عظمت نهج البلاغه

حجة الاسلام سید العلماء مولانا سید علی نقی صاحب قبلہ طاب ثراہ

بسم اللہ الرحمن ا لرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی سید الا نبیاء والمرسلین واٰلہ الطیبین الطاہرین

نہج البلاغہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوة والسلام کے کلام کا وہ مشہور ترین مجموعہ ہے جسے جناب سید رضی برادر شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مرتب فرمایا تھا ۔ 
۔ اس کے بعد پانچویں صدی کے پہلے عشرہ میں آپ کا ا نتقال ہوگیا ہے اور نہج البلاغہ کے انداز تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے طویل جستجو کے ساتھ درمیان میں خالی اوراق چھور کر امیرالمومنین کے کلام کو متفرق مقامات سے یکجا کیا تھا، جس میں ایک طویل مدت انہیں صرف ہوئی ہوگی اور اس میں اضافہ کا سلسلہ ان کے آخر عمر تک قائم رہا ہوگا .
یہاں تک کہ بعض کلام جو کتاب کے یکجا ہونے کے بعد ملا ہے ،اس کو تعجیل میں انہوں نے اس مقام کی تلاش کئے بغیر جہاں اسے درج ہونا چاہئے تھا ،کسی اور مقام پر شامل کردیا ہے اور وہاں پریہ لکھ دیا ہے کہ یہ کلام کسی اورروایت کے مطابق اس کے پہلے کہیں پر درج ہوا ہے ۔ یہ انداز جمع وتالیف خود ایک غیر جانبدار شخص کے لئے یہ پتہ دینے کے واسطے کافی ہے کہ اس میں خود سید رضی کے ملکہٴ انشا اورقوت تحریر کا کوئی دخل نہیں ہے ،بلکہ انہوں نے صرف مختلف مقامات سے جمع آوری کرکے امیر المومنین کے کلام کو یکجا کردینے پراکتفا کی ہے یہ پاشانی اور پریشانی جیسے بحیثیت تالیف کے کتاب کا ایک نقص سمجھنا چاہئے ۔ مقام اعتبار میں اس پر اعتماد پیدا کرنے والا ایک جوہر ہوگیا ہے ۔ انہوں نے مختلف نسخوں اورمختلف راویوں کی یادداشت کے مطابق نقل الفاظ میں اتنی احتیاط کی ہے کہ بعض وقت دیکھنے والے کے ذوق پر بار ہوجاتا ہے کہ اس عبارت کے نقل کرنے سے فائدہ ہی کیا ہوا جبکہ ابھی ابھی ہم ایسی ہی عبارت پڑھ چکے ہیں جیسے ذم اہل بصرہ میں اس شہر کے غرقابی کے تذکرے میں اس کی مسجد کا نقشہ کھینچنے میں مختلف عبارات کبھی نعامة، جاثمة اورکبھی کجوء جوء طیر فی لجة بحر اوراس سے ملتے جلتے ہوئے اور الفاظ ،یہ اسی طرح کا اہتمام صحت نقل میں ہے 
جیسے موجودہ زمانہ میں اکثر کتابوں کی عکس تصویر شائع کی جاتی ہے جس میں اغلاط کتابت تک کی اصلاح نہیں کی جاتی اور صرف حاشیہ پر لکھ دیا جاتاہے کہ بظاہر یہ لفظ غلط ہے صحیح اس طرح ہونا چاہئے۔ دیکھنے والے کا دل تو ایسے مقام پر یہ چاہتا ہے کہ 
اصل عبارت ہی میں غلطی کو کاٹ کر صحیح لفظ لکھ د ی گئی ہوتی
مگر صحت نقل کے اظہار کے لئے یہ صورت اختیار کی جایا کرتی ہے، جیسے قرآن مجید میں بعض جگہ تالیف عثمان کے کاتب نے جو کتابت کی غلطیاں کردی تھیں 
جیسے لا ذبحنہ میں” لا” کے بعد ایک الف جویقینا غلط ہے،اس لئے کہ یہ لائے نافیہ نہیں،جس کے بعد اذبحنہ فعل آئے ، بلکه لا م تاکید ہے جس سے اذبحنہ فعل متصل ہے
مگر اس قسم کے اغلاط کو بھی دور کرنا،بعد کے مسلمانوں نے صحت نقل کے خلاف سمجھا۔ اسی طرح املائے قرآن گویا ایک تعبدی شکل سے معین ہوگیا۔ بعض جگہ “رحمة” کی “ت” لمبی لکھی جاتی ہے ،
بعض جگہ جنّٰت بغیر الف کے لکھا جاتا ہے ۔ بعض جگہ یدعوجیسے فعل واحد میں بھی وہ ا لف لکھا ہوا ہے کہ جو جمع کے بعد غیر ملفوظی ہونے کے باوجود لکھا جایا کرتا ہے۔
ان سب خصوصیات کی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے ، جس سے مقصود و ثاقبِ نقل میں قوت پیدا کرنا ہے ۔ اسی طرح علامہ سید رضی نے جس شکل میں جو فقرہ دیکھا اس کو د رج کرنا ضروری سمجھا تاکہ کسی قسم کا تصرف کلام میں ہونے نہ پائے۔ یہ ایک ورایتی پہلو ہے جو اس تصور کو بالکل ختم کردیتا ہے کہ یہ کتاب سید رضی رحمہ اللہ کی تصنیف کی حیثیت رکھتی ہو۔
دوسرا پہلو خطبوں کے درمیان کے ومنہا،ومنہ ہیں، جس میں عموما بعد کا حصہ قبل سے بالکل غیر مرتبط ہوتا ہے بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قبل کا حصہ قبل بعثت سے متعلق ہے یا اوائل بعثت سے اوربعد کا حصہ بعد وفات رسول سے متعلق ہے ۔ یہ بھی دیکھنے والے کے ذوق پربار ہوجایا کرتا ہے ۔ مگر اس سے بھی اس مقصد کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔ 
اگریه سید رضی کاکلام ہوتا تو فطری طورپر اس سے تسلسل ہوتا یاا گر انہیں دو موضوعوں پر لکھنا ہوتا تو اسے وہ دو خطبوں میں مستقل طورپر تحریر کرتے،لیکن وہ کیا کرتے جبکہ انہیں کلام امیر المومنین ہی کا انتخاب پیش کرنا تھا۔ اس لئے جہاں خطبہ کا پہلا جز اور آخر کا جز دو مختلف موضوعوں سے متعلق ہے اور درمیان کا حصہ کسی وجہ سے وہ درج نہیں کررہے ہیں تو نہ وہ اس کو کلام واحد بنا سکتے ہیں نہ مستقل دو خطبے بلکہ انہیں ایک ہی کلام میں و منہا کے فاصلے قائم کر نا پڑتے ہیں ۔ 
میرا خیال یہ ہے کہ یہ شکل بعض جگہ تو انتخاب کی وجہ سے ہوئی ہے اوربعض جگہ یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ سابق میں قلمی کتابوں کے سوا کوئی دوسری شکل مواد کے فراہم ہونے کی نہ ہوتی تھی اور قلمی کتابوں کے اکثر نسخے منحصر بفرد ہوتے تھے۔ اب اگر ان میں درمیان کا حصہ کرم خوردہ ہوگیا ہے یا اوراق ضائع ہوگئے ہیں یا رطوبت سے روشنائی پھیل جانے کی وجہ سے وہ قبل ناقراٴت ہے تو علامہ سید رضی اس موقع پر درمیان کا حصہ نقل کرنے سے قاصر رہے ہیں اور حرص جمع و حفاظت میں انہوں نے اس کے قبل یا بعد یا وسط کے وہ سطور تلاش کئے ہیں جو کسی مستقل مفاد کے حامل ہیں اور اس طرح درمیان کے حصوں میں انہوں نے ومنہا کہہ کر اس کے درج کرنے سے عاجزی ظاہری کی ہے یہ بھی ہے کہ اس وقت علم کا ایک بڑاذخیرہ حفاظ و ادباء و محدثین کے سینوں میں ہوتا تھا ۔ 
فرض کیجئے کسی اپنے استاد اور شیخ حدیث سے علامہ سید رضی نے کسی موقعہ کی مناسبت سے خطبہ کاابتدائی حصہ سن لیا اور انہوں نے اسے فوراً قلم بند کرلیا، پھر دوسرے موقعہ پر انہوں نے ان کی زبان سے اسی خطبہ کے کچھ دوسرے فقرات سنے اور انہیں محفوظ کرلیا اور اتنا موقعہ نہ مل سکا کہ درمیانی اجزاء ان سے دریافت کرکے لکھتے ۔ اس طرح انہوں نے اس کی خانہ پری و منہا کے ذریعہ سے کی ۔
یہ بھی اس کی دلیل قوی ہے کہ انہوں نے اصل کلام امیر المومنین کے ضبط وحفظ ہی کی کوشش کی ہے ،قطعاً کوئی تصرف خود نہیںکرنا چاہا۔
تیسرا شاہد اس کا خود جناب رضی کے وہ مختصر تبصرے ہیں جوکہیں کہیں کچھ خطبوں کے بعد انہوں نے اس کلام کے متلعق ا پنے احساسات و تاثرات کے اظہار پر مشتمل درج کردیئے ہیں یا بعض جگہ کچھ الفاظ کی تشریح ضرور سمجھی ہے ۔ ان تبصروں کی عبارت نے ان خطبوں سے متصل ہوکر ہر صاحب ذوق عربی دان کے لئے یہ انداز ہ قطعی طور پر آسان کردیا کہ ان تبصروں کا انشاپرداز وہ ہرگز نہیں ہوسکتا ،جوان خطبوں کا انشاپرداز ہے جس طرح خود علامہ رضی نے اپنے مایہ ٴ ناز تفسیر حقائق تنزیل میں اعجازِقرآن کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ باوجودیه کہ امیر المومنین کا کلام جو فصاحت وبلاغت میں مافوق البشر ہے مگر جب خود حضرت کے کلام میں کوئی قرآن کی آیت آجاتی ہے تو وہ اس طرح چمکتی ہے جس طرح سنگریزوں میں گوہر شاہوار باکل اسی شکل سے
ا گر چہ علامہ سید رضی اپنے دور کے افصح زمانہ تھے اور ادب عربی میں معراج کمال پر فائز تھے ،مگر نہج البلاغہ میں امیرالمومنین کے کلام کے بعد جب ان کی عبارت آجاتی ہے تو ہردیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اس کی نگاہ بلندیوںسے گر کر نشیب میں پہنچ چکی ہے، حالانکہ ان عبارتوں میں علامہ سید رضی نے ادبیت صرف کی ہے اور انپی حد بھر اپنی قابلیت دکھائی ہے،مگر سابق کلام کی بندی کو ہر مطالعہ کرنے والے کے لئے ایک امر محسوس کی حیثیت سے ظاہر کردیا ۔ یہ بھی ایک بہت بڑا داخلی شاہد ہے، اس تصور کے غلط ہونے کا وہ علامہ سید رضی کا کلام ہو۔

تبصرے
Loading...