فاطمہ زہرا(س) حضرت علی(ع) کے گھر میں

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا باپ کے گھر سے شوہر کے گھر اور مرکز نبوّت سے مرکز ولايت ميں منتقل ہوگئيں ۔اور اس نئے مرکز ميں فاطمہ کے کاندھوں پر فرائض کا گراں بار آگيا۔
آپ چاہتى تھيں کہ اس مرکز ميں ايسى زندگى گذاريں کہ جو ايک مسلمان عورت کے لئے مکمل نمونہ بن جائے تا کہ آئندہ زمانہ ميں سارى دنيا کى عورتيں آپ(ع) کے وجود اور آپ(ع) کى روش ميں حقيقت ونورانيت اسلام ديکھ ليں۔
گھر کے محاذ ميں جناب فاطمہ کے کردار کے تمام پہلوؤں کو پيش کرنے کے لئے ايک مفصل کتاب کى ضرورت ہے ليکن اختصار کے پيش نظر يہاں چند چيزوں کى طرف اشارہ کيا جاتا ہے:
الف۔ گھر کا انتظام
حضرت فاطمہ زہراء اگر چہ بڑے باپ اور عظيم پيغمبر(ص) کى نور چشم تھيں اورکائنات ميںان سے بڑى شريف زادى کا وجود نہيں تھا ليکن ان باتوں کے باوجود آپ گھر ميں کام کرتى تھيں اور گھر کے دشوار کاموں سے بھى انکار نہيں کرتى تھيں۔
گھر کے اندر آپ اتنى زحمت اٹھاتى تھيں کہ على (ع) بھى ان سے ہمدردى کا اظہار کرتے اور ان کى تعريف کرتے ہوئے نظر آتے ہيں۔ اس سلسلہ ميں حضرت على (ع) نے اپنے ايک صحابى سے
فرمايا:کہ تم چاہتے ہو کہ ميں اپنى اور فاطمہ (ع) کى حالت تم کو بتاؤں؟
… آپ گھر کے لئے اتنا پانى بھر کر لاتى تھيں کہ آپ کے جسم پر مشک کا نشان پڑجاتا تھا اور اسى قدر چکياں چلاتى تھيں کہ ہاتھ ميں چھالے پڑجاتے تھے گھر کو صاف ستھرا رکھنے ، روٹى اور کھانا پکانے ميں اتنى زحمت برداشت کرتى تھيں کہ آپ کا لباس گرد آلود ہوجاتا تھا ۔
جناب سيدہ (ع) نے گھر کو ، حضرت علي(ع) اور اپنے بچوں کے لئے مرکز آسائشے بنادياتھا اس حد تک کہ جب حضرت على (ع) پر رنج و غم ، دشواريوں اور بے سروسامانيوں کا حملہ ہوتا تھا تو آپ(ع) گھر آجاتے اور تھوڑى دير تک جناب فاطمہ (ع) سے گفتگو کرتے تو آپ(ع) کے دل کو اطمينان محسوس ہونے لگتا ۔
امام جعفر صادق ۔فرماتے ہيں کہ على (ع) گھر کى ضرورت کے لئے لکڑى اور پانى مہيا کرتے گھر ميںجھاڑو ديتے اور فاطمہ چکى پيستيں اور آٹاگوندھ کر روٹى پکاتى تھيں۔
ب۔ شوہر کى خدمت
جناب فاطمہ وہ بى بى ہيں جنہوں نے غريب ليکن انتہائي با فضيلت انسان کے ساتھ عقد فرمايا۔ انہوں نے ابتدا ہى سے اسلام اور اپنے شوہر کے حساس حالات کو محسوس کرليا تھا ۔ وہ جانتى تھيں کہ اگر على (ع) کى تلوار نہ ہوتى تو اسلام کو اتنى پيش قدمى حاصل نہ ہوتى او ريہ بھى جانتى تھيں کہ اسلام کا بہادر سپہ سالار اس صورت ميں ميدان جنگ ميں کامياب ہوسکتا ہے جب گھر کے داخلى حالات کے اعتبار سے اس کى فکر آزاد اور وہ بيوى کى مہر و محبت اور تشويق سے مالامال ہو ۔ جب على (ع) ميدان جنگ سے تھک کر واپس آتے تھے تو ان کو مکمل طور پر بيوى کى مہربانياں اور محبتيں ملتى تھيں۔ حضرت فاطمہ انکے جسم کے زخموں کى مرحم پٹى کرتيں ، اور ان کے خون آلود لباس کو دھوتى تھيں۔چنانچہ جب حضرت على (ع) جنگ احد سے واپس لوٹے تو انہوں نے اپنى تلوار فاطمہ (ع) کودى اور فرمايا اس کا خون دھوڈالو۔
آپ زندگى کى مشقتوں ميں حضرت على (ع) کى ہم فکر اور ان کى شانہ بشانہ تھيں ۔ آپ ان کے کاموں ميں ان کى مدد کرتيں ، ان کى تعريف اور تشويق فرماتيں ، ان کى فداکارى اور شجاعت کى ستائش کرتيں اور ان کى کوششوں اور زحمتوں کے سلسلہ ميں بڑى فرض شناس تھيں۔ پورى زندگى ميںکوئي موقعہ بھى ايسا نہيں آياکہ جس ميں آپ نے اپنے شوہر سے دل توڑنے والى کوئي بات کہى ہو يا ان کے دل کورنج پہنچايا ہو ۔ بلکہ ہميشہ آپ اپنى بے لاگ محبت و عنايت سے ان کى دکھى روح اور تھکے ماندہ جسم کو تسکين ديتى رہى ہيں۔حضرت على (ع) اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں:
” جب ميں گھر آتا تھا اورميرى نظر فاطمہ زہرا پر پڑتى تو ميرا تمام غم و غصہ ختم ہوجاتا تھا”۔
جب آنحضرت (ص) نے على (ع) سے سوال کيا تھا کہ آپ نے” فاطمہ کو کيسا پايا؟ ” تو آپ(ع) نے جواب ميں فرمايا تھا کہ ” فاطمہ اطاعت خداوند عالم ميں ميرى بہترين مددگار ہيں۔
ج ۔ تربيت اولاد
جناب فاطمہ کے فرائض ميں سے ايک اہم فريضہ ،بچوں کى پرورش اور ان کى تربيت تھى ۔ آپ کو خداوند عالم نے پانچ اولاديں عطا کى تھيں، حسن (ع) ، حسين (ع) ، زينب (ع) ، ام کلثوم (ع) اور محسن (ع) ۔ پانچويں فرزند جن کا نام محسن تھا، وہ سقط ہوگئے تھے۔ آپ کے تمام بچے پاکیزہ ، با اخلاص اورخدا کے مطيع تھے۔ جناب فاطمہ نے ايسى اولاد کى پرورش کى کہ جو سب کے سب اسلام کے محافظ اور دين کى اعلى اقدار کے نگہبان تھے ۔ کہ جنھوں نے اس راستہ ميں اپنى جان دينے کى حد تک مقاومت کا مظاہرہ کيا ۔ ايک نے صلح کے ذريعہ اور دوسرے نے اپنے خونين انقلاب سے نہال اسلام کى آبيارى کى اور دين اسلام کو بچاليا۔
ان کى بيٹيوں نے بھى خاص کر واقعہ کربلا ميں اپنے بھائيوں کى آواز اور امام حسين(ع) کے پيغام کو کوفہ ، شام اور تمام راستوں ميں دوسروں تک پہنچايا۔

تبصرے
Loading...