عاشورا کا انقلاب اور امام حسین علیہ السلام کے مقاصد

امام حسین علیہ السلام کا انقلاب باطل کے خلاف حق کی جدوجہد اور الہی تحریک تھی اور یہ قیام سنہ 61 ہجری تک محدود نہیں رہا بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات، اسباق اور اہداف واضح سے واضح تر ہورہے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کا انقلاب باطل کے خلاف حق کی جدوجہد اور الہی تحریک تھی اور یہ قیام سنہ 61 ہجری تک محدود نہیں رہا بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات، اسباق اور اہداف واضح سے واضح تر ہورہے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام دین اسلام کے سچے اقدار کے تحفظ کو اپنا ہدف و مقصد قرار دیتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت کے بعد دین میں بدعتیں ظاہر ہوئی تھیں اور دین اور سنت کا چہرہ مخدوش ہوچکا تھا اور یہ صورت حال امام کے زمانے میں انتہا کو پہنچی تھی، معاشرہ انحراف کے راستے پر گامزن ہوچکا تھا اور بنیادی اصلاحات کی ضرورت آن پڑی تھی۔ چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے زمانے کے بادشاہوں سے بیعت نہ کرکے لوگوں کو ان انحرافات اور بدعتوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ معاشرے اور عمومی ثقافت کی اصلاح آپ کے مقاصد میں شامل تھی اور آپ نے جہل اور باقیماندہ جاہلیت کے خلاف انقلاب بپا کیا۔
چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے مختلف زمانوں کے انسانوں کو کچھ پیغامات دیئے ہیں۔
حریت کا پیغام:
حریت اور آزادی سے آج کی دنیا میں مرسوم اخلاق اور اقدار اور حدود سے آزادی مراد نہیں ہے بلکہ آزادی کے معنی یہ ہیں کہ انسان ظلم و جبر کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرے۔
ایک آزاد انسان اپنے اصولوں اور اعتقادات کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے لیکن جب اس کے اصول اور اعتقادات اور فردی اور سماجی حقوق پر حملہ ہوتا ہے تو وہ چین سے نہیں بیٹھتا اور دستیاب وسائل لے کر احتجاج کرتا ہے چنانچہ امام حسین علیہ السلام عزت کی موت کو ذلت کی زندگی سے برتر و بالاتر قرار دیا۔
عزت نفس:
انسانی تربیت کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اس کو روحانی بلندی ملے اور اپنے آپ کو پستی اور ذلت سے آزاد کرا دے۔ اپنے لئے حرمت و شرافت کا قائل ہوجائے اور اپنی عظمت کو ہر حال میں محفوظ رکھے؛ ایسی صورت میں سختیاں، دشواریاں، ناکامیاں اور حتی کہ کامیابیاں اس کو سستی اور تباہی سے دوچار نہیں کرسکتیں اور وہ کسی حال میں ذلت کو گلے نہیں لگائے گا۔ انقلابِ عاشورا میں امام حسین علیہ السلام کا قیام نمایاں طور پر عزت نفس پر استوار ہے۔ آپ مکہ سے سے کربلا روانہ ہونے لگے تو بھائی محمد حنفیہ نے تجویز دی کہ آپ اپنی جان کے تحفظ کے لئے یزید کے ہاتھ پر بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:
“میں نے کبھی بھی ذلت اور پستی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ہے”۔
امام(ع) کے اس فرمان کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا مکتب انسانی عزت و عظمت پر استوار ہوچکا ہے۔
ایثار اور قربانی:
ایثار اور قربانی اس بات کی دلیل ہے کہ ایک شخص کے پاس کوئی شیئے ہے اور اس کو اس کی ضرورت بھی ہے لیکن وہ دوسروں کو اپنے آپ پر مقدم رکھتا ہے یا پھر سماجی مقاصد کو فردی اور شخصی مقاصد پر مقدم رکھتا ہے؛ جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے دین کے حقیقی اصولوں کی پاسداری کے لئے اپنی اور اپنے انصار و اعوان اور افرادِ خاندان کی جانیں اخلاص کے ساتھ قربان کردیں تاکہ دین کا بول بالا ہو اور انحرافات آشکار ہوجائيں۔
عہد وپیمان کی وفا اور پابندی:
امام(ع) کے اصحاب نے کربلا میں عہد و پیمان کی وفا اور پابندی کی انتہا کردی یہاں تک کہ امام علیہ السلام اپنے اصحاب کو بہترین اصحاب سمجھتے ہیں جو بدترین حالات میں اپنے عہد و پیمان پر استوار رہے اور اپنی دنیاوی حیات کے آخری لمحے تک امام(ع) کے ساتھ ثابت قدم رہے۔
 

یہاں ہم کلام امام حسین علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آپ خود کیا فرماتے ہیں لیکن کچھ الفاظ تمہید کے طور پر بیان کرنا ضروری ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی سماجی اور سیاسی حیات دو حصوں میں منقسم ہے:
1۔ معاویہ کا دور
2۔ یزید کا دور
در حقیقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال سے شروع ہونے والے انحرافات، جو خلافت علوی سے قبل کے دور میں اپنی وسعتوں تک پہنچ چکے تھے اور اس دور میں معاویہ شام کا والی رہا اور اس نے اپنی طاقت اس علاقے میں مستحکم کی تھی اور وہ اموی جماعت کو اسلامی امت پر مسلط کرچکا تھا۔
سوال یہ ہے کہ معاویہ نے امام حسن مجتبی علیہ السلام کے ساتھ صلح کرلی تھی اور پہلے دن ہی صلح نامے کو پاؤں تلے روند چکا تھا اور ایک لمحے تک بھی اس کا پابند نہیں رہا تھا؛ تو پھر امام حسین علیہ السلام نے بھائی امام مجتبی کی شہادت کے بعد معاویہ کے خلاف قیام کیوں نہیں کیا؟
اور جواب یہ ہے کہ معاویہ امام حسن علیہ السلام کو شہید کرچکا تھا اور امام حسین علیہ السلام کو نشانہ بنانے کے لئے موقع کی تلاش میں تھا اور اگر امام حسین صلح کی خلاف ورزی کرتے تو معاویہ اس بہانے سے آپ کو شہید کرسکتا تھا کیونکہ بےبصیرت امت اس کو خلیفۂ مسلمین سمجھتی تھی اور دوسری طرف سے معاویہ بھی ظاہری طور پر قرآن اور سنت رسول(ص) کا پابند نظر آتا تھا چنانچہ اگر امام حسین(ع) قیام کرتے تو معاویہ اسی امت کی مدد سے اس قیام کو صلح کی خلاف ورزی اور بغاوت کے عنوان سے کچل سکتا تھا۔
تاہم امام علیہ السلام نے معاویہ کے زمانے میں بھی خاموشی اختیار نہيں کی تھی اور اس کے خلاف اعلانیہ موقف اپنایا اور اس ظالم اموی حکمران کے رویوں پر بھرپور احتجاج کیا۔ معاویہ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں یزید کے لئے بیعت لینے کی مہم چلائی تو حسین بن علی علیہم السلام اور عبداللہ بن عباس کو سب سے پہلے اس کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن امام نے اس کی شدید مخالفت کی اور یزید کی بھونڈی عادات کا حوالہ دے کر اس کو نا اہل شخص قرار دیا۔
مثال کے طور پر مرگِ معاویہ سے 2 سال قبل امام علیہ السلام نے حج کے موقع پر صحابہ اور تابعین کو ایک خطبہ دیا اور معاویہ کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا:
“۔۔۔ تم نے دیکھا کہ اس جابر اور ظالم شخص (یعنی معاویہ) نے ہمارے اور ہمارے پیروکاروں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟ میں یہاں بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہوں اگر میں صحیح کہوں تو تصدیق کرو ورنہ میر بات کو جھٹلاؤ۔ میری باتوں کو سنو اور لکھو اورجاکر اپے وطن میں قابل اعتماد افراد کے ساتھ ان پر گفتگو کرو اور انہیں ہماری امامت کی طرف بلاؤ۔ کیوںکہ مجھے خوف ہے کہ اگر ہم اہل بیت کی قیادت و امامت کو بُھلا دو گے تو حق نابود اور مغلوب ہوگا”۔
اس خطبے میں امام(ع) نے اعلانیہ طور پر حکومت کو اہل بیت کا حق قرار دیا جو نہایت اہم اعلان تھا کیونکہ معاویہ ابھی زندہ تھا۔
ایک بار یمن کا بیت المال شام بھجوایا جارہا تھا تو امام حسین نے اس کو ضبط کرکے مدینہ کے غرباء اور محتاجوں کے درمیان تقسیم کیا اور معاویہ کو خط لکھ کر اس کی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔
بہرحال معاویہ کا دور گذر گیا اور یزید کی حکومت قائم ہوئی اور حالات بالکل بدل گئے اور یوں امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی شروع ہوا۔
شیخ مفید کتاب “الارشاد” میں معاویہ کے بعد کے حالات کو یوں بیان کرتے ہیں:
“معاویہ کی موت اور صلح کے غیر معتبر ہونے کے بعد امام حسین علیہ السلام نے اپنی امامت کا اظہار اور اپنی ولایت کا اعلان کیا؛ جہاں تک ممکن تھا امام(ع) نے دعوت کا اظہار کیا اور ہر موقع مناسبت سے اپنے الہی حق کو ان لوگوں کے لئے بیان کیا جو اس سے بےخبر تھے۔ یہاں تک کہ کچھ اصحاب جمع ہوئے اور بعدازاں لوگوں کو راہ خدا میں جہاد کی دعوت دی اور دشمنان حق کے ساتھ جنگ کی تیاری کی”۔
فسق و فجور کی حکمرانی
یزید کی حکمرانی اعلانیہ فسق و فجور کی حکمرانی تھی وہ نوجوان اور عیاش تھا اور بڑی آسانی سے اسلامی مقدسات کو پامال کرنے لگا تھا چنانچہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے لئے حالات بالکل سازگار ہوچکے تھے۔
فاسق حکمران کی بیعت سے انکار
آپ سب جانتے ہیں کہ یزید نے مدینہ میں اپنے گورنر ولید بن عُتبہ کو خط لکھا کہ امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے اور اگر انکار کریں تو آپ کا سر قلم کردے اور امام علیہ السلام نے ولید کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
“ہم اہل بیتِ نبوت ہیں اور یزید ایک فاسق اور شراب خوار، نفسِ محترمہ کا قاتل اور اعلانیہ فسق و فجور کرنے والا شخص ہے اور جان لو کہ مجھ جیسا یزید جیسے کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتا”۔
اور مروان کی طرف سے بیعتِ یزید کے مطالبے کے جواب میں فرمایا: “اب تو بس اسلام کے ساتھ وداع کرنی چاہئے کیونکہ امت یزید جیسے حکمران سے دوچار ہوچکی ہے اور میں نے رسول اللہ(ص) سے سنا ہے کہ خلافت آلِ ابو سفیان پر حرام ہے”۔
امام معصوم ہی معاشرے کی قیادت کا اہل
امام(ع) نے مدینہ سے مکہ تک اور مکہ سے کربلا تک سفر کے مختلف مراحل میں خطبے دیئے، بنو امیہ کے مظالم برملا کئے اور حکومت کو اہل بیت کا حق قرار دیا۔ آپ نے حر بن یزید کے لشکر کا سامنا کرنے کے بعد نماز پڑھائی اور نماز کے بعد فرمايا:
“اے لوگو! اگر تم خدا سے ڈرتے ہو اور حق کو صاحبِ حق سے متعلق سمجھتے ہو تو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور ہم آل محمد امامت و ولایت کے زيادہ اہل ہیں ان لوگوں سے جو تمہاری ولایت و امامت کا دعوی کررہے ہیں۔ کیونکہ وہ محض تمہارے اوپر ظلم کرتے ہیں اور تمہارے دشمن ہیں اور اگر تم ہماری امامت کو ناپسند کرتے ہو یا ہمارے حق کو نہیں پہچانتے ہو اور اس وقت تمہاری رائے تمہارے خطوط اور قاصدوں کے ذریعے بیان کردہ رائے سے مختلف ہے تو میں اپنے فیصلہ ترک کردیتا ہوں اور واپس چلا جاتا ہوں”۔
البتہ یہاں فیصلہ ترک کرنے سے کوفہ جانے کے فیصلے کو ترک کرنا مراد ہے اور قیام کے فیصلے کو ترک کرنا مراد نہیں ہے۔ کیونکہ آپ نے کوفیوں کے خطوط موصول ہونے سے قبل ہی اپنے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں امر بِالمعروف اور نہی عَنِ المُنکَر اور اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے اٹھا ہوں۔  
امام نے کربلا میں لشکر یزید سے خطاب کرتے ہوئے بھی اپنی حقانیت اور دشمنوں کے باطل ہونے پر زور دیا اور فرمایا:
“تم پر کیا آپڑی ہے کہ میرے خلاف اٹھے ہو اور میرے دشمنوں کی مدد کررہے ہو؟ خدا کی قسم! اگر تم مجھے قتل کرو تو جان لو کہ تم نے حجتِ خدا کو قتل کیا ہے اور جان لو کہ انتہائی مغرب سے لے کر انتہائی مشرق تک میرے سوا کوئی بھی نہیں ہے جو پیغمبر کا بیٹا اور مخلوقات پر خدا کی حجت ہو”۔
ظلم کی مزاحمت
امام حسین علیہ نے بیضہ نامی مقام پر اپنے اصحاب اور لشکر حر سے خطاب کرتے ہوئے اپنے قیام کے اسباب یوں بیان فرمائے:
اے لوگو! بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا کہ تم میں سے جو بھی ایک جابر و ظالم حکمران کو دیکھ لے جو خدا کے حرام کو حلال کرتا ہے اور خدا کے ساتھ اپنے عہد کو پامال کرتا ہے، میری سنت کی خلاف ورزی کرتا ہے اور بندگانِ خدا کے درمیان ظلم و ستم روا رکھتا ہے اور وہ شخص خاموشی اختیار کرے اور زبانی کلامی طور پر اس جابر حکمران پر ملامت نہ کرے تو یہ خدا پر واجب ہے کہ اس خاموش مسلمان کو اسی ظالم حکمران جیسی سزا دے اور اور قیامت میں اس کو اسی کے ساتھ محشور اور جہنم روانہ کرے۔
جان لو کہ اس ظالم جماعت اور بنو امیہ کے جابر حکمرانوں نے مسلسل شیطان کی پیروی کی اور اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا اور رحمان کی اطاعت ترک کردی اور برائی اور فساد کو ظاہر کیا اور اللہ کی حدود کو معطل کیا، غنائم اور مسلمانوں کے اموال عامہ ـ جن کا تعلق پورے مسلمانوں سے ہے ـ  کو اپنے لئے مُختَص کیا، خدا کے حرام کو حال کیا اور خدا کے حلال کو حرام کیا اور مجھے دوسروں سے زیادہ حق ہے کہ ان مسائل کا سدباب کروں”۔
اس خطبے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے بنو امیہ کے ظلم کے سامنے سکوت سے منع کیا اور ایک بار پھر بنی امیہ کے فساد کی طرف اشارہ کرکے اپنی ولایت و امامت کا حق جتایا۔
امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے روانہ ہوتے ہی اپنے ساتھیوں کو جانفشانی کے لئے آمادہ کیا تھا اور مکہ سے نکلتے وقت بھی حاضرین کو اپنے عزم سے آگاہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ ظلم کے خلاف اپنے خون کے آخری قطرے تک استقامت کروں گا؛ فرماتے ہیں:  
“موت لڑکیوں کے گلے میں لٹکے ہوئے ہار کی مانند فرزندانِ آدم کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے اور مجھے اپنے آباء و اجداد سے جا ملنے کا اشتیاق اس قدر شدید ہے جس طرح کہ یعقوب یوسف سے ملنے کے مشتاق تھے۔
میری قتلگاہ پہلے سے تیار ہے اور گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرائی بھیڑیئے کربلا اور نواویس کے درمیان میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کررہے ہیں اپنے بھوکے پیٹ بھر رہے ہیں اور اپنی خالی تھیلیاں پُر کررہے ہیں۔ تقدیر کے لکھے سے فرار ممکن نہیں ہے ہم خاندان رسالت ہر اس پیش آنے والے واقعے پر راضي اور خوشنود ہیں جن پر اللہ راضی و خوشنود ہو۔ اور آزمائشوں اور بلا‎ؤں پر صابر ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ صابرین کو جزا دے گا۔ جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بدن کے ٹکڑے کسی صورت میں بھی آپ(ص) سے جدا نہیں ہوتے بلکہ جنت میں آپ(ص) کے گرد جمع ہونگے اور رسول اللہ(ص) کی آنکھیں ان کے دیدار سے روشن ہونگے اور آپ(ص) کے وعدوں کو آپ کے فرزند ہی پورا کریں گے۔  
اب جو ہماری راہ میں جان فدا کرنا چاہتا ہے اور اپنی جان اللہ کے دیدار کے لئے تیار کرچکا ہے وہ آئے اور ہمارے ساتھ عزیمت کرے اور میں انشاء اللہ کل صبح عزیمت کررہا ہوں”۔
ذلت اور پست فطرت لوگوں کی اطاعت ممنوع
امام علیہ السلام نے عاشورا کے دن بھی ظلم کے خلاف مزاحمت کے عزم کو یوں بیان فرمایا:
“آگاہ رہو کہ اس بےپدر پیدا ہونے والے کے بیٹے بےپدر پیدا ہونے والے نے مجھے دو چیزوں کے درمیان قرار دیا ہے “شمشیر اور ذلت” کے درمیان؛ اور دور ہو ہم سے، کہ ذلت قبول کریں۔ خداوند متعال، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مؤمنین ہمارے لئے ذلت پسند نہیں کرتے، اور نہ ہمیں پروان چڑھانے والی آغوش ـ جو طیب و طاہر ہے۔ اور عالی مرتبت جانیں، عزت کی موت کو پست اور رذیل افراد کی فرمانبرداری پر ترجیح دیتی ہیں۔ جان لو کہ میں اپنے اس چھوٹے سے خاندان کے ساتھ تمہارے ساتھ لڑوں گا جبکہ میرا کوئی یاور و مددگار نہیں ہے”۔  
اور پھر اپنے بعض اصحاب کی شہادت کے بعد فرماتے ہیں:
“اللہ کا غضب شدید ہوچکا ہے اس امت پر جو اپنے پیغمبر کے فرزند کے قتل کے لئے متحد ہوچکی ہے؛ خدا کی قسم! میں ان کی خواہش کو قبول نہیں کروں گا حتی کہ اپنے خون سے اپنے سر اور چہرے کا خضاب کروں اور اور اسی حال میں اپنے پروردگار سے ملاقات کروں”۔
یا پھر جنگ کے دوران رجز پڑھتے ہوں فرماتے ہیں:
“قتل ہونا مُقَدَم ہے ذلت کی زندگی سے”۔
 امت مسلمہ کے امور کی اصلاح
ایک اہم سند امام حسین علیہ السلام کی وصیت ہے جو آپ نے مدینہ سے نکلتے ہوئے محمد حنفیہ کے نام تحریر فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں:
“خدا کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ یہ وصیت ہے حسین بن علی بن ابیطالب کی طرف سے اس کے بھائی محمد المعروف بابن الحنفیہ کے نام ۔۔۔ حسین شہادت دیتا ہے کہ کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا اور محمد (ص) خدا کے بندے اور رسول ہیں اور جو کچھ وہ خدا کی طرف سے لائے ہیں وہ حق ہے اور جنت اور دوزخ حق ہیں اور آنے والی ساعت (قیامت) میں کوئی شک نہیں ہے اور خداوند متعال اٹھائے گا قبروں سے وہ جو ان میں ہے۔ اور بےشک اس قیام سے میرا مقصد نانا رسول اللہ (ص) کے دین میں داخل کی جانی والی برائیوں کی اصلاح کرنا، بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا، اپنے جدّ رسول خدا (ص) اور بابا علی بن ابیطالب (علیہما السلام) کی سیرت کا احیاء اور اس پر عمل کرنا اور کرانا، ہے”۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے اس وصیت نامے میں فرمایا ہے کہ بنو امیہ کے خلاف جدوجہد کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام اور رسول اللہ اور علی عَلیہِما السَّلام کی سیرت پر گامزن ہونا اور گامزن کرانا، بیان کیا ہے۔ جبکہ امت کی اصلاح اس وصیت کا ابتدائی موضوع ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وصیت نامے کا اصل موضوع ہی اصلاحِ امت ہے کیونکہ امر و نہی اور سیرت نبویہ اور سیرت علویہ پر گامزن ہونے کو بھی اصلاح امت کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سنتِ نبویہ کا اِحیاء اور بدعتوں کا خاتمہ کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے بعد بہت سی بدعتیں اسلامی معاشرے میں داخل ہوئیں اور آپ(ص) کی بہت سی سنتوں کو بُھلا دیا گیا۔
امام حسین علیہ السلام اپنی وصیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی سنت و سیرت پر عمل کرنے پر زور دیتے ہیں اور اسلام میں داخل کردہ بدعتوں کے خاتمے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں اور مکہ پہنچنے کے بعد بصرہ کے زعماء کے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
“۔۔۔ میں اپنے قاصد کو خط دے کر تمہاری طرف روانہ کررہا ہوں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسول(ص) پر عمل کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ ہمیں ایسے حالات کا سامنا ہے کہ سنت نبویہ مکمل طور پر نابود ہوچکی ہے اور بدعتیں زندہ ہوچکی ہیں۔ اگر تم میری بات سنو اور عمل کرو تو میں سیدھے راستے پر تمہاری راہنمائی کروں گا۔”
اللہ کے احکام کا احیاء اور مظلوموں کی مدد
امام علیہ السلام علامہ حَرّانی کی کتاب “تُحَفُ العُقُول” میں منقولہ خطبے میں اصلاحِ معاشرہ کے علاوہ سنت نبویہ کے احیاء پر زور دیتے ہوئے چند دوسرے مقاصد بھی بیان کرتے ہیں:
“اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ ہم نے جو انقلاب کیا اور امر و نہی کے قیام اور مظلوموں کی نصرت اور ظالموں کی سرکوبی کے لئے جو اقدامات کئے وہ اس لئے نہ تھے کہ ہم سلطنت اور مفاخرت انگیز اقتدار کی طرف رغبت رکھتے تھے اور نہ ہی ہم نے اس لئے قیام کیا کہ مال و دولت میں اضافہ کریں بلکہ مقصد یہ تھا کہ تیرے دین کی علامتوں اور نشانیوں کو دیکھ لیں اور تیرے شہروں اور ملکوں میں صلاح اور اصلاح کو ظاہر کریں تا کہ تیرے مظلوم بندے امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور تیرے واجبات اور سنتوں اور احکام کی تعمیل کی جائے۔
پس اے لوگو! اگر تم ہماری مدد نہیں کروگے اور انصاف کی رو سے ہماری طرف نہيں آؤگے تو یہ جابر و ظالم حکمران تم پر مسلط ہونگے اور وہ اپنی قوت تمہارے خلاف استعمال کریں گے اور تمہارے پیغمبر کا نور بجھاںے کی کوشش کریں گے”۔
حق کی طرف رجحان
امام علیہ السلام حر کی سپاہ کا سامنا کرنے کے بعد اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہیں اور یہ خطبہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ امام(ع) فرماتے ہیں:
“اے میرے اصحاب! دیکھ رہے ہو کہ کس طرح بلا اور شدت ہم پر وارد ہوئی ہے، بےشک زمانے کی راہ و رسم الٹ چکی ہے اور نہایت بدصورت اور ناپسندیدہ صورت میں ظاہر ہوئی اور اچھائی اور بھلائی میں سے کچھ باقی نہیں رہا سوا بہت ناچیز اور دلفریب اشیاء کے، اور الٹنے پلٹنے کا یہ عمل جاری رہا، اس دور میں جینا بہت ناخوشگوار ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ حق پر عمل نہيں ہوتا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا؟
اس صورت حال میں اگر ایک مردِ خدا کو چاہئے کہ اپنے لئے موت کی التجا کرے اور لِقاءِ پروردگار کی آرزو کرے۔ اور میں ان حالات میں موت کو سعادت اور خوشبختی ہی دیکھتا ہوں اور ظالموں اور پلیدوں کے ساتھ زندگی کو باعث ذلت اور شرمناک سمجھتا ہوں”۔   
اس خطبے میں امام علیہ السلام حق کی عدم تعمیل اور باطل کی خودنمائی کو شدت سے ناپسندیدہ سمجھتے ہیں۔ نیز اس خطبے میں بھی دوسروے خطبوں کی مانند دوسرے مسائل پر بھی تاکید ہوئی ہے اور ظلم و ستم کے خلاف ممکنہ حدود (یعنی مرتے دم) تک جدوجہد کو پہلے رتبے پر رکھا گیا ہے۔
آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب عاشورا کے سلسلے میں امام حسین علیہ السلام سے منقولہ خطبات اور روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ کے اس عظیم انقلاب کے مُحَرِّکات اور مقاصد، پس منظر اور پیش منظر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ گو کہ عاشورا سنہ 61 اور اس سے قبل اور بعد کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ممکن ہے کہ آپ کے بہت سے ارشادات ہم تک نہ پہنچ سکے ہوں۔
مختصر یہ کہ امام حسین علیہ السلام کے کلام میں تلاش کے نتیجے میں انقلاب عاشورا کے مقاصد کچھ یوں ہیں:
٭ ظالموں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت،
٭ رسول اللہ اور ائمہ کی سنت کو زندہ کرنا،
٭ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر،
٭ مسلمین کے امور و معاملات کی اصلاح،
٭ حق پر عمل کرنا اور باطل سے باز رکھنا،
٭ یزیدی فساد اور برائی کا مقابلہ کرنا وغیرہ،
٭ لوگوں کو یاد دلانا کہ ولایت اور امامت صرف ائمۂ معصومین کا حق ہے۔
امام(ع) نے بعض خطبوں میں قیام کے لئے صرف ایک ہی دلیل بیان کی ہے اور بعض میں کئی مقاصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کوفہ والوں نے امام علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو کوفیوں نے آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ جبکہ امام علیہ السلام نے کوفیون کے خطوط موصول ہونے سے قبل ہی مدینہ سے مکہ کی طرف عزیمت کرکے اپنے انقلاب کا آغاز کرلیا تھا اور آپ نے مدینہ میں ہی اپنے وصیت نامے میں اپنے انقلاب کے مقاصد بیان فرمائے۔ چنانچہ یہ بات درست نہیں ہے کہ کوفیوں کی دعوت ہی امام علیہ السلام کے انقلاب کا سبب تھی اور اگر کوفیوں کی دعوت نہ بھی ہوتی امام علیہ السلام نے اپنے انقلاب کا آغاز کرلیا تھا اور اپنے موقف سے ہٹنے والے نہیں تھے۔
اس سلسلے میں شہید مطہری کی کتاب حماسۂ حسینی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کی تو کوفیوں کی طرف سے کوئی خط موصول نہیں ہوا تھا اور آپ نے سورہ قصص کی آیت 21 کی تلاوت فرمائی:
“فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفاً يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ۔
ترجمہ: اور جب موسی علیہ السلام شہر سے نکلے، خوف زدہ، ہر لمحہ نئے حادثے کے منتظر، تو التجا کی اے میرے پروردگار مجھے چھٹکارا دے اس ظالم جماعت سے”۔
امام حسین علیہ السلام کی امامت کا دور ہر لحاظ سے ایک انقلاب کے لئے تیار تھا اور آپ نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسلام کو زندہ کیا اور عاشورا کا انقلاب بعد کے برسوں اور صدیوں میں جابر حکمرانوں کی متعدد تحریکوں کا سرچشمہ بنی اور حکمران اسلام کو وہ نقصان نہ پہنچا سکے جو وہ پہنچانا چاہتے تھے جبکہ بنو امیہ کی حکمرانی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔
ایک بہت اہم مسئلہ یہ تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے متعدد خطبوں میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ معاشروں کی امامت کا حق صرف امام معصوم کا حق ہے اور آپ اپنے آپ کو اس امر کے لئے دوسروں سے زیادہ اہل سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر امام معصوم کو عرفی اور دنیاوی قاعدوں کی بنیادوں پر نہ پرکھا جاتا اور اپنی سطحی نگاہوں سے ان کا دوسروں سے موازنہ نہ کرایا جاتا اور انہیں دوسروں کی سطح پر گرا کر نہ دیکھا جاتا تو یقینا ان کی حکومت قائم ہوتی اور اگر ایسا ہوتا تو آج تک مسلمانوں کی حالت یہ نہ ہوتی اور امام حسین علیہ السلام کو بھی شاید اتنی عظیم قربانیاں دینے کی ضرورت نہ پڑتی اور اگر آپ کے بعد بھی پورا معاشرہ آپ کے قیام کے اہداف سے صحیح طور پر آگاہ ہوجاتا تو پھر بھی مطلوبہ معاشرے کا قیام ممکن ہوتا اور امامت خاندان رسالت کی طرف لوٹتی لیکن دشمن پھر بھی طاقتور تھا، تشہیری اور ابلاغی مشینری حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی، جو جعلی احادیث کے کارخانے کھول چکی تھی اور قرآن کی غلط تفسیر و تاویل کرکے حقائق کو مخدوش کرکے پیش کرتی رہی اور مسلمانوں کے درمیان مختلف قسم کے عجیب و غریب فرقوں نے جنم لیا اور مسلمانوں کی بےبصیرتی کی وجہ سے بات یہاں تک پہنچی کہ ائمہ کو یکے بعد دیگرے شہید کیا گیا اور آخر کار امام زمانہ کو غائب ہونا پڑا۔
یا اللہ ہمیں بصیرت عطا فرما اور اپنے امام کے لئے راستہ ہموار کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔ سيماي پيشوايان در آيينه تاريخ، مهدي پيشوايي، مؤسسه انتشارات دارالعلم
2۔ تحف العقول، چاپ دفتر انتشارات جامعه مدرسين، قم
3۔ الارشاد، شيخ مفيد، ترجمه محمد باقر ساعدي خراساني، انتشارات اسلاميه،
4۔ لهوف، سيد ابن طاووس، ترجمه عليرضا رجالي تهراني، انتشارات نبوغ
5-لمعات الحسين (ع)، علامه سيد محمد حسين حسيني طهراني‌،انتشارات علامه طباطبايي، مشهد مقدس،
6۔ نفس المهموم، محدث قمي (ره)،
7۔ ‌مقتل الحسين خوارزمي،
8۔ مقتل الحسين، ابو مخنف، تحقيق حسن غفاري، قم،
9۔ حماسه حسيني، استاد شهيد مطهري، جلد سوم
10-سوره قصص، آيه 21، الارشاد ص377
11۔ سبحانی، سعید، آموزه های قیام عاشورا، مکتب اسلام،
12۔ بدیعیان، راضیه، تربیت دینی در سیره امام حسین(ع) در واقعه عاشورا، مجله دندانپزشکی جامعه اسلامی

تبصرے
Loading...