عراق سے امریکیوں کے پرامن انخلاء کا آپشن ہمیشہ دستیاب نہیں ہوگا

رائٹرز نے امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ: امریکہ شدت سے مایوس ہوچکا ہے کیونکہ عراقی حکومت امریکی اتحاد کی افواج کی حفاظت کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہا ہے!

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جو بھی عراق کے سیاسی اور میدان حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے، وہ جب ایک اس اعلی امریکی اہلکار کے موقف کو سنتا یا پڑھتا ہے تو اسے یہ مصری ضرب المثل یاد آتی ہے کہ “اس نے مجھے مارا اور مجھ سے سبفت لے کر عدالت میں میرے خلاف شکایت بھی درج کروائی”۔ کیونکہ اگر جسے مایوسی کا اظہار کرنا چاہئے وہ امریکہ نہیں بلکہ عراق ہے جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ امریکیوں نے اس ملک کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا ہے کہ گویا عراق میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان امریکیوں نے نہ صرف داعش کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ داعشیوں کو شام سے ایران آنے کے لئے ماحول بھی امریکیوں نے فراہم کیا اور جہاں جہاں داعشیوں کو گھیرے میں لیا گیا امریکیوں نے ان کے کمانڈروں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پرامن مقامات پر پہنچایا؛ شام سے عراق آنے کے لئے داعشیوں کو پرامن راستہ فراہم کیا، جہاں جہاں ممکن تھا الحشد الشعبی کے اڈوں پر حملے کئے اور جہاں ممکن نہ تھا وہاں اسرائیلی طیاروں کو عراق میں آنے کا امکان فراہم کیا تا کہ “ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے” کے بہانے الحشد الشعبی کے مجاہدین کو قتل کرسکے اور جب عراقیوں نے جوابی کاروائی نہیں کی تو انھوں نے اپنے حملوں کو شدت بخشی اور اپنے جرائم کو وسعت دی۔

ایک عام عراقی باشندہ نہ صرف امریکیوں کی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے بلکہ محسوس کرتا ہے کہ امریکہ نے عراقی افواج اور حکومت کے ساتھ خیانت اور غداری کا ارتکاب کیا ہے؛ کیونکہ امریکیوں نے یہودی ریاست (اسرائیل) کے مفادات کے تحفظ اور عراق میں فتنہ انگیزی اور انتشار پھیلانے کی نیت سے الحشد الشعبی کے ٹھکانوں پر بمباریوں کے بعد بھی اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھا جن میں سر فہرست جنرل شہید سلیمانی اور جناب ابو مہدی المہندس کو ریاستی دہشت گردانہ حملہ تھا۔ اس امریکی دہشت گردی کے نتیجے میں جنرل سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے متعدد ساتھی شہید ہوئے اور امریکیوں نے دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس دہشت گردانہ کاروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ ٹرمپ کے براہ راست فرمان کے نتیجے میں انجام کو پہنچا ہے!

جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس نے داعش کے خلاف جنگ میں بنیادی کردار ادا کیا تھا چنانچہ ان پر امریکی دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکی اور مغربی فوجی دستے اپنا نام نہاد عنوان یعنی “داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد” (International Coalition Against ISIS) کھوچکے ہیں اور اب وہ “قابض افواج” کے زمرے میں آتے ہیں جو نہ صرف تکفیری، بعثی، داعشی اور دوسرے ٹولوں کی حمایت کررہے ہیں بلکہ اس ملک کے حصے بخرے کرنے کی غرض سے یہاں فتنہ فساد اور انتشار اور تفرقہ پھیلانے کے لئے کوشاں ہیں امارات اور سعودی عرب کی مالی حمایت سے یہاں عراق میں شورش برپا کرنے کے درپے ہیں۔

عراق، شام اور دنیا بھر کے ماہرین اور مبصرین نیز عسکری اور دفاعی اداروں نیز امریکہ کے اپنے کمانڈروں کے اعتراف کے مطابق جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس دو عظیم کمانڈر تھے جنہوں نے داعش کے خلاف کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا تو اب سوال یہ ہے کہ قابض امریکی افواج نے انہیں شہید کیا؟ اور اسی اثناء میں وہ کس منہ سے عراقی عوام اور حکومت سے حمایت کی توقع رکھتے ہیں اور ان کی عدم حمایت پر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں؟

عراقی قوم اور حکومت کے لئے جب امریکی افواج کے اہداف و مقاصد واضح ہوئے اور معلوم ہوا کہ امریکی عراق کے لئے داعش سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں اور ملک کے داخلی امن و آشتی کے لئے اصل خطرہ امریکی افواج ہی ہیں تو انھوں نے پارلیمان میں قانون منظور کرکے امریکیوں اور دوسری بیرونی افواج سے باضابطہ طور پر کہا کہ جلد از جلد عراق سے انخلاء کا انتظآم کریں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں کسی کو بھی کوئی شک نہيں ہے کہ امریکی افواج عراق میں بھی، علاقے کے دوسرے ممالک میں بھی اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بھی، نہایت منفی اور تخریبکارانہ کردار ادا کررہی ہیں؛ شام میں امریکی فوجی دستوں کے کردار پر سرسری نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے محض یہودی ریاست کے مفاد کی خاطر اس ملک میں بلؤوں، بغاوتوں اور خانہ جنگیوں سے دوچار کئے رکھا اور خود شام کے تیل کے کنوؤں کو ہتھیانا چاہتے ہیں۔ آج بھی امریکیوں کا حلیف ملک ترکی ادلب پر قبضہ جمانے اور شام کے شمالی علاقوں میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کا راستہ روکنے میں مصروف ہے۔ لبنان میں امریکہ کے تخریبی کرداروں کا تازہ ترین واقعہ یہ تھا کہ لبنانی عدالت کے کچھ ججوں نے امریکیوں کے دباؤ کے تحت اسرائیل کے ایجنٹ اور لبنانیوں کے قاتل عامر الفاخوری کو جیل سے رہا کردیا اور گوکہ لبنانی سرکار نے سرحدوں اور ائیرپورٹ پر الفاخوری کی دوبارہ گرفتاری کے لئے انتظامات کر لئے تھے مگر وہ کہیں اور جانے کے بجائے بیروت میں لبنانی سفارتخانے پہنچا جہاں سے ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر نے اسے لبنان سے قبرص منتقل کردیا۔  

اس میں شک نہیں ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں امریکی سفارتخانے جاسوسوں کے گھونسلے ہیں اور لبنان میں بھی اس کا کردار تخریبکارانہ ہے لیکن عراق میں امریکی سفارتخانے کا کردار لبنان اور دوسرے ممالک کی نسبت دسوں گنا تخریبکارانہ ہے؛ کیونکہ یہ نام نہاد سفارتخانہ در حقیقت ایک بڑا فوجی اڈہ ہے جہاں ایک ہوائی اڈہ بھی موجود ہے جہاں سے امریکی جنگی اور باربردار طیارے پرواز کرتے ہیں اور باہر سے بھی بغداد آنے والے امریکی جنگی اور باربردار طیارے سفارتخانے کے احاطے میں اترتے ہیں جبکہ عراقی شخصیات اور عوام و حکومت کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ یہ طیارے عراق سے کونسی چیزیں لوٹ کر لے جاتے ہیں اور باہر سے کیا سفارتخانے میں منتقل کررہے ہیں؟

امریکیوں کی بڑی اور بےشرمانہ غلطی یہ ہے کہ عراق کے حق میں اتنی عظیم خیانتوں اور جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود وہ عراقیوں سے بھی اسی طرز سلوک کی توقع رکھتے ہیں جو وہ خلیج فارس کی خوردبینی ریاستوں سے رکھتے تھے اور عراق میں بھی اسی طرح کے فوجی اڈے تعمیر کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے قطر، امارات، کویت، بحرین اور سعودی عرب میں قائم کئے ہیں اور یہ کام وہ عراقی سیاستدانوں، حکام اور عوام کی لاعلمی میں کرنا چاہتے ہیں؛ حالانکہ خلیج فارس کی عرب ریاستوں پر مسلط قبائل ـ جو امریکی حمایت کے بغیر دو ہفتوں تک بھی اپنی حکومت قائم رکھنے سے عاجز ہیں ـ کے برعکس عراقی عوام نہایت محب وطن ہیں اور وہ اپنی مٹی پر کسی بھی اجنبی کی موجودگی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور جبکہ عراقی جماعتیں اور عوام حتی کہ امریکی سفارتخانے کی مکمل بندش کے بھی خواہاں ہیں۔ چنانچہ منصف مبصرین ـ حتی کہ امریکی دانشور اور تجزیہ نگار ـ امریکی افواج کو مشورہ دیتے ہیں کہ ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ فوری طور پر پرامن ماحول میں عراق سے مکمل اور فوری انخلاء کا انتظام کریں کیونکہ یہ امریکیوں کے لئے عراقی حکومت کے کردار سے مایوسی کا اظہار کرنے سے بہت بہتر ہے؛ کیونکہ شہید سلیمانی اور شہید المہندس پر امریکی دہشت گردانہ حملے کے فورا بعد عراقی حکومت اور پارلیمان نے باضابطہ طور پر امریکیوں سے کہا ہے کہ عراق کو چھوڑ کر چلے جائیں چنانچہ اگر وہ انخلاء کے اس پرامن آپشن کو مسترد کریں گے تو انہیں اپنے جوان اور افسران کی لاشوں کو امریکی پرچم میں لپیٹ کر لے جانا پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ: العالمی ٹی وی ڈاٹ نیٹ
ترجمہ: فرحت حسین مہدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

/110


تبصرے
Loading...