عورت اسلام کے نقطہ نظر سے

رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت ایت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اسلامی معاشرے میں موجود عورت کی اھمیت وحیثیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقیقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے۔

جب دنیا کے فکری میدان پر نظر دوڑائی جاتی ہے اور پھر اسلامی نقطہ نگاہ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو صاف صاف یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسانی معاشرہ اسی وقت مرد و زن کے رابطے کے سلسلے میں مطلوبہ منزل اور نہج پر پہنچ سکتا ہے جب اسلامی نظریات کو بغیر کسی کمی و بیشی کے اور بغیر کسی افراط و تفریط کے سمجھا اور درک کیا جائے اور انہیں پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت مادہ پرست تہذیبوں میں عورت کے سلسلے میں جو طرز عمل اختیار کیا گیا ہے اور جو سلسلہ چل رہا ہے وہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے اور وہ عورت کے مفاد اور حق میں ہے نہ معاشرے کے فائدے میں۔ 

اسلام کی خواہش ہے کہ عورتوں کا فکری، علمی، سیاسی، سماجی اور سب سے بڑھ کر روحانی و معنوی نشو نما اپنی منزل کمال پر پہنچ جائے اور ان کا وجود انسانی معاشرے اور کنبے کے لئے، ایک اہم رکن کی حیثیت سے، آخری حد تک ثمر بخش اور مفید ثابت ہو۔ تمام اسلامی تعلیمات منجملہ مسئلہ حجاب کی بنیاد یہی ہے۔ 

قرآن کریم میں اللہ تعالی جب اچھے اور برے انسانوں کی مثال دینا چاہتا ہے تو دونوں کے سلسلے میں عورت کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک مثال زوجہ فرعون کی ہے اور دوسری مثال حضرت نوح و حضرت لوط علیھم السلام کی بیویوں کی ہے۔ ” و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرئۃ فرعون” اس کے مقابلے میں برے، نگوں بخت، منحرف اور غلط سمت میں بڑھنے والے انسان کی مثال کے طور پر حضرت نوح اور حضرت لوط کی ازواج کو پیش کرتا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرد بھی موجود تھے، ایک مثال مرد کی دے دی ہوتی اور ایک مثال عورت کی دی ہوتی۔ لیکن نہیں، پورے قرآن میں جب بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ” ضرب اللہ للذین آمنوا” یا ” ضرب اللہ للذین کفروا” تو دونوں کی مثال عورتوں کے ذریعے پیش کی جاتی ہے۔ 

دین اسلام کی بے مثال خاتون کے کردار سے جب ربرو ہوتے ہیں تو ھمیں ملتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا چھے سات سال کی تھیں کہ شعب ابو طالب کا مرحلہ در پیش ہوا۔ صدر اسلام کی تاریخ میں شعب ابو طالب بے حد سخت اور دشوار دور تھا۔ یعنی پیغمبر اسلام کی تبلیغ دین شروع ہو چکی تھی، آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کر دیا تھا۔ رفتہ رفتہ اہل مکہ بالخصوص نوجوان اور غلام، حضرت کے گرویدہ ہوتے جا رہے تھے اور اکابرین طاغوت کو محسوس ہونے لگا تھا کہ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ پیغمبر اور ان کے ارد گرد جمع افراد کو مکے سے باہر نکال دیا جائے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا بھی۔ ان میں سے بہتوں کو جن میں درجنوں خاندان شامل تھے خود پیغمبر اسلام اور آپ کے قریبی رشتہ دار، خود حضرت ابو طالب جبکہ حضرت ابو طالب کا شمار بزرگوں میں کیا جاتا تھا، بچے اور بوڑھے شامل تھے۔ سب کو مکے سے باہر نکال دیا۔ حضرت ابو طالب کے پاس ایک چھوٹا پہاڑی درہ تھا۔ کہہ دیا گیا کہ آپ لوگ وہیں چلے جائیں۔ مکہ میں دن میں تو دھوپ کی شکل میں آگ برستی تھی لیکن رات کو کڑاکے کی سردی پڑتی تھی۔ یعنی موسم ناقابل برداشت تھا۔ ان لوگوں نے اس بیابان میں تین سال کاٹ دئے۔ کتنی سختیاں برداشت کیں اور بھوک کی شدت جھیلی! پیغمبر اسلام کی زندگی کا ایک انتہائی سخت دور یہی تھا۔ اس عرصے میں پیغمبر اسلام کی ذمہ داری صرف لوگوں کی ہدایت و رہنمائی نہیں تھی بلکہ انہیں سختیاں جھیلنے والے ان افراد کے سامنے بھی اپنے مشن کا دفاع کرنا تھا(کہ اس کے لئے اتنی سختیاں برداشت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے)۔ ان دنوں جب پیغمبر اسلام انتہائی سخت حالات سے دوچار تھے حضرت ابو طالب، جو پیغمبر کے مددگار تھے اور ان سے پیغمبر اسلام کی امیدیں وابستہ تھیں، اسی طرح حضرت خدیجہ کبرا جو پیغمبر اسلام کی ایک اور بہت بڑی یاور و مددگار تھیں ایک ہفتے کے اندر دونوں دنیا سے رخصت ہو گئے۔! یہ بڑا عجیب سانحہ ہے، پیغمبر بالکل بے سہارا اور تنہا ہو گئے۔ 

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ایک مشیر اور ایک ماں کا کردار ادا کیا پیغمبر اسلام کے لئے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے سلسلے کہا گیا کہ آپ تو “ام ابیھا” یعنی اپنے والد کی ماں ہیں۔ یہ اسی وقت کی بات ہے۔ یعنی ایک چھے سات سال کی بچی کا یہ کردار تھا۔ البتہ یہ بھی ہے کہ عرب ماحول میں اور گرم علاقوں میں لڑکیوں کا جسمانی اور ذہنی نشونما تیزی سے ہوتا ہے اس لحاظ سے آج کی دس بارہ سالہ لڑکی کے برابر رہی ہوں گی۔ تو یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی ہے۔ کیا ایک نوجوان لڑکی کے لئے یہ چیز نمونہ عمل اور درس نہیں ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے مسائل کے تعلق سے جلد ہی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے، اپنے وجود میں پنہاں جوش و نشاط کے اس خزانے کو بروئے کار لاتے ہوئے باپ کے چہرے سے جو اس وقت غالبا پچاس سال کا ہو چکے ہیں اور بڑھاپے کی سمت گامزن ہیں غم و غصے کے غبار کو جھاڑے، یہ ایک نوجوان لڑکی کے لئے کیا بہترین نمونہ نہیں ہے؟ 

دوسری جانب شوہر سے متعلق اپنے فرائض کی ادائیگی ہے۔ بعض اوقات لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شوہر کے حقوق ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عورت باورچی خانہ سنبھالے، کھانے پکائے، گھر کی صفائی ستھرائی کرے، بستر بچھائے اور گاؤ تکیہ لگائے کہ شوہر نامدار دفتر یا دکان سے آ رہے ہوں گے! اسی کو شوہر کے حقوق کی ادائیگی نہیں کہتے۔ آپ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کو دیکھئے کہ کس انداز سے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں دس برس گزارے ان میں نو برس وہ تھے جن میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے شوہر اور زوجہ کی حیثیت سے ایک ساتھ زندگی گزاری۔ ان نو برسوں میں جن چھوٹی بڑی جنگوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ تقریبا ساٹھ جنگیں ہیں۔ ان میں اکثر و بیشتر جنگوں میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے شرکت کی۔ 

غورکریں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا گھر میں موجود ہیں اور آپ کے شوہر مسلسل محاذ جنگ سنبھالے ہوئے ہیں۔ کیونکہ آپ کے وجود پر محاذ جنگ کی مضبوطی کا دار و مدار تھا، آپ نہ ہوتے تو محاذ کمزور پڑ جاتا۔ گھر کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں آپ کی زندگی غربت و عسرت و تنگدستی میں گزر رہی تھی۔ جبکہ آپ قائد ملت کی دختر گرامی ہیں، پیغمبر کی لخت جگر ہیں اور آپ کے اندر ایک احساس ذمہ داری اور فرض شناسی بھی موجود ہے۔ بے حد مضبوط اعصاب اور قوی جذبات کی ضرورت ہے کہ انسان اپنے شوہر کو آمادہ کرے، اس کے ذہن و دل کو گھر کے مسائل و مشکلات اور بال بچوں کی فکر سے آزاد اور مطمئن رکھے، اس کی حوصلہ افزائی کرے اور بچوں کی ایسی مثالی تربیت کرے جیسی صدیقہ طاہرہ نے کی۔ آپ خود کہئے! حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام تو امام تھے اور سرشت و طینت امام رکھتے تھے لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا تو امام نہیں تھیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے انہی نو برسوں میں آپ کی تربیت کی تھی۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد تو آپ زیادہ دن زندہ بھی نہیں رہیں۔ 

اس انداز سے گھر چلایا، اس انداز سے شوہر کے تئیں اپنے فرائض ادا کئے اور اس انداز سے گھر کی مالکہ کا کردار ادا کیا کہ تاریخ میں پائیدار خاندانی زندگی کا محور قرار پائیں۔ کیا یہ نوجوان لڑکی، گھریلو عورت یا گھریلو زندگی شروع کرنے جا رہی خاتون کے لئے آپ اسوہ حسنہ نہیں ہیں؟ یہ تمام بڑی اہم باتیں ہیں۔ 

عورت کے سلسلے میں اسلام کا طرز سلوک

عورت کے ساتھ اسلام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خیر اندیشانہ، دانشمندانہ اور توقیر آمیز ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کے حق میں ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے میں اسی طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقیقت پسندانہ اور حقیقی و بنیادی ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختیار کرتا ہے۔ یعنی کسی سے بھی قوت و توانائی سے زیادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں رکھتا۔ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو سمجھنے کے لئے اس کا تین زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ 

اول: ایک انسان ہونے کی حیثیت سے روحانی و معنوی کمالات کی راہ میں اس کا کردار؛ اس زاویے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہیں، بہت سی عظیم اور نمایاں کردار کی حامل خواتین بھی گزری ہیں۔ 

دوم: سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی سرگرمیاں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقیقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ عورتیں، جہاں تک ان کی ضروریات و احتیاج کا تقاضا ہو اور جسمانی توانائی جس حد تک اجازت دے، سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو وہ سیاسی و معاشی و سماجی امور انجام دیں، شریعت اسلامی میں اس کی ہرگز مناہی نہیں ہے۔ البتہ چونکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے نازک ہوتی ہے لہذا اس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر طاقت فرسا کام مسلط کر دینا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اسلام اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ البتہ اس نے (عورت کو ) روکا بھی نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ” المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ” یعنی عورت پھول کی مانند ہے “قہرمان” نہیں۔ “قہرمان” یعنی با عزت پیش کار اور خدمت گار۔ آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: عورتیں تمہارے گھروں میں گل لطیف کی مانند ہیں ان کے ساتھ بڑی ظرافت اور توجہ سے پیش آؤ۔ عورت آپ کی خادمہ اور پیش کار نہیں ہے کہ آپ سخت اور طاقت فرسا کام اس کے سر مڑھ دیں۔ 

اسلام نے عورت کو معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نہی روکا لیکن دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو محنت شاقہ اور طاقت فرسائی کی متقاضی سیاسی و سماجی و معاشی سرگرمیوں میں لگا دیا جائے۔ اسلام کا نظریہ اعتدال پسندانہ ہے۔ یعنی عورت کے پاس اگر فرصت ہے، بچوں کی پرورش اس کی راہ میں حائل نہیں ہو رہی ہے، اس میں شوق و دلچسپی اور جسمانی طاقت و توانائی بھی ہے اور وہ سماجی، سیاسی اور معاشی امور میں حصہ لینا چاہتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اسے حکم دیا جائے کہ جاؤ جیسے بھی ممکن ہو روزگار تلاش کرو اور یومیہ اتنا کام کرو تاکہ اس آمدنی سے گھر کے خرچ کا کچھ بوجھ تم اٹھاؤ، تو یہ مناسب نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو ہرگز اس کا حکم نہیں دیا ہے۔ اسے عورت کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی قرار دیتا ہے۔ 

دینداری کے جذبے کے نام پر لڑکیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے سے روک دینا دین نہیں، دین کی نظر میں تعلیم کے لحاظ سے لڑکے اور لڑکی میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ اگر لڑکا اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے تو لڑکی بھی اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ نوجوان لڑکیاں تعلیم حاصل کریں، علم کی منزلیں طے کریں، معلومات میں اضافہ کریں۔ اپنی اہمیت اور مقام و منزلت سے آگاہ ہوں اور اپنی قدر و قیمت کو سمجھیں، تاکہ انہیں یہ پتہ چلے کہ عورت کے سلسلے میں عالمی استکبار کے پروپیگنڈے کتنے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ 

سوم: عورت کو خاندان اور کنبے کی ایک رکن کی حیثیت سے دیکھنا۔ یہ سب سے اہم اور با ارزش ہے۔ اسلام میں مرد کویہ اجازت نہیں ہے کہ عورت سے جبر و اکراہ کا برتاؤ کرے اور اس پر کوئی چیز مسلط کر دے۔ خاندان کے اندر مرد کے لئے محدود حقوق رکھے گئے ہیں جو در حقیقت بڑی حمکت آمیز بات ہے۔ یہ حقوق جس کے سامنے بھی رکھے اور بیان کئے جائیں، وہ اس کی حمایت او تائید کرے گا۔ اسی طرح عورت کے لئے بھی خاندان کے اندر کچھ حقوق رکھے گئے ہیں اور ان میں بھی بڑی مصلحت اندیشی پوشیدہ ہے۔ مرد و زن دونوں کے اپنے مخصوص جذبات، مزاج، اخلاق اور خواہشات ہیں۔ وہ دونوں اگر اپنے اپنے جذبات اور خواہشات کے مطابق صحیح طور پر عمل کریں تو گھر میں بڑا اچھا ہم آہنگ اور ایک دوسرے کے لئے سازگار جوڑا وجود میں آ جائے گا۔ اگر مرد زیادتی کرتا ہے تو توازن بگڑ جاتا ہے، اسی طرح عورت کوئی زیادتی کرے تو اس سے بھی توازن ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام گھر کے اندر مرد اور عورت کو دروازے کے دو پلوں، چہرے کی دو آنکھوں، محاذ زندگی کے دو مجاہدوں اور ایک دوکان میں کام کرنے والے دو رفقائے کار کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ ان میں ہر ایک کا اپنا مزاج، اپنی خصوصیات، اپنی خصلتیں ہیں۔ جسمانی لحاظ سے بھی، روحانی لحاظ سے بھی، فکری لحاظ سے بھی او جذبات و خواہشات کے اعتبار سے بھی۔ یہ دونوں صنفیں اگر ان حدود اور معیاروں کی پابندی کرتے ہوئے جس کا تعین اسلام نے کیا ہے ایک ساتھ زندگی بسر کریں تو ایک مضبوط، مہربان، با برکت اور انتہائی کارآمد کنبہ معرض وجود میں آئے گا۔ 

اسلام ان مردوں کو جو اپنی جسمانی یا مالیاتی قوت کے بلبوتے پر عورتوں سے اپنی خدمت لیا کرتے تھے، عورتوں کو بسا اوقات اہانت اور تحقیر کا نشانہ بناتے تھے، ان کی حدود دکھائیں اور عورت کو اس کی حقیقی منزلت پر پہنچایا اور بعض چیزوں کے لحاظ سے اسے مرد کے برابر قرار دیا۔ “ان المسلمین و المسلمات و المؤمنین و المؤمنات” مسلمان مرد، مسلمان عورت، عبادت گزار مرد، عبادت گزار عورت، شبوں میں عبادت کرنے والے مرد اور راتوں کو جاگ کر عبادتیں کرنے والی عورتیں۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں یہ تمام معنوی و روحانی مقامات اور اعلی انسانی درجات مرد اور عورت کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے عورتیں بھی مردوں کے برابر ہیں۔ جو بھی اللہ کے لئے کام کرے گا “من ذکر او انثی” خواہ وہ مرد ہو کہ عورت ” فلنحیینھ حیاتا طیبۃ” (ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے) 

اسلام نے بعض مقامات پر عورتوں کو مردوں پر ترجیح تک دی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مرد اور ایک عورت کسی بچے کے ماں باپ ہیں اور یہ بچہ دونوں کا ہے لیکن اولاد کے لئے ماں کی خدمت کرنا زیادہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اولاد کی گردن پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے اولاد کے فرائض زیادہ سنگین ہیں۔ پیغمبر اسلام نے اس سوال کے جواب میں کہ ” من ابر” میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیکی کروں؟ فرمایا ہے کہ “امک” یعنی اپنی ماں کے ساتھ۔ آپ نے دوبارہ اس کی تکرار کی اور تیسری بار بھی یہی جملہ دہرایا۔ جب پوچھنے والے نے چوتھی دفعہ یہی سوال کیا تب آپ نے فرمایا کہ ” اباک” یعنی اپنے باپ کے ساتھ۔ بنابریں خاندان میں بچوں پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے بچوں کے فرائض بھی زیادہ ہیں۔ البتہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو بعض دیگر افراد پر (بے سبب) ترحیج دے دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں بہت زیادہ محنت و مشقت کرتی ہیں۔ یہ عدل الہی کا تقاضا ہے۔ جس کی زحمتیں زیادہ ہیں اس کا حق بھی زیادہ ہے۔ چونکہ (ماں) زیادہ مشقتیں برداشت کرتی ہے اس لئے اس کی قدر و منزلت بھی بالاتر ہے۔ 

یہ سب عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ مالیاتی امور میں، کنبے کے حق کے سلسلے میں، خاندان کی سرپرستی کے سلسلے میں اور گھر کے امور کو چلانے کے تعلق سے اسلام کی روش بڑی متوازن روش ہے۔ ان امور میں بھی اسلامی قانون نے ایسا بندو بست کیا ہے کہ مرد یا عورت کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم و زیادتی نہ ہو۔ اس نے مردوں کے حقوق بھی معین کر دئے ہیں اور عورتوں کے حقوق کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ ایک چیز مرد کے پلڑے میں ڈالی ہے تو دوسری چیز عورت کے پلڑے میں رکھی ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اگر وہ غور کرتے ہیں تو ان حقائق کو باقاعدہ محسوس بھی کرتے ہیں اور انہوں نے کتابوں میں یہ چیزیں لکھی بھی ہیں۔ 

اسلام کی نظر میں جنس یعنی مرد یا عورت ہونا موضوع بحث نہیں بلکہ ارتقاء انسانی پر گفتگو کی گئی ہے، اخلاق انسانی کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے، صلاحیتوں کو نکھارنے کی بات کی گئی ہے، ان فرائض کی بات کی گئی ہے جن کا تعلق کسی بھی جنس سے ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے مزاج سے آشنائی ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کے مزاج کو بخوبی پہچانتا ہے۔ اسلام کی نظر میں سب سے اہم ہے توازن کا برقرار رہنا، یعنی انسانوں بشمول مرد و زن، کے درمیان عدل و انصاف کی مکمل پابندی۔ حقوق کی برابری موضوع گفتگو ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض مقامات پر عورتوں اور مردوں کے سلسلے میں احکام مختلف ہوں۔ بالکل اسی طرح، جس طرح عورت اور مرد کے مزاج بعض خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں مرد اور عورت سے متعلق زیادہ سے زیادہ حقائق فطری خصائل اور طینت اور نفسیات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ 

اسلامی معاشرہ اور عورت

اسلامی معاشرے میں عورت سے توقع یہ ہوتی ہے کہ وہ عالمہ ہو، سیاسی شعور رکھتی ہو، سماجی سرگرمیاں انجام دے، تمام شعبوں میں سرگرم عمل ہو۔ گھر میں مالکہ کا رول ادا کرے، شوہر اور بچوں کی نگہداشت اور اولاد کی تربیت کا ذمہ سنبھالے۔ گھر کے باہر عفت و طہارت و پاکدامنی کا مظہر ہو۔ اسلامی معاشرہ ایسی عورتوں کو دیکھنا چاہتا ہے جوگھر کے اندر بچوں کی پرورش کرنے والی اور شوہر کے لئے سکون و چین کا سامان فراہم کرنے والی اور شوہر کے وجود سے سکون حاصل کرنے والی ، گھر کے باہر کی فضا میں اپنی پاکدامنی و عفت کی حفاظت کرتے ہوئے تمام سیاسی، علمی، سماجی اور دیگر شعبوں میں موجود رہے۔ اگر یہ ہدف پورا کرنا ہے تو اس کی اولین شرط حجاب ہے۔ حجاب کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ حجاب کے بغیر عورت وہ بے فکری اور اطمینان خاطر حاصل نہیں کر سکتی جس کے ذریعے وہ ان منزلوں کو طے کر سکے۔ 

اسلامی معاشرے میں اور مسلمانوں کی زندگی کے اصلی بہاؤ میں مسلمان عورت کی خاص حرمت و وقار ہے اور اس کا مظہر حجاب ہے۔ جو (خاتون) حجاب میں ملبوس رہتی ہے، اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں بھی وہ عورتیں زیادہ معزز اور قابل احترام ہوتی تھیں جو با حجاب رہتی تھیں۔ حجاب وقار کی علامت ہے۔ حجاب پہننے والی خواتین کا خاص احترام کیا جاتا ہے۔ اسلام تمام عورتوں کے لئے اسی حرمت و عزت کا خواہاں ہے۔

تبصرے
Loading...