عاشقان حسين عليہ السلام کے ليۓ انعام

اور اسي کتاب ميں ايک دوسري جگہ چھٹے امام حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں کہ : قيامت کے دن منادي کرنے والا آواز لگاۓ گا : آل محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے شيعيان کہاں ہيں ؟ اس کے بعد لوگوں ميں سے لمبي گردنوں والے والے افراد اٹھيں گے جن کي تعداد حق تعالي کے سواء کسي کو بھي معلوم نہيں ہے –

اور اسي کتاب ميں ايک دوسري جگہ چھٹے امام حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں کہ :

قيامت کے دن منادي کرنے والا  آواز لگاۓ گا :  آل محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے شيعيان کہاں ہيں ؟

اس کے بعد لوگوں ميں سے لمبي گردنوں والے والے افراد اٹھيں گے جن کي تعداد حق تعالي کے سواء کسي کو بھي معلوم نہيں ہے –

اس کے بعد ندا لگائي جاۓ گي : قبر حسين عليہ السلام کے زائرين کہاں ہيں ؟

لوگوں کي  بہت بڑي تعداد کھڑي ہو جاۓ گي –

اس کے بعد انہيں کہا جاۓ گا : جس کو بھي عزير رکھتے ہو اس کا ہاتھ تھام لو اور اسے جنت ميں لے جاۆ – اس کے بعد  زائرين ميں شامل ہر ايک شخص جس کو چاہے گا پکڑ کر جنت ميں لے جاۓ گا –

بہر حال  يہ  وہ مخصوص انعام  ہے جو اللہ تعالي نے اپنے ولي حضرت امام حسين عليہ السلام کو عطا فرمايا ہے اور  اس ميں کسي قسم کا کوئي ابہام اور سوال باقي نہيں رہتا ہے  کيونکہ  خدا کي طرف سے کوئي کام بغير حکمت سے نہيں ہوتا ہے اور يہ مسئلہ بھي اسي قاعدے ميں شامل ہے –

جس طرح حضرت امام حسين عليہ السلام نے اپنے وجود کو خدا کے ليۓ قربان کيا اور خدا کي راہ ميں اپنا سب کچھ قربان کر ديا اور اپنے خون کو بہانے اور اپنے ايک ايک عزيز کے  ٹکڑے کروانے پر  تيار ہو گۓ – خدا تعالي نے بھي فاطمہ کے لال حسين پر سب کچھ قربان کر ديا  اور  اس سے محبت و عشق کرنے والوں کے ليۓ نجات ، اس کے ليۓ اشک بہانے  پر گناہوں کي بخشش اور اس کي قبر کي زيارت کو  اپنے قرب کا وسيلہ قرار ديا –

آج نہ صرف لوگوں ميں حسين عليہ السلام کي ياد اور نام زندہ ہے بلکہ ہر روز  عاشقان حسين عليہ السلام کي تعداد ميں اضافہ ہو رہا  ہے   اور اس  کے عزادار  اس عمل کو شعار الھي جان کر زيادہ کوشش کر رہے ہيں –

يہاں ايک بہت ضروري بات جس کا خيال رکھا جانا بہت ضروري ہے وہ تقوي الھي ہے جسے ہر عاجز انسان کو اپنے دل و دماغ ميں رکھنا چاہيۓ  اور ايسا بھي نہيں ہے کہ ہر کوئي جو چاہے کرتا پھرے اور گناہ اس کے وجود کا حصہ بن جاۓ اور وہ يہ سمجھتا پھرے کہ ايک بار ياحسين کہنے سے وہ بخشا جاۓ گا !

بلکہ بنيادي نقطہ جسے ذہن ميں رکھنا چاہيے وہ تقوي الہي ہے – ہر علم و عمل کي قبولي کا معيار تقوي اور پارسائي پر  قائم ہے – اسي طرح قرآن بھي اشارہ کرتا ہے کہ

انما يتقبل الله من المتقين.

اللہ تو صرف تقويٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے –

حوالہ جات :

بحار الانوار – جلد 44- صفحه 285

عليرضا مهدوي

تبصرے
Loading...