عظمت کعبہ قرآن کے آئینے میں

حجۃالاسلام والمسلمین زین العابدین

اس دنیا میں خدا کا پہلا گھر خانۂ کعبہ ہے ۔تاریخ عتیق بھی اس بات کی گواہ ہے کہ اس سے قبل کوئی ایک بھی ایسی عبادت گاہ کائنات میں موجود نہیں تھی جسے خدا کا گھر کہا گیا ہو ۔اس کی تصدیق قرآن مجید بھی ان الفاظ میں کرتا ہے :

انّ اوّل بیت وضع للنّاس للّذی ببکّۃمبارکاوھدی للّعلمین۔(سورہ آل عمران آیہ۹۶)

(بیشک پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کیلئے مقّر ر کیا گیا تھا وہ یہی ہے بکّہ میں ، جو بابرکت اور سارے جہانوں کے لئے موجب ہدایت ہے )

ایک تاریخی روایت کے مطابق خانۂ کعبہ بیت المقّدس کی مسجد الاقصی سے ایک ہزار تین سو سال پہلے تعمیر ہوا ہے ۔

عصر جاہلیت میں بھی تمام عرب اپنے جاہلی رسم و رواج کے مطابق خانۂ کعبہ کا طواف اور حج کیا کرتے تھے ۔

حضرت ابراہیم۔نے حضرت موسیٰ۔ سے نو سو برس پہلے اس کی ظاہری تعمیر مکمّل کی اور بارگاہ حق میں دعا کی یہ دعا قرآن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے :

ربّنا انّی ا سکنت من ذرّیتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرّم ربّنا لیقیمو الصلوت فا جعل افئدۃمّن النّاس تھوی الیھم وارزقھم مّن الثمرات لعلّھم یشکرون۔(سورہ ابراہیم آیہ۳۷)

(پرور دگارا !میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے …)

ہجرت کے اٹھارویں مہینے ماہ شعبان ۲ ھ میں معرکۂ بدر سے ایک ماہ قبل مسلمانوں کاقبلہ بیت المقدّس سے منتقل ہو کر کعبہ کی سمت ہو گیا جس کا ذکر قرآن پاک کے سورئہ بقرہ میں کیا گیا ہے ۔

خدا وند عالم کا مسلمانوں پر بڑ ا احسان ہے کہ اس نے ہمارا قبلہ خانہ کعبہ قرار دیا ۔چونکہ بیت المقدّس ایسا قبلہ تھا جس کے کئی دعویدار ہونے کی وجہ سے اسے کئی بار کافر فاتحوں نے ویران اور نجس کیا اور وہاں کے بسنے والوں کو متعدد بار غلام بننا پڑ ا اور کئی بار وہاں قتل عام بھی جاری رہا، جو آج بھی شدّت سے ہو رہا ہے ، اور تاریخ، مسلمانوں کے سکوت پر محو حیرت ہے .

یہ ایک بڑ ی تعجّب خیز بات ہے اور تاریخ عالم بھی اس بات کی گواہ ہے کہ گذشتہ پانچ ہزار سالوں میں کسی نے بھی خانہ کعبہ پر اپنی شخصی ملکیت ہونے کا دعوی نہیں کیا ، یہ ایسا انمول شرف ہے کہ دنیا کی کسی عبادت گاہ و معبد کو حاصل نہیں ہوا۔

عرب کے بت پرست بھی اسے بیت اللہ ہی کہا کرتے تھے ۔اسلام سے پہلے بھی اس کی حرمت ، حفاظت و صیانت خدائے متعال نے شریف نسل عربوں کے ذریعے فرمائی اور پیغمبر اسلام کے توسط سے مسلمانوں کو تا قیامت اس کا محافظ وپاسبان بنا دیا۔

نبی کریم کی ولادت با برکت سے ایک مہینے بیس روز پہلے جب یمن کا بادشاہ ابرہہ اپنی ساٹھ ہزار ہاتھیوں کی مسلح فوج لیکر خانہ کعبہ کو ڈھانے کی غرض سے مکّہ کی وادیوں میں آیا تو پروردگار نے اپنے گھرکے حریم کی حفاظت کی خاطر کسی انسانی فوج کا سہارا نہیں لیا ، بلکہ ابابیلوں جیسے نازک اندام پرندوں کے ذریعے ان ہاتھیوں پر کنکریاں برسا کر ان افواج فیل کو تہس نہس کر دیا۔قرآن کریم کے سورہ فیل میں اسی واقعہ کا ذکر ہے ۔

جنّت سے خاص کر اتارے گئے دواہم پتھّر، حجر اسود اور مقام ابراہیم ، عہد آدم اور دور ابراہیمی سے اب تک موجود ہیں اور دنیا کے سب سے زیادہ مقدّس پانی کا قدیم چشمہ، زم زم ، اسی خانہ کعبہ کے قریب ہے ۔اس کے پانی کو نیکوں کی شراب کہا گیا ہے ، لاکھوں عقیدت مند مسلمان دنیا کے گوشہ وکنار سے اس پانی کو تبرّک کے طور پر لے جاتے ہیں ۔

مکّہ معظمہ اور فضائل خانۂ کعبہ میں قرآن حکیم کی کئی آیات نازل ہوئی ہیں ۔اللہ تعالی نے شہر مکّہ کو (ا م القری) یعنی بستیوں کی ماں کہا ہے ۔ اور سورہ التین اور سور ہ البلد میں اللہ نے اس شہر پْر امن کی قسم کھائی ہے ۔اس شہر میں یہاں کے شہریوں کے علاوہ ، دوسرے تمام لوگوں کو احرام باندھے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے ۔یہ خصوصیت دنیا کے کسی اور شہر کونصیب نہیں ہے ۔مسجد الحرام کی عبادت اور یہاں کی ہرنیکی اقطاع عالم میں کی گئی نیکیوں سے ایک لاکھ گناہ زیادہ ہے ۔یہ مقام اس قدر محترم اور پرامن ہے کہ یہاں نہ صرف خونریزی منع ہے بلکہ نہ کسی جانور کا شکار کیا جا سکتا ہے نہ کسی درخت کو کاٹا اورسبزہ اور گیاہ کو اکھاڑ ا جا سکتا ہے ۔

قرآن پاک میں اسے بیت ا لحرام یعنی شوکت کا گھر کہا گیا ہے ۔خانہ کعبہ کے محل وقوع سے متعلق لکھا گیا ہے کہ یہ عین عرش الہی اور بیت المعمور کے نیچے ہے ۔علم جغرافیہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کعبہ کے محل وقوع کوہم ناف زمین سکتے ہیں ۔

قرآن مجیدمیں کعبۃاللہ اور دیگر شعائر الھی کی تعظیم کوقلوب کا تقوی قرار دیا گیا ہے اور اسی طرح متعددسوروں [سورہ بقرہ ، ابراہیم، آل عمران ، مائدہ اور قصص ]میں خانہ کعبہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں

تبصرے
Loading...