غدير اور مسلمانوں کواندر سے درپيش خطرہ

٭يہ تقرير ِعيد ِ غديرکي رات ١٣٩٠ھ مطابق ١٩٦٨ئ مرکز تعليمِ دين و دانش نجف باد کي مسجد ِ چہار سوق ميں کي گئي

اعوذ باللّٰہ من الشيطان الرجيم

’’اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ فَلااَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلااَامَ دِيْنًا۔‘‘(سورہ مائدہ٥۔يت٣

سب سے پہلے ميں پ بھائيوں اور مولائے متقيان علي عليہ السلام کے تمام شيعوںکو اس عيدِسعيد پر مبارک باد پيش کرتا ہوں۔ ميرے لئے يہ امر باعثِ مسرت ہے کہ ميں ايک ايسي محفل ميں شريک ہوں جو نوجوانوں اور طلباکے ايک گروہ کي طرف سے منعقد کي گئي ہے۔ درحقيقت جو بات سب سے زيادہ باعثِ خوشي و مسرت ہے‘ وہ عام مسلمانوں اور خصوصاً نوجوان طبقے ميں ايک ديني و مذہبي تحريک کي علامتوں کا دکھائي دينا ہے‘ اپنے ملک ميں اسکے ہم خود شاہد و ناظر ہيں۔ وہ بھي طلبا کے جوان طبقے ميں جن کے اذہان علمي مفاہيم سے شنا ہيں۔ اولاً ہر ملک کے جوانوں کے رجحانات ديکھ کر اس ملک کے مستقبل کا اندازہ لگايا جاسکتا ہے۔ کيونکہ جوانوں کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے‘ خصوصاً تعليم يافتہ جوان اور طلبائ ۔ 

اگرچہ ايک طرف بعض ناپاک عناصر اپني سرگرميوں کے ذريعے اس بات کے لئے کوشاں ہيں کہ ہر ممکن طريقے سے نوجوان طبقے کو برائي کي طرف کھينچ لے جائيں‘ اور دوسري طرف ايسي سرگرمياں جاري ہيں جن کا مقصد دين و مذہب اور علم ودانش کے درميان مصنوعي تضادايجاد کرنا ہے۔جوانوں ميں پيدا ہونے والي تحريک کا يہ ہراول دستہ اس بات کي علامت ہے کہ يہ مضر اور خطرناک کوششيں بحمدللہ ناکام ہو رہي ہيں۔ 

يہ مقدس شب ‘جو عيد ِسعيد ِغدير کي رات ہے اور مولائے متقيان عليٴ سے نسبت رکھتي ہے‘ اس ميں بہت سے موضوعات پر بحث و گفتگو کي گنجائش اور مناسبت پائي جاتي ہے۔ کيونکہ خود عليٴ ايک وسيع اور جامع موضوع ہيں۔ خاص طور پر غدير اور خلافت‘ امامت اور ولايت پر حضرت عليٴ کے نصب کئے جانے کا موضوع بھي اپنے مقام پر بہت وسيع ہے۔اس پر مختلف حوالوں سے بات کي جاسکتي ہے۔ جيسے کہ غدير کے موقع پر پيغمبر اکرم۰ کے فرمان: مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَھٰذا عَلِيّ¾ مَوْلاہُ (جس کا ميں مولا ہوں ‘پس يہ علي بھي اسکے مولا ہيں) سے اس سے پہلے اور بعد کي باتوں کو پيش نظر رکھتے ہوئے کيا مراد ہے؟ کيونکہ اس سے پہلے (نحضرت۰ نے) يہ فرماياتھا کہ: اَلَسْتُ اَوْليٰ بِکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ؟ (کيا ميں خود تم پر تم سے اولويت (اور زيادہ حق) نہيں رکھتا؟) کيا ميں تم پر حق ولايت نہيں رکھتا؟ نحضرت۰ نے قرن کي اس يت ِکريمہ کي طرف اشارہ کياہے کہ: اَلنَّبِيُّ اَوْلٰي بِالْمُْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ (نبي تمام مومنين پراُن سے بڑھ کر حق رکھتا ہے۔ سورہ احزاب۔يت٦) سب پکارے:۔ بليٰ بليٰ (ہاں ہاں ايسا ہي ہے)۔ پھرپ نے فرمايا: مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَھٰذا عَلِيّ¾ مَوْلاہُ اور اسکے بعد فرمايا کہ: اَللّٰھُمَّ والِ مَنْ والاہُ وَ عادِ مَنْ عاداہُ (يااللہ اس سے محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے اور اسے دشمن رکھ جو اس سے دشمني رکھے

وہ تمام نصوص جو اس حوالے سے قرنِ مجيد ميںموجود ہيں‘ يا پيغمبر اکرم۰ نے حضرت عليٴ کے بارے ميں فرمائي ہيں‘ بطورِ کلي مولائے متقيان کا لائق ترين ہونا اور پٴ کے ديگر فضائل‘ يہ وہ مسائل ہيں جن پر ج شب کي مناسبت سے بات کي جاسکتي ہے۔ ليکن ميں چاہتا ہوں کہ اپني معروضات کو اس موضوع سے مخصوص کروں جو عملي حوالے سے ہمارے لئے زيادہ سود مند‘ مفيد تر اور زيادہ سبق موز ہے اور اسکے ساتھ ساتھ غدير کے مباحث اورفصول ميں سے بھي ايک ہے‘اور وہ يہ ہے کہ:حضرت عليٴ کي خلافت کے بارے ميںفرمانِ رسول صلي ا® عليہ و لہ وسلم پر عمل درمد کيوں نہيں ہوا؟ 

واقعہ غدير اور رسولِ اکرم۰ کي وفات کے درميان تقريباً ڈھائي ماہ کا فاصلہ تھا۔ خر کس طرح مسلمانوں نے (اتني جلدي) رسولِ اکرم۰ کي وصيت نظرانداز کردي؟ 

پہلا نظريہ 

يہ کہا جائے کہ تمام مسلمانوں نے اپنے قومي اور عربي تعصب کي وجہ سے اسلام اور رسول اللہ سے يکسر منھ موڑ ليا تھااور باغي ہوگئے تھے۔جب انہيں اس مسئلے کا سامنا ہوا تو وہ ايک دم اسلام سے روگرداں ہوگئے۔ يہ ايک طرح کي توجيہ و تفسير ہے۔ ليکن بعدکے واقعات اس بات کي نشاندہي نہيں کرتے کہ مسلمان اسلام اور رسول اللہ صلي ا® عليہ و لہ وسلم سے مکمل طور پر روگرداں ہوگئے تھے‘ جس کے نتيجے ميں وہ اپني گزشتہ جاہليت کي حالت اور بت پرستي کي طرف لوٹ گئے تھے۔ 

دوسرا نظريہ 

دوسرا مفروضہ يہ ہے کہ ہم کہيں کہ مسلمان اسلام سے روگرداں ہونا نہيں چاہتے تھے ليکن رسول اللہ کے اس ايک حکم کے بارے ميں انہوں نے نافرماني کا رويہ اختيار کيا۔ بعض وجوہات اور خاص پہلوؤں کے پيش نظر اس ايک حکم کو برداشت کرنا ان کے لئے مشکل تھا۔ مثلاً کيونکہ حضرت عليٴ نے(اسلام کي خاطر لڑي گئي جنگوں ميں) ان کے آبائ کو قتل کيا تھا‘اس لئے اُن کے اندرحضرت عليٴ کے بارے ميں کينہ موجود تھا‘ يا بعض اہلِ سنت کے بقول وہ اس وقت يہ نہيں چاہتے تھے کہ نبوت و خلافت ايک ہي خاندان ميں ہو‘ يا پھر يہ کہ حضرت عليٴ کا عدم تساہل‘ سخت گيري‘ دو ٹوک رويہ اور غير لچکدار ہونا بھي اپنے مقام پر ايک وجہ تھي۔ معاصر علمائے اہلِ سنت ميںسے بعض نے اسے بھي ايک سبب قرار ديا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت عليٴ مسلمانوں کے درميان سختي‘ شدت اور غير لچکدار ہونے کے حوالے سے معروف تھے‘ اُن کي اس صفت کي وجہ سے مسلمانوں کي نظريں عليٴ کي طرف نہ اٹھيں (البتہ وہ يہ نہيں کہتے کہ مسلمانوں نے نصِ رسول۰ کو نظر انداز کرديا تھا)۔ مسلمان کہتے تھے کہ اگر عليٴ برسرِاقتدار گئے‘ تو کسي کا لحاط نہيں کريں گے‘ کيونکہ عليٴ کي سابقہ زندگي سے يہي واضح ہوتا تھا۔ 

حکمِ الٰہي کے نفاذ ميں حضرت عليٴ کے غير لچکدار طرزِ عمل کي ايک مثال 

حجۃ الوداع ہي کے موقع پر‘ واقعہ غدير سے چند روز قبل ‘ پيغمبر اکرم۰ نے حضرت عليٴ کو يمن روانگي کا حکم ديا تاکہ يمن کے نومسلموں کو اسلام کي تعليمات پہنچائي جائيں۔ يمن سے حضرت عليٴ مکہ لوٹ کر ئے اور ادھر رسولِ اکرم۰ بھي مدينہ سے مکہ تشريف لائے۔ مکہ ميں وہ ايک دوسرے سے ملے۔ حضرت عليٴ اپني فوج کے ساتھ رہے تھے۔ فوج کے ہمراہ يمن کي کچھ نئي قبائيں تھيں۔ حضرت علي يہ قبائيں رسولِ اکرم۰ کي خدمت ميں پيش کرنے کے لئے لارہے تھے۔ البتہ وہ بعد ازاں تقسيم ہوجاتيں اور پہلے درجے ميں انہي سپاہيوں کو ملتيں۔ 

واپسي پر حضرت عليٴ مکہ سے ابھي چند منزل کے فاصلے پر تھے کہ خود گے روانہ ہوکر رسولِ اکرم۰ کي خدمت ميں پہنچ گئے‘ تاکہ اپنے کام کي رپورٹ پيش کرسکيں۔ اُنہيں پھر واپس کر فوج کے ہمراہ پہنچنا تھا۔ 

اس دوران ميں جبکہ حضرت عليٴ رسولِ اکرم۰ کي خدمت ميں تھے فوجيوں نے خود سے يہ سوچ ليا کہ اب جبکہ ہم مکہ ميں داخل ہو رہے ہيں‘ ہمارے لباس گندے اور پرانے ہيں‘ کيوں نہ ہم يہ نئي قبائيں نکال کر پہن ليں اور نئے لباس کے ساتھ مکہ ميں داخل ہوں‘خر کار يہ ہم ہي کو تو ملني ہيں۔ انہوں نے ايسا ہي کيا۔ جب حضرت عليٴ لوٹ کر ئے تو انہوں نے بيت المال ميں ہونے والے اس تصرف پر اعتراض کيا اور اسے خلاف ِقانون قرار ديا۔ 

جب فوج مکہ پہنچي تو رسولِ اکرم۰ نے ان سے سوال کيا کہ عليٴ تمہارے لئے کيسے امير اور سپہ سالار رہے؟ کہنے لگے: يارسول اللہ! عليٴ کي ہر بات اچھي ہے‘ ليکن کچھ سخت گير ہيں۔ رسولِ اکرم۰ نے عليٴ پر اعتراض کرنے پر ناراضگي کا اظہار کيا اور فرمايا: عليٴ کے بارے ميں ايسي بات مت کرو انّہُ لَاَخْشَنُ (يالَاُخَيْشِنُ) في ذات اللّٰہ‘ جس مقام پر حق کا مسئلہ درپيش ہو يا حکمِ خدا کا معاملہ ہو ‘وہاں عليٴ ايک ايسے وجود ميں تبديل ہوجاتے ہيں جس ميں کوئي نرمي نہ ہو۔ وہي شخص جو سرتاپا نرمي ہے‘ اپني نرمي کو حکمِ الٰہي ميں ہرگز دخل انداز نہيں ہونے ديتا۔ 

بہرحال يہ بھي ايک پہلو ہے‘ جسے بعض نے بيان کيا ہے۔ ليکن صرف اسکے ذريعے اتنے بڑے واقعے کي توجيہ نہيں کي جاسکتي۔يہ بات کيسے کہي جاسکتي ہے کہ تمام مسلمان ايک دم مرتد ہوگئے اور اسلام سے پھرگئے؟ اس ايک مسئلے ميں تمام مسلمانوں نے نافرماني کي‘ يہ بات بہت زيادہ بعيد نہيں ہے‘ ليکن کيا سب مسلمانوں کے بارے ميں کہا جاسکتا ہے کہ وہ پھر گئے ‘ يا پھر کوئي اور معاملہ بھي ہے اور وہ يہ ہے

صحيح نظريہ: مسلمان فريب کھاگئے 

اس مسئلے ميں مسلمان فريب کھاگئے ۔يعني ايک گروہ نافرمان ہوگيا۔ اس زيرک و نافرمان گروہ نے عامتہ المسلمين کو اس مسئلے ميں فريب ديا۔ ميں نے شروع ميںايک يت کي تلاوت کي ہے۔ اس يت سے ہم اپني گفتگو کا غاز کرسکتے ہيں اور اسي يت سے ہم نتيجہ بھي اخذ کرسکتے ہيں۔ يہ وہي يت ہے جو امير المومنين حضرت عليٴ کے نصب کئے جانے کے بارے ميں‘ يعني خلافت کے لئے پ کے تقرر کے بعد نازل ہوئي۔ يہ يت ہے:اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ ( ج کے دن کفار تمہارے دين سے مايوس ہو گئے ہيں

يعني ج سے کفار اس بات سے نااميد ہوگئے ہيں کہ وہ کفر کے راستے سے ‘دائرہ اسلام کے باہرسے اسلام پر حملہ کر سکيں گے۔ اب وہ مايوس ہو گئے ہيں کہ اس راہ سے کوئي نتيجہ حاصل کر سکيں گے۔ اب وہ سمجھ گئے ہيں کہ اسلام کو باہر سے نقصان نہيں پہنچايا جاسکتا۔فَلااَا تَخْشَوْہُم‘ اے مسلمانو! اب کفار سے خوف نہ کھانا اور پريشان نہ ہونا۔ 

يہاں تک دو جملے ہيں۔ پہلے جملے ميں ايک تاريخي حقيقت کو بيان کيا گيا ہے‘ اور دوسرے جملے ميں تسلي دي گئي ہے۔ پہلے جملے ميں کہاگيا ہے کہ اب وہ کچھ نہيں کريں گے کيونکہ نااميد ہوگئے ہيں۔اب اسکے بعد وہ تگ ودو نہيں کريں گے۔ دوسرے جملے ميں تسلي دي گئي ہے کہ اب تم ان کي طرف سے بے فکرر ہو۔ 

بعد کا جملہ بہت عجيب ہے۔وَاخْشَوْن ‘ اپنے دين کے بارے ميںاُن کي طرف سے فکرمند نہ ہونا‘ البتہ مجھ سے ڈرنا۔ مطلب يہ ہے کہ ميري طرف سے فکرمند ہونا۔ 

خدا کي طرف سے فکرمندہونے سے کيا مراد ہے؟ خدا کي طرف سے تو پراميد ہونا چاہئے۔ پھر قرن کيوں کہتا ہے کہ خدا کي طرف سے فکرمند رہو۔ نکتہ اور جانِ کلام اسي مقام پر ہے۔ 

ہمارے دوبارہ پھر اسي نکتے پر پلٹ کر نے تک اس بات کو ذہن ميں رکھئے گا۔ 

(پہلا جملہ)’’اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُم‘‘ 

(دوسرا جملہ)’’فَلااَا تَخْشَوْہُم۔‘‘ 

’’اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلااَامَ دِيْنًا۔‘‘ 

ج ميں نے تمہارا دين سرحدِ کمال تک پہنچا ديا۔ وہ چيز جو اس دين کا کمال ہے‘ميں نے ج تمہيں وہ عطا کردي ہے۔ وہ چيز جس کے ذريعے ميں نے اپني نعمت کو پورا کيا ہے‘ اسے ج ميں نے پورا کرديا ہے۔ ج ميں نے تمہارے لئے دين اسلام کو ايک دين کے طور پر پسند کرليا ہے۔ يا وہ اسلام جو ہمارے پيشِ نظر کامل اور مکمل اسلام تھا‘ وہ يہ ہے جو ج ہم نے تمہيں عنايت کيا ہے۔ 

يہاں پر ہمارے سامنے دو تعبيريں ہيں: اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ اور اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِي۔ تمہارے دين کو ميں نے حد ِکمال تک پہنچاديا ہے اور اپني نعمت کا (جو يہي دين کي نعمت ہے) اتمام کرديا ہے۔ 

اتمام اور اکمال کے درميان فرق 

’’اتمام‘‘ اس مقام پر کہا جاتا ہے جب کوئي بنائي جانے والي چيز ابھي ناقص ہو‘ يعني اس کے بعض اجزا ابھي نامکمل ہوں۔ مثال کے طور پراگر ايک عمارت تعمير کريں‘ تو جن کاموں کے بعد عمارت قابلِ استعمال ہوتي ہے وہ تمام کام ختم ہونے سے پہلے‘ مثلاً ابھي اسکي چھت باقي ہو‘ يا ابھي اسکے دروازے نہ لگائے گئے ہوں ‘تو ايسي عمارت کو ’نامکمل ‘ کہتے ہيں۔ ليکن ’اکمال‘ ايک دوسري چيز ہے۔ ممکن ہے ايک چيز کا پيکر اور جسم تيار اورمکمل ہو ليکن اس لحاظ سے کہ وہ روح نہيں رکھتي اور جس حقيقت اور ثار کے مرتب ہونے کي اس سے توقع ہے وہ مرتب نہ ہوئے ہوں‘ تو کہتے ہيں کہ(يہ چيز) کامل نہيں۔ مثلاً اگر کہتے ہيں کہ علم کا کمال اس پر عمل ہے‘ تو اسکے يہ معني نہيں ہيں کہ جب تک عمل نہ ہو علم کا کوئي حصہ ناقص ہے‘ نہيں علم علم ہے‘ علم علم ہي کے ذريعے مکمل ہوتا ہے ليکن علم عمل کے ذريعے کامل ہوتا ہے۔ يعني علم کے جو ثار حاصل کئے جانے چاہئيں وہ عمل سے ہي حاصل ہوں گے۔ 

’’اِنَّ کَمالَ الْعِلْمِ بِالْعَمَلِ وَ کَمالَ الْعَمَلِ بِالنِّيَّۃِ وَ کَمالَ النِّيَّۃِ بِالْاِخْلاص۔‘‘ 

’’کمالِ علم عمل سے ہے‘ کمالِ عمل نيت سے ہے اور کمالِ نيت اخلاص سے ہے۔‘‘ 

نيت عمل کا جز نہيں ليکن اگر عمل کے ہمراہ کوئي نيت نہ ہو تو ايسا عمل بے اثر ہوگا۔ اخلاص بھي نيت کا جز نہيں ليکن اگر اخلاص نہ ہو تو نيت بے اثر ہوگي۔ اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ‘ يہ حکم (يعني حضرت علي عليہ السلام کا امامت کے لئے نصب کيا جانا)کيونکہ دين کے اجزا ميں سے ايک جز اور احکامِ دين ميں سے ايک حکم ہے‘ پس (اب تک) نعمت ناتمام تھي‘ اب تمام ہوگئي۔ پھر اس اعتبار سے کہ اگر يہ حکم نہ ہوتا تو ديگر احکام نامکمل ہوتے‘ ان تمام (احکام) کا کمال اس سے وابستہ ہے 

۔ يہي وجہ ہے جو ہم کہتے ہيں کہ روحِ دين ولايت و امامت ہے۔ اگر انسان کے پاس ولايت و امامت نہ ہو‘ تو اسکے اعمال کي حيثيت ايک بے روح جسم کي سي ہوگي۔ 

اب ہم اُس جملے کي طرف تے ہيں جس کے بارے ميں ہم نے وعدہ کيا تھا کہ ہم اسکي وضاحت کريں گے۔ 

فرمايا: اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ فَلااَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْن۔ ج کافر تمہارے دين سے مايوس ہوگئے ہيں۔ اُن کي طرف سے فکرمند نہ ہونااور اُن سے نہ ڈرنا‘ ميري طرف سے فکرمند ہونااورمجھ سے ڈرنا۔ 

مشيت ِالٰہي کي کيفيت 

اولاً قرنِ کريم کا ايک کلي اصول ہے‘اور وہ يہ کہ وہ کہتا ہے کہ ہر چيز مشيتِ الٰہي سے ہے۔ دنيا ميں کوئي چيز مشيتِ الٰہي کے بغير وقوع پذير نہيں ہوتي: وَ لااَا رَطْبٍ وَّ لااَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ کِتٰبٍ مُّبِيْن( سورہ انعام۔يت٥٩

اس کے کيا معني ہيں؟ کيا مشيت ِالٰہي کوئي حقيقت ہے‘ يا پھر ويسے ہي بغير کسي حساب کتاب کے‘ قرعہ اندازي کي طرح ايک چيز يہاں سے اور ايک چيز وہاں سے چن لينا ہے؟ 

دوسري يات اسکي وضاحت کرتي ہيں کہ مشيتِ الٰہي کائنات ميں ايک سنت‘ قانون اور حساب رکھتي ہے۔ 

يہ کيسے ہوتا ہے؟ 

قرن کي دو يات ميں‘ ان يات ميں پائے جانے والے ايک باريک سے فرق کے ساتھ‘ اس طرح ارشاد ہوتا ہے: ’’اِنَّ ا®َ لااَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۔‘‘ (سورہ رعد١٣۔يت١١

خدا کسي قوم 

کے حالات کو اس وقت تک نہيں بدلتا جب تک وہ خود اپنے پ کو تبديل نہ کرلے۔ اللہ کسي قوم کو جو نعمت عطا فرماتا ہے‘ وہ اس وقت تک اس سے واپس نہيں ليتا جب تک وہ قوم خود اپنے پ کو تبديل نہيں کر ليتي۔ يعني جب وہ اس ن 

عمت کے لئے اپني قابليت اور صلاحيت کو گنواديتي ہے‘ تب اللہ اس سے اپني نعمت سلب کرليتا ہے۔ 

يعني يہ جو ہم کہتے ہيں کہ ہر کام مشيتِ الٰہي سے ہوتا ہے‘ تو اسکے معني يہ نہيں ہيں کہ کسي چيز کے لئے کوئي شرط نہيں ہوتي۔ ہر چيز ہماري مشيت سے ہے۔ ہم نے دنيا کے لئے ايک قانون اور قاعدہ رکھا ہے۔ سبب اور مسبب قرار ديا ہے‘ شرط اور مشروط مقرر کئے ہيں۔ نعمتيں‘ جن ميں ’’وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ ‘‘ بھي شامل ہے (بغير کسي قاعدے قانون کے نہيں ہيں)۔ اے مسلمانو! ميں نے تمہارے لئے اپني نعمت تمام کردي ہے اور تمہيں اپني نعمت عطا کردي ہے۔ يہ نعمت تمہارے پاس پائيدار اور مستحکم ہے يا نہيں؟ نقصان پذير ہے يا نہيں؟ قرن جواب ديتا ہے: اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ ‘ خارجي اور بيروني طرف سے ‘اُس دشمن کي طرف سے جو دشمن کي صورت ميں ہے اور کافر ہے‘ اب اسلام کو کوئي نقصان نہيں پہنچ سکتا‘ اُن کي طرف سے کوئي خوف اور فکرمندي نہيں ہے۔ 

پھر فکر مندي کس کي طرف سے ہے؟ 

ميري طرف سے۔ 

ميري طرف سے کيا مراد ہے؟ 

ميري مشيت کي طرف سے۔ 

ميري مشيت کي طرف سے کيسے؟ 

ميں نے تم سے کہا ہے کہ ميں کوئي نعمت اُس وقت تک لوگوں سے سلب نہيں کرتا جب تک وہ لوگ خود نہ بدل جائيں اور اپنے پ کو متغيرنہ کرليں۔ پس اے مسلمانو! اب جو ضرر بھي اسلامي معاشرے کو پہنچے گا وہ اندر سے پہنچے گا‘ باہر سے نہيں۔ باہر والے اندر کي مدد سے فائدہ اٹھائيں گے۔ 

يہ ايک بنيادي اصول ہے۔ دنيائے اسلام نے جو نقصان بھي اٹھايا ہے‘ يا ہمارے زمانے تک اٹھا رہي ہے ‘وہ خود اسکے اندر سے ہے۔ يہ نہ کہئے گا کہ باہر بھي دشمن موجود ہے۔ ميں بھي مانتا ہوں کہ باہر دشمن ہے‘ ليکن باہر کا دشمن باہر سے کچھ نہيں کر سکتا۔ باہر کا دشمن بھي اندر سے کام کرتا ہے۔ (لہذا) مجھ سے ڈرو کہ کہيں تمہارا اخلاق‘ روح‘ روحاني خصوصيات‘ ملکات اور اعمال بدل نہ جائيں۔ اگر ايسا ہوگيا‘ تو ميں اپني اُس سنت کي بنا پر کہ جو لوگ اپني قابليت اور صلاحيت گنواديتے ہيں ميں اُن سے نعمت سلب کرليتا ہوں‘ تم سے بھي يہ نعمت واپس لے لوں گا۔ 

پيغمبر اسلام۰ کي دو حديثيں 

رسولِ اکرم صلي اللہ عليہ ولہ وسلم نے فرمايا

’’اِنّي لا اَخافُ عَليٰ اُمَّتِيَ الْفَقْرَ وَلٰکِنْ اَخافُ عَلَيْھِمْ سوئَ التَّدْبيرِ۔‘‘ 

مجھے اپني امت کے بارے ميں اقتصادي فقر اور غربت کا ڈر نہيں ہے۔ فقر ميري امت کو تباہ نہيں کرے گا۔ ميں اپني امت کے بارے ميں کج فکري‘ بدفکري‘ بدانديشي اور جہالت و ناداني سے خوفزدہ ہوں۔ اگر مسلمان بصيرت ‘ دور انديشي‘ مستقبل بيني‘ گہري نظر اور گہري فکر سے محروم ہوکر ظاہر بين اور سطحي ہوگئے‘ تو يہ وہ وقت ہوگا جب اسلام کے لئے خطرہ پيدا ہوجائے گا۔ 

خوارج کون تھے؟ يہ ظاہر بين لوگ تھے‘جو گہرائي ميں نہيں ديکھتے تھے، کوتاہ نظر تھے ليکن تھے اطاعت گزار‘ ديندار‘راسخ العقيدہ اور عابد و زاہد۔ حضرت عليٴ اُنہيں رياکار نہيں سمجھتے تھے۔ پٴ نے اُن پر بہت تنقيد کي ہے ليکن يہ نہيں کہا کہ وہ اپني عبادت ميں رياکار تھے۔ فرماتے تھے کہ وہ کج فہم اور کج فکر ہيں۔ 

پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کي دوسري حديث‘ اميرالمومنين حضرت عليٴ نے اُس فرمان ميں نقل کي ہے جو پ نے محمد ابن ابوبکر کے نام لکھا تھا اور جو نہج البلاغہ ميں موجود ہے۔ محمد ابن ابوبکر‘ حضرت ابوبکر کے بيٹے ہيں۔ ان کي والدہ اسمائ بنتِ عميس ہيں۔ وہ حضرت ابوبکر سے پہلے جعفر ابن ابي طالب کي زوجہ تھيں۔ ان سے ان کے بيٹے عبداللہ بن جعفر تھے۔ بعد ازاں حضرت ابوبکر نے ان سے شادي کرلي اور ان سے محمد ابن ابوبکر دنيا ميں ئے۔ وہ بہت پاکيزہ ہستي تھے۔ حضرت ابوبکر کے بعد اسمائ سے اميرالمومنين (عليٴ) نے شادي کرلي۔ محمد امير المومنين کے ربيب‘ يعني اميرالمومنين کي زوجہ کے بيٹے ہوگئے۔ کيونکہ وہ بہت چھوٹے تھے اور حضرت ابوبکر کي وفات کے وقت شايددو سال کے تھے‘ لہٰذا حضرت علي کے گھر ميں پلے بڑھے۔ کہتے ہيں کہ حضرت عليٴ فرمايا کرتے تھے کہ:مُحَمَّد¾ ابْني مِنْ صُلْبِ اَبي بَکْر(محمد ميرا بيٹا ہے‘ اگرچہ ابوبکر کے صلب سے ہے)بہرحال وہ بہت صالح‘ متقي اور پاکيزہ شخص تھے اور حضرت عليٴ کے ساتھ رہتے ہوئے شہيد ہوئے۔ حضرت عليٴ نے اُنہيں مالک ِ اشتر سے پہلے مصر کي حکومت کے لئے مقرر کيا تھااور وہ وہيں شہيد ہوئے۔ جو فرمان پ نے اُن کے نام جاري کيا اُس کے خر ميں فرماتے ہيں کہ ميں نے رسول اللہ صلي ا® عليہ ولہ وسلم سے سنا ہے کہ

’’ميں اپني امت کے بارے ميں نہ مومن سے ڈرتا ہوں اور نہ مشرک سے ۔ کيونکہ مومن کو ا® اسکے ايمان کي وجہ سے (گمراہ ہونے سے) بچائے رکھے گا۔‘‘ 

(يہ نہ کہئے گا کہ پس خوارج بھي تو مومن تھے۔ جو ايمان بصيرت کے بغير ہو‘ اسلام اسے حقيقي ايمان نہيں سمجھتا۔وہ عبادت گزار تھے ليکن اسلام جيسا مومن چاہتا ہے کہ’’اَلْمُوْمِنُ کَيِّس¾ فَطِن¾‘‘ ويسے نہ تھے) ۔ 

مومن کو خدا اسکے ايمان کے سبب محفوظ رکھتا ہے‘ بچا ليتا ہے۔ يعني اُس کا ايمان اُسے محفوظ رکھنے اور بچانے والا ہے۔پس مومن کي طرف سے کوئي مشکل نہيں ہے۔ 

رہا مشرک و کافر‘ وہ جس کے ظاہر و باطن سے کفر چھلکتا ہے، اللہ اسکے شرک کي وجہ سے اس کاقلع قمع کرديتا ہے۔ 

يت ’’اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُم ‘‘ کا يہي مفہوم ہے۔ 

’’وَ لٰکِنّي اَخافُ عَلَيکُمْ کُلَّ مُنافِقِ الْجَنانِ عالِمِ اللِّسانِ يَقولُ ما تَعْرِفونَ وَ يَفْعَلُ ما تُنْکِرونَ۔‘‘ 

مگر مجھے جن کي طرف سے خوف اور فکر مندي ہے‘وہ منافق اور دو رُخے لوگ ہيں۔ جن کي زبان اور ظاہر کا رُخ ايک طرف ہے اور قلب و باطن کا رُخ دوسري طرف۔ دينداري کا اظہار کرنے والے بے دين افراد۔ عالِمِ اللِّسانِ‘ جن کي زبان عالم ہے‘ جو اپني زبان سے مومن و مسلمان ہيں۔ کيونکہ عالم ہيں‘ اس لئے اُن کي زبان خوب چلتي ہے۔ ليکن اُن کا دل نفاق سے بھرا ہوا ہے۔ کہتے کچھ ہيں اور کرتے کچھ اورہيں: يَقولُ ما تَعْرِفونَ وَ يَفْعَلُ ما تُنْکِرونَ ۔ بات ايسي کرتے ہيں جس سے پ مانوس و شنا ہوں اور جسے پ جانتے ہوں۔بات تو اچھي کرتے ہيں‘ عمدہ اور بلند۔جب بات کرتے ہيں توپ ان کے فلسفے کے شيفتہ ہوجاتے ہيں‘ واہ واہ کرنے لگتے ہيں۔ (کہتے ہيں) واقعاً مسلمانوں ميں ايسے فرد پر افتخار کرنا چاہئے۔ ليکن اگر اس دمي کے عمل کو گہري نظر سے ديکھيں گے‘ تو اُسے اس چيز کے برخلاف پائيں گے جسے پ پہچانتے ہيں۔ يعني بالکل الٹ اور سب ’’منکر‘‘۔ اس کا قول تو ’’معروف‘‘ ہوتا ہے‘ليکن عمل ’’منکر‘‘۔ 

اس بنياد پر جب ہم ديکھتے ہيں‘ تونظر تا ہے کہ رسولِ اکرم۰ دو گروہوں کي طرف سے فکر مند اور خائف ہيں۔ ايک عالم و زيرک ليکن منافق افراد کا گروہ‘ جو ظاہراً مسلمان ہيں اور باطناً کافر اور دوسرا عبادت گزار ليکن بے بصيرت و جاہل مسلمانوں کا گروہ۔ 

ايک دوسري حديث 

رسول اللہ صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کي ايک اور حديث ہے۔ پ نے فرمايا

’’قَصَمَ ظَہْري رَجُلانِ: عالِم¾ مُتَھَتِّک¾ وَ جاہِل¾ مُتَنَسِّک¾۔‘‘ 

يہ حديث بھي انہي دواحاديث کا مفہوم بيان کر رہي ہے۔ فرماتے ہيں: دو طرح کے دميوںنے ميري کمر توڑ ڈالي ہے۔ 

رسول اللہ کي کمر توڑ ڈالنے سے کيا مراد ہے؟ 

ايک شخص گناہگار ہوتا ہے ليکن کبھي کبھي اسکے گناہ کا بُرااثر صرف اُسي تک محدود رہتا ہے‘ ليکن کبھي ايک ايسا شخص ہوتا ہے جس کا انحراف پيغمبر کے راستے کي رکاوٹ بن جاتا ہے۔ يعني وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور راستے سے بھٹکا ديتا ہے۔ 

يہ ہے وہ بات۔ يعني يہ دو گروہ اسلام کے راستے کي رکاوٹ ہيں۔ يہ لوگ نہ فقط خود عاصي‘ گنہگار‘ بدبخت‘ شقي اور جہنمي ہيں بلکہ اسلام کے لئے بھي سدِراہ اور دوسرے مسلمانوں کي گمراہي کابھي سبب ہيں۔ (يہ لوگ کون ہيں؟) ايک راز فاش کرنے والا عالم اور دوسرا پرہيز گار اور عبادت گزار جاہل۔ يہ بھي وہي مضمون ہے۔ 

اسلامي معاشرے کو داخلي خطرہ درپيش ہے 

ان سے ہم يہ سمجھتے ہيں کہ پہلے درجے پر قرن اور اس کے بعد رسولِ اکرم۰ کي احاديث‘ مسلسل ہم سے کہتي ہيں کہ اسلامي معاشرے کو اپنے اندر سے خطرہ درپيش ہے۔ايک منافق زيرک اقليت اور ايک جاہل سادہ لوح ليکن ديندار اکثريت۔ اگر يہ جاہل نہ ہوں تو وہ زيرک کچھ نہيں کرسکتے اور اگر وہ زيرک نہ ہوں تو کوئي ان جاہلوں کو ٹيڑھے راستے پر نہيں لے جائے گا۔ 

امير المومنين علي عليہ السلام کي مشکلات 

يہيں سے پ سمجھ سکتے ہيں کہ امير المومنين حضرت عليٴ کي مشکلات کتني زيادہ تھيں۔ پٴ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ تنزيل پر جنگ کرتے رہے اور ميں تاويل پر۔ واقعاً رسول اللہ کا کام عليٴ کے کام کي نسبت سان تھا۔ 

رسول اللہ کے مد ِمقابل کون لوگ تھے؟ 

کفار‘ وہ لوگ جو کافر تھے اورجنہوںنے اپنے کفر کو کسي پردے ميں نہيں چھپا رکھا تھا۔ابو سفيان رسولِ اکرم۰ کے مد ِمقابل تھا۔ تاريخ بتاتي ہے کہ جب بھي کفر‘ يعني کھلا کفر‘ وہ کفر جس کے چہرے پر نقاب نہ ہو‘ اسلام کے مد ِ مقابل يا‘ اُس نے اسلام سے شکست کھائي، ليکن جب کفر اسلام کا لباس پہن ليتا ہے‘ تب خطرناک ہوجاتا ہے۔ 

ابو سفيان جيسے لوگ دن بدن کمزور ہورہے تھے۔ اور (خر کار) ختم ہو گئے۔ ليکن عليٴ کے مدِمقابل معاويہ تھا۔ جس کي ماہيت ابوسفيان کي ہي ماہيت ہے‘ فرق يہ ہے کہ انہوں نے اسلام کا لباس پہن رکھا ہے۔ جو لوگ معاويہ کے سامنے تے ہيںمحسوس نہيں کرتے کہ وہ اب بھي ہبل بت کے خلاف ہي جنگ زماہيں۔ 

وہ ہستي جس کا بقولِ امير المومنينٴ ( اور جسے ج تاريخ نے بھي سو فيصد درست ثابت کر ديا ہے) حضرت عثمان کے قتل ميں سب سے زيادہ ہاتھ تھا۔ حضرت عثمان کے قتل کے اسباب خود معاويہ اور امويوں نے فراہم کئے تھے۔ تاکہ اس قتل سے فائدہ اٹھا سکيں۔ (حضرت عثمان خود بني اميہ سے تعلق رکھتے تھے) ان لوگوں نے سوچا کہ ابھي تک وہ زندہ عثمان سے فائدہ اٹھا رہے ہيں‘ اب موقع گيا ہے کہ حضرت عثمان کي لاش سے فائدہ اٹھائيں۔ وہ کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کي ناراضگي کے اسباب فراہم کريں تاکہ لوگ مل کر حضرت عثمان کو قتل کرديں۔ حضرت عثمان نے معاويہ سے مدد طلب کي۔ معاويہ نے لشکر بھيجا ليکن اسے حکم ديا کہ مدينہ کے پاس فلاں جگہ پر ٹھہر جانا اور مدينہ ميں داخل نہ ہونا۔اگر تم خود اپني نکھوں سے بھي حضرت عثمان کو قتل ہوتے ديکھو‘تب بھي جب تک ميں حکم نہ دوں کوئي قدم نہ اٹھانا۔ انہوںنے خاص طور پہ يہ کہاکہ :کہيں اپنے جذبات کے زير اثر نہ جانا‘ديکھنا کہ ميرا حکم کيا ہے۔ انہوںنے اپنے کارندوں کو حضرت عثمان کے گھر کے اندر بھيجا اور حکم ديا کہ جونہي عثمان قتل ہوں‘ اُن کي قميض اور ہر وہ چيز جس سے فائدہ اٹھايا جاسکے ‘اٹھا کر لے نا۔ حضرت عثمان کي قميض کا معاويہ کے ہاتھ ميں ہونا حادثاتي اور اتفاقي معاملہ نہ تھا۔ ايک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ 

حضرت عثمان کي نائلہ نامي ايک بيوي نے حضرت عثمان کو اچھي نصيحتيں کي تھيں کہ پ عليٴ کي بات سنيں‘ اُنہيں اپنا دشمن نہ سمجھيں‘ وہ پ کي اور مسلمانوں کي بھلائي کي بات کرتے ہيں‘ مروان کي بات نہ سنيں۔ ليکن وہ مروان کي بات سنا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے حضرت عثمان کو قتل کرنا چاہا تو نائلہ خاتون نے اپنے پ کو حضرت عثمان کے اوپر گرا ديا‘ تاکہ انہيں بچا سکيں۔ ليکن اس خاتون کي ايک انگلي بھي کٹ گئي جو معاويہ کے پاس لے جائي گئي۔ بعدازاں معاويہ نے اس قميض کو اپنے منبر کے ساتھ ويزاں کر ديا۔ اس کٹي ہوئي انگلي کو بھي انہوںنے لٹکا ديا اور پھر ہائے ہائے کر کے رونا شروع کر ديا کہ مظلوم خليفہ قتل ہو گئے۔ ايّھا الناس! انتقام‘ انتقام‘ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَليِّہِ سُلْطاناً۔ 

اب جہالت بھي مدد کرتي ہے۔ کسي ايک نے بھي يہ نہ پوچھا کہ قرن تو کہتا ہے کہ جب کوئي مظلوم مار اجائے‘ تو ہم اس کے وارث کو اختيار ديتے ہيں کہ ئے اور اس کے خون کا مطالبہ کرے‘ تم کون ہوتے ہو؟ تم تو خونِ عثمان کے ولي نہيں ہو!! 

حضرت علي کے اکابر اصحاب کا تردد 

اب علي کي جنگ کس سے ہوگي؟ ايسے شخص سے جو مسلسل اسلام کا دم بھرتا ہے۔ يہي وہ صورتحال ہے جس نے حضرت عليٴ کے کام کو مشکل بنا ديا ہے۔ امير المومنين کے اکابر اصحاب کو ان لوگوں کے خلاف جنگ کرنے ميں شک و تردد تھا۔ 

ربيع بن خثيم‘ يہي خواجہ ربيع جن کا مقبرہ مشہد ميں ہے اورجس کي لوگ زيارت کو جاتے ہيں‘يہ زاہدوں‘ عابدوں اور امير المومنينٴ کے شيعوں ميں سے تھے۔ البتہ ايک کم بصيرت شيعہ۔ يہ بڑے عبادت گزار تھے ليکن کم بصيرت تھے۔ يہ چند افراد کے ہمراہ اميرالمومنين کے پاس تے ہيں اور کہتے ہيں: يا امير المومنين! حقيقت يہ ہے کہ ہميں ان سے جنگ کرنے ميں شک ہے۔ دوسري طرف ہم پ سے جدا بھي نہيں ہونا چاہتے۔ پ ان سے جنگ کرنے کے سوا ہمارے ذمے کوئي اور کام کرديں۔ امير المومنين نے انہيں ايک سرحد پر ذمے داري سونپ دي۔ کہنے لگے:ہاں يہ بہت اچھا ہے‘وہاں ہم کافروں سے جنگ کريں گے۔ اب ہم مطمئن ہيں۔ ليکن يہاں مسلمانوں سے جنگ کرنے ميں ہميں شک ہے اور ہمارے دل ميں وسوسہ ہے۔ ربيع بن خثيم جيسا دمي ايسي بات کہتا ہے۔ 

البتہ انہي کے درميان ايسے لوگ بھي تھے جن کي بصيرت کامل تھي۔ ان ميں سب سے نماياں عمار بن ياسر۱ تھے۔ عمار جنگ کرتے جاتے اور کہتے جاتے کہ کل ہم نے تنزيلِ قرن پر جنگ کي اور ج ہم تاويلِ قرن پر جنگ کر رہے ہيں۔ جب معاويہ کا پرچم قرن کے ظاہري نعروں کے ساتھ بلند ہوا تو عمار نے کہا: ميں گواہي ديتا ہوں کہ اِن پرچموں اور اُن پرچموں ميں کوئي فرق نہيں جن کے خلاف ہم بدر و احد ميں جنگ کرتے رہے ہيں۔ عمار سپاہِ اميرالمومنين ميں ايک کسوٹي کي حيثيت رکھتے تھے۔ عمار شہيد ہوئے تو ايک بڑي تعداد کو يقين گيا۔ کيونکہ عمار ايک ايسے دمي تھے جن کے بارے ميں سب ہي ايک روايت جانتے تھے اور يہ روايت سب اصحابِ رسول‘ تابعين اوراہلِ کوفہ و شام ميں متواتر تھي۔ 

جس دن مسجد ِنبوي کي تعمير ہو رہي تھي اور رسولِ اکرم۰ نئے نئے مدينہ ميں ئے تھے اور عمار بھي حال ہي ميں مکہ سے وہاںپہنچے تھے۔ عمار کے اندر جو شوق‘ ولولہ اورايمان تھا ‘اسکي وجہ سے وہ مسجد کي ديواريں بلند کرنے کے لئے دوسروں سے دوگنا زيادہ پتھر اٹھاتے تھے‘ پسينہ بہہ رہا تھا‘ خستہ حال تھے اور اس حال ميں نعرے بلند کرتے‘ شعر پڑھتے اور (پتھراٹھائے) رہے تھے۔ رسولِ اکرم۰ نے اُن کي طرف نگاہ اٹھائي‘ مسکرائے اور فرمايا

’’تم خوش قسمت ہو اے عمار! تمہيں ايک باغي گروہ قتل کرے گا۔‘‘

يہ قرنِ مجيد کي اس يت کي طرف اشارہ ہے کہ:

’’اور اگر مومنين کے دو گروہ پس ميں جھگڑا کريں تو تم سب ان کے درميان صلح کراؤ‘اسکے بعد اگر ايک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زيادتي کرنے والا گروہ ہے ‘يہاں تک کہ وہ بھي حکمِ خدا کي طرف واپس جائے۔‘‘(سورہ حجرات۔ يت٩)

مطلب يہ ہے کہ رسولِ اکرم۰ خبر دے رہے تھے کہ مستقبل ميں مسلمانوں کے دو گروہوں کے مابين جنگ ہوگي۔ ان ميں سے ايک گروہ سرکش و باغي ہوگا۔ لہٰذا اس سرکش گروہ کے خلاف اس دوسرے گروہ کي حمايت کي جائے۔ جب عمار قتل ہوئے‘ تو جن لوگوں کوشک تھاوہ کہنے لگے کہ ج ہميں يقين ہو گيا ہے کہ عليٴ حق پر ہيں اورمعاويہ باطل پر۔ ہاشم بن عتبہ بن مرقال ان لوگوں ميں سے ايک تھے جنہيں عمار کي شہادت کے بعد ديکھاگيا کہ وہ اب شدت کے ساتھ حملے کر رہے ہيں يہاں تک کہ وہ قتل ہو گئے۔

پس ديکھئے کہ حضرت عليٴ کا کام کس قدر مشکل تھا۔ عليٴ کے مدِمقابل جو لوگ تھے ان ميں سے اکثريت جاہل و نادان لوگوں کي تھي اور ايک اقليت منافقوں اور دو رُخے لوگوں کي تھي۔

نتيجہ

اب ہم اپني معروضات سے نتيجہ اخذ کرتے ہيں۔ وہ يت جو واقعے اور حديث ِ غدير کے حوالے سے نازل ہوئي‘ اس کے مذکورہ جملے اور رسولِ اکرم۰ کي فرمائي گئي احاديث سے ہم يہ سمجھتے ہيں کہ يہ واقعہ اس زمانے سے مخصوص نہيں ہے۔ بلکہ ہميشہ ايسا ہي ہوتا ہے۔ جب بھي مسلمانوں کو کوئي نقصان پہنچا ہے يا پہنچتا ہے وہ اسي طرح پہنچتا ہے۔ پ اس وقت ديکھيں کہ مسلمانوں کو فلسطين ميں جو نقصان پہنچ رہا ہے ‘اس ميں جس قدر مسلمانوں کا ہاتھ ہے وہ زيادہ ہے يا اسرائيل کا جو بيروني دشمن ہے۔ اس وقت بے وطن چھاپہ ماروں کو اردني سپاہيوں سے زيادہ خطرہ ہے يا اسرائيلي سپاہيوں سے؟ ہميشہ يونہي رہا ہے اور ج بھي ايسا ہي ہے۔

ہم عرض کرچکے ہيں کہ جو چيز ہمارے لئے خوشي اور مسرت کا باعث ہے ‘وہ يہ ہے کہ ہمارے جوان طبقے ميں‘ ہمارے روشن فکر اور روشن بين طبقے ميں اور ہمارے طلبا کے طبقے ميں ايک ديني تحريک پيدا ہو گئي ہے۔ ہميں اميد ہے کہ يہ لوگ بصيرت اور دين کو ايک دوسرے کے ساتھ اکٹھا رکھيں گے اوراسے معاشرے کو سونپيں گے۔تاکہ ہم پھر اپني اصلي عزت و شوکت کي طرف لوٹ جائيں۔ ہم مسلمان ہوں‘ کامل مسلمان‘ بابصيرت مسلمان۔ شيعہ ہوں ليکن حقيقي شيعہ‘ علي کو پہچاننے والے شيعہ‘ ايسے شيعہ جو علي کي معرفت بھي رکھتے ہوں اور علي کے پيروکار بھي ہوں۔

تبصرے
Loading...