علامہ طبرسي اور فقاہت كي منزل ميں

علم فقہ جو كتاب و سنت، اجماع و عقل جيسے مدارك سے احكام كے استنباط كے فن كا نام ھے شيخ كے ان ايسے دقيق علوم ميں سے تھے جن ميں آپ صاحب نظر تھے – بزرگ علماء اور شرح حال لكھنے والوں نے آپ كو ايك عظيم فقيہ و مجتہد كے عنوان سے ياد كيا ھے – طبرسي نے وجود كے طفيل قرآن كي آيتوں ميں سے پانچ سو سے زيادہ آيتوں كو جو عبادات اور معاملات كے احكام كے سلسلہ ميں ھيں اپني دونوں تفسير كبير و وسيط ميں درج كركے ان پر بحث كي ھے – آپ پہلے مختلف فرقوں كے اقوال كو بيان كرتے ھيں اس كے بعد شيعہ نظريہ كي تشريح كرتے ھيں پھر اپنے نظريہ كو فتويٰ كے طور پر تحرير فرماتے ھيں – عالم تشيع كے بہت سے عظيم فقہاء نے آپ كي نظر كي طرف اشارہ كيا ھے جن ميں سے آپ كے بعض فقہي نظريوں كي طرف اشارہ كيا جا سكتا ھے: تمام گناھوں كا كبيرہ ھونا ، تيمم كے شرعي معني نماز و دوسري چيزوں ميں استعاذہ كا مستحب ھونا ، حج و عمرہ كے اركان و واجبات ، جب دو دليلوں ميں تعارض واقع ھوجائے تو اس كا حكم ،  خمس ، قبض و رھن ، دين مفلس ،  شفعہ ، حكم ربا صائبين سے جزيہ نہ لينا ، كافر پر حكم وقف ، ذمي شخص پر وصيت كا جواز ، شكار اور ذبح ، رضا، خلع و مبارات  خوف شقاق كا مطلب.

آئينہ وحدت

مذھبي اختلافات اور لڑائي جھگڑے عصر شيخ طبرسي كي دشواريوں اور گرفتاريوں ميں سے تھے – اگرچہ مشرقي زمين پر سلجوقي تركوں كي حكومت نے اسلامي تہذيب ميں بہت زيادہ تبديلياں پيدا كيں ليكن ان كي ايك مذھب كي طرف داري اور دوسرے مذاھب خصوساً شيعہ اماميہ پر سختي كي بنا پر دوسرے اسلامي فرقے اصول پر تكيہ كرنے اور اتحاد و بھائي چارے كو اھميت دينے كے بجائے مذھبي تنازعہ كا شكار ھوگئے اور اپنے اختلافات ميں اضافہ كيا – شيعوں نے علوي اور آل بويہ كي حكومت كے زمانے ميں قدرت و عظمت حاصل كرلي تھي ليكن غزنويوں كے عہد حكومت اور سلجوقي اقتدار كے آغاز ميں ان كي سياسي زندگي تعصب كے سياہ بادلوں ميں غروب ھوگئي اور افق حيات ان كے ليے تاريك ھوگيا – اس زمانے كے بعض حكمرانوں كے بقول وہ زرتشتيوں اور مسيحيوں كے رديف ميں دينداري اور عمومي خدمات كے ميدان ميں آنے كي تاب نہيں ركھتے تھے –

ان تمام دشواريوں اور مشكلات كے با وجود علمائے مذہب تشيع نے ايران ميں توسعہ كي راہ ميں اور كھوئي ہوئي طاقت كو آہستہ آہستہ حاصل كركے اپني ثقافت اور عظمت كي پاسداري كي – ملك شاہ كي سلطنت كے آخري سالوں ميں شيعوں كي بانفوذ شخصيتوں كے ايك گروہ نے سلجوقي حكومت ميں سيندھ لگا دي اور خواجہ نظام الملك كي بركناري اور كرسي وزارت كے ليے تاج الملك ابو الفضل قمي نامي ايك شيعہ شخص كے منتخب ہوجانے كے بعد مجد الملك ابو الفضل قمي جيسے شيعوں كے ايك گروہ كے ليے دربار كے دروازے كھل گئے –

اس زمانے ميں مذاھب كے علماء كے درميان كي بحث و جدال بعض اوقات گروہوں كے درميان تصادم اور خونريزي پر تمام ہوتي تھي – سنيوں كے درميان حنفي و شافعي مذہب جبر و اختيار، مذہب اشعري يا معتزلي كي افضليت وغيرہ كے بارے ميں اور شيعہ و سني كے درميان مختلف اختلافي مسائل ميں اور ان سبھوں اور باطنيوں كے درميان شديد و طويل بحثيں ہوا كرتي تھيں كہ جو مجالس كے انعقاد اور كتابوں كي تاليف يا ترك عقيدہ كا تحريري اقرار اور دوسرے عقيدہ كے قبول كرنے تك پہنچتي اور كبھي ملك بدري يا قتل جيسي چيزوں پر تمام ہوتي تھيں –

حقيقت ميں، اس صورت حال كو ديكھتے ہوئے دردمندوں اور اصلاح كے خواہاں افراد كي آرزو يعني اتحاد و مسلمانوں كے قلوب كے ايك دوسرے سے نزديك كرنے كے سلسلہ ميں كون سا قدم اٹھايا جانا چاہيے تھا ؟ آيا معاشرہ كي زہريلي فضا كے سامنے تسليم ہوجانا اور صف بنديوں اور مختلف دھڑوں ميں بٹنے كي رغبت دلانا اور اسے رواج دينا معاشرہ كي خدمت تھي يا معاشرہ كے سخت و دشوار مسائل اور حالات سے كنارہ كشي اور خاموشي بہترين راستہ تھا ؟ بےشك يہ دونوں راستے اختلاف كي آگ كو بھڑكا رہے تھے اس بحران سے نمٹنے كے ليے ان دونوں طريقوں كے بجائے كسي بہتر اور دليرانہ قدم كي ضرورت تھي –

علامہ طبرسي اس درد سے اچھي طرح واقف تھے اور فكري وحدت اور مذھبي تفاھم كے نظريہ كے احياء اور اسے قوي بنانے اور زمانے كے تقاضوں كو ديكھتے ہوئے اور موجودہ اختلافات كو كم كرنے كي غرض سے اتحاد كے ميدان ميں وارد ہوئے – قرآن مجيد كو جو سب كے ليے محترم تھا اپنے كام كا محور بنايا – روشن فكري، اعليٰ نگاہ، وسعت قلب، قلم كي عفت اور تحقيق و تفحص ميں انصاف ان بارز خصوصيات ميں سے ہيں جو كتاب ”‌ مجمع البيان ” سے عياں ہيں – انھوں نے اپنے كو چند كتابوں ميں محصور نہ ركھا بلكہ موافق و مخالف دونوں كے نظريات و اعتقادات كو ملاحظہ كيا اور تحقيق و جستجو كے دامن كو اپنے نظريات كي حدوں كے پار تك لے گئے اور دوسروں كے آراء كي كھوج ميں نكل پڑے – وہ تمام فرقوں اور گروہوں كو ايك نظر سے ديكھتے ہوئے صحيح اور معقول باتوں كو قبول كرتے اور ان كي تقديم و تاخير ميں كوئي خاص غرض شامل نہيں تھي – اسي طرح علامہ اگر مخالف كا كوئي عقيدہ اور نظر اصولاً ان كے مذھب كے عقائد و اصول كو خدشہ دار نہ بناتا ھو تو اس كے نقل كرنے ميں دريغ نہيں فرماتے تھے –

مولفين اور مصنفين ميں بہت كم ايسا ديكھنے ميں آتا ہے كہ ان كا كلام اپنے نظريہ كے مخالف پر اعتراض اور طعنہ سے خالي ہو – ليكن آپنے سلف صالح كے قدم بقدم اور شيعہ اماميہ كے ائمہ كي پيروي كرتے ہوئے شيعہ مباني اور اصول سے دفاع كو اعتدال كے لحا1 تعصب اور افراط سے گريز اور غرور سے پرہيز ميں ضم كرديا تھا اور مذاہب اسلامي كے افكار و عقائد كو ايك دوسرے سے نزيك كرنے كے سلسلہ ميں قابل اہميت خدمت انجام دي اور شيعہ و اہل سنت كے منصف مزاج علماء كے درميان اپنے نام كو جاوداں بنا ديا –

علامہ سيد محمد امين عاملي اس بارے ميں لكھتے ہيں:”‌ ان كي عظمت، فضيلت، علوم ميں مہارت اور وثاقت ايسي باتيں ہيں جن كے بيان كي ضرورت نہيں ہے، اس دعوے كا بہترين گواہ موصوف كتاب مجمع البيان ہے ؛ يہ ايسي كتاب ہے جس ميں مختلف علوم كو يكجا كرديا ھے تفسير كے مختلف نظريوں كو بيان فرمايا اور ہر جگہ آيات قرآن كي تفسير ميں اھل بيت عليہم السلام كي احاديث كي طرف اشارہ كيا ہے – انھوں نے اعتدال كو اپناتے ہوئے، بہترين اقوال كے انتخاب، ادب كي رعايت اور زبان كي احتياط كے ساتھ فكري مخالفوں كے سامنے واضح اور قابل قبول دلائل كو جمع كيا ہے اس طرح كہ ان كے كلام ميں ايسا كوئي جملہ ديكھنے ميں نہيں آتا ہے جس سے كسي طرح كي مقابل سے نفرت كي بو آتي ہو يا ان كي برائي پر مشتمل ہو – يہ خصوصيتيں اور امتيازات مولفين و مصنفين كي كتابوں ميں بہت كم ہي نظر آتي ہيں – اگر آپ جوامع الجامع كے مقدمہ ميں ان كے كلام كو ملاحظہ كريں كہ كس حد تك صاحب كشاف كے علم و دانش كي تعظيم اور اس كي ثنا بجا لائے ہيں تو معلوم ہوگا كہ يہ كام ان كي عظمت انصاف اور نفس كي طہارت كے ساتھ تھا –

زعيم سابق جامعۃالازھر شيخ محمود شلتوت، طبرسي اور ان كے آثار كو اس طرح بيان كرتے ہيں: اگرچہ طبرسي احكام و آراء كے اختلافي مسائل ميں شيعوں سے مختص نظروں كو بيان كيا كرتے تھے اس طرح كہ بعض مقامات پر مذھبي جذبات كے آثار مشہود ہيں – ليكن وہ ان جذبوں ميں افراطي طريقہ نہيں اپناتے ہيں اور اپنے مذہب اور مخالفين پر حملہ آور نہيں ہوتے – حقيقت ميں جہاں تك مذاہب كے اصول اور ان كے اساسي مسائل كا مسئلہ ہے ہميں اس انداز كو چشم پوشي كے ساتھ آرام نگاہوں سے ديكھنا چاہيے – انھوں نے جتنا بھي ان كے پاس تھا يا جس قدر بھي شيخ الامت اور تفسير ميں ان كے عظيم مرجع يعني امام طوسي مولف كتاب ”‌ تبيان ” كے علم سے حاصل كيا تھا اس پر اكتفا نہ كي يہاں تك كہ جب جديد علوم سے آگاہ ہوئے تو اس كي طرف توجہ مبذول كرلي اور وہ صاحب كشاف كا علم تھا جس نئے علم كو شيخ طبرسي نے اپني پراني معلومات سے جوڑ ديا، ان كے درميان كے اختلافات اس كام كي ركاوٹ نہ بن سكے، اسي طرح تعصب سے انجام پانے والے امور بھي اس امر سے مانع نہ ہوئے اور ہمعصري كا پردہ ان كے درميان حائل نہ ہو سكا حالانكہ ہمعصري خود بھي ايك قسم كي ركاوٹ ہے –

عرفہ كي شام ميں غروب

امام المفسرين، امين الاسلام طبرسي اپني انياسي (يا اسّي ) سال كي بابركت اور سراپا اسلام و مسلمين كي خدمت كي زندگي گزارنے كے بعد نہم ذي الحجہ 548 ھ شب عيد الاضحي ميں مغرب كے وقت شہر سبزوار ميں ديار باقي كي طرف كوچ فرما گئے اور عالم اسلام كو اپني عزا ميں سياہ پوش كركے مجلس غم برپا كراگئے – بعض اہل قلم حضرات نے شيخ طبرسي كو ”‌ شہيد كے عنوان سے ياد كيا ہے – 52 كہ آپ كو زھر كے ذريعہ شہيد كيا گيا ہے – اس كے مقابل ايك گروہ نے فتنہ قبيلہ غز كے زمانے ميں ھي آپ كي رحلت كے واقع ہونے كو ديكھتے ہوئے آپ كي شہادت كو اس شورشي گروہ كے ذريعہ بتاتا ہے –

علامہ كا پيكر اطہر سبزوار سے مشہد منتقل ہوا اور حرم امام رضا عليہ السلام كے قريں قتلگاہ نامي قبرستان ميں دفن كيا گيا آپ كي آرامگاہ خيابان طبرسي كي ابتداء ميں واقع ہے اور شروع ہي سے مومنين كي زيارتگاہ بني ہوئي ہے1370ش ميں حرم كے مضافات ميں وسعت بخشنے كے نقشہ كي بنا پر آپ كي قبر باغ رضوان ميں منتقل كردي گئي –

يادگاران

اس مقالہ كو ہم علامہ كے دو فرزندوں كو ياد كركے اختتام تك پہنچائيں گے:

1. ابو نصر حسن بن فضل بن حسن طبرسي: آپ فضائل و كمالات كے بلند مرتبہ پر فائز تھے – محدث قمي نے فاضل كامل، عظيم محدث و فقيہ كے عنوان سے ان كا ذكر كيا ہے – انھيں كي درخوست پر والد علّام نے جوامع الجامع كي شكل عطا كي تھي – ابو نصر كي اہم ترين تاليف جو باقي رہ گئي ہے ”‌ مكارم الاخلاق ” نامي كتاب ہے –

2. علي بن فضل طبرسي: آپ كے بارے ميں كسي طرح كي معلومات سر دست حاصل نہيں ہو سكي ہيں –

تبصرے
Loading...