علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید، اتحاد امت کے عظیم داعی

آج کا مسلمان بیدار ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا مرکز اور ہماری بقاء صرف اور صرف اسلام سے ہے اور ہمیں اتحاد بین المسلمین کے جھنڈے تلے جمع ہو کر روسی اور امریکی گماشتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ آج مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے بلکہ اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے۔ مسلمان متحد ہوکر ہی قومیتوں کے بتوں کو توڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ناصرف سازشی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی بلکہ فسادات برپا کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔

علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید، اتحاد امت کے عظیم داعی
اتحاد امت کے عظیم داعی، ارضِ پاکستان پر وحدت بین المسلمین کے لئے عظیم خدمات پیش کرنے والی بلند مرتبہ علمی و عرفانی شخصیت علامہ سید عارف حسین الحسینی کو ہم سے جدا ہوئے پچیس برس بیت گئے ہیں۔ آپ 5 اگست 1988ء بروز جمعہ پشاور میں اپنے مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ میں دم فجر اسلام و پاکستان دشمنوں کی گولی کا نشانہ بنائے گئے، آپ نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور قیادت میں اس ملک و ملت کیلئے بھرپور خدمات انجام دیں اور ان کی رہنمائی کا حق اس طرح ادا کیا کہ آج اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی انہیں ایسے یاد کیا جاتا ہے جیسے کل کی ہی بات ہو۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کی کمی کو کوئی اور پورا کرسکے۔

شہید قائد نے اپنے دور قیادت میں ملک کے کونے کونے میں جا کر لوگوں کی فکری، شعوری، مذہبی، اجتماعی، ملی تربیت و بیداری کیلئے دن رات ایک کیا اور مسلسل عوامی رابطہ کے ذریعے ان میں ایک درد، ایک احساس پیدا کر دیا، علامہ عارف الحسینی کی یہ خوبی کسی طور بھلائی نہیں جاسکتی کہ وہ اپنے ساتھ مختلف دورہ جات میں اہل سنت علماء کو بھی لے کر جاتے اور اتحاد کی فضا کو عوامی سطح پر نمایاں کرنے کی کوشش کرتے، جن لوگوں نے انہیں دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان کا یہ عمل دکھاوا یا مجبوری نہیں تھی بلکہ وہ اتحاد بین المسلمین پر پختہ یقین رکھتے تھے اور امت کو ایک لڑی میں پرونے کے شدید خوہش مند تھے۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے پشاور کے مولانا عبدالقدوس اور جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ ملک اکبر ساقی تو اکثر ان کے ہمراہ دیکھے جاتے اور اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے برپا کانفرنسز میں نمایاں طور پر شریک ہوتے۔

علامہ عارف الحسینی نے ملک میں مارشل لاء دور میں قیادت کی ذمہ داری سرانجام دی، یہ بڑا سخت دور تھا، جب جنرل ضیاءالحق نوے دن کے وعدے پر برسر اقتدار آیا تھا اور ملک میں مختلف انداز میں تفریق و انتشار عروج پکڑ رہا تھا، کہیں صوبائیت کی بو پھیل رہی تھی تو کہیں لسانیت کا بیج بویا جا رہا تھا، کہیں علاقائیت کا دور دورہ تھا تو کہیں فرقہ واریت کو دوام بخشا جا رہا تھا، افغان روس جنگ کی وجہ سے ملک میں کلاشنکوف کلچر در آیا تھا اور اسی کے باعث منشیات فروشی، خصوصی طور پر ہیروئن نے تباہی مچا رکھی تھی، سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگی تھیں اور سیاسی ورکرز کو شاہی قلعہ لاہور میں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ ایسے ماحول میں MRD کے نام سے بحالی جمہوریت کی تحریک چل رہی تھی، علامہ عارف حسین الحسینی نے اس تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا اور اس کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، اپنے تعاون کا بھرپور یقین دلایا، جو سیاسی جماعتوں کیلئے بہت حوصلہ افزائی کا باعث تھا۔ علامہ عارف الحسینی نے اپنے ہر خطاب میں مارشل لاء حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور امریکہ نواز پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنے دور قیادت میں انہوں نے مختلف قومی و بین الاقوامی مسائل پر اپنا مؤقف بڑی صراحت کے ساتھ پیش کیا، انہوں نے پہلی بار اپنی ملت کو دوسری اقوام و ملل کے مقابل لانے کی جدوجہد کی اور 6 جولائی 1987ء کے دن مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس منعقد کرکے اپنی سیاسی طاقت و قوت کا بھرپور اظہار کیا اور ایک سیاسی منشور کا اعلان بھی کیا۔۔۔۔۔ آپ کے افکار پر عمل پیرا ہو کر ملت پاکستان کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔

آپکی خدمت میں شہید علامہ عارف الحسینی کے چند منتخب افکار پیش کرتے ہیں، جو ہمارے اس موقف کی گواہی دیں گے کہ شہید علامہ عارف الحسینی ایک درد مند ملت تھے، جنہیں اتحاد بین المسلمین کی پاکستان میں جاری تحریک کا سرخیل اور بانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ کلمات و اقتباسات ان کی مختلف تقاریر سے حاصل کردہ ہیں، جو انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں عوامی اجتماعات میں کیں۔۔۔!
مشترکہ دشمن:۔
شیعہ اور سنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تاریخی اختلافات کو حدود میں رکھیں، ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ، روس اور اسرائیل ہیں، جو ہمیں نابود کرنے کے درپے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کریں۔
(شیعہ جامع مسجد بھکر میں خطاب “مارچ 1994ء”)
اپنی اپنی فقہ پر قائم رہتے ہوئے اتحاد:۔
درحقیقت اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی زندگی میں مل جل کر رہا جاسکتا ہے۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ میں کسی کے یا کوئی میرے مذہبی جذبات مجروح کرے۔ اسلام میں اسی وجہ سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ممانعت ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ نفرت ہی موجب فساد بنتی ہے، البتہ کسی کی دل آزاری کئے بغیر اپنے عقائد پر سختی سے کاربند رہنا اسلام میں بہت ضروری ہے۔ ایران میں شروع شروع میں بعض بیرونی طاقتوں نے کرد قبائل کو عقائد کی بنا پر بغاوت پر ابھارا لیکن جب دوسری طرف سے ان کے مذہبی جذبات کے احترام کا وطیرہ اختیار کیا گیا تو شیعہ سنی اتحاد کی شاندار مثال دیکھنے میں آئی۔
(شہید باقر الصدر ؒ اور سیدہ بنت الہدیٰ کی چوتھی برسی کے موقع پر پیغامات “اپریل1984ء”)

ہمارا پیغام اخوت:۔
وقت آگیا ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعے پہنچے ہوئے ہمارے عظیم پیغام حیات اسلام کی صداقتوں پر یقین رکھنے والے تمام انسان باہم متحد ہوکر اُٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانوں کو فریب دے کر لوٹنے والی استعماری اور شیطانی قوتوں پر بھرپور ضرب لگائی جاسکے اور دنیا میں عدل و انصاف، الفت و محبت اور حقیقی امن و آشتی کی فضا قائم کی جاسکے۔ بندوں پر بندوں کی حکمرانی ختم کرکے فقط مالک حقیقی کی حکمرانی کا نفاذ ہی ان شہدائے راہ حق کی تمنا ہے اور یہ انسانی کامرانیوں کی منزل ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پیغام شہداء کے امین بنیں اور ہر طرح کی قربانی دے کر اس امانت کی حفاظت کریں۔ وطن عزیز پاکستان میں حقیقی اسلامی معاشرے کا قیام ہماری اولین خواہش بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے میں ہر مسلمان محب وطن پاکستانی کو دعوت اتحاد عمل دیتا ہوں۔

آج اتحاد اُمت کی اشد ضرورت ہے:۔
آج کا مسلمان بیدار ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا مرکز اور ہماری بقاء صرف اور صرف اسلام سے ہے اور ہمیں اتحاد بین المسلمین کے جھنڈے تلے جمع ہو کر روسی اور امریکی گماشتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ آج مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے بلکہ اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے۔ مسلمان متحد ہوکر ہی قومیتوں کے بتوں کو توڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ناصرف سازشی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی بلکہ فسادات برپا کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔

وہ دن دور نہیں جب بین الاقوامی استحصالی قوتوں کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی:۔
اسلام کے دشمنوں پر عیاں کر دینا چاہیے کہ فلسطین، لبنان، افغانستان، ہندوستان، اری ٹیریا اور دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں پر جو وحشت و بربریت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران اور لیبیا کے خلاف جو دیدہ و دانستہ اشتعال انگیز کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ پوری امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح اپنے تمام وسائل کے ساتھ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے، اور اگر ایسا ممکن ہوسکا اور انشاءاللہ ایک دن ضرور ایسا ہوگا تو پھر کسی بین الاقوامی استحصالی قوت کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی۔ ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم عمل ہوجائیں گے اور باطل قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل کو اپنانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ فرمائیں گے، نہ یہ کہ بعض حکومتوں کے ایماء پر آپ اسلامی کانفرنس کی طرف سے ایسی کانفرنس کا انعقاد کروائیں جو امت مسلمہ کے مفادات کو زک پہنچانے کے درپے ہو۔
(اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل شریف الدین پیرزادہ
کے نام کھلا خط 21″فروری 1986ء”)

وقت کے تقاضے:۔
میں تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وقت کے تقاضوں کا ادراک حاصل کریں، جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مسلمان متحد ہوکر عالمی سامراج کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ سامراجی قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر موجود فروعی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں کمزور کریں۔
(گلزار صادق بہاولپور میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب
“مارچ 1986ء”)

شرعی و ایمانی فریضہ:۔
میں تمام مسلمانوں سے بار بار یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہر ممکن طریقے سے امریکہ، روس اور اسرائیل کی اسلام دشمن پالیسیوں کی بھرپور مذمت اور ان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہیں کہ یہ ان کا شرعی و ایمانی فریضہ ہے۔
( گلگت، بلتستان کے دورے کے موقع پر خطاب “جون1986ء”)

تنگ نظری کی بجائے وسعت نظری:۔
بعض عناصر نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے فتویٰ سازی کے کارخانے قائم کر لئے ہیں، تنگ نظری اہل تشیع میں ہو یا اہل تسنن میں اس سے فقط اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ فتویٰ سازی اور تعصب بیرونی جارحیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا فائدہ صرف اسلام دشمن قوتیں ہی اُٹھا سکتی ہیں۔ دنیا بھر کے باضمیر اور حریت پسند مسلمان متحد ہوکر ہی سامراجی تسلط، تنگ نظری اور تعصب سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
(لاہور میں قرآن و سنت کانفرنس سے خطاب
6″ جولائی 1986ء”)

پاکستان سب کا ہے:۔
پاکستان کے قیام کیلئے تمام مکتب فکر کے مسلمانوں نے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ آج کسی ایک مکتب فکر کے نظریئے کو دوسروں پر مسلط کرنے کا مقصد نظریہ پاکستان سے انحراف کے مترادف ہوگا۔
(بھکر میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب “جولائی 1986ء”)

25 نومبر 1946ء کے دن پاراچنار کے افغان سرحدی گاؤں پیواڑ میں روشن ہونے والا یہ ستارہ، آسمان پاکستان پر ساڑھے چار سال تک ملت کی رہنمائی کرتے ہوئے انتہائی جراءت و شجاعت کے مظاہرے کرتا ہوا 5 اگست 1988ء کو اسلام و پاکستان دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہو کر بظاہر ڈوب دیا مگر جاتے جاتے قوم میں ایسی روشنی بکھیر گیا، جس کے طفیل آج بھی حق و صداقت کا پھریرا لہرا رہا ہے اور جمہوریت کے سائے تلے سبز ہلالی پرچم سربلند دکھائی دے رہا ہے۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تبصرے
Loading...