہاڑ کو کہا جاتا ہے۔

(۴۴۴)

مختصر عمل جس کی پابندی کی جا سکے اس کثیر عمل سے بہتر ہے جو انسان کو دل تنگ بنادے ۔

(۴۴۵)

اگر کسی انسان میں کوئی اچھی خصلت پائی جاتی ہے تو اس سے دوسری خصلتوں کو بھی توقع کی جاسکتی ہے۔

(۴۴۶)

غالب بن صعصعہ (پدر فرزوق) سے گفتگو کے دوران فرمایا: تمہارے بیشمار اونٹوں ک کیا ہوا ؟ انہوں نے کہاکہ حقوق کی ادائیگی نے منتشر کردیا۔فرمایاکہ یہ بہترین اور قابل تعریف راستہ ہے۔

(۴۴۷)

جو احکام کو دریافت کئے بغیرتجارت کرے گاوہ کبھی نہ کبھی سود میں ضرور مبتلا ہو جائے گا۔

(۴۴۸)

جو چھوٹے مصائب کوبھی بڑا خیال کرے گا اسے خدا بڑے مصائب میں بھی مبتلا کردے گا۔

(۴۴۹)

جسے اس کانفس عزیز ہوگا اس کی نظرمیں خواہشات بے قیمت ہوں گی( کہ انہیں سے عزت نفس کی تباہی پیدا ہوتی ہے )

(۴۵۰)

انسان جس قدر بھی مزاح کرتا ہے اس قدر اپنی عقل کا ایک حصہ الگ کر دیتا ہے۔

(۴۵۱)

جو تمہاری طرف رغبت کرے اس سے کنارہ کشی خسارہ ہے اور جوتم سے کنارہ کش ہو جائے اس کی طرف رغبت ذلت نفس ہے ۔

(۴۵۲)

مالداری اورغربت کا فیصلہ پروردگار کی بارگاہ میں پیشی کے بعد ہوگا۔

(۴۵۳)

زبیر ہمیشہ ہم اہل بیت  کی ایک فرد شمار ہوتاتھا یہاں تک کہ اس کا منحوس فرزند عبداللہ نمودار ہوگیا۔

(۴۵۴)

آخر فرزند آدم کافخرو مباہات سے کیا تعلق ہے جب کہ اس کا ابتدا نطفہ ہے اورانتہا مردار۔وہ نہ اپنی روزی کا اختیار رکھتا ہے اور نہ اپنی موت کو ٹال سکتا ہے۔

(۴۵۵)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون تھا؟ تو فرمایا کہ سارے شعراء نے ایک میدان میں قدم نہیں رکھا کہ سبقت عمل سے ان کی انتہائے کمال کا فیصلہ کیاجاسکے لیکن اگر فیصلہ ہی کرنا ہے تو بادشاہ گمراہ (یعنی امراء القیس)

(۴۵۶)

کیاکوئی ایسا آزاد مرد نہیں ہے جو دنیاکے اس چبائے ہوئے لقمہ کو دوسروں کے لئے چھوڑ دے ؟ یاد رکھو کہ تمہارے نفس کی کوئی قیمت جنت کے علاوہ نہیں ہے لہٰذا اسے کسی اور قیمت پر بیچنے کا ارادہ مت کرنا۔

(۴۵۷)

دو بھوکے ایسے ہیں جو کبھی سیرنہیں ہو سکتے ہیں۔ایک طالب علم اور ایک طالب دنیا ۔

(۴۵۸)

ایمان کی علامت یہ ہے کہ سچ نقصان بھی پہنچائے تو اسے فائدہ پہنچانے والے جھوٹ پر مقدم رکھو۔ اور تمہاری باتیں تمہارے عمل سے زیادہ نہ ہوں اور دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے خداسے ڈرتے رہو۔

(۴۵۹)

(کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ) قدرت کا مقرر کیا ہوا مقدر انسان کے اندازوں پرغالب آجاتا ہے یہاں تک کہ یہی تدبیر بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔

سید رضی  : یہ بات دوسرے اندازسے اس سے پہلے گذر چکی ہے۔

(۴۶۰)

بردباری اورصبر دونوں جڑواں ہیں اور ان کی پیداوار کا سرچشمہ بلند ہمتی ہے۔

(۴۶۱)

غیبت کرناکمزور آدمی کی آخری کوشش ہوتی ہے۔

(۴۶۲)

بہت سے لوگ اپنے بارے میں تعریف ہی سے مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں۔

(۴۶۳)

دنیا دوسروں کے لئے پیدا ہوئی ہے اور اپنے لئے نہیں پیداکی گئی ہے۔

(۴۶۴)

بنی امیہ میں سب کا ایک خاص میدان ہے جس میں دوڑلگا رہے ہیں ورنہ جس دن ان میں اختلاف ہوگیا تواس کے بعد بجو بھی ان پر حملہ کرنا چاہے گا تو غالب آجائے گا۔

سید رضی : مرود۔ارواد سے مفعل کے وزن پر ہے اورارواد کے معنی فرصت اور مہلت دینے کے ہیں۔جو فصیح ترین اورعجیب ترین تعبیر ہے جس کا مقصد یہ ہے کہان کا میدانعمل یہی مہلت خداوندی ہے جس میں سب بھاگے چلے جا رہے ہیں ورنہ جس دن یہ مہلت ختم ہوگئی سارا نظام درہم وبرہم ہو کر رہ جائے گا۔

(۴۶۵)

انصار مدینہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا۔خدا کی قسم ان لوگوں نے اسلام کو اسی طرح پالا ہے جس طرح ایک سالہ بچہ ناقہ کو پالا جاتا ہے اپنے کریم ہاتھوں اور تیز زبانوں کے ساتھ۔

(۴۶۶)

آنکھ عقب کا تسمہ ہے۔

سید رضی : یہ ایک عجیب و غریب استعارہ ہے جس میں انسان کے عقب کو ظرف کو تشبیہ دی گئی ہے اور اس کیآنکھ کو تسمہ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جب تسمہ کھولدیاجاتا ہے تو برتن کا سامان محفوظ نہیں رہتا ہے۔عام طور سے شہرت یہ ہے کہ یہ پیغمبر اسلام کاکلام ہے لیکن امیر المومنین  سے بھی نقل کیا گیا ہے اور اس کاذکر مبردنے اپنی کتاب المقتضب میں باب اللفظ بالحروف میں کیا ہے اور ہم نے بھی اپنی کتاب المجازات النبویہ میں اس سے مفصل بحث کی ہے۔

(۴۶۷)

لوگوں کے امور کاذمہ دار ایک ایساحاکم بنا جوخود بھی سیدھے راستہ پر چلا اور لوگوں کوب ھی اسی راستہ پر چلایا۔یہاں تک کہ دین نے اپنا سینہ ٹیک دیا۔

(۴۶۸)

لوگوں پر ایک ایسا سخت زمانہ آنے والا ہے جس میں موسرا پنے مال میں انتہائی بخل سے کام لے گا حالانکہ اسے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا ہے اورپروردگار نے فرمایا ے کہ ” خبردار آپس میں حسن سلوک کوف راموش نہ کردینا “اس زمانہ میں اشرار اونچے ہو جائیں گے اور اخیار کوذلیل سمجھ لیا جائے گا مجبور و بیکس لوگوں کی خریدو فروخت کی جائے گی حالانکہ رسول اکرم نے اس بات سے منع فرمایا ہے۔

(۴۶۹)

میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔حدسے آگے بڑھ جانے والا دوست اورغلط بیانی اور افتر پردازی کرنے والا دشمن۔

سیدرضی  : یہ ارشاد مثل اس کالام سابق کے ہے کہ ” میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ۔ غلو کرنے والا دوست اور عناد رکھنے والا دشمن۔

(۴۷۰)

آپ سے توحید اور عدالت کے مفہوم کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ توحید یہ ہے کہ اس کی وہمی تصویر نہ بنائی جائے اور عدالت یہ ہے کہ اس کے حکیمانہ افعال کو متہم نہ کیا جائے ۔

(۴۷۱)

حکمت کی بات سے خاموشی اختیار کرنا کوئی خوبی نہیں جس طرح جہالت کے ساتھ بات کرنے میں کوئی بھلائی نہیں۔

(۴۷۲)

بارش کے سلسلہ میں دعاکرتے ہوئے فرمایا ”خدایا ہمیں فرمانبردار بادلوں سے سیراب کرنا نہ کہ دشوار گذار بروں سے۔

سید رضی : یہ انتہائی عجیب و غریب فصیح کلام ہے جس میں حضرت نے گرج ‘ چمک اورآندھیوں سے بھرے ہوئے بالدوں کو سر کش اونٹوں سے تشبیہ دی ہے جو پیر پٹکتے رہتے ہیں اور سواروں کو پٹک دیتے ہیں اور اسی طرح ان تام خطرات سے خالی بادلوں کوف رمانبردار اونٹوں سے تشبیہ دی ہے جو دوہنے میں مطیع اورس واری میں فرمانبردار ہوں۔

(۴۷۳)

آپ سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ اپنے سفید بالوں کا رنگبدل دیتے تو زیادہاچھا ہوتا؟ فرمایا کہ خضاب ایک زینت ہے لیکن ہم لوگ حالات مصیبت میں ہیں (کہ سرکار دو عالم کا انتقال ہوگیا ہے )

(۴۷۴)

راہ خدا میں جہاد کرکے شہید ہوجانے والا اس سے زیادہ اجرکا حقدار نہیں ہوتا ہے ۔ جتنا اجر اس کا ہے جو اختیارات کے باوجود عفت سے کام لے کہ عفیف و پاکدامن انسان قریب ہے کہ ملائکہ آسمان میں شمار ہو جائے۔

(۴۷۵)

قناعت وہ مال ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

سید رضی  : بعض حضرات نے اس کلام کو رسول اکرم کے نام سے نقل کیا ہے ۔

(۴۷۶)

جب عبداللہ عباس نے زیاد بن ابیہ کو فارس اور اس کے اطراف پر قائم مقام بنادیا تو ایک مرتبہ پیشگی خراج وصول کرنے سے روکتے ہوئے زیاد سے فرمایاکہ خبردار۔عدل کو استعمال کرو اور بیجا دباؤ اور ظلم سے ہوشیار رہو کہ دباؤ عوام کو غریب الوطنی پرآمادہ کردے گا اور ظلم تلواراٹھانے پر مجبور کردے گا۔

(۴۷۷)

سخت ترین گناہ وہ ہے جسے انسان ہلکا تصور کرلے۔

(۴۷۸)

پروردگار نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کا عہدلینے سے پہلے علماء سے تعلیم دینے کاعہد لیا ہے۔

(۴۷۹)

بدترین بھائی وہ ہے جس کے لئے زحمت اٹھانی پڑے۔

سید رضی  : یہ اس طرح کہ تکلیف سے مشقت پیدا ہوتی ہے اور یہ وہ شر ہے جو اس بھائی کے لئے بہر حال لازم ہے جس کے لئے زحمت برداشت کرنا پڑے ۔

(۴۸۰)

اگر مومن اپنے بھائی سے احتشام کرے تو سمجھو کہ اس سے جدا ہوگیا۔

سید رضی :حشمہ۔احشمہ:اس وقت استعمال ہوتا ہے جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ اسے غضب ناک کردیا یا بقولے شرمندہ کردیا۔اس طرح احتشمہ کے معنی ہوں گے۔ اس سے غضب یا شرمندگی کا تقاضا کیا۔ظاہر ہے کہایسے حالات میں جدائی لازمی ہے۔

یہ ہمارے عمل کی آخری منزل ہے جس کا مقصد امیر المومنین  کے منتخب کلام کاجمع کرنا تھا اورخدا کا شکرہے کہ اس نے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں آپ  کے منتشر کلمات کو جمع کرنے اور دور دست ارشادات کو قریب کرنے کی توفیق عنایت فرمائی اورہمارا روز اول سے یہ عزم رہا ہے کہ ہر باب کے آخرمیں کچھ سادہ اوراق چھوڑدیں تاکہ جو کلمات اس وقت ہاتھ نہیں لگے انہیں بھی گرفت میں لا سکیں اور جونئے ارشادات مل جائیں انہیں ملحق کر سکیں ۔شائد کہ کوئی چیز نگاہوں سے اوجھل ہونے کے بعد ظہورپذیر ہو جائے اور ہاتھ سے نکل جانے کے بعد ہاتھ آجائے۔

ہماری توفیق صرف پروردگار سے وابستہ ہے اوراسی پر ہمارابھروسہ ہے۔وہی ہمارے لئے کافی ہے اوروہی ہماراکارساز ہے۔اور یہ کتاب۴۰۰ئھ میں اختتام کو پہنچی ہے۔اللہ ہمارے سردار حضرت خاتم المرسلین اورہادی الی خیرالسبل اور ان کی اولاد طاہرین اوران اصحاب پر رحمت نازل کرے جوآسمان یقین کے نجوم ہدایت ہیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

تبصرے
Loading...