علی مجسم حق

 

علی سر تا پا حق تھے۔ جب ہم ان کے فکر و شعور’ احساسات’ اخلاق’ سیرت اور عبادت کا بغور مطالعہ کرتے ہیں ‘تو انہیں خداوند عالم کا شیفتہ اور عاشقِ الٰہی پاتے ہیں۔ ایسا عشق جس کی کوئی حد اور سرحد نہیں۔

علیاپنی مناجات میں یوں گویا ہوتے ہیں: وھبنی یا الھی و سیدی و مولای وربی’ صبرت علی عذابک ‘فکیف اصبر علی فراقک؟ (بارِالٰہا ‘میرے آقا ‘ میرے مولا’ میرے پروردگار! مانا کہ میں تیرے عذاب پر صبر کر سکتا ہوں لیکن بھلاکس طرح تیری دوری’ تیرے فراق کو برداشت کروں گا؟)

عاشق اپنے معشوق کے فراق’ اُس سے دوری اور اُس سے فاصلے کی تاب نہیں رکھتا۔

وھبنی یا الھی صبرت علی حرنارک ‘فکیف اصبر عن النظرالی کرامتک (بارِالٰہا! مانا کہ میرے تیرے جہنم کی تپش کو برداشت کر لوں گا’لیکن بھلاکس طرح برداشت کروں گا کہ تو مجھ سے اپنی نگاہِ لطف و کرم کو پھیر لے؟)

جب ہم حضرتعلی کے بارے میں غور و فکر کریں اور انہیں کون برتر ہے کی بے معنی اور فضول بحثوں سے باہر نکال لیں’ تو اس جانب متوجہ ہوتے ہیں کہ پیغمبر (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کے بعدکوئی اُن سے موازنے کے قابل ہی نہیں اور فضائل میں کوئی ان کی نظیر ہے ہی نہیں۔

ہم یہ باتیں اِن کی محبت’ اِن کے عشق یا اِن کے بارے میں تعصب سے مغلوب ہوکر نہیں کر رہے۔ بلکہ اِن باتوں پر ایک حقیقت کے طور پر ایمان رکھتے ہیں ۔کیونکہ مسلمانوں کے درمیان علی کے سوا کوئی ایسا شخص تلاش نہیں کیا جا سکتا جس کے دل اور روح میں اسلام نے اس طرح نفوذ کیا ہو اور عمل میں جہاد’ معنویت ‘تواضع اور جو کچھ اسلام سے تعلق رکھتا ہے تمام معنی میں وہ اسکا آئینہ دار ہو۔ کیونکہ وہ تمام خوبیوں کے حامل ہیں اور اس امر میں کوئی ان کے مرتبے کو نہیں پہنچا۔

اس سے پہلے اپنی گفتگو میں ہم نے اس امر کا تذکرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ کیوں صرف علی یہ لیاقت رکھتے ہیں کوئی اور اِس اہلیت کا حامل نہیں؟۔ اب یہاں ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام اپنی رسالت کے ابلاغ کے بعد اپنے تمام منصوبوں کو ‘جن میں لوگوں کو توحید کی دعوت ‘اسلام کا فروغ اور لوگوںکے اندر ایمان کو رسوخ دینا شامل تھا ‘پور ی طرح جامۂ عمل نہیں پہنا سکے تھے ۔کیونکہ بکثرت جنگوں نے آپ کو یہ منصوبے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچانے دیئے تھے۔ نیز خود مدینہ میں منافقین اور یہودیوں کی طرف سے پیدا کردہ داخلی مشکلات اور اسی طرح مکہ کی طاقت فرسا مصیبتیں پیغمبرکے بہت سے منصوبوں کے جامۂ عمل پہننے میں رکاوٹ بنیں۔لہٰذالازم تھا کہ پیغمبرکے بعد علی جیسی کوئی شخصیت ان کے ادھورے منصوبوں کو آگے بڑھائے۔

پیغمبر کے بعد علی کو در پیش مشکلات

پیغمبر کے بعد حضرت علی کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔آپ اپنے آپ کو تن تنہا محسوس کرتے تھے۔ تنہا سوچتے’ تنہا تکالیف جھیلتے اور تنہا ہی خطرات کا سامنا کرتے۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کا مقام اس میخ کا سا ہے جس کے گرد چکی گھومتی ہے اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ چکی کی یہ میخ یا کلِّی ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ علم و معرفت کا پاک و پاکیزہ چشمہ آپ ہی کے وجود سے جاری ہوتا ہے اور آسمانِ علم و دانش کے کسی پرندے میں مجال نہیں کہ وہ اُن کے علم و دانش کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکے۔ علی اپنے بھرپور علم و دانش سے خوب آگاہ تھے۔ لیکن انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملتا تھا جو اس چھلکتے ہوئے دریائے علم سے فیض اٹھا سکے۔ اوریہ بات آپ کو مسلسل کرب اور غم واندوہ میں مبتلا رکھتی تھی۔ آپ خود فرماتے ہی:ان ھاھنا لعلما جمالو وجدت لہ حملة (دیکھو یہاں (حضرت نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا) علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔کاش! اس کو لینے والے مجھے مل جائیں۔ نہج البلاغہ ۔ کلمات قصار ١٤٧)

اپنے علم کا بوجھ اٹھانے کے لئے آپ کا ایسے افراد کو طلب کرنا’ انہیں تلاش کرنا اسلئے نہ تھا کہ آپ اپنے علم کو اپنی برتری اور اقتدار کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ بلکہ آپ طالب ِ علموں کے متلاشی اسلئے تھے تاکہ اُن کے ذریعے اپنے علم و دانش کوآئندہ نسلوںتک منتقل کر سکیں۔ اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ علی اپنی قوم اور اپنے زمانے میں تن تنہا رہے۔ اور آپ کی ایک سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ آپ ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے تھے جسے آپ کے مقام و منزلت کا ادراک ہی نہ تھا۔ اور اس بات کی گواہ آپ کی وہ گفتگو ہے جو آپ نے (خلیفۂ ثانی کی جانب سے قائم کردہ) شوریٰ اور اس سے متعلق مسائل پر فرمائی : فیا ﷲ وللشوریٰ’ متی اعترض الریب فیَّ مع الاوّل منھم حتیٰ صرت اقران الی ھذہ النظائر’ لکننی اسففت اذا سفّواوطرتُ اذاطاروا(اے اﷲ! مجھے اِس شوریٰ سے کیا سروکار! اِن میں سب سے پہلے کے مقابلے ہی میں میرے استحقاق اور فضیلت میں کیا شک تھا ‘جو اب ان لوگوں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب و ہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں ‘تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں’ تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ٣) ۔یعنی جہاں تک ہو سکے کسی نہ کسی صورت اِن سے نباہ کرتا رہوں۔

حضرت علی نے اسلام کے تحفظ اور اسکی بقا و سلامتی کے لئے بدترین حالات کا سامنا کیا اور اپنے انفرادی اور ذاتی مسائل سے درگزر فرمایا۔ اگر آپ خلافت کے طلبگار تھے’ تو یہ اپنے کسی شخصی اور ذاتی مفاد کے لئے نہ تھا۔ بلکہ صرف اور صرف اسلام کی بہتری مقصود تھی۔

اِن حساس حالات میں ‘حضرت علی کو جس مشکل کا سامنا تھا’ وہ اسلام کو انحراف کی طرف لے جانے کی مشکل تھی۔ آپ ہر چند ظاہری طور پر اسلام کو دنیا میں فروغ پاتا دیکھ رہے تھے’ اسے مضبوط ہوتا دیکھ رہے تھے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ اسلام انسانوں کے شعور میںبس جائے’ اُن کی فکر اور سوچ میں جگہ بنائے ‘اُن کی روح میں اتر جائے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں قدرتی طور پر اسلام پھیلا۔ پیغمبر اسلام ایمان کے بارے میں فرماتے تھے کہ : من قال لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ حقن بھا مالہ و دمہ و عرضہ (جو کوئی یہ کہہ دے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اﷲ کے’ اور محمد اﷲ کے رسول ہیں ‘اس نے اپنے مال و جان اور عزت و آبرو کو امان میں کر لیا (لیکن وہ حقیقتاً ایمان نہیں لایا ہے)۔ اسی طرح اِس بارے میں قرآنِ کریم میں اشارہ کیا گیا ہے کہ: قَالَتِ الْاَعْرَابُ ٰامَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَٰلکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (یہ دیہاتی عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں’ تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو اسلام لے آئے ہیں’ کہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ سورئہ حجرات ٤٩۔ آیت ١٤)

بہر حال ‘ اپنے زمانے میں رسولِ مقبول کالائحۂ عمل یہ تھا کہ لوگ شرک سے نکل کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اس طرح رفتہ رفتہ ان میں اسلام کی قبولیت کا میدان ہموار ہو۔

غصب ِ خلافت کے بعد حضرت علی کا ردِ عمل

اسی لئے ولایت (اور مسلمانوں کی حاکمیت) کے لئے حضرت علی کا انتخاب کیا گیا تھا’ کیونکہ وہی اس منصب کے اہل واحد ہستی تھے۔ وہی تھے جو فکری’ معنوی’ شرعی اور عملی پہلوئوں میں حقیقی اسلام سے لوگوں کو روشناس کرا سکتے تھے اور اسکی بنیاد پر لوگوں کے امور کا انتظام و انصرام کر سکتے تھے۔

 لیکن اس دور کے اسلامی معاشرے کے پیچیدہ حالات نے علی کو ان کے مقام سے محروم کر کے ایک اور شخص کو اس منصب پر بٹھا دیا۔

اس حساس اورپیچیدہ صورتحال میں حضرت علی نے کس ردِ عمل کا مظاہرہ کیا؟

کیاانہوں نے اپنے حق کی بازیابی کے لئے مشکلات پیدا کرنی شروع کر دیں؟

یا آپ نےاسلام کی مصلحت اور اسکے مفاد کو ہر چیز پر مقدم قرار دیا؟

اچھا ہو گااگر ہم اِن حالات میں حضرت علی کے موقف اور ردِ عمل کو خود ان کے کلام میں تلاش کریں۔ اس بارے میںآپ نے فرمایا: حتی اذارایت راجعة الناس قدرجعت عن الاسلام یریدون محق دین محمد (ص) فخشیت ان لم انصرالاسلام واھلہ واشارک القوم فی امورھم واجھھم وانصحھم ان اری فیہ ثلماا و ھدما’ تکون المصیبة بہ علیَّ اعظم من فوت ولا یتکم ھذہ’ التی انما ھی متاع ایام قلائل’ یزول منھا مازال کما یزول السراب اوکما ینقشع السحاب’ فنھضت حتیٰ زال الباطل و زھق ‘واطمان الدین و تنھنہ (یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمد کو مٹا دینے پر تل گیاہے۔ مجھے اس بات کا خو ف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگرمیں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں’ تو یہ میرے لئے اس سے بڑھ کر مصیبت ہو گی جتنی تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے چلی جانے کی مصیبت ‘جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے’ اِس میں کی ہر چیز سراب اور ان بدلیوں کی مانند جو ابھی جمع نہ ہوئی ہو ں زائل ہو جانے والی ہے۔ چنانچہ اِن حالات میں’ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ تاکہ باطل نیست و نابود ہو جائے اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ جائے۔نہج البلاغہ ۔ مکتوب ٦٢)

اسی طرح آپ کے کلام میں یہ بھی ملتا ہے کہ : لولا حضور الحاضرو قیام الحجة بوجود الناصر’ ومااخذ اﷲ علی العلماء ان لا یُقارواعلی کظة ظالم و سغب مظلوم لا لقیت حبلھا علی غاربھا ‘ولسقیت آخرھا بکاس اوّلھا ‘ ولا لفیتم دنیا کم ھذہ اھون عندی من عفظة عنز (اگر بیعت کرنے والوں کی کثرت اور مدد کرنے والوں کی موجودگی سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی’ اور وہ عہد نہ ہوتا جو اﷲ نے علما سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک دیکھ کر سکون و اطمینان سے نہ بیٹھے رہیں ‘تو میں خلافت کی باگ اسی کے کاندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اسکے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم دیکھتے کہ دنیا میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ٣)

علی علیہ السلام اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین کے لئے حکومت نہیں چاہتے تھے ‘بلکہ آپ احکامِ الٰہی کے اجرا اور نفاذ کے لئے حکومت کے طلبگار تھے۔ اِس بارے میں آپ یوں فرماتے ہیں کہ: الھی انک تعلم انہ لم یکن الذی کان منا منافسہ فی سلطان ‘ ولا التماس شی من فضول الحطام ‘ ولکن لنردّ المعالم من دینک ‘ونظھر الاصلاح فی بلادک ‘ وتُقام المعطلة من حدودک’ویامن المظلومون من عبادک (بارِالٰہا! یہ جو کچھ ہم سے( جنگ و پیکار کی صورت میں) ظاہر ہوا ہے’ اسلئے نہ تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی’ یا ہم مالِ دنیا کے طالب تھے ۔بلکہ یہ اسلئے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر) واپس لے کر آئیں اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بے کار بنا دیا گیا ہے اور تیرے شہروں میں امن و بہبود کی صورت پیدا کریں۔تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٢٩)

روزِ غدیر ‘وہ دن ہے جس دن خداوند عالم نے اپنے دین کو کامل کیا’ اپنی نعمتوں کو وافر انداز میں عطا کیا۔ آج کے دن ہر مومن کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے دینی بھائی سے ملاقات کرتے ہوئے کہے کہ : الحمد ﷲ الذی جعلنا من المتمسکین بولایة علی والا ئمة من اھل البیت ‘الحمد ﷲ علی اکمال الدین و اتمام النعمة (اس خدا کا شکر جس نے ہمیں علی اور اُن کے اہل بیت کی ولایت سے وابستہ کیا’ شکر اس خدا کا جس نے دین کو کامل کیا’ اور نعمتوں کو اپنی انتہا پر پہنچایا)

واقعۂ غدیر سے یہ سبق حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ حضرت علی کی راہ اور اُن کی فکر کی پیروی کرنی چاہئے ‘اُن کی محبت کو اپنے دل میں پروان چڑھانا چاہئے’ ایک لمحے کے لئے بھی اُن سے جدا نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ ولایت کی پیروی اسلام اور قرآن کی پیروی ہے۔ اسی کے ذریعے ہماری فکری اور معنوی سطح میں بلندی آئے گی اور ہم اپنے دشمنوں کے مقابل کھڑے ہو سکیں گے۔اسکے برعکس علی سے جدائی’ اور علی سے دوری ‘اسلام قرآن اور تمام خوبیوں سے دوری کے مترادف ہے ۔

اس نکتے کی جانب حضرت علی نے اپنے ایک خطاب میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:انکم ستدعون الی سبّی والبرائة منی’ امالسبّ فسبّونی فانّہ لی زکاة ولکم نجاة ‘واماالبراء ة فانی ولدت علی الفطرة وسبقت الی الایمان والھجرة(جان لو کہ عنقریب تمہیں مجھ سے بیزاری اور مجھے برا بھلا کہنے پر اکسایا جائے گا۔ جہاں تک مجھے برا بھلا کہنے کی بات ہے (دشمن کے ظلم و زیادتی سے امان کے لئے) مجھے برا بھلا کہہ دینا۔ اسلئے کہ یہ میرے لئے درجات کی بلندی کا سبب اور تمہارے لئے (دشمنوں سے) نجات کا باعث ہوگا۔ لیکن (دل سے) ہر گز مجھ سے بیزاری کا اظہار نہ کرنا۔ اسلئے کہ میں (دین) فطرت پر پیدا ہوا ہوں’ اور سب سے پہلے ایمان لانے اور ہجرت کرنے والا ہوں۔ نہج البلاغہ ۔خطبہ ٥٧)

لہٰذاجوکوئی علی سے اظہار ِبیزاری کرے’گویا اُس نے ایمان اور اسلام سے بیزاری و برائت کا اظہار کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ سے بیزاری ظاہر نہیں کی جا سکتی ۔یہ علی کی پیروی کرنے اور ان کی راہ پر چلنے والے ہر شخص کی راہ ِعمل ہونی چاہئے۔ تاکہ اس طرح فکری’ معنوی اور جہادی لحاظ سے امت قوت حاصل کرے۔ کیونکہ بزرگ اور معاشرے کی اصلاح کے لئے کوشاں شخصیات کے لئے اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ لوگ اُن کے بارے میں کن جذبات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اُن کے لئے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ راہ ِراست سے منحرف نہ ہوں۔ اور یہ واقعۂ غدیر میں مد ِ نظر اسباق میں سے ایک سبق ہے۔

علی اسلامی اتحادکے علمبردار

علی علیہ السلام نے ٢٥ برس تک اُن لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کی جنہوں نے آپ کو آپ کے حق سے محروم رکھا۔آپ نے اپنی نصیحتوں اور مشوروں کے ذریعے اُن حضرات کی مدد کی۔ اسی طرح اِن اہم اور حساس حالات میںہر ممکن طریقے سے عملی کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ حضرت عمر کو کہنا پڑا کہ : لو لا علی لھلک عمر (اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا ) ۔نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ: لا کنت لمعضلة لیس لھا ابوالحسن (مجھے کوئی ایسی مشکل پیش نہ آئی جسے ابوالحسن (علی) نے حل نہ کیا ہو)

لہٰذا علی وہ پہلے فرد ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کی کوشش کی ۔ اس وحدت کے معنی یہ نہ تھے کہ انہوں نے اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ بلکہ اپنے اس طرزِ عمل سے آپ نے مسلمانوں کو اس عظیم خطرے کے تدارک کی دعوت دی’ جو مستقبل میں اسلام کو جڑ سے ختم کر دینے کا باعث بن سکتا تھا ۔

اس بنیاد پر جو شخص بھی عقل ‘دین اور ایمان کے لحاظ سے اپنے آپ کو اہل بیت کی پیروی کا پابند سمجھتا ہے’وہ اسلام و مسلمین کی مصلحت و مفاد کی خاطر تمام مسلمانوں کے لئے اپنے بازو کھلے رکھتا ہے ‘انہیں گلے لگاتا ہے اور انہیں پیغام دیتا ہے کہ: تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآئٍ(آئو ایک منصفانہ کلمے پراتفاق کرلیں۔سورۂ آلِ عمران٣۔آیت٦٤) ۔ یعنی قرآن و سنت کے مرکز پر جمع ہونے کے لئے قدم اٹھائیں۔ اور اگر امامت و خلافت اور کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں ہمارے درمیان اختلاف سر ابھارے ‘تو اسکے سلسلے میں خدااور اسکے رسول سے رجوع کریں۔ اور باہمی بغض و عداوت اور دشمنی وکینے سے پرہیز کریں۔ کیونکہ اسلام کو ہماری اجتماعی کوششوں ‘مہارتوں اور فعالیت کی ضرورت ہے۔

امام علی کی ذمه داری

امام علی کی ذمے داری یہ تھی کہ آپ اسلام کو انسانوں کی روح میں اتاریں’ انسانی فکر کو اسلامی افکار کی روشنی سے منور کریں اور مسلمانوںکے اندرسعی و کوشش کا جذبہ ابھاریں۔ مختصر یہ کہ ایسے انسان تیار کریں جو اسلامی تعلیمات کا جیتا جاگتا نمونہ ہوں’ اور جواِن تعلیمات کی بنیاد پر انسانی سماج میں اپنی ذمے داریاں ادا کرنے پر تیار ہوں۔ آپ خلافت سے محروم کئے جانے کے باوجود اپنی ذمے داریوں کا احساس رکھتے تھے ۔لہٰذا آپ نے فرمایا کہ : حتی اذارایت راجعة الناس قدرجعت عن الاسلام یریدون محق دین محمد (ص) فخشیت ان لم انصرالاسلام واھلہ واشارک القوم فی امورھم واجھھم وانصحھم ان اری فیہ ثلماا و ھدما’ تکون المصیبة بہ علیَّ اعظم من فوت ولا یتکم ھذہ’ التی انما ھی متاع ایام قلائل’ یزول منھا مازال کما یزول السراب اوکما ینقشع السحاب’ فنھضت حتیٰ زال الباطل و زھق ‘واطمان الدین و تنھنہ (یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمد کو مٹانے دینے پر تل گیا ہے۔ مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگرمیں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں’ تو یہ میرے لئے اس سے بڑھ کر مصیبت ہو گی جتنی حکومت سے محروم ہو جانے کی مصیبت’ جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے’ اس کی ہر چیز سراب اور ان بدلیوں کی مانندزائل ہوجانے والی ہے جو ابھی جمع نہ ہوئی ہوں۔ چنانچہ اِن حالات میں’ میں اٹھ کھڑا ہوا ‘تاکہ باطل نیست و نابود ہو جائے اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ جائے۔ نہج البلاغہ ۔ مکتوب ٦٢)

حضرت علی کو اپنے دورِ خلافت میں جب کبھی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہوتا’ تو آپ اس سلسلے میں عوام سے گفتگو فرماتے۔ لیکن منتشر اور باہم متفرق قوم کے ذریعے درپیش مسائل و مشکلات کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا آپ نے خداوند عالم سے مناجات کرتے ہوئے فرمایا: اللھم انہ لم یکن الذی کان منا ۔۔۔۔

(بارِ الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں) منافسة فی سلطان’ ولاالتماس شی من فضول الحطام ‘ ولکن لنردّ المعالم من دینک ‘ونظھر الاصلاح فی بلادک ‘ فیامن المظلومین من عبادک’ وتُقام المعطّلة من حدودک ‘اللھم انی اوّل من اناب وسمع واجاب لم یسبقنی الّا رسول اﷲ بالصلاة (یہ اسلئے نہیں کہ ہمیں تسلط اور اقتدار کی خواہش تھی’ یا مالِ دنیا کی طلب تھی ۔بلکہ یہ اسلئے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھران کی جگہ پر) پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودکی فضا پیدا کریں۔ تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بے کار بنا دیا گیا ہے۔ اے اﷲ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کیا اور تیرے فرمان کو سن کر لبیک کہا اور رسول اﷲ( صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے سوا کسی نے مجھ سے پہلے نمازنہیں پڑھی۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٢٩)

علی کی پیغمبرانہ ذمه داری

ممکن ہے یہاں یہ سوال سامنے آئے کہ پیغمبر اسلام(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد اِن حساس حالات میں حضرت علی کی اصل اور بنیادی ذمے داری کیا تھی؟

یہ بات واضح ہے کہ رسولِ مقبول کی وفات اور اُن کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد ضروری تھا کہ ایک ایسا شخص میدان میں موجود رہے جو عقیدے’ جذبے اور زندگی کے تمام شعبوں میں رسولِ کریم ہی کی مانند ہو’ آپ کی شخصیت کاعکس ہو اور آپ کے مشن کو جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتاہو۔ علی کے سوا کسی اور ہستی میں یہ لیاقت اور اہلیت نہ تھی۔ پس وہی تھے جو ہر سوال کا جواب دے سکتے تھے اور ہر مرحلے کے لئے منصوبے بنا سکتے تھے اور ایک عظیم منزل کی جانب انسانوں کی رہنمائی کر سکتے تھے۔

نہج البلاغہ کے جو اقتباسات ہم نے اب تک پیش کئے ہیں’ وہ حضرت علی کے گرانبہا علم و دانش کا ایک انتہائی قلیل حصہ ہیں۔ یہ امیر المومنین کے ان فرمودات اور مکتوبات میں سے چند ایک ہیں جنہیں سید رضی نے نہج البلاغہ میں جمع کیا ہے۔ بدقسمتی سے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے بہت کم فرامین اور مکتوبات ہم تک پہنچے ہیں۔ سید رضی کے اِس احسان پر اُن کے انتہائی شکر و سپاس کے باوجود’ اُن سے یہ شکوہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت علی کا کلام جمع کرتے ہوئے کیوں صرف ادبی پہلو کے حامل کلام کو منتخب کیا۔ اور اسی بنا پر آپ کے بہت سے خطبات اور کلمات کو مختصر کیا’ اور اُن کے علمی اور فکری پہلوئوں کو نظر انداز کیا۔جبکہ امت ِ اسلامی کو اُن کے فکری پہلو کی زیادہ ضرورت تھی۔ افسوس کہ آپ کے تمام کلمات و فرمودات اکھٹے نہ کئے جا سکے اور صفحاتِ تاریخ پر باقی نہ رہ سکے۔ کیونکہ آپ کا ہر کلمہ غور و فکر سے بھرپور نکات پر مشتمل ہے اور ایک راہِ عمل اور ایک سمت کی جانب انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔

حق علی کے پورے وجود سے جلوہ گر ہے اور اِن دونوں کے درمیان جدائی ممکن نہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے: علی مع الحق والحق مع علی’ یدور معہ حیث دار (علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ’ جہاں یہ جاتے ہیں وہیں حق بھی جاتا ہے۔ شرح نہج البل

اغہ از ابی الحدید۔ ج ٢ ۔ ص ٢٩٧ ۔ باب ٣٧)

علیکی یہ حقانیت اُن کے تن تنہا رہ جانے اور اُن کی گوشہ نشینی کا سبب بنی ۔انہوںنے خوداِس مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : ماترک لی الحق من صدیق (حق نے میرا کوئی دوست نہ رہنے دیا ۔ شرح نہج البلاغہ ازابن ابی الحدید ۔ ج ٣ ۔ ص ٥٨ ۔ باب ٤٣)بعض لوگوں نے حضرت علی کے سامنے معاویہ کی چالاکی کا ذکر کیا اور آپ سے خواہش ظاہر کی کہ آپ اپنے طرز ِعمل پر نظر ثانی کریں۔ آپ نے ان کے جواب میں فرمایا: واﷲ ما معاویة بادھی منی’ ولکنہ یغدرو یفجر’ ولولاکراھیة الغدر ‘لکنت ادھی الناس (خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار نہیں ۔لیکن وہ عہد و پیمان توڑنے اور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔اگر میں پیمان شکنی کو مذموم نہیں سمجھتا تو میں ہوشیار ترین انسان ہوتا۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٩٨)

اگر علی خلیفہ ہوتے

اگر علم’ معنویت ‘جہاد اور اخلاص کے لحاظ سے حضرت علی کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے’ تو کیا اُن کا کوئی ہمسر اور ہم پلہ مل سکے گا؟ حضرت عمر شوریٰ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حضرت علی کی لیاقت اور اہلیت کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں : ولو و لیھا علی لحملھم علی المحجَة البیضائ(اگر علی خلیفہ ہوتے تو بے شک سعادت اور خوش بختی کی جانب رہنمائی کرتے)

امام علیکو اپنے دورِ خلافت میں جن مشکلات کا سامنا کرناپڑا’شاید اُن کی وجہ اندازِ حکمرانی میں آپ کا پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی راہ وروش پر چلنا تھا ۔کیونکہ آپ اِس سلسلے میں کسی اور کی پیروی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آپ کی تمنا تھی کہ اسلام لوگوں کے قلب اور اُن کی روح میں رچ بس جائے۔ نیز آپ ہر قیمت پر حکومت سے چمٹے رہنے کے متمنی نہیں تھے۔ جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ : قد یری الحُوَل القُلّب وجہ الحیلة ودونھا حاجز من امراﷲ و نھیہ’ فید عھارای العین بعدالقدرة و ینتھز فرصتھا من لا حریجة لہ فی الدین (کبھی کبھی انسان مستقبل میں پیش آنے والے تمام حوادث سے آگاہ ہوتا ہے اور مکر و فریب کے راستوں کو بھی جانتا ہے۔ لیکن خدا کے اوامر و نواہی اسکی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ اور باوجود یہ کہ انہیں انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے لیکن انہیں واضح طور پر ترک کر دیتا ہے۔ لیکن جو شخص گناہ اور دین کی مخالفت کے بارے میں بے پروا ہوتا ہے ‘وہ دھوکا اور فریب کے مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ٤١)

کچھ لوگوں نےآپ سے کہا کہ بیت المال آپ کےاختیار میں ہے۔ آپ اُن (قبائلی بزرگوں ) کو اِس سے نوازیئے تاکہ آپ کی حکومت مضبوط اور مستحکم ہو جائے۔ آپ نے اُن لوگوں کو جواب دیا کہ : اتامرونی ان اطلب النصر بالجور ‘واﷲ مااجوربہ ما سمر سمیر’ وماام نجم فی السماء نجما’لوکان المال لی لسویت بینھم فکیف والمال مال اﷲ (کیا تم مجھے اِس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم بنایا گیا ہوں اُن پر ظلم کرتے ہوئے (کچھ لوگوں کی) مدد حاصل کروں؟ خداکی قسم جب تک دن اور رات ایک دوسرے کے پیچھے چلتے رہیں گے اور آسمان پر ایک کے بعد دوسرا ستارہ طلوع ہوتا رہے گا’ میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ اگر یہ مال میرا ہوتاتب بھی اسے تمہارے درمیان مساوی تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ خدا کا مال ہے۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٢٤)

لہٰذا ہم معتقدہیں کہ ہر چند متعدد فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کو کچھ مثبت نتائج بھی حاصل ہوئے لیکن بہت سے معاملات میں مسلمانوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ وہ اسلامی سلطنت کی حدود کو تو وسعت دینے میں کامیاب رہے لیکن انہوں نے اسلامی تعلیمات کو خود مسلمانوں کے اندرنفوذدینے کی طرف توجہ نہ دی۔

مسلمانوں کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ اُن کی حکومت زیادہ سے زیادہ وسعت اور قدرت حاصل کر لے۔ بلکہ اسلام اِس صورت میں کامیاب قرار دیا جائے گا جب وہ مسلمانوں کے قلب و ذہن میں اتر جائے اور وہ اس کے ذریعے اسلام کو عالمگیریت بخشیں اور لوگوں کے طرزِ عمل ‘انداز و اطوار کو اس طرح تبدیل کریں کہ اسلام اُن کی فکر’ عقیدے ‘ جذبات اور عمل پر اثر انداز ہو۔

آپ نے حکومت ِ اسلامی کے مثالی حکمرانوں کی صفات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ولقد علمتم انہ لا ینبغی ان یکون الوالی علی الفروج والدماء والمغانم والا حکام وامامة المسلمین البخیل’فتکون فی اموالھم نھمتہ’ ولاالجاھل فیضلّھم بجھلہ’ ولاالجافی فیقطعھم بجفائہ’ولاالحائف للدول قیتخذ قوما دون قوم’ ولا المرتشی فیذھب بالحقوق ویقف بھادون المقاطع’ ولاالمعطّل للسنة فیھلک الامة (تم جانتے ہو کہ مسلمانوں کی عزت و ناموس ‘اُن کی جان’ اُن کے مفادات ‘اُن کے احکام اور اُن کی قیادت کے لئے بخیل اور تنگ نظر حاکم مناسب نہیں ۔کیونکہ ایسے شخص کی نگاہیں مسلمانوں کے مال پر لگی رہیں گی’ نیز نہ نادان شخص(مسلمانوں کی حکمرانی کے لئے مناسب ہے) کیونکہ وہ انہیں اپنی جہالت کی وجہ سے گمراہ کر دے گا ‘اور نہ بد اخلاق شخص (اس منصب کے قابل ہے)کیونکہ وہ انہیں اپنی بد خلقی سے چرکے لگاتا رہے گا’ اور نہ مال و دولت کے سلسلے میں بد عنوان شخص(اس منصب کا اہل ہے) کیونکہ وہ کسی کو تو مال و دولت سے نوازے گا اور کسی کو محروم رکھے گا’ اور نہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والا شخص(مسلمانوں کی حکمرانی کے قابل ہے) کیونکہ وہ لوگوں کے حقوق کو ضائع کر دے گا’ اورنہ سنت کو معطل کرنے والا شخص (اس قابل ہے کہ اسے مسلمانوں کا حکمراں بنایا جائے)کیونکہ وہ اس طرح امت کو برباد کر دے گا۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٢٩)

حضرت علی کی ولایت لوگوں پر حاکمیت نہیںایک الٰہی فریضہ ہے

آیۂکریمہ: یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَاِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُکو پیش نظر رکھتے ہوئے اِس مسئلے کا جائزہ بتاتا ہے کہ یہاں خداوند عالمدراصل حضرت علی کی ولایت کا اعلان چاہتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف کسی شخص کو حکومت اور مسلمانوں کے معاملات کا نظم و نسق سپرد کرنے تک محدود نہیں ہے۔ لہٰذا یہ مشن ایک ایسے شخص کے سپر د کیا جانا چاہئے جس کا قلب و ذہن اور پوراوجوداِس مشن میں ڈوبا ہوا ہو۔اور ایسی شخصیت سوائے علی ابن ابی طالب کے کوئی اور نہیں ہے۔

لہٰذا تعین کے لحاظ سے اِس مسئلے کا جائزہ لینے پر یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ اِس منصب کے لئے حضرت علی کو معین کر دیا گیا تھا۔

لیکنرسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحلتکے بعد جس صورتحال نے اسلامی معاشرے میں جنم لیا’ وہ اِس سے مختلف تھی ۔سقیفہ میں امارت کا مسئلہ پیش نظر تھا۔ یعنی مہاجرین اور انصار دونوں اپنے اپنے لئے ایک امیر مقرر کرنا چاہتے تھے۔ جذبات کو مشتعل کرنے والے اِن عوامل اور جزیات سے قطع نظر(جن کافی الحال ہم تذکرہ نہیں کرنا چاہتے) امارت کی منطق سے یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا کوئی بھی مسلمان امیر بن سکتا ہے؟ کیا امارت کی ذمے داری قبول کرنے والے فرد کے بارے میں تمام اصحابِ پیغمبر کے درمیان گفتگو ہوئی تھی؟ واضح رہے کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ علی اور اُن کے ساتھی پیغمبر اسلام کے غسل و کفن میں مصروف تھے’وہ سقیفہ کے اجلاس میں موجودہی نہ تھے۔ انہیں اِس وقت اِس کا علم ہوا جب بات ختم ہو چکی تھی۔

اگر روزِ غدیر پیغمبر اسلام کی طرف سے حضرت علی کا انتخاب نہ بھی ہوا ہوتا’ تو کم از کم اُنہیں اُن لوگوں میں تو شمارکیا جانا چاہئے تھا ‘جن کے نام خلافت کے لئے پیش کئے گئے تھے ۔کیونکہ پیغمبر اسلام سے اپنی مصاحبت اور قرابت کے اعتبار سے اور اپنے علم و جہاد کے لحاظ سے’ آپ عظیم المرتبت اصحابِ رسول میں تو شمار کئے ہی جاتے تھے۔ اِس مقام و مرتبے کے باوجود ‘کیا یہ بات منطقی تھی کہ مسئلۂ خلافت اٹھے اور اسکے بارے میں علی سے رائے نہ لی جائے ؟!!

اور اگر اِس مسئلےکو شوریٰ کے پہلو سے دیکھا جائے ‘تو ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا سقیفہ میں جو کچھ پیش آیا ‘اُسے ایک حقیقی اور واقعی شوریٰ قرار دیا جا سکتا ہے؟

اگر آج کوئی اپنی سیاسی سرگرمی انتخابی (شورائی) طریقۂ کار کے مطابق استوار کرے اور ایسا کرے جیساسقیفہ میں ہواتھا’ اورقوم کی قیادت کے لئے ایک فرد کو تجویز کرے’ تو کیا دوسرے لوگ اِس قسم کے انتخاب کو قبول کریں گے’اسکے بارے میں مثبت رائے دیں گے؟

رسالت کی فکری تحریک کا جاری رہنا حکومت سے زیادہ اہم بات ہے؟

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کا ایک حاکم ہو۔ نیز صرف اِن کے نظم و نسق اور معاملات و امور کی دیکھ بھال کے لئے ایک شخص کا ہونا بھی کافی نہیں ہے۔ بلکہ مسئلہ اسلامی مشن کا اسی فکری کیفیت (quality)کے ساتھ جاری رہنا ہے جس کے لئے رسولِ کریم نے حضرت علی کی تربیت فرمائی تھی ۔تاریخ کی روشنی میں بھی معنویت ‘خدا کے ساتھ اپنے تعلق اورجہاد فی سبیل اﷲ کے لحاظ سے ‘مسلمانوں کے درمیان کوئی ایک فرد بھی علی کی مانند نہ تھا۔

جب ہم خلفا کے دور میں اسلام کے بارے میں احساسِ ذمے داری سے بھرپور حضرت علی کے موقف اور طرزِ عمل کا مشاہدہ کرتے ہیں’ تو اُن کی شخصیت کی عظمت اور نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے ۔انہوںنے اپنے مُسَلَّم حق سے محرومی کے باوجود کوئی منفی موقف اختیار نہیں کیا۔ کیونکہ اُن کی نظر میں اسلام کا مفاد سب سے عزیز تھا۔ اوراُنہوں نے ہر دور اور تمام حالات میں ‘خواہ وہ اُن کا اپنا دورِ خلافت ہو ‘یا اُس سے پہلے کا زمانہ’ اپنے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کا ذمے دار سمجھا۔ یہ نکتہ حضرت کی طرف سے مصر کے لوگوں کے نام لکھے گئے مکتوب سے بھی ظاہر ہے۔ آپ نے اِس خط میں تحریر فرمایا: فماراعنی الا انثیال الناس علی فلاں یبایعونہ’ فامسکت یدی حتیٰ اذارایت راجعة الناس قدرجعت عن الاسلام یریدون محق دین محمد (ص) فخشیت ان انالم انصرالاسلام واھلہ ان اری فیہ ثلما اوھدما’ تکون المصیبة بہ علیَّ اعظم من فوت ولا یتکم ھذہ’ التی انما ھی متاع ایام قلائل’یزول منھا مازال’ کما یزول السراب اوکما ینقشع السحاب’ فنھضت حتیٰ زاح الباطل و زھق ‘ واطمان الدین و تنھنہ (مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا کہ لوگ فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کے لئے دوڑ پڑے ہیں۔ اِن حالات میں’ میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمد کو مٹا دینے پر تل گیاہے۔ مجھے اس بات کا خو ف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگرمیں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں’ تو یہ میرے لئے اس سے بڑھ کر مصیبت ہو گی جتنی تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے چلی جانے کی مصیبت ‘جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے’ اِس میں کی ہر چیز سراب اور ان بدلیوں کی مانند جو ابھی جمع نہ ہوئی ہو ں زائل ہو جانے والی ہے۔ چنانچہ اِن حالات میں’ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ تاکہ باطل نیست و نابود ہو جائے اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ جائے۔نہج البلاغہ ۔ مکتوب ٦٢)

اسی طرح آپ نے فرمایا: واﷲ لا سالمن ما سلمت امورالمسلمین ‘ولم یکن بھا جورالاعلیَّ خاصة (خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور ٹھیک رہیں گے اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی ‘میں نباہ کرتا رہوں گا۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ٧٢)

ایک ایسا انسان’ جو ایثار و درگزر کی اس حد تک پہنچا ہوا ہو’ اُسے اسکے حق (جو دراصل اُس کا ذاتی اور شخصی حق نہ تھا بلکہ امت کا حق تھا) سے دور رکھا گیا۔ لیکن اِس کے باوجود وہ اسلامی معاشرے سے متعلق مسائل اور اسلام کی حفظ و سلامتی کے لئے اُن لوگوں کے شانہ بشانہ مصروفِ کار رہا جنہوں نے اسے خلافت سے محروم کیااور اُن کی ضروری رہنمائی کرتا رہا’ اُن کے سوالات کے جواب دیتا رہا’ یہاں تک کہ حضرت عمر نے اعتراف کیا کہ : لو لا علی لھلک عمر(اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا) ۔نیز یہ بھی کہا کہ : لاابقانی اﷲ لمعضلة لیس لھا ابوالحسن (خدا نے جب کبھی مجھے کسی مشکل میں ڈالا ‘صرف علی ہی نے اس مشکل کو حل کیا)

امام کے اِس طرز ِعمل کی معراج وہ موقع ہے جب حضرت عمرنے خود فارس کی جنگ کی قیادت کا فیصلہ کیا اور اِس بارے میں حضرت علی سے مشورہ طلب کیا۔ امام نے اِس عمل کی مخالفت کی اور اُنہیں جنگ کے لئے جانے سے منع کیا۔ کیونکہ اِس طرح اُنہیں ایک بڑے خطرے کا سامنا ہوتا۔ یعنی اگر وہ مارے جاتے تو لشکر شکست کھا جاتا۔ امام نے اُن سے فرمایا: انک متی تسر الی ھذاالعدوبنفسک فتلقھم بشخصک فتنکب لا تکن للمسلمین کانفة دون اقصی البلاد ھم۔ لیس بعدک مرجع یرجعون الیہ۔ فابعث الیھم رجلا مجربا(تم اگر خود اُن دشمنوں کی طرف بڑھے اور اُن سے ٹکرائے اور کسی افتاد میں پڑ گئے ‘تو اِس صورت میں مسلمانوں کے لئے دور کے شہروں سے پہلے کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا اور نہ تمہارے بعد کوئی پلٹنے کی ایسی جگہ ہو گی کہ اسکی طرف پلٹ کر آ سکیں۔ تم (اپنے بجائے) اُن کی طرف کوئی تجربہ کار آدمی بھیجو۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٣٢)۔ لہٰذا حضرت عمر نے ایسا ہی کیا۔

ہم نے اِن باتوں کا تذکرہ اسلئے کیا ہے تاکہ ہم حضرت علی کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔کیونکہ ہمارے خیال میں علی کی ولایت کا عقیدے رکھنے والے بہت سے لوگوں نے اُن کی زندگی سے کوئی سبق نہیں لیا ہے’ اُن سے کوئی چیز نہیں سیکھی ہے۔ بلکہ وہ دور سے’ فاصلے سے علی کی زندگی کا نظارہ کرتے ہیں۔ اِن کی سوچ ‘اُن کی فکر سے نزدیک نہیں ہے’ یہی وجہ ہے کہ زبان سے اُن کا نام لینے کے باوجود ہمارے اندرفکر ی پسماندگی موجود ہے۔ لہٰذا ہم تنگ نظر ی اور سطحی نعرے بازی کا شکار ہیں اور روز بروز پیچھے ہی پیچھے ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔

لہٰذا’اِس دور’ بالخصوص اِس زمانے میں ہماری مشکل’ صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو اسلام کے خلاف برسرِپیکار ہیںبلکہ وہ لوگ بھی کوئی کم مشکل ساز نہیں جو پسماندگی کے مسلک پر گامزن ہیں اور اسی کو اسلام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو اسلام کا بگڑا ہوا چہرہ پیش کرتے ہیں اور ایک وسیع اوربے کنار مکتب کے طور پر اسکا تعارف کرانے کی بجائے اُسے کسی انتہائی چھوٹی اور ضمنی چیز تک محدود کئے ہوئے ہیں۔

لہٰذا ہمیں آگے بڑھ کر اسلامی فکر اور اسلامی تمدن کا علم حاصل کرناچاہئے۔ تاکہ زمانے کے تقاضوں کے تحت اسلام کا تعارف کرانے کی اہلیت حاصل کر سکیں۔ نیز یہ بات ہمارے علم میں آئے کہ زندگی کے لئے جس راہ و روش کو اسلام نے ہمارے لئے پیش کیا ہے اُسے کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پس ہمیںعلی کی شخصیت کا مطالعہ صرف ایک تاریخی شخصیت کے مطالعے تک محدود نہیں رکھنا چاہئے۔ بلکہ اُن کی زندگی کا مطالعہ ایسا ہو نا چاہئے کہ علی کی زندگی فکری اور معنوی اعتبار سے آج کے انسان کی مددگار بن سکے۔ ہماری پیشرفت اور ارتقا کا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی فکر ‘اپنی سیاست ‘اپنے اقتصاد’ اپنے سماج کے انتظام و انصرام ‘اپنے روابط و تعلقات اور معاشرے کے تمام میدانوں میں نہج البلاغہ کے فرمودات اور اسکی تعلیمات کو بروئے کار لائیں۔

علی سے سچی وابستگی

ہمیں چاہئے کہ علی کی پیش کردہ اقدار اور اُن کو عزیز اصولوں کی پابندی کے سااتھ’ اُن سے وابستگی اختیار کریں۔اِس بارے میں اُن کا ارشاد ہے کہ: انَّ اولی الناس بالا نبیاء اعلمھم بما جاء وا( انبیا سے سب سے زیادہ قریب لوگ وہ ہوتے ہیں جو اُن کی لائی ہوئی تعلیمات سے سب سے زیادہ باخبر ہوں۔ نہج البلاغہ ۔ کلمات قصار ١٩٦) یہ کہہ کر آپ نے اس آیۂ شریفہ کی تلاوت فرمائی کہ: اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا (یقینا ابراہیم سے قریب تر لوگ وہ ہیںجواُن کی پیروی کرتے ہیں اوریہ لوگ پیغمبر اور صاحبانِ ایمان ہیں ۔سورئہ آلِ عمران ٣۔ آیت ٦٨)

قربت اوردوستی کا تعلق خاندان اور رشتے داری سے نہیں ہوتا ۔بلکہ یہ مکتب اور علم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بنیاد پر کسی شخص کے دوست اور قریبی افراد ‘اسکے بیوی بچے اور عزیز رشتے دار نہیں ہوتے ‘بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسکی پیروی کرتے ہیں۔لہٰذا آپ نے اسی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ان ولی محمد (ص) من اطاع اﷲ وان بعدت لحمتہ’ وان عدو محمد من عصی اﷲ وان قربت قرابتہ (بے شک پیغمبر کا دوست وہ ہے جو ان کا اطاعت گزار ہے ‘چاہے وہ رشتے کے لحاظ سے اُن سے کتنا ہی دور ہو۔ اور آ پ کا دشمن وہ ہے جو آپ کا نافرمان ہو ‘چاہے وہ قرابت داری کے اعتبار سے آپ سے کتناہی نزدیک ہو۔ نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار ٩٦)

حضرت نوحعلیہ السلام نے خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کیا: وَ نَاداٰای نُوْح رَّبَّہ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ۔ قَالَ یَانُوْحُ اِنَّہ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَج اِنَّہ عَمَل غَیْرُ صَالِحٍ(بارِالٰہا ! میرا فرزند میرے اہل میں سے ہے اور اہل کو بچانے کے بارے میں تیرا وعدہ برحق ہے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ارشاد ہوا کہ اے نوح! یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے’ یہ عملِ غیر صالح ہے۔ سورئہ ہود ١١۔آیت ٤٥’ ٤٦)

شاعر کہتا ہے :

کانت مودہ سلمان لھم رحما

ولم یکن بین نوح وابنہ رحم

”اہلِ بیت سے سلمان کی محبت ‘اِس بات کا سبب بنی کہ وہ اُن کے اہل شمار کئے گئے لیکن نوح کا بیٹا اُن کا اہل نہ ہوسکا۔”

اِس بنیاد پر پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قربت کے معنی ہیں اُن کے مشن سے قرابت’ اُن کی دکھائی ہوئی راہ سے تعلق اور اُن کے کردار سے رشتہ۔ اور اگر کوئی اپنے آپ کو رسول اﷲ ‘ حضرت علی اور اہلِ بیت کا پیروکار کہلوانا چاہتا ہے’ تو اُسے چاہئے کہ تقویٰ ‘اسلام کی راہ میںجہاد’ پاکدامنی اور نیکوکاری میں اُن کی پیروی کرے۔

لہٰذا ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ کیا ہم نے خدا اور اسکے رسول کے دین سے وابستگی کے لئے سعی و کاوش کی ہے؟ کیا پاکدامنی’ حرام کاموں سے دوری’ افکار و نظریات پیش کرنے میں صداقت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کے قیام کے سلسلے میں کوشش کی ہے؟ خداوند عالم فرماتا ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّ لااَا تَفَرَّقُوْا (اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔ سورئہ آلِ عمران ٣۔ آیت ١٠٣)

بعض افراد دینی’ سیاسی اور اجتماعی امورمیں موثر کردارکے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن اہلِ بیت سے دوری اور اُن کے ساتھ کمزور وابستگی کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد ‘ خودمکتب ِ اہل بیت کے پیرو کاروں کے درمیان اخوت’ بلکہ پورے اسلام اور تشیع کو خود اپنے ہاتھوں نقصان پہنچاتے ہیں ۔ایسے افراد تشیع’ اسلام اور اہلِ بیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں لیکن اس بات کو نہیں جانتے کہ اہلِ بیت ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ اہلِ بیت ہم سے خدا ترسی اور اطاعت ِ الٰہی کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم صادق و امین بنیں’ خدا کے راستے پر چلیں ۔جیسا کہ خدا وند عالم نے اِس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُج وَ لاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن (اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے’ اِس کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جائو’ کیونکہ اس طرح راہِ خدا سے الگ ہو جائو گے۔ اسی بات کی پروردگار نے تمہیں ہدایت کی ہے کہ شاید اس طرح تم متقی اور پرہیز گار بن جائو۔ سورئہ انعام ٦۔ آیت ١٥٣)

علی سے محبت اورعداوت

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے دوستی اور دشمنی کے حوالے سے’ ابتدا سے آج تک ایک پیچیدگی موجود ہے۔ مرادیہ ہے کہ بعض لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں’ آپ سے دوستی رکھتے ہیں ۔جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ سے بغض ‘دشمنی اورکینہ رکھتے ہیں۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ خود حضرت علی کے نکتۂ نظر سے باہمی دوستی اور دشمنی کے طرزِ عمل کے مختلف طریقوں کا جائزہ لیں۔ تاکہ اِس کے ذریعے محبت کے صحیح مفہوم کو سمجھ سکیں اور اِس مسئلے کی حقیقت تک پہنچ سکیں کہ آ پ اُن لوگوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جو لوگ اپنے دل میں آپ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں اور اُن کا یہ جذبہ اِس قدر شدید ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام خزانوں کے منھ اُن کے لئے کھول دیئے جائیں ‘تب بھی وہ اِس دشمنی اور عداوت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

اس بارے میں حضرت علی فرماتے ہیں:لو ضربت خیشوم المؤمن بسیفی ھذا علی ان یبغضنی ‘ما ابغضنی۔ ولو صببت الدنیا بجما تھا او بجمتھا علی المنافق علی ان یحبنی ما احبّنی وذلک انہ قضی علی لسان النبی الامی(ص)’ انہ قال: یا علی لا یبغضک مؤمن ولا یحبک منافق (اگر میں اپنی تلوار سے مومن کی ناک بھی کاٹ دوں’ کہ وہ مجھ سے دشمنی کرنے لگے ‘تو وہ ہرگزایسا نہیں کرے گا۔ اور اگر دنیا کی تمام نعمتیں منافق پر انڈیل دوں’ کہ وہ مجھ سے محبت کرنے لگے ‘تو وہ ہرگزیہ نہیں کرے گا ۔اسلئے کہ اِس بات کا فیصلہ نبی ٔ صادق (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ہو چکا ہے کہ: اے علی! کوئی مومن تم سے دشمنی نہیں کر سکتا اور کوئی منافق تمہارامحب نہیں ہو سکتا۔نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار ٤٥)

پیغمبر اسلامۖ نے کس بنیاد پریہ بات کہی ہے ؟جبکہ ہم جانتے ہیں کہ کسی سے محبت کرنا اور کسی سے بغض و عداوت رکھنا ایک قلبی امر ہے’دل کا معاملہ ہے’ جس کے بارے میں عام طور پر کوئی متعین اور معروف اصول نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ بعض اوقات دل کسی ایسے شخص کی محبت میں بھی گرفتار ہوجاتا ہے جو اِس سے اختلافِ رائے رکھتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات اسکے برعکس بھی ہوتا ہے۔

اِس بنیاد پر دل کسی متعین اصول اور قاعدے کا پابندنہیں ہوتا’ جس کی بنیاد پر وہ عمل کرتا ہو۔ لہٰذا کیا وجہ ہے کہ مومن علی سے کینہ و عداوت نہیں رکھتا اور منافق اِن سے دوستی اور محبت نہیں کرتا؟

علی میں کچھ انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں’ جن کی بنیاد پر ممکن ہے منافق اِن سے محبت کرے۔ حضرت علی شجاع’ عالم’ عادل اور بہت سی اعلیٰ انسانی صفات کے حامل شخص ہیں اور لوگ انہی صفات و خصوصیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں’ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔

جب ہم دنیا میں محبت اور دشمنی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں’تو اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسئلہ آئیڈیالوجی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔کیونکہ علی سے محبت کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو سادہ قلبی احساسات سے تعلق رکھتا ہو۔ بلکہ اِس کا تعلق گہرے فکر و شعور سے ہے۔ کیونکہ علی کا پورا وجود ایمان سے معمور تھا۔ خداوند عالم فرماتا ہے : وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اﷲِ (اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں ‘جو اپنے نفس کو خدا کی خوشنودی کی خاطر بیچ ڈالتے ہیں۔ سورئہ بقرہ ٢۔ آیت ٢٠٧)

علی نے خدا کے ساتھ اپنی جان کا سودا کیا۔ حضرت علی کے وجود میں اپنے لئے کوئی چیز نہ تھی’ آپ کی فکر’ قلب’ جد و جہد’ شجاعت’ زہد’ عدل اور علم سب کچھ راہِ خدا کے لئے تھا۔ اور ان میں سے ہر چیز ایمان کے مدار پر گھومتی تھی۔ لہٰذا ایک ایسا مومن جو گہرے ایمان کا مالک ہو اور جس کی زندگی اسی راہ پر گامزن ہوبے شک و ہ علی سے محبت کرے گا۔ کیونکہ جب وہ اُس خدا سے محبت کرتا ہے جس پر علی ایمان رکھتے ہیں’ جس کی معرفت علی رکھتے ہیں اور جس کی راہ میں وہ جہاد کرتے ہیں’ تو لا محالہ وہ علی سے بھی محبت کرے گا اور اگروہ اسلام سے محبت کرتا ہے’ تو لازماً وہ علی سے بھی محبت کرے گا۔

علی اورحق کے درمیان کوئی دوئی اور فاصلہ نہیں۔ لہٰذا ایک ایسا شخص جو حق پر ایمان رکھتا ہے’ اس کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ علی پر بھی ایمان رکھے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص حق پر ایمان رکھتا ہے ‘تو اسے چاہئے کہ آزادی’غورو فکراور عشق و محبت کے ساتھ کسی ایسے شخص کی پیروی کرے جو کُلِ ایمان ہے اور علی ایمان کے تمام و کمال کا مظہر ہیں۔

منافق اُسے کہا جاتا ہے جس نے اپنے دل میں کفر کو چھپایا ہوا ہوتا ہے’ جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان نہیں ہوتا’ اور جو اپنے افکار اور عقائد پر پردہ ڈالنے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتا ہے’ تاکہ عقائد ‘اعمال اور زندگی کے تمام میدانوں سے ایمان کو جڑ سے ختم کر دے۔بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص علی کا محب ہو؟!!

 

تبصرے
Loading...