عبید اللہ ابن زیاد لعین کا دربار

شیخ مفید    ،سیّد ابن طاووس  ، علامہ مجلسی  ، اس بارے میں اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ:

قافلہ آل محمد کے ورود کے بعد ابن زیاد نے اپنے دربار میں جیت کی خوشی میں ایک جشن کا انعقاد کیا  اور لوگوں کے آنے جانے پر سے پابندی ہٹا دی اور حکم دیاکہ سر حضرت ابا عبداللہ الحسین کو میرے سامنے لایا جائے اسکے حکم کی تعمیل کی گئی اور سرکار سیّد الشہداء کاکٹا ہوا سر ابن زیاد کے سامنے رکھا گیا اور حکم دیا  کہ تمام عورتوں اور بچّوں کو وارد دربار کیا جائے حضرت زینب کبریٰ ایک بوسیدہ لباس پہنے ہوئے اجنبیوں کی طرح  دربار میں داخل ہوئیں اور ایک گوشے میں آکر  بیٹھ گئیں اور کچھ کنیزوں نے   آکر آپ کے اطراف میں حلقہ بنا لیا ، ابن زیاد نے کہا کہ یہ خاتون کون ہے جو ایک گوشے میں بیٹھی ہوئی ہےاور  جس کو کنیزوں نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے ؟

     کسی نے کوئی جواب نہیں دیا: اس نے مسلسل اس سوال کو تین بار دہرایا  تیسری بار  ایک کنیز نے جواب دیا  :”ھذہ زینب بنت فاطمۃ و بنت علی :یہ خاتون فاطمہ اور علی  کی بیٹی زینب کبریٰ ہیں۔  ابن زیاد نے نہایت ہی بے شرمی اور بے حیائی سے کہا  “الحمد للہ الذی  فضحکم و اکذب احدوثتکم “خداکا شکر کے اس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہارے کلام کے کذب کو سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا زینب کبریٰ نے جواب دیا؛ “انّما یفتضح الفاسد و یکذب الفاجر وھو غیرنا “ابن زیاد !فاسق رسوا ہوتا ہےاور فاجر جھوٹ بولتاہے اور وہ ہم نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہے 

ابن زیاد نے مزید خستاخی کرتے ہوئے کہا ؛ “کیف صنع اللہ باخیک و اھل بیتک ” تم نے اللہ کے امر کو اپنے بھائی اور اہل بیت کے بارے میں کیسا پایا ؟ زینب کبریٰ  نے ارشاد فرمایا ؛” ما رایت الا جمیلا ” میں نے اللہ سے بہتری کے سوا کچھ مشاہدہ نہیں کیا ِ،” فانظر لمن الفرج یومیذ ثکلتک امّک یابن مرجانۃ ” اے مرجانہ کے بیٹے دیکھ !آج کون کامیاب ہوا  تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے  ،ابن زیاد ، یہ منہ توڑ جواب سن کر غصّہ میں آگیا  “کانّہ ھمّ بھا” گویا حضرت زینب کو قتل کرنا چاہا ،”فقال لہ عمر ابن حریث انّھا امراُۃ و المراُۃ لاتاخذ بشیء من منطقھا” عمر ابن حریث  مخزومی نے کہا اے ابن زیاد !یہ ایک  غم زدہ عورت ہے اور کسی عورت کو اس کی باتوں کی  بنا پر  سزا نہیں دی جاسکتی   

اس کے بعد ابن زیاد نےایک مضحکہ خیز مسکراہٹ کے ساتھ  حضرت امام حسین  کے کٹے ہوئے سر کی طرف دیکھا اور ایک چھڑی  سے کہ جو اس کے ہاتھ میں تھی  حضرت ہای مبارک  پر گستاخی کرنے  لگا زید ابن ارقم نے ” جو کہ رسول خداکے مشہور صحابیوں میں سے ایک تھے” ابن زیاد سے  کہا کہ اے پسر مرجانہ  اس چھڑی کو ان لبوں اور دندان مبارک سے ہٹالے  “فو اللہ الذی لاالہ الاھو ” اس خداکی قسم کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے  میں نے خود رسول خداکوان لبوں پر لب رکھ کر بوسہ لیتےہوئے دیکھا ہے  یہ کہکر روتے ہوئے دربار سے اٹھ کر جانے لگے ، ابن زیاد چلّایا کہ زید بن ارقم اگر بوڑھے اور کمزور نہ ہوتے تو میں تمہاری گردن مار دیتا ،زید بن  ارقم نے کہا ابن زیاد !میں نے پیغمبر خدا کو دیکھا ہے کہ حسن کو اپنے دائیں زانوں پر اور حسین کو اپنے بائیں زانوں پر بیٹھا یا  اور دونوں نواسوں کے سروں پر دست مبارک رکھ کر فرمایا:خدایا!میں   نے ان دونوں کو تیرے سپرد کر دیا،اے ابن زیاد اب تو دیکھ تونے رسول اللہ کی چھوڑی ہوئی امانتوں کے ساتھ کیاسلوک کیا ہے    

 اب اس کے بعد ابن زیاد نے سیّد سجّاد کی طرف دیکھا اور اپنے اطراف والوں سے سوال کیا یہ جوان کون ہے ؟ جواب ملا: یہ علی ابن الحسین  ہیں ؛اس نے کہا کہ خدانے اس کو قتل نہیں کیا؟ امام سجاد  نے ایک جملہ ارشاد فرمایا ؛”اللہ یتوفی الانفس حین موتھا” ابن زیاد بوکھلاکر کہنے لگاکہ تمہاری یہ جرات کیسے ہوئی کہ میری بات کاجواب دو اس کو باہر لے جاؤ اور گردن اڑادو۔ 

جب زینب کبریٰ  نے اس فرمان کو سنا تو ابن زیاد سے کہا ؛اے ابن زیاد !تو نے ہمارے خاندان میں سے اتنے لوگوں کاخون بہایا ہے اب بھی تیرادل نہیں بھرااب ان کے علاوہ ہمارا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اور یہ کہہ کر سیّد سجاد  کو اپنی بانہوں  میں لے لیا اور فرمایا ؛” واللہ لا افارقہ فان فاقتلنی معہ”خداکی قسم اس  سے جدانہ ہوں گی !اگر میرے بھتیجے کو قتل کرنا چاہتا ہے تو  مجھے بھی  قتل کر دے ،ابن زیاد نے کہا؛اس محبت پر مجھے تعجب ہو رہاہے اور وہ اپنے ارادے سے باز آگیا 

الاشاد امفید،ج۲ ص۱۱۶۔۱۱۷ الملہوف علی قتلی الطفوف،سیّد ابن طاووس،ص۲۰۲  منتھی الآمال،ج۲ ،ص۹۹۴۔۹۹۵ تاریخ الطبری ج،۴ ص۳۵۰

تبصرے
Loading...