عقد اور شادي کے احکام

– دوسرا نظريہ يہ ہے کہ نفقہ عقد کے ساتھ ہي واجب نہيں ہوتا بلکہ زوجيت کا فريضہ ادا کرکے ہي زوجہ اس کا استحقاق حاصل کرتي ہے (1) اور يہ نظريہ فقہاء کے درميان زيادہ مقبول ہے- (2) چنانچہ، فقہاء کي ايک بڑي جماعت نے زوجہ کي اطاعت کو نفقہ کي بنياد شرط قرار ديا ہے اور کئي ايک نے حق زوجيت کي عدم ادائيگي کے نفقہ کي راہ ميں رکاوٹ سمجھا ہے- اس نظريئے کے مطابق زوجہ ايام عقد کے دوران ـ زفاف سے قبل ـ نفقہ کا استحقاق نہيں رکھتي-

مرحوم آيت اللہ العظمي سيدابوالقاسم خوئي (رحمہ اللہ) فرماتے ہيں: “جب عقد اور زفاف (اور نکاح اور شادي) کے درميان فاصلہ پڑے، ان ايام ميں زوجہ کے اخراجات (نفقہ) شوہر پر واجب نہيں ہے اور عرف عام کا ارتکاز اس بات کي نشاني ہے کہ اس مدت ميں شوہر پر بيوي کا نفقہ واجب نہيں ہے”- (3)

ليکن اگر ہم نے يہ بات مان لي کہ اطاعت اور حق زوجيت کي ادائيگي نفقہ کي شرط ہے تو اگر بيوي شوہر کے گھر آنا جانا رکھے اور حق زوجيت بھي ادا کرے تو نفقہ واجب ہوجاتا ہے اور بصورت ديگر بيوي کا حق نفقہ زائل رہے گا-

حضرت امام خميني (رحمہ اللہ) نے حق زوجيت کي ادائيگي کو نفقہ کے وجوب کي شرط قرار ديا ہے ليکن عموم فقہاء کے نزديک حق زوجيت سے مراد ان کے ہاں عام ہے؛ فرماتے ہيں: “زوجہ کا نفقہ دو شرطوں کي بنا پر شوہر پر واجب ہوجاتا ہے: اول يہ کہ بيوي شوہر کے عقد دائم ميں ہو، دوئم يہ کہ جن امور ميں شوہر کي اطاعت واجب ہے ان ميں وہ شوہر کي اطاعت گذار ہو، لہذا نافرمان زوجہ کا نفقہ شوہر پر واجب نہيں ہے”- (4)

چونکہ نکاح کے بعد باپ کے گھر ميں رہنے والي زوجہ کو نفقہ ادا کرنے کے مسئلے پر فقہاء کا اختلاف ہے لہذا بعض لوگ ان ايام ميں نفقہ ادا کرنا واجب سمجھتے ہيں اور بعض دوسرے عدم وجوب کے قائل ہيں، چنانچہ ايک جامع اور کلي حکم دينا ممکن نہيں ہے چنانچہ ضرورت اس امر کي ہے کہ ہر شخص اپنے مرجع تقليد کے فتوي پر عمل کرے-

———————-

(1) الفقيه، كتاب النكاح، شيخ مفيد، بيروت: دارالضوء، 1415 ه ق، ص 24 – 205-

(2) جواهر الكلام في شرح شرايع الاسلام، محمد حسن نجفي، ج 31، ص 303-

(3) منهاج الصالحين، سيد ابوالقاسم خويي، ج 2، ص 287-

(4) تحرير الوسيله، روح الله الموسوي الخميني، ج 2، ص 313-

منبع: سيد ابراهيم حسيني، حقوق خانوادگي زن، پرسش ها و پاسخ هاي دانشجويي، قم: نهاد نمايندگي مقام معظم رهبري در دانشگاه ها، دفتر نشر معارف، 1389-

 

تبصرے
Loading...