عید سعید فطر کرونا کی وبا اور ہم

حوزہ نیوز ایجنسی| عید فطر مسلمانوں کی بڑی عیدوں میں ایک ہے یہ وہ دن ہے جس میں  پوری دنیا کے مسلمان ہمیشہ ہی ماہ مبارک رمضان میں تیس دن تک خدا کے سفرہ رحمت پر حاضری کا شکرانہ ادا کرتے رہے ہیں اور اجتماعی جشن و سرور کی محفلیں سجا کر خدا کے حضور تشکر و امتنان کا اظہار کرتے آئے ہیں  کہ مالک نے انہیں یہ موقع فراہم کیا کہ اپنے دسترخوان رحمت پر انہیں تیس دنوں تک مہمان بنایا، چاند رات اور عید کے دن تمام مسلمانوں کی جانب سے عبادتوں میں مشغول رہ کر مالک کی کرم نوازیوں کا شکریہ ادا کرنا کیا ہی اچھا سماں پیش کرتا ہے ۔ کتنا اچھا سماں ہوتا  کہ جب ماہ شوال کا چاند آسمان پر نمودار ہوتا ہے تو لوگ عید کی خوشیوں میں ڈوب جاتے اور ایک دوسرے کو مبارکباد کا سلسلہ شروع ہو جاتا  صبح سویرے لوگ ایک دوسرے سے ملنے جاتے اور خود کو نماز عید کے لئے تیار کرتے  اس دن غریبوں اور ناداروں کا خاص خیال رکھا جاتا  اور ان کے لئے فطرہ نکالا جاتا اور لوگ کوشش کرتے کہ نماز عید سے پہلے پہلے فطرہ مستحقین تک پہنچ جائے 
ہر طرف خوشیوں کے میلے ہوتے ہیں چہل پہل ہوتی رونقیں ہوتیں لیکن اس بار کرونا کی وبا نے سبھی چیزوں کو متاثر کیا ہے ۔عید کی خوشیاں تو ہیں لیکن ہم نہ کسی سے ملنے جا سکتے ہیں نہ کسی کو گھر پر بلا سکتے ہیں جو بھی خوشیاں مل جل کر گھر میں ہی منانا ہیں ۔
ایسے میں بہت سے لوگ ہیں جو کہتے نظر آ رہے ہیں اس بار تو عید بے عید ہو گئی عید کا رنگ پھیکا ہو گیا جبکہ اگر غور کیا جائے اور اسلامی تعلیمات کی روح کو دیکھا جائے تو یہ عید عیدِ بندگی ہے یہ کیونکر پھینکی ہو سکتی ہے مانا کہ ہم ایک دوسرے سے گلے نہیں مل سکتے لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں نہیں بانٹ سکتے ٹکنالوجی کے اس پیشرفتہ دور میں بہت آسانیاں ہیں بس ہمیں اپنے اطراف میں نظر دوڑا کر یہ دیکھنا ہوگا کہ کونسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے ہم ایک دوسرے کا حال چال لے سکیں ضرورت مندوں تک انکی ضرورت کا سامان پہنچا سکیں صلہ رحم کر سکیں   ۔
علاوہ از ایں بندگی کی اس موجودہ عید میں کچھ بندشیں ضرور ہیں لیکن عید کے مقصد و ہدف پر نظر ڈالیں فلسفہ عید کو سمجھیں تو ہم متوجہ ہونگے کہ ہرگز یہ عید بھی پھیکی نہیں ہے اور وہ عید کیونکر پھینکی ہو سکتی ہے جس میں بندگی کا رنگ بھرا ہو وہ عید کیونکر پھینکی ہو سکتی ہے جس میں ہم نے تمام تر وہ اعمال انجام دیئے ہوں جسکے بارے میں ہم سے شریعت نے کہا ہے اور جو مطلوب کردگار ہیں تو آئیے دیکھتے ہیں اس عید کا فلسفہ کیا ہے مفہوم عید کیا ہے عید کے معنی کیا ہیں  اسکے اعمال کیا ہیں اسکے تقاضے کیا ہیں  اور اس دن کا مستحسن عمل کیا ہے 
عید کے دن مستحسن عمل:
یوں تو عید کے اپنے اعمال ہیں اور خاص دعائیں ہیں جو مفاتیح میں موجود ہیں لیکن ایک بہترین عمل خاک شفا سے افطار کرنا اور زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا ہے  نماز عید سے قبل تربت امام حسین  منھ میں رکھنا اور آپکی زیارت پڑھنا مستحب ہے اور اس سلسلہ میں بہت تاکید کی گئی ہے کہ عید فطر کے دن امام حسین  کی ضرور زیارت کی جائے اور کچھ کھانے سے قبل امام حسین  کی تربت کو چکھا جائے شاید یہ امر اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ آج اگر یہ روزہ اور اسلامی تعلیمات  عید فطر جیسی عظیم یادگاریں باقی ہیں تو یہ سرکار سید الشہداء کا صدقہ ہے۔
 

عید کے معنی اور اسکا مفہوم
 
کلمہ عید اصل میں عاد (عود) سے لیا گیا ہے اور اسکے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں ”بازگشت” “غم و اندوہ و مرض سے نجات” (1) وہ دن جو اپنے ساتھ ہر سال نئی خوشیاں لے کر آتا ہے۔ ازہری کے بقول عربوں کے نزدیک عید اس زمانہ کو کہا جاتا ہے جس میں شادی یا غم و اندوہ پلٹ آتے ہیں، ابن عربی نے عید کو خوشیوں سے مخصوص جانا ہے، ترجمہ؛ “عیسی بن مریم نے کہا خدایا پروردگار! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کر دے کہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہو جائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے”۔ (3) اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ”عید لغت میں بازگشت کے معنی میں ہے اسکا مادہ عود ہے لہٰذا وہ دن جس میں قوم کی مشکلات ختم ہو جاتی ہیں اور خوشیوں کی طرف اسکی بازگشت ہوتی ہے ایسے دن کو عید کہا جاتا ہے، اسلامی عیدوں میں عید فطر کو اس لئے عید کہا گیا ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں اطاعت پروردگار کے ذریعہ انسان کی روح اپنی پاک فطرت کی طرف پلٹ جاتی ہے۔ الٰہی دسترخوان کا نزول بھی چونکہ کامیابی و فلاح کی طرف ایک بازگشت ہے اس لئے جناب عیسی نے اسے عید کا نام دیا ہے۔
عید فطر کے تقاضے:
اگرچہ یہ دن ایک اجتماعی حیثیت کا حامل ہے اور اسلامی تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ایک مسلمان کے لئے ہر وہ دن عید ہے جس دن اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو، امام علی علیہ السلام نے فرمایا؛ ”وکل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو یوم عید ” (4) ہر وہ دن جب انسان خد کی معصیت نہ کرے، عید ہے خود یہ حدیث بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عید کی حکمت یہی ہے کہ انسان اس لئے اس دن خوشی مناتا ہے کیونکہ وہ اپنی پاکیزہ فطرت کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ سوید بن غفلہ سے نقل ہوا ہے کہ میں عید  کے دن امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ آپکے پاس کچھ آٹے اور دودھ کی بنی ہوئی خشک روٹیاں رکھی ہیں، میں نے عرض کی روز عید اور یہ کھانا ؟ آپ نے جواب دیا ”انما ھذا عید من غفر لہ” (5) یہ عید اس شخص کے لئے ہے جس کو بخش دیا گیا ہو اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ماہ مبارک رمضان کے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے استفادہ کرتا ہے اور اپنے گناہوں کو بخشوا کر اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ پھر کبھی گناہ کی طرف نہیں جاتا، ماہ مبارک رمضان کی برکتوں کے سایہ میں اپنے نفس پر اتنا کنٹرول کر لیتا ہے کہ اس کا نفس گناہ کی طرف مائل نہیں ہوتا تو حقیقت میں عید بھی اسی کی ہے، اب اگر کوئی ایسا شخص عید کے دن اپنے گھر پر دسترخوان سجاتا ہے لوگوں کو دعوت دیتا ہے سویاں اور پکوان گھر میں پکواتا ہے تو یہ اسے زیب دیتا ہے کیونکہ واقعی عید اسی کی ہے وہ اس قابل ہے کہ جب اس نے اپنے نفس پر کنٹرول کر لیا اور ماہ مبارک رمضان کی برکتوں سے خود کو اس قابل بنا لیا کہ وہ اس بالکل اس دن کی طرح ہو جائے، جس طرح اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا تو اسے یہ حق ہے کہ سب کو بلائے خوشیاں منائے اور عید منائے، لیکن اگر کسی شخص نے ماہ مبارک رمضان کے دسترخوان پر بیٹھنے کے باجود اللہ کی نافرمانی کی ہو اور اس کے بعد وہ نئے کپڑے، پہنے خوشیاں منائے لوگوں کو گھر پر دعوت دے اور عید منائے تو یہ اس کا اپنا عمل ہے۔
حدیث امیر المومنین علیہ السلام کی روشنی میں اسے عید نہیں کہا جا سکتا ہے اس لئے کہ مولا کی نظر میں عید کا مطلب نئے کپڑے پہننا لوگوں سے ملنا اور سویاں و شیر خرما بنانا نہیں ہے بلکہ مولا کی نزدیک عید کا مطلب اپنے وجود گناہوں سے پاکیزہ بنانا ہے اب ہو سکتا ہے ایک وہ شخص جس کے پاس عید کے دن کھانے کے لئے کچھ نہ ہو، نہ وہ کسی کی دعوت کر سکتا ہو، نہ سویاں بنا سکتا ہو اور نہ لوگوں کو عیدی دے سکتا ہو لیکن اس کی عید ہو، اس کے برخلاف ممکن ہے کوئی ایسا شخص ہو جو عید کے دن لاکھوں خرچ کر رہا ہو، ہزاروں مہمانوں کو بلا رہا ہو لوگوں کا اس کے یہاں عید ملن کے لئے تانتا بندھا ہو لیکن اس کی عید نہ ہو یہ اور بات ہے کہ آجکل دنیا کے بیشتر مقامات وہ ہیں جہاں کرونا کی وجہ سے نہ جایا جا سکتا ہے نہ کسی کو بلایا جا سکتا ہے با این ہمہ کہیں جائے بغیر بھی کسی کو بلائے بغیر بھی بندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بنیاد پر ہم عید کو اس طرح منا سکتے ہیں فرشتے ہمارے ساتھ ہوں  ۔
عید فطر انتخاب پروردگار 
 عید فطر کے سلسلہ میں سیر و سلوک کی راہ کے عظیم مقتدی جناب میرزا جواد آقا ملکی تبریزی فرماتے ہیں، “عید فطر وہ دن ہے جسے خداوند متعال نے دیگر ایام کے درمیان منتخب کیا ہے اور اس دن کو اپنے بندوں کو انعام و اکرام سے نوازنے کا دن قرار دیا ہے خدا نے آج کے دن اپنے بندوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اسکے خوان کرم پر بیٹھیں اور آداب بندگی کو بجا لائیں اسی سے امید باندھیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے معافی مانگیں اپنی حاجتوں کو اس سے بیان کریں اور اسی سے حاجت روائی کی امید رکھیں خدا نے بھی اپنے ان بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جو بھی اس سے طلب کریں گے خدا قبول کرے گا اور ان کے حق میں ایسی کرم نوازی کرے گا کہ جس کے بارے میں انہیں گمان تک نہ ہوگا” (6)۔
عید کے سلسلہ سے یہ بات قابل غور ہے کہ جیسا کہ ماہ مبارک رمضان کے سلسلہ میں وارد روایات بتاتی ہیں کہ اس مہینہ کا ایک فلسفہ فقیروں اور امیروں کے درمیان فرق کو مٹا کر سب کو ایک رنگ میں رنگنا بھی ہے تو اب ہمارے لئے ضروری ہے جس طرح پورے ماہ رمضان کرونا کی وبا کے باوجود بھی
 ہم نے فقیروں اور بے نواوں کا خیال رکھا عید کی آمد پر بھی غریبوں کو نہ بھولیں 
اور غریب بھائیوں اور یتیموں اور ناداروں کو ہرگز فراموش نہ کریں کہ اگر ہم نے یتیموں کو اس خاص دن میں یاد رکھا تو خدا بھی ہمیں محشر کے خاص دن نہیں بھولے گا۔ آج کے دن ہمیں یہ دعاء بھی کرنا چاہیئے کہ پرورگار ملت اسلامیہ کو وہ شعور دے کہ سب ایک پرچم تلے وحد ہ لا شریک کی عبادت و بندگی کرتے ہوئے اپنے دشمن کو پہچان سکیں، جس کے بموجب ہمارے درمیان امن و امان، چین و سکون رہے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہ ہو کر ایک دوسرے کے قوت بازو ربن کر جئیں۔ رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ تمام مسلمان چین و سکون کے ساتھ عید کی خوشیاں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہوئے اپنے رب کے دسترخوان رحمت کا شکرانہ ادا کر سکیں۔
کرونا کی اس وبا میں ہم ان لوگوں کے کام آسکیں جنہیں ہماری ضرورت ہے اس سے بڑھ کر ہمارے لئے عید کیا ہوگی ۔ہمارے لئے یہی بڑی عید ہے کہ ہم خلق خدا کے کام آسکیں کسی کا سہارا بن سکیں کسی کا ہاتھ تھام سکیں ۔
 پروردگار! عید سعید فطر کو ہمارے لئے واقعی عید قرار دے،ایسی عید جو ہمارے وجود کی بارگاہ الٰہی میں بازگشت کی نوید لے کر آئے، وہ عید کہ جس کے بعد ہم دوبارہ گناہوں کی طرف نہ پلٹیں، پروردگار! ہمیں عید سعید کی برکتوں کے سایہ میں اس قابل بنا کہ ہمارا آنے والا ہر دن عید قرار پائے ۔
(آمین یا رب العالمین)

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے :
1۔ ( تاج العروس ، زبیدی ، جلد ٨  ص ٤٣٨۔٤٣٩
2۔ (تاج العروس ، زبیدی ،جلد ٨  ص ٤٣٩)
3۔  قالَ عیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللَّہُمَّ رَبَّنا أَنْزِلْ عَلَیْنا مائِدَةً مِنَ السَّماء ِ تَکُونُ لَنا عیداً لِأَوَّلِنا وَ آخِرِنا وَ آیَةً مِنْکَ وَ ارْزُقْنا وَ أَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقین ،( مائدہ ١١٤)
4۔ تفسیر نمونہ جلد ٥ ١٣١
5 ۔ مجلسی ، بحار الانوار ، جلد٤٠، ح ٧٣
6 ۔ المراقبات فی اعمال  السنہ ، میرزا جواد آقا ملکی  تبریزی، ص١٦٧
/۹۸۸/ ن ۷۰۲

تبصرے
Loading...