عالمگیریت، تاریخ کا خاتمہ اور مہدویت

ازل سے خاتم (ص) تک تمام انبیاء (ع) کی جانب سے حضرت حجت کے بارے میں نہایت اونچے درجے کی تعبیرات وارد ہوئی ہیں اور تقریباً الہی اور ابراہیمی ادیان میں سب سے زیادہ سماجی موضوع، موعود کی بشارت اور نجات دہندہ کا وعدہ ہے۔ اور سارے انبیاء عظام نے کہا ہے کہ انبیاء اور ادیان کا کار ناتمام اس عظیم انسان کے ہاتھوں مکمل ہوگا. انہوں

زل سے خاتم (ص) تک تمام انبیاء (ع) کی جانب سے حضرت حجت کے بارے میں نہایت اونچے درجے کی تعبیرات وارد ہوئی ہیں اور تقریباً الہی اور ابراہیمی ادیان میں سب سے زیادہ سماجی موضوع، موعود کی بشارت اور نجات دہندہ کا وعدہ ہے۔ اور سارے انبیاء عظام نے کہا ہے کہ انبیاء اور ادیان کا کار ناتمام اس عظیم انسان کے ہاتھوں مکمل ہوگا. انہوں نے کہا ہے کہ تاریخ کا سب سے عظیم فریضہ سرانجام دینا تاریخ کے سب سے بڑے انسان کا کام ہے۔ حتی جن مکاتب کو غیر الہی بنایا گیا ہے اور ان کے اندر سے الوہیت اور الہیت کا عقیدہ تک نکال دیا گیا ہے وہ بھی کسی نہ کسی انداز سے اس موضوع کے بارے میں سوچتے اور بولتے رہے ہیں؛ گوکہ ان مکاتب نے امام موعود کا نام نہیں لیا ہے مگر ان کے آنے کی بشارت میں دوسروں سے پیچھے بھی نہیں رہے ہیں؛ حتی مارکسزم جیسے الحادی مکاتب بھی آخرالزمان کے مسئلے میں خاموش نہیں رہ سکے ہیں. بدھ مت، عیسائیت اور یہودیت بھی ـ جو انسانوں کے سب سے بڑے مجموعے کو اپنے زیر نگین لائی ہوئی ہیں ـ اس بارے میں اپنے اپنے موقف کا اعلان کرتی رہی ہیں. یہودی اب بھی حضرت مسیح (ع) کا انتظار کررہے ہیں اور مسیحی حضرت مسیح (ع) کے دوبارہ ظہور کے منتظر ہیں. تمام مذاہب و ادیان اور تمام فرقے اور مکاتب مستقبل میں اور تاریخ کے خاتمے پر “بڑی فراخی” کے منتظر ہیں.

میں اس مضمون میں بتانا چاہوں گا کہ آج کئی عشروں سے تاریخ کے خاتمے اور مقصد وغایت کی نفی کے لئے سرتوڑ کوششیں کرنے والے عناصر بھی، جو دعوی کیا کرتے تھے کہ اصولی طور پر انسانی حیات اور اس کی تاریخ کی کوئی روشن و واضح ابتداء نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی واضح انتہا ہے اور یہ کہ انسانی حیات کی کوئی بھی اصولی اور بنیادی سمت نہیں ہے، اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو‌ئے۔ لبرلزم کے حامیوں نے تقریباًَ پچاس ساٹھ برسوں سے نظریئے بگھارے کہ تاریخ کی کوئی غایت ہی نہیں اور لبرلزم کا آخری نظریہ پرداز سیموئل فوکویاما ہے جس نے نظریہ «تاریخ کا خاتمہ» پیش کیا [حال ہی میں یہ شخص اپنی نظریئے سے تائب ہؤا اور بش کے ولچرز گروپ سے الگ ہوکر اوباما کے گروپ میں آگیا] مگر ان کی تاریخ کے خاتمے کا نظریہ در حقیقت ان کے اپنے مقصد کے لئے ہے اور مقصد دنیا میں لبرل سرمایہ داری نظام کو دوام و استحکام بخشنا ہے۔

روایات میں حضرت مہدی (عج) کو زمانوں کی بہار سے موسوم کیا گیا ہے اور جو سلام حضرت مہدی (عج) کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں ان میں ایک یہ ہے: “السلام علی یا ربیع‌الانام و نضرة الایام” سلام ہو آپ پر اے بہار انسانیت؛ اے زمانوں کی رونق اور اے تاریخ کی طروات.

جو لوگ آپ کی خدمت میں شرف دیدار سے مستفیض ہوئے ہیں انہوں نے آپ (عج) کے ظاہری شمائل کے بارے میں توصیفات پیش کی ہیں اور نبی اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین (ع) نے بھی آپ کی بعض توصیفات بیان کی ہیں اور محققین کے قلمی آثار میں یوں بیان ہؤا ہے کہ: گندمی چہرہ، ہلالی اور کشیدہ ابرو، سیاہ اور موٹی آنکھیں، جاذب نظر اور نافذ البصر، چوڑے شانے، چمکتے دانت، لمبی اور خوبصورت ناک، اونچی اور دمکتی پیشانی، بدن کی ساخت چٹانوں کی مانند مضبوط، رخسار کم گوشت اور شب بیداری کی وجہ سے زردی مائل، دائیں رخسار پر خال کا نشان، پیچیدہ اور مضبوط عضلات، سر کے بال کانوں پر شانوں تک لٹکے ہوئے، خوبصورت اور متناسب و متوازن اعضاء جسمانی، خوش سیما قیافہ، رخسار پر کرامت و بزرگواری کے زیر اثر حیاء کے مخفی اور شکوہمند آثار، ہیئت، قیادت و سیادت کی حشمت و شکوہ سے سرشار، نگاہ دگرگوں کردینے والی اور گرج ہمہ گیر اور بحر و قلزم کی مانند ہے۔

میں اپنے اس مضمون کی ابتداء میں دو نظریات، انسانی تاریخ کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر اور حیات و مدنیت کے بارے میں دو فلسفہ ہائے حیات کا موازنہ اور تقابلی جائزہ پیش کرتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کون سا نظریہ اور نقطہ نظر مہدویت سے جوڑ رکھتا ہی اورکون سا جوڑ نہیں رکھتا اور دوسرے حصے میں آپ (عج) کے بارے میں یا آپ (عج) سے ہی منقولہ روایات کا ذکر کروں گا اور یہ بیان کرنا چاہوں گا کہ آپ (عج) کس قسم کے معاشری کی تشکیل کریں گے اور کس قسم کی حکومت کی داغ بیل ڈالیں گے اور انسانی روابط اور البتہ انسانی حقوق کی تعریف آپ (عج) کی حکومت میں کیسی ہوگی. فہرست وار اور مختصر لکھنا چاہوں گا گو کہ ہر روایت اپنی جگہ ایک مستقل اور مفصل علمی کانفرنس کا موضوع ہوسکتی ہے۔

کہا گیا ہے کہ “انتظار” “واقعیت” (Reality) اور “حقیقت” (Truth or Fact) کا آمیزہ یا ترکیب ہے. واقعیت وہ ہے جو موجود ہے اور حقیقت وہ ہے جو موجود نہیں ہے مگر اسے موجود ہونا چاہئے. [بالفاظ دیگر واقعیت وہ ہے جو واقع ہؤئی ہے چاہے وہ حق ہو یا باطل ہو اور حقیقت حق ہے چاہے واقع ہوئی ہو یا واقع نہ ہؤئی ہو] کہا گیا ہے کہ انتظار واقعیت اور حقیقت کے درمیان تضاد سے وجود میں آتا ہے۔ “جو ہے” سے حرکت کرکے « ہونا چاہئے» کے مرحلے کی طرف چلنا. پس پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کی تفسیر کے لئے دو زاویۂ نگاہ آج موجود ہیں: اوّل: وہ نظریہ جو مسیانزم Messianism یا انتظار مسیح موعود کے بارے میں ہے اور یہاں مسیح سے مراد موعود ہے اور مسیانزم موعود کے انتظار کی دعوت ہے۔ انسانیت کی سطح پر ظہور موعود کا انتظار اور حال موجود پر تنقید ـ جو تاریخ کے خاتمے پر حق و عدل کی قطعی فتح و نصرت کی بشارت کے ہمراہ ہے ـ اور اس کو فوٹورزم Futurism [مستقبل کی طرف میلان] بھی کہا گیا ہے۔ فوٹورزم مستقبل پسندی یا مستقبل کی طرف نگاہ رکھنے کو کہا جاتا ہے؛ یعنی وہ عقیدہ یا آئیڈیالوجی جس کا رخ آئندہ کل کی طرف ہے؛ جس کے مطابق ساری چیزیں مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں؛ دنیا کا ابھی خاتمہ نہیں ہؤا؛ محرومین کو مأیوس نہیں ہونا چاہئے؛ آزادی و عدل و آگہی کی راہ میں جدوجہد کرنے والے مجاہدین اپنے جہاد اور جدوجہد سے نادم نہ ہوں؛ جن لوگوں کو دو بار چار بار نفاذ عدل و آگہی کی راہ میں شکست ہوئی ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ سب کچھ ختم ہؤا ہے۔؛ مستقبل کی طرف دیکھیں؛ سر اپنا اونچا رکھیں. آپ کے شہیدوں نے قربانیاں دی ہے؛ آپ کو صدمے اور نقصانات پہنچے ہیں؛ آپ کو ضرر و زیاں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔؛ آپ کو بعض محاذوں پر پسپا ہونا پڑا ہے مگر اپنا سر اونچا رکھیں. فوٹورزم یعنی یہ کہ آپ اپنی نظر قطعی اور یقینی طور پر امید کے ساتھ مستقبل پر رکھیں اور آج کے غروب کے عقب میں کل کا طلوع تصور کریں؛ شادماں ہوجائیں. یہ نظریہ رائے عامہ کو فریب دینے کے لئے نہیں ہے۔

بعض مصلحت پسند اور اپنے عقائد کے اثبات میں تعصب پسند Pragmatist عناصر کہتے ہیں کہ خواہ امام زمانہ (عج) کا حقیقت میں وجود نہ ہی ہو، ان پر عقیدہ رکھنا مفید ہے !

ہمیں ان عناصر کے جواب میں کہنا چاہئے کہ نہیں! امام زمانہ (عج) حقیقت بھی ہے اور ان پر عقیدہ رکھنا مفید بھی ہے یعنی مہدویت حقیقت بھی ہے اور مفید بھی ہے۔

بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو مہدویت کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں اور اس عقیدے کا ادراک کرسکتے ہیں اور باور کرسکتے ہیں مگر قطعیت پسندی Dogmatism اور اپنے عقیدے پر بغیر دلیل کے اصرار کرنے ، تجربہ پسندی Positivism اور عالم حس کی جزمیات میں مبتلا ہوئے اور انبیاء کے ہاتھوں مادہ اور طبیعت کے ماوراء حقائق کی طرف کھلنے والے دریچے سے جھانکنے پر آمادہ نہیں ہوئے وہ شاید امام زمانہ کے عقیدے کو حقیقت اور اعتبار سے عاری سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ اس عقیدے کو مفید قرار دیں [جو لوگوں میں امید و نشاط کا جذبہ زندہ رکھتا ہے] حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام زمانہ (عج) کا قصہ ایک افسانہ نہیں ہے اور اس عقیدے پر کسی صورت میں بھی افسانویت کا الزام نہیں لگنا چاہئے. امام زمانہ کے قصے میں “حقیقت” اور “فائدہ” دونوں ایک ساتھ موجود ہیں.

پس ایک تفکر میں انسان کے مسقبل اور تاریخ کی طرف نگاہ رکھی جاتی ہے جنہیں مغرب میں مسینزم اور فوٹورزم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی وسیلے سے اس تفکر پر وار کیا گیا، کیونکہ تاریخ زندہ ہے اور فعال ہے اور ایک ذی شعور موجود کی طرف سے اس کو آگے کی طرف چلایا جارہا ہے؛ اور انسان کی عاقبت دلدل اور ابہام پر منتج نہ ہوگی؛

تبصرے
Loading...