علویوں کے ساتھ عباسیوں کا رویہ

مامون عباسی سلطنت کا وارث ہے۔ عباسیوں نے شروع ہی میں علویوں کے ساتھ مقابلہ کیا یہاں تک کہ بہت سے علوی عباسیوں کے ہاتھوں قتل بھی ہوئے۔ اقتدار کے حصول کے لیے جتنا ظلم عباسیوں نے علویوں پر کیا اور امویوں سے کسی صورت میں کم نہ تھا بلکہ ایک لحاظ سے زیادہ تھا۔ چونکہ اموی خاندان پر واقعہ کربلا کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لیے امویوں کو ظالم ترین تصور کیا جاتا ہے۔ عباسیوں نے جتنا ظلم علویوں پر کیا ہے وہ بھی اپنی جگہ پر بہت زیادہ تھا، دوسرے عباسی خلیفہ نے شروع شروع میں اولاد امام حسین (ع) پر بیعت کے بہانے سے حد سے زیادہ مظالم کئے۔ بہت سے سادات کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ کچھ زندانوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ۔ ان بیچاروں کو کھانے پینے کے لئے نہیں دیا جاتا تھا۔ بعض سادات پر چھتیں گرا کر ان کو شہید کیا جاتا تھا۔ وہ کونسا ظلم تھا جو عباسیوں نے سادات پر روا نہ رکھا ۔ منصور کے بعد جو بھی خلیفہ آیا اس نے اس پالیسی پر عمل کیا۔

مامون کے دور میں پانچ چھ سید زادوں نے انقلابی تحریکیں شروع کیں۔ ان کو مروج الذہب، مسعودی، کامل ابن اثیر میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ تاریخ کی بعض کتب میں تو سات آٹھ انقلابی شہزادوں کا ذکر ملتا ہے۔

عباسیوں اور علویوں کے درمیان دشمنی بغض و کینہ کی حد تک چلی گئی تھی۔ کرسء خلافت کے حصول کیلئے عباسیوں نے ظلم کی انتہا کر دی، یہاں تک کہ اگر عباسی خاندان کا کوئی فرد عباسی خلافت کا مخالف ہو جاتا تو اس کو بھی فوراً قتل کر دیا جاتا۔ ابو مسلم عمر بھر عباسیوں کے ساتھ وفا داریوں کا حق نبھاتا رہا لیکن جونہی اس کے بارے میں خطرے کا احساس کیا تو اسی وقت اس کا کام تمام کر دیا۔ برمکی خاندان نے ہارون کے ساتھ وفا کی انتہا کر دی تھی۔ انہوں نے اس کی خاطر غلط سے غلط کام بھی کئے اور ان دونوں خاندانوں کی دوستی تاریخ میں ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن ایک چھوٹے سے سیاسی مسئلہ کی وجہ سے اس نے یحییٰ کو مروا دیا اور اس کے خاندان کو چین سے رہنے نہ دیا تھا۔

پھر ایسا وقت بھی آیا یہی مامون اپنے بھائی امین کے ساتھ الجھ پڑا۔ سیاسی اختلاف اتنا بڑھا کہ نوبت لڑائی تک پہنچ گئی ۔ بالآخر مامون کامیاب ہو گیا اور اس نے اپنے چھوٹے بھائی کوبڑی بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا۔ بدلتا رنگ ہے آسمان کیسے کیسے۔

پھر حالات نے رخ بدلا، ایک بہت تبدیلی آئی، ایسی تبدیلی کہ جس پر مورخین بھی حیران ہیں ۔مامون خلیفہ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے بلواتا ہے۔ حضرت کے نام پیغام بھجواتا ہے کہ آپ خلافت مجھ سے لے لیں ۔جب آپ تشریف لاتے ہیں تو کہتا ہے کہ بہتر ہے آپ ولی عہدی ہی قبول فرمائیں اگر نہ کیا تو آپ کے ساتھ یہ یہ سلوک کیا جائے گا۔ معاملہ دھمکیوں تک جا پہنچا۔ یہ مسئلہ اتنا سادا اور آسان نہیں ہے کہ جس آسانی کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، بہت ہی مشکل حالات تھے ۔ امام علیہ السلام ہی بہتر جانتے تھے کہ کونسی حکمت عملی اپنائی جائے۔

جرجی زیدان تاریخ تمدن کی چوتھی جلد میں اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔ اس کے بارے میں میں بھی تفصیلی بات چیت کروں گا۔ جرجی زیدان ایک بات کا اعتراف ضرور کرتا ہے کہ بنی عباس کی سیاست بھی انتہائی منافقانہ اور خفیہ طرز کی سیاست تھی وہ اپنے قریبی ترین عزیزوں اور رشتہ داروں سے بھی سیاسی داؤ پیچ پوشیدہ رکھتے تھے۔

مثال کے طور پر آج تک اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ مامون امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنا کر کیا حاصل کرنا چاہتا تھا؟ کیا وجہ تھی کہ وہ آل محمد (ص) کے ایک ایسے فرد کو اپنا نائب مقرر کر رہا تھا کہ جو وقت کا امام (ع) بھی تھا اور یہ دل ہی دل میں خاندان رسالت (ع) کے ساتھ سخت دشمنی رکھتا تھا؟

تبصرے
Loading...