عزت امام حسین (ع) کی نگاہ میں

عزت، اخلاق اسلامی کے ثابت اور ناقابل تغییر اصولوں میں سے ہے نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے الفاظ اپنے اصلی معانی اور معارف کھو بیٹھے ہیں جیسے صبر، عشق وغیرہ، ان میں سے ایک کلمہ عزت بھی ہے اس مختصر سے مقالہ میں امام حسین(ع) کے نزدیک عزت کے معانی، معیاراور عوامل پر بحث ہو گی۔

عزت، اخلاق اسلامی کے ثابت اور ناقابل تغییر اصولوں میں سے ہے نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے الفاظ اپنے اصلی معانی اور معارف کھو بیٹھے ہیں جیسے صبر، عشق وغیرہ، ان میں سے ایک کلمہ عزت بھی ہے اس مختصر سے مقالہ میں امام حسین(ع) کے نزدیک عزت کے معانی، معیاراور عوامل پر بحث ہو گی۔

عزت کے معنی

لغت میں لفظ “عزت” غلبہ، قوت و شدت کے معنی میں آیا ہے اور عزت مند انسان وہ ہے کہ جو کسی ایسے بلند درجے پر فائز ہو کہ ذلت و خواری وہاں تک نہ پہنچ سکے۔

(لسان العرب ابن منظور، ج5، ص374)

 راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ عزت انسان کے اندر ایک ایسی حالت ہے جو انسان کو خواری سے محفوظ رکھتی ہے۔

(مفردات الفاظ القرآن راغب اصفہانی)

صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ کلمۂ عزت، نایابی کے معنی میں ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز عزیز ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ہے۔

(المیزان ج 17، ص 22، 23)

اسلامی افکار میں عزت دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے

 1: عزت حقیقی: عزتِ حقیقی خداوند کے لیے ہے اور وہ انسان جو عزت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں وہ خداوند کے ساتھ رابطے کے طفیل ہی ہوتے ہیں اسی وجہ سے علمائے اسلام نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں عزت حقیقی کو خدا وند متعال، رسول (ص)، اور مؤمنین کے لیے مختص، قرار دیا ہے۔ 

فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا۔ (آل عِمرَان ـ (139

بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے

وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنَافِقون ـ 8)

جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے

2: جھوٹی عزت: جاہلیت کی ثقافت میں زیادہ قدرت و طاقت، کثرت اولاد خصوصا بیٹوں، مال و دولت کی فراوانی، افراد ی قوت کی کثرت وغیرہ کو عزت کا نام دیا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات مردگان کو بھی عزت کا معیار سمجھتے ہوئے قبور کو بھی شمار کرتے ہیں اور آج بھی طاغوت پرست قوموں کے نزدیک عزت کا معیار کچھ ایسا ہی ہے۔

امام حسین (ع) نے ا پنے قیام میں عزت اور ذلت کے معیارات کو بیان کیا ہے یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت کو ذلت شمار کیا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے مر جانے کو عزت کا نام دیا ہے اور کئی مقامات پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ حسین(ع) کبھی بھی یزید کی بیعت کر کے ذلت کو قبول نہیں کرے گا؛ اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “اے میرے بھائی خدا کی قسم! اگر دنیا میں میرے لیے کوئی بھی پناہ گاہ موجود نہ ہو پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کروں گا کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے ” خدایا یزید کو اپنی نظر رحمت سے دور رکھ”۔

( الامام الحسین (ع) فی المدینۃ المنورۃ، ص 389)

امام حسین (ع) نے اصحاب و انصار کی کم تعداد کے باوجود اپنے مقصد و ہدف کو جاری رکھا اور ایک پل کے لیے بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ ہوئے جب عمر بن سعد نے امام حسین(ع) کو یزید کی بیعت کی دعوت دی تو فرمایا” خدا کی قسم ! ذلت کے ساتھ کبھی بیعت نہیں کروں گا اور غلاموں کی طرح اس کی خلافت کا اقرار نہیں کروں گا”۔

(موسوعۃ کلمات الامام الحسین(ع) ص 335)

اسی طرح اپنی بہن حضرت زینب کو (ع) صبر وبردباری کا درس دیتے ہوئے فرمایا اے بہن صبر کرو، گریہ نہ کرو اور دشمن کو طنز و طعن کا موقع نہ دو”۔

(( موسوعۃ کلمات الامام الحسین(ع) ص391)

امام حسین (ع) کے فرامین میں تدبر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عزت کچھ عوامل پر موقوف ہے جن کو کسب کیے بغیر عزت کے مقام کو حاصل نہیں کیا جا سکتا یہاں پر ان میں سے کچھ عوامل کو ذکر کیا جا رہا ہے۔

عوامل عزت

    ارتباط با خدا

 امام حسین (ع) کہ جو آغوش وحی کے پروردہ ہیں عزت نفس کو ارتباط با خد ا سے وابستہ سمجھتے ہیں خدا وند سے ارتباط کے بغیر حاصل ہونے والی عزت کو ذلت تصور کرتے ہیں اپنے پروردگار سے خلوت میں راز و نیاز کرتے ہوئے فرماتے ہیں” الہی ! تیری بارگاہ میں میری ذلت و خواری واضح ہے اور میری حالت تم سے مخفی نہیں خدا وندا ! میں اپنے آپ کو کیسے عزت مند سمجھوں کہ تیرے سامنے خاضع اور ذلیل ہوں اور کیسے احساس عزت نہ کروں جبکہ تو نے مجھے اپنے ساتھ منسوب کیا ہے “(ثار اللہ ص55)

کربلا میں کوفیوں کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” اگر تم میرے عذر کو قبول نہیں کرتے اور میرے ساتھ انصاف نہیں کرتے تو پھر اپنے ساتھیوں کو جمع کر لو اور مجھ پر حملہ آور ہو جاؤ اور مہلت نہ دو بے شک خدا وند جو کہ قرآن کو نازل کرنے والا ہے میرا ولی اور مدد گار ہے وہی خدا جو کہ نیک لوگوں کا ولی ہے”۔

(موسوعۃ کلمات الامام الحسین (ع) ص 336)

تبصرے
Loading...