عصمت پیغمبر ۖپر قرآنی شواہد

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم رکن انبیاء کے معصوم ہونے کا عقیدہ ہے۔ طول تاریخ میں ہمیشہ اس موضوع پر گفتگو وبحث ہو تی رہی ہے ۔اور انسانیت کے ان روشن میناروںاور بشریت کے ان عملی نمونوں میں لوگوں نے ہمیشہ عیب جوئی کی کوشش کی ہے جن لوگوں میں ان بلند و بالا ہستیوں تک پہنچنے کی طاقت اور ہمت نہیں تھی انہوں نے ہمیشہ ان نورانی ستاروں کو بلند و بالامقام سے نیچے لانے کی کوششیں کی ہیں۔ اس بحث کی اہمیت کے لئے فقط یہ جاننا کافی ہے کہ انبیائ کی عصمت کے بغیر دینی عقائد میں ایسی دراڑیں پیدا ہو جائیں گی کہ

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم رکن انبیاء کے معصوم ہونے کا عقیدہ ہے۔ طول تاریخ میں ہمیشہ اس موضوع پر گفتگو وبحث ہو تی رہی ہے ۔اور انسانیت کے ان روشن میناروںاور بشریت کے ان عملی نمونوں میں لوگوں نے ہمیشہ عیب جوئی کی کوشش کی ہے جن لوگوں میں ان بلند و بالا ہستیوں تک پہنچنے کی طاقت اور ہمت نہیں تھی انہوں نے ہمیشہ ان نورانی ستاروں کو بلند و بالامقام سے نیچے لانے کی کوششیں کی ہیں۔
اس بحث کی اہمیت کے لئے فقط یہ جاننا کافی ہے کہ انبیائ کی عصمت کے بغیر دینی عقائد میں ایسی دراڑیں پیدا ہو جائیں گی کہ جن کو کبھی پُر نہیں کیا جا سکتا ۔
اگر انبیا ء کو عام لوگوں کی طرح خطا کا رو لغزش کرنے والا جان لیں تو نہ آسمانی کتب پر اعتمادکیا جا سکتا ہے اور نہ خالق و مخلوق کے درمیان کسی موثق واسطے کو ثابت کیا جا سکتا ہے،اورنہ انبیا ئ کا قول و فعل ہدایت کا ذریعہ بن سکتاہے،پس ان ہستیوں کے بارے میں معمولی سا اور ضعیف احتمال ِخطا بھی اسلام کے بنیادی عقائد کو ختم کر سکتا ہے ۔ اور اس صورت میں مقصد خلقت فوت ہو جائے گا اور انسان کے اس سفر کمال کو طے نہیں کیا جا سکے گا اور نتیجتاًجہالت و گناہ کی تاریکی اس عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔پس توحیدی ادیان ، آسمانی کتب اور انبیا کی تعلیمات کو ثابت کرنے کے لئے ایسے موثق ذرائع کا ثابت کرنا ضروری ہے ۔ جو ہر قسم کی خطاو لغزش سے پاک ہوں تاکہ عبد و معبود کے درمیان اتصال کا سلسلہ قائم ہو سکے یہی وجہ ہے کہ دینی عقائد میں تمام انبیاء اور باالخصوص پیغمبر اکرم ۖ کی عصمت کی بحث بہت ضروری اورنہایت اہمیت کی حامل ہے ۔
مسئلہ عصمت کو سب سے پہلی مرتبہ شیعہ متکلمین نے بیان کیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے آئمہ کومعصوم ثابت کرنے کے لئے انبیاء کی عصمت کی بحث کی ہے۔١قرآن میں یہ صفت (عصمت)ملائکہ کے بارے ۔ ٢ اور خود قرآن کے بارے میں بھی استعمال ہوئی ہے ۔٣

اس مختصر تحریر میں پیغمبر اکرم ۖ کی عصمت کے متعلق قرآنی شواھد کو بیان کیا گیا ہے :
ابتدا میں خود عصمت کا معنی ٰ واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن میں یہ کلمہ کن کن معانی میں استعمال ہوا ہے لفظ عصمت اپنے تمام مشتقات سمیت تیرہ مرتبہ قرآن میں آیا ہے،اگر چہ لغت میں یہ کلمہ ایک ہی معنیٰ میں استعمال ہُوا ہے اور وہ تمسک و پکڑنے کامعنیٰ ہے۔٤
سورہ آل عمران آیت نمبر ١٠٢میں ارشاد ہو ا ہے
”وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰه جَمِيعاً وَّلَا تَفَرَّقُوْا”٥
”خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور بکھرنہ جائو ۔”
کبھی کلمہ عصمت ایسی چیز کہ جو حفاظت والا پہلو رکھتی ہے کے معنی میںبھی استعمال کیا گیا ہے اور اسی لحاظ سے پہاڑوں کی بلندی کو عصمت کہا جاتا ہے،اور لغت عرب میں ایسی رسی جس سے سامان کو باندھا جائے عصام کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس رسی کی وجہ سے سامان بکھرنے سے بچ جاتا ہے اور محفوظ رہتاہے بحرحال عقائد میں اس کلمے سے مراد خدا کے بعض صالح بندوں کا گناہ اور اشتباہ سے بچنااور محفوظ رہناہے۔
معروف شیعہ متکلم علامہ فاضل مقداد فرماتے ہیں :
عصمت خدا کی طرف سے مکلف کے لئے ایک ایسالطف ہے کہ جس کے ہوتے ہُوئے اطاعت کو ترک کرنے اور معصیت کو انجام دینے کامحرک ہی پیدا نہیں ہوتا ۔البتہ قدرت و اختیار کے ہوتے ہوئے۔٦
اور عدلیہ کا نظریہ بھی اسی سے ملتا جلتاہے اگر چہ اشاعرہ نے عصمت کی تعریف میںاطاعت خدا اور معصیت خدا پر قدرت اور عدم قدرت کی بحث کی ہے جو یہاںہمارا موضوع بحث نہیںہے۔٧
البتہ موضوع سے متعلق چند نکات کی وضاحت ضروری ہے ۔

(١) پیغمبر ۖکے معصوم ہونے کا مطلب فقط گناہوں کو ترک کرنا نہیں ہے کیونکہ یہ توایک عام فرد سے بھی ممکن ہے کہ بعض حالات میں وہ گناہ نہ کرے لیکن اس کے اندر گناہ نہ کرنے کاملکہ نہ پایا جائے ۔جیسے بلوغ سے پہلے ایک بچہ دنیا سے چلا جائے اور کسی خطا کا مرتکب نہ ہو ۔ یا ایک ایسا شخص کہ جسے دور افتادہ علاقے میں قید کر دیا جائے اور اس کے لئے گناہ کرنا ممکن ہی نہ ہو ۔
لیکن ایسے افراد کے لئے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ملکہ عصمت رکھتے ہیں جس شخص نے ساری زندگی شراب دیکھی تک نہ ہو اور نہ پی ہو اس کے لئے یہ نہیں کہاجا سکتا کہ وہ معصوم ہے۔ بلکہ معصوم سے مراد ایک ایسا فردہے جو طاقتورنفسانی ملکہ رکھتا ہو کہ جو سخت ترین حالات میں بھی جہاں گناہ کے تمام شرائط بھی موجود ہوں تب بھی کوئی خطا ولغزش نہ کرے ایک ایسا ملکہ جو مکمل طور پر گناہ کی خرابیوں سے آگاہی رکھتا ہو اورچونکہ ایسا ملکہ خدا وند متعال کی خاص عنایت کے بغیر ممکن نہیں ہوتالہذااس کا حقیقی فاعل اگر چہ خدا ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ فرد معصوم بھی اختیار رکھتا ہے ۔٨

(٢) عصمت پیغمبر ۖسے مراد دونوں طرح کی عصمت ہے یعنی عصمت علمی بھی اور عصمت عملی بھی کیونکہ فرق ہے عصمت علمی اور عصمت عملی۔ میںایک عام انسان ممکن ہے اچھے بُرے کاعلم رکھتاہو،اس کے اندراچھائی برائی کی تشخیص دینے کا ملکہ موجود ہو، لیکن اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے کہا جاسکتاہے کہ عصمت علمی رکھتاہے ،لیکن عصمت عملی نہیں ہے اور اسی طرح ایک اور شخص ممکن ہے اچھے بُرے کاادراک نہ رکھتاہو مگر عمل کے میدان میں سالم ہو اور گناہو ں سے محفوظ ہو۔تو اس کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ عصمت رکھتا ہے ۔٩

(٣) عصمت یا نسبی ہوتی ہے اوریا عصمت مطلق ہوتی ہے ۔نسبی سے مراد بعض موارد اور بعض حالات میں معصوم ہونا ۔
ممکن ہے ایک فرد بعض گناہوں کی نسبت معصوم ہو اوروہ گناہ انجام نہ دے۔ پیغمبر ۖ کی عصمت سے مراد ہر گز عصمت نسبی نہیں ہے بلکہ مطلق عصمت مراد ہے ۔ پیغمبر ۖ کی عصمت کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں بعض قائل ہیں کہ نبی ۖ بعثت سے قبل اوربعد گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو سکتا ہے ۔١٠
البتہ یہ نظریہ بہت کمزور اور قابل بحث ہے معتزلہ کے بعض اسلاف قائل ہیں کہ بعثت سے پہلے نبی ۖ گناہ کبیرہ انجام دے سکتاہے مگر بعد ازبعثت ممکن نہیں ہے۔١١
بعض دیگر فرقے گناہ کبیرہ کے ارتکاب کونہ قبل ازبعث اورنہ بعداز بعثت جائزسمجھتے ہیں اور قائل ہیں کہ ایسے گناہان صغیرہ جو فقط نفرت کا باعث ہوں،نبی ۖکے لئے ان کو انجام دینے میںکوئی حرج نہیں ہے ۔اشاعرہ ایسے گناہوں کو جو انجام دینے والے کی پستی کا موجب بنیں جائز نہیںسمجھتے(جیسے چوری کرنا) ایسے گناہ بعثت کے بعد عمداًو سھواًجا ئزنہیں ہیں۔١٢
شیعہ اثنا عشریہ کا نکتہ نظریہ ہے کہ ہر قسم کے گناہ کبیرہ وصغیرہ عمداً و سھواً بعثت سے پہلے اوربعثت کے بعد کسی صورت میں جائز نہیں ہیں ۔مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے ان اجمالی نظریات جاننے کے بعد اب آئیے دیکھتے ہیں قرآن نے عصمت پیغمبر ۖ کے حوالے سے کیا راہنمائی کی ہے ؟
قرآن میں عصمت کے بارے میں متعدد آیات موجود ہیں ،ان میں سے بعض مر حلہ ابلاغ رسالت کو بیان کرتی ہیں اور بعض پیغمبر ۖکے عصیان و اشتباہ (نعوذ اللہ) پر ناظر ہیں۔ سورہ ص آیت نمبر ٨٢۔٨٣میں خدا و ند متعال نے قول شیطان کو نقل کیا ہے :
”فَبِعِزَّتِکَ لَاُ غْوِينَّھُمْ اَجْمَعِينَO اِلَّاعِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِينَ”
”شیطان نے کہا تیری عزت کی قسم میں سب انسانوںکو گمراہ کروںگا مگر تیرے مخلص بندے ”
اس آیت میں لفظ مخلَص آیا ہے تو سب سے پہلے مخلصِ اور مخلَص کا فرق واضح ہونا چاہیے مخلصِ باب افعال کا اسم فاعل ہے، اخلاص مصدر سے۔ مُخلصِ ایسے فرد کو یا ایسی چیز کو کہا جاتا ہے کہ جس نے اپنے عمل اور عقیدے کو خدا پر ایمان کے راستے میں خالص کر دیا ہو ۔اور مخلَص باب افعال کا اسم مفعول ہے یعنی ایسا فرد یا چیز جس کو کسی اور نے خالص کیا ہو۔
لہذا مخلصَین یعنی ایسے افراد کہ خدا کی مدد و لطف سے جن کا سراپا وجود خدا کیلئے خالص ہو جائے لہذا شیطان ہر گز ان پر مسلط نہیں ہو سکتا ،دعائے ندبہ میں بھی خدا کے اولیاء کے لیے یہی تعبیر آئی ہے ۔
”اولئک الذّين اسْتَخْلَصَّتھُمْ لِنفسکَ ودِينْکَ ”
”تیرے وہ اولیاء جن کو تو نے اپنے لیے اور تیرے دین کے لیے خالص کیا ہے”
اس آیت میں کلمہ مخلص کا سب سے بڑا مصداق معصوم ہے اگر چہ یہ معصوم سے مختص نہیں ہے یہ تعبیر اگر چہ نبیۖ سے مختص نہیں ہے مگر اس میں بھی کسی قسم کاشک وشبہ نہیں ہے کہ ا س کا مظھرِکامل نبی ۖہیں کہ جو ہر گز نفس اور شیطان کی پیروی نہیں کرتے ان مذکورہ دو آیتوں کے مشابہہ ایک اورآیت بھی ہے سورہ حجر آیت نمبر ٤٢میں ارشاد ہُوا
” ِانَّ عِبَادِیْ لَيسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰن ”
خدا نے شیطان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
” توہر گز میرے بندوں پر تسلط نہیں رکھ سکے گا ”
قرآن کی بعض دیگر آیات میں ان مخلصین کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عبادی یا عبادنا سے مراد کون ہیں ؟ان آیات میں انبیاء میں سے چند نبیوں کا نام لیا گیا ہے۔ سورہ یوسف آیت نمبر ٢٤میں حضرت یوسف کو مخلَص کہا گیا ہے سورہ مریم٥١میں حضرت موسی ـ کے بارے میں یہی تعبیر آئی ہے۔
ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خصوصیت کسی ایک نبی ۖکے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ مقام و منصب نبوت ۖ کا لازمہ ہے۔ قرآن کی بعض دیگر آیات میںپیغمبر اکرم ۖکی مطلق اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔اور وہ پیغمبر ۖ کی عصمت پر شاھد ہے ۔جیسے
” اَطِيعُوا اللّٰه وَ اَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِیٰ الْاَمْرِ مِنْکُمْ ” ١٣
”اطاعت کرو اللہ کی رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان أمر ہیں ان کی ”
اسطرح کی دیگر آیات بھی موجود ہیں جن میں پیغمبر ۖ کی اطاعت مطلقہ کا حکم دیاگیا ہے۔ان آیات میں پیغمبر اسلام ۖ کی مطلق اطاعت کا حکم دینا ان کے معصوم ہونے پر سب سے بڑا شاھدہے ۔کیونکہ یہ آیات پیغمبر ۖ کی اطاعتِ مطلقہ کا حکم دیتی ہیں اور جب کسی کی اطاعت کسی خاص وقت اور فعل سے مقیدً نہ ہو تو اس کا ہر قول و فعل قابل اطاعت ہوگااور اس کے ہر قول وفعل کا قابل اطاعت ہونا دلیل ہے کہ وہ ہر قسم کی خطا ء سے پاک ہے کیونکہ اگر فرض کریں پیغمبر ۖ خطا اور گناہ کرنے والے ہوتے،تو محال ہے، خدا ان کی اطاعت کاحکم دے ۔پس معلوم ہوا پیغمبر ۖ کے اعمال وکردار خدا کے دستور کے مطابق ہوتے ہیں۔ بہرحال قرآن کی بہت سی آیات پیغمبر ۖ کو معصوم اور قابل اطاعت جانتی ہیں بعض آیات پیغمبرۖ کے درست تلقیِ وحی پر ناظر ہیں اور بعض مقام ابلاغ رسالت میں عصمت پر دلیل ہیں ۔
سورہ جن کی آیت نمبر٢٦۔٢٨میں ارشاد ہُوا :
”عٰلِمُ الْغَيبِ فَلاَ يظْهرُ عَلٰی غَيبِہ اَحَدًا Oاِلاِّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّه يسْلُکُ مِنْ بَينِ يدَيه وَمِنْ خَلْفِه رَصَدًاOلِّيعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْارِسٰلٰتِ
رَبِّهمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيهمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَئی عَدَدًاO”
”وہ غیب کا جاننے والاہے اور اپنے غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے اس نے برگزیدہ کیا ہو وہ اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے تا کہ اسے علم ہو جا ئے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچائے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس پر اللہ نے احاط کر رکھا ہے اور اس نے ہرچیز کو شمار کر رکھا ہے ”
اس آیت میں(ارتضی ٰ ) اور یسلک کا فاعل خدا و ند متعال ہے۔ من بین یدیہ و من خلفہ یعنی سامنے سے اورپیچھے سے خدا نے محافظ قائم کیے ہوئے ہیں اس جملے کی تفسیر میں دو احتمال پائے جاتے ہیں پہلا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر ۖکے قلب مطًھرکے اطراف میں خدانے محافظین قائم کیے جو ہر قسم کے عامل تخریب کو روکتے ہیں نہ شیطان اس میں نفوذ کر سکتا ہے اور نہ نسیان آسکتاہے۔اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس جملے سے مراد یہ ہو کہ دریافت وحی کے وقت پیغمبر ۖ کی دو حالتیں ہوتی تھیں ایک حالت یہ ہو تی تھی کہ پیغمبرۖ مقام ربوبی کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ من بین یدیہ اسی کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا اس رسالت کو ابلاغ کرتے وقت لوگوں کی طرف رخ کرتے تھے اور مقام ربوبی کی طرف پشت ہو جاتی تھی۔ ومن خلفہ اس دوسری حالت کی طرف اشارہ ہے ۔خلاصہ یہ کہ خداوند متعال جب وحی کرتاہے تو ہر طرف سے فرشتوں کو مامور کرتا ہے تاکہ وہ دریافت ِ وحی ، حفاظت وحی اور ابلاغِ وحی کے تمام مراحل میں نبی ۖکی حفاظت کریں تاکہ وہ کسی قسم کے اشتباہ و خطا سے دو چار نہ ہوں۔
سورہ نساء آیت نمبر ١١٣ میں ارشاد ہو تا ہے۔
”وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰه عَلَےْکَ وَرَحْمَتُه لَهمَّتْ طَّآئِفَة مِّنْهمْ اَنْ ےُّضِلُّوْکَ وَمَا ےُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَهمْ۔۔۔۔۔۔۔۔”
”اور (اے رسول ۖ)اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شاملِ حال نہ ہو تی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا حالانکہ وہ خود کو ہی غلطی میں ڈالتے تھے اوروہ آپ کا تو کو ئی نقصان نہیں کر سکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو ان باتوں کی تعلیم دی جنہیں آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ”
مفسرین نے اس آیت کے متعدد شانِ نزول بیان کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دن پیغمبر گرامی اسلام ۖ کے کسی صحابی کی ذرہ چوری ہو گئی زرہ والے مالک نے کسی پر چوری کا گمان کیا تو جب چور کو خطرہ محسوس ہونے لگا تو اس نے زرہ کو ایک یہودی کے گھر میں پھینک دیا اور اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ پیغمبر ۖ کے پاس جائیں اور میری بے گناہی کی گواہی دیں اور بتائیں کہ وہ زرہ ایک یہودی کے گھر میں ہے ۔لوگوں نے یہودی کو چور سمجھ لیا اور جس نے چوری کی تھی اس کو بے قصور ٹھہرانے لگے اس دوران پیغمبر ۖ پر وحی نازل ہو ئی ،خدا نے سارا واقعہ اور حقیقت سے اپنے حبیب کو آگاہ کردیا ۔اور پھر یہ آیت نازل ہو ئی اگر خدا کا فضل اور رحمت شامل حال نہ ہو تی تو لوگ خلاف واقع عمل کر کے رسول کو بہکانے کی کو شش کر رہے تھے (علَّمک)سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی طرف سے کتاب وحکمت کے علاوہ بھی تعلیم کے لیے رسول خدا ۖ کے پاس خصوصی ذرائع موجود تھے جن کی وجہ سے رسول خدا ۖعلم ومعرفت اور کشفِ حقائق کی اس منزل پر فائز تھے کہ جن کے بعد خلاف عصمت کسی غلطی کے سر زد ہو نے کا امکان نہیںرہتا چنانچہ علم ویقین کا نیتجہ عصمت ہے ،البتہ علم ویقین حاصل ہونے کے بعد عصمت قائم رکھنے پر مجبور بھی نہیں ہو تے بلکہ یہاں عزم و ارادہ نفس کی پاکیزگی اور محبت الٰہی کی وجہ سے اپنے اختیار سے عصمت پر قائم رہتے ہیں ،اسی وجہ سے معصوم کی عصمت اس کے لیے باعث فضلیت ہے ۔
سورہ الحاقہ آیات ٤٤تا٤٧ میں فرمایا :
”وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَينَا بَعْضَ الْاَ قَاوِيلِ ۔۔۔۔۔۔”
”اگر وہ (نبی )تھوڑی سی بات بھی گھڑ کر ہماری طرف منسوب کر تے تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی شہ رگ کا ٹ دیتے ،پھر تم میں سے کو ئی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ”
سورہ یونس میں ارشاد ہو ا:
”وَاِذَ اتُتْلٰی عَلَيھِمْ اٰيا تُنَا بَينٰتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيرِ ھٰذَآاَوْبَدِّلْه قُلْ مَا يکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّ لَه مِنْ تِلْقَآیِٔ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يوْحیٰ اِلَیَّ اِنِّیْ اَخَافُ اِنْ عَصَيتُ رَبِّیْ عَذَابَ يوْمٍ عَظِيمٍ ”
”اورجب انہیں ہماری آیات کھول کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آئو یا اسے بدل دو کہہ دیجیے مجھے اختیار نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے ،میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ”
مخالفین عصمت پیغمبر اسلام نے چند آیات قرآنی کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے آئیے ان آیات میں غورو فکر کرتے ہیں او ر دیکھتے ہیں کیا یہ آیات پیامبر اسلام ۖکی عصمت کے خلاف کو ئی شاہد بن سکتی ہیں یا نہیں ؟خداوند متعال نے سورہ ضحیٰ میںفرمایا ہے !
”وَوَجَدَ کَ ضَآلاَّ فَھَدَیٰ ”
اس آیت میں خدا نے پیغمبر اکرم ۖ کو ایک فرِد ضال کہا ہے اور یہ پیغمبر ۖ کی جوانی اور بعثت سے پہلے کے بارے میں فرما یا :
”أَلَمْ يجِدْکَ يتِيمًا فَاَوَیٰ وَوَجَدَکَ ضَآلّا فَهدَیٰ وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَأَغْنَیٰ”
”اے رسول کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پا یا پھر پناہ دی اور اس نے آپ کو ضال (ناواقف)پایا تو راستہ دکھایا ”
استدلال کرنے والوں نے ضال کا معنیٰ گمراہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ضال کو ھدیٰ کے مقابلے میں لا یا گیا ہے جو دلیل ہے کہ اس ضال سے مراد گمراہی ہے ،اور گمراہی یعنی؛ دینی امور میںگمراہی جو کہ عصمت سے منافات رکھتی ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ ضال لغت عربی میں تین معانی میں استعمال ہو تا ہے ،گمراہ گمنام اور گمشدہ اگر ضال بمعنی گمراہ ہو جیسا کہ استدلال کرنے والوں نے یہی معنی مراد لیا ہے اور سورہ فاتحہ کی اس آیت کو بھی شاہد کے طور پر پیش کیا ہے کہ
‘غَيرِالْمَغْضُوْبِ عَلَيھِمْ وَلَا الضَّآلِّينَ ‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ضال کے دو استعمال ہیں
(١)تاریکی دل جو کفر وشرک یا گناہوں کی وجہ سے پیدا ہو تی ہے
(٢)فاقد ہدایت عدمی ہے جیسے ایک بچہ جس کی زندگی کی ابھی چند بہاریں گذری ہوں وہ فاقد ہدایت ہوتا ہے ، اور زندگی کے اس حصے میں فاقد ھدایت ہو نا کو ئی برائی نہیں ہے اور اس آیت میں ضال اس معنیٰ میں ہے ،نہ کہ وہ گمراہی جو دل کی سیاہی کا نیتجہ ہو ،اور اس مطلب پر شاہد یہ ہے کہ ان آیات میں خداوند متعال نے اپنی ان نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے اپنے حبیب کو عطا کی ہیں ،فرمایا تم بچین میں یتیم ہو گئے تھے ہم نے تمہیں پناہ دی یعنی ؛عبد المطلب اور ابو طالب کے ذریعے تمہاری پرورش کی ،اور زندگی کی ابتدا میں تم فاقد ھدایت تھے کیونکہ کوئی بھی موجود بالذات کمالات کا حامل نہیں ہو تا ،بلکہ جو بھی وہ کمال حاصل کر تا ہے وہ خدا سے لیتا ہے اور اگر خدا کالطف نہ ہو تا تو کوئی بھی انسان راہ ہدایت کو نہ پہنچتا اسی مطلب کو خدا نے قرآن میں بیان کیا ہے ۔
”رَبُّنَاالَّذِیْ اَعْطٰی کُلَّ شَیْ ئٍ خَلْقَه ثُمَّ ھَدٰی ”القرآن ،طه آيت نمبر ٥٠
”ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی ”
لہذا خدا وند متعال نے ابتدا سے ہی ہر موجود کی ہدایت کا اہتمام کیا ہے ،سورہ ضحی کی اس آیت میں ضال سے مراد ایسی ہدایت کا فقدان ہے اور یہ عصمت کے منافی نہیں ہے ۔
پس ضلالت سے مراد ابتدائی زندگی میں ہدایت کا فقدان ہے اور فہدیٰ سے مراد تکوین و تشریعی ہدایت ہے دوسری آیت جس کوشاہد کے طور پر پیش کیاجا تا ہے ۔شوریٰ آیت ٥٢ ہے ارشادہو ا:
”وَکَذٰلِکَ اَوْحَينَآ اِلَيکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلاَ لْاِيمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰه نُوْرًانَّھْدِیْ بِه مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِنَّکَ لَتَهدِیْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ”
”اور اسی طرح ہم نے اپنے امر میں سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے آپ نہیںجانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ہی ایمان کو جا نتے تھے لیکن ہم نے اسے روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور آپ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کر رہے ہیں ”
مخالفین عصمت نے اس آیت میں ‘ماکنت تدری ما الکتب ولا الا یمان ‘کو شاہد بنایا ہے کہ پیغمبر گرامی اسلام وحی سے ‘قبل فاقدایمان ‘تھے اور وحی کے بعد آپ ایمان لا ئے اور جو اپنی زندگی کے کسی حصے میںایمان نہ رکھتا ہو وہ کیسے معصوم ہو سکتا ہے ؟
اس کا جواب دینے سے پہلے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس سوچ کے حامل افراد پہلے کو ئی نظریہ قائم کر تے ہیں پھر دلیل کو ڈھونڈتے ہیں ورنہ اس آیت میں اس طرح کی دیگر آیات میں معمولی سے غور وفکر سے بھی آیت کے مطلب کو سمجھا جا سکتا ہے ،اس کا جواب یہ ہے کہ ‘ما کنت تدری ‘اور ‘ماکان ‘کے جملے عرب ایسی جگہ میں استعمال کرتے ہیں جہاں کسی چیز سے اس کے امکان کی نفی کی جائے قرآن نے بھی یہ جملے ایسی ہی جگہ استعمال کیے ہیں شاہد کے طور پر قرآن کی یہ آیات پیش ہیں ،(آل عمران ١٤٥،آل عمران ١٦١ ،توبہ ١٧)لہذا آیت مورد بحث میں بھی حقیقت میں اسی امکان کی نفی ہو تی ہے ‘ماکنت تدری ماالکتاب ولا ایمان ‘ سے مراد یعنی اے رسول ۖاگر ہم آپ پر وحی نازل نہ کرتے تو کتاب سے آگاہی اور ایمان لا نا تیرے لیے ممکن ہی نہیں تھا ۔سورہ ھود آیت نمبر ٤٩ میں بھی ‘ماکنت تعلمھا ‘اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے ۔یعنی؛ اگر ہم وحی نہ کرتے تو اے رسول ۖ آپ اس کتاب کے بارے میں کچھ نہ بھی نہ جا ن سکتے ۔
پس مخالفین عصمت نے اپنے زعم باطل کی بنیاد پر ان آیا ت کو عصمت پیغمبر اسلام کے منافی جا نا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اور واضح ہو گیا کہ یہ آیات کسی حوالے سے بھی رسولِ خدا ۖکی عصمت کے منافی نہیں ہیں ۔
اگر چہ یہ بحث نامکمل ہے کیونکہ مخالفین عصمت پیغمبرۖ نے اور بھی آیات کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ لیکن یہ موضوع ایک الگ مقالے کا متقاضی ہے لہذا یہاں پر بحث نہیں کرتے ۔
اس مقالے کے آخر میں سہو نبی کے بارے بحث کرنا ضروری ہے تاکہ بحث مکمل ہو جائے اشاعرہ اورمعتزلہ جو پیغمبر ۖ کے لیے گناہ صغیرہ کو سھواً جائز سمجھتے ہیں اس مسٔلہ میںبھی سھو نبی کے قائل ہیں اور اس سھو سے مراد امور شرعی کی تطبیق میں خطا ہو جیسے نماز کی رکعات میں بھول جانا ۔
یا امور شخصی ومادی میں خطا ہو جیسے پیغمبر ۖ کسی کا قرضہ دینے میں اشتباہ کریں ،اشاعرہ اورمعتزلہ سھو کی ان دونوں قسموں کو پیغمبر ۖ کے لیے جائز سمجھتے ہیںجب کہ شیعہ امامیہ کا تقریباً اتفاق ہے کہ نبی سھو نہیں کر سکتا ۔
شیخ بہائی کو جب کسی نے کہا کہ شیخ صدوق سہو نبی کے قائل ہیں تو انہوں نے خوبصورت جملہ فرمایا :
”سهو ه فی سهو النبی ”
یعنی شیخ صدوق نے سہو نبی والے مسئلے میںخود سہو کیا ہے ۔١٤
بحرحال علماء شیعہ کی واضح اکثریت جیسے شیخ مفید، شیخ طوسی ،محقق حلی ، علامہ حلی خواجہ نصیر الدین طوسی شہید اول،فاضل مقداد ،شیخ حر عالمی ،علامہ مجلسی،سھو نبی کو جا ئز نہیں جا نتے ۔اور واضح کیا ہے کہ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اس سے لو گوں کا نبی پر اعتماد باقی نہیں رہے گا اور لوگوں کے درمیان نبی کے بارے نفرت پیدا ہو جائے گی ،اور نبی کا کردار وگفتار قابل عمل نہیں رہیں گے۔
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام انبیا ء اور بالخصوص سید الا نبیا ء پیغمبر گرامی اسلام ان قرانی آیات کی روشنی میںدریافت وحی ،حفاظت و ابلاغ و حی اور علم و عمل کے تمام مراتب میں معصوم ہیں ،اور عمداً اور سہو اً ہر قسم کی خطا سے پا ک ہیں ۔
٭٭٭٭٭
حوالہ جات
١۔ عقیدة الشیعہ
٢۔ القرآن ،التحریم ،٢
٣۔ القرآن، الفصلت، ٤٢
٤۔ مقایسیں اللغة ،ج ٤،ص٣٣١،ابو الحسین احمد بن فارس
٥۔ القرآن ،آلعمرا ن، ١٠٢
٦۔ فاضل مقداد ،ارشاد الطالبیین ،ص٣٠١
٧۔ السید الشریف علی بن محمد جرجانی،شرح المواقف ج٨،ص٢٨٠
٨۔ آموزش عقائد ،مصباح یزدی ،درس ٢٤
٩۔ جوادی ،آملی ،تفسیر موضوعی قرآن ،ج٩،ص٥
١٠۔ فرقہ حشویہ
١١۔ قاضی عبد الجبار معتزلی ،شرح اصول الخمسہ ،ص٥٧٥
١٢۔ شرح تجوید الا عتقاد ،فاضل قوشجی ،ص٤٦٤
١٣۔ القرآن ، الاحزا ب ،١
١٤۔ الھیات ج ٢،ص١٨٠،حسن بن محمد مکی
٭٭٭٭٭
منبع:مجلہ نورمعرفت

تبصرے
Loading...