ظہور قریب ہے اور بعید نہیں ہے!

اس میں کوئی بھی شک نہیں کرسکتا کہ ہر روز جو گذرتا ہے ایک قدم ہے ایام ظہور کی طرف اور قرآن و دینی تعلیمات کے مطابق بھی حضرت حجت علیہ السلام کا ظہور بعید نہیں ہے بلکہ قریب ہے اور اگر کچھ بزرگان دین ہمیں آپ کے ظہور کی نوید دیتے ہیں تو ان پر ملامت کرنے کے بجائے ہمیں ان کے اقوال میں بھی اور دینی تعلیمات میں بھی غور و تدبر سے کام لینا چاہئے اور اپنی فکر کی اصلاح کا اہتمام کرنا چاہئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امرِ ظہور قریب ہے اور بعید نہیں ہے

“يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ؛ [یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:] اے میرے بیٹو! جاؤ، یوسف اور اس کے بھائی کی خبر لو اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو، یقینا کافروں کے سوا کوئی بھی اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتا”۔

*     *     *

پہلا نکتہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نہیں فرماتے کہ “جاؤ اور تجسّس کرو” بلکہ فرماتے ہیں کہ “جاکر تحسّس کرو”۔

* تجسّس اور تحسّس میں فرق

تجسّس اور تحسّس کا فرق ایک نقطے میں ہے لیکن تجسّس دوسروں کے معاملات کو کریدنے اور رازجوئی کرنے اور ان کے راز جاننے اور ان کے ذاتی احوال میں جھانکنے اور کھوج کرنے کا عمل ہے جو قرآن کریم کی نگاہ میں قابل مذمت ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: “وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضاً؛ اور کھوج نہ کرو اور تم میں سے ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے”. (سورہ حجرات، آیت 12)۔

چنانچہ لفظ “تجسّس” ـ جو خبریں معلوم کرنا، پتہ لگانا، لوگوں کے حالات جاننے اور ان کے اقوال جمع کرنے کی کوشش کرنا کے معنی میں آیا ہے ـ عام طور پر منفی امور میں بروئے کار آتا ہے لیکن تحسّس اچھے اور مثبت امور کے لئے ہے۔ لہذا حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ: “جاکر یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی کو ـ جو نیکی، طہارت اور پاکیزگی کا مظہر تھے ـ تلاش کریں، یعنی یہ کہ یوسف علیہ السلام کو تلاش کرنا چاہۃے اور بےکار نہیں بیٹھنا چاہئے؛ یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام کے آنے کا انتظار تھا لیکن چونکہ ان کی بصارت رو رو کر چلی گئی تھی اور نابینا ہوچکے تھے چنانچہ انھوں نے اپنے بیٹوں کو یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی کی تلاش کا فریضہ سونپا۔

میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اے بزرگوارو! اے مؤمنو! ہم سب بھی اپنا ایک یوسف کھوچکے ہیں۔ ہمارا بھی ایک یوسف ہے جو پردہ غیب میں ہے اور ہمیں ندوں کو بھی اور راتوں کو بھی اس کی فکر میں محو رہنا چاہئے اور اس عظیم شخصیت کو یاد رکھیں جو عالم وجود کا حقیقی نجات دہندہ ہے اور درگاہ الہی میں دعا و مناجات اور مناجات و رازونیاز کے ذریعے خداوند متعال سے ان کے ظہور کی التجا کرنا چاہئے۔

* دعائے فَرَج [یا دعائے کشائش] کی اہمیت

اگر ہم کہہ دیں کہ خداوند متعال جب چاہے گا امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی وقوع پذیری کا انتظام کرے گا اور ظہور پر نور ہوکر رہے گا؛ تو یہ بالکل صحیح ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں خاموشی بیٹھنا چاہئے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کی ضرورت ہے اور ان کے ظہور کی ضرورت اور یہ تب ثابت ہوگا کہ ہم اللہ کی بارگاہ میں گِڑگِڑا کر اس ضرورت اور حاجتمندی کا اظہار کریں اور اللہ سے امام کے ظہور میں تعجیل کی التجا کریں؛ بصورت دیگر ـ اگر ہم سرد مہر  اور بے اعتنا رہیں اور بےحسی کی انتہاؤں پر اللہ سے اپنے نیاز اور ضرورتمندی و احتیاج بھری التجائیں پیش نہ کریں، یقینا ظہور وقوع پذیر نہيں ہوگا:

“قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ؛ کہئے کہ میرا پروردگار تمہاری پرواہ نہیں کرتا اگر تم دعا نہ مانگو”۔ (سورہ فرقان، آیت 77) لہذا دعا کرنا ہمارا فریضہ ہے چنانچہ اللہ کا فرمان ہے کہ: “وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ؛ اور تمہارے پروردگار نے کہا کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا”۔ (سورہ مؤمن، آیت 60)

تو اب ـ جبکہ پورے بنی نوع انسان بالخصوص مسلمانوں اور شیعیان اہل بیت(ع) کو شدید مصائب اور دشواریوں کا سامنا ہے ـ کیا ہمیں دعائے فَرج کی ضرورت نہيں ہے؟ کیا دنیا کی وسعتوں پر ظلم اور برائیوں کا غلبہ نہيں ہوا ہے؟ کیا دنیا پر مسلط ہونے والے مستکبرین، ظالمین و جابرین اور نام نہاد بڑی طاقتیں، کمزوروں، محرومین اور مستضعفین پر رحم کرتی ہیں؟ کیا فری میسنز (Freemasons) اور ہنری کسنجر (Henry Kissinger) سمیت بین الاقوامی جلاد، جن کا خیال ہے کہ دنیا کی آبادی زیادہ ہوچکی ہے چنانچہ ایک تہائی آبادی کو مرنا چاہئے، اور انسانی شکل اختیار کرنے والے انسان دشمن شیاطین، جدید دور میں پھیلنے والے وبائی امراض ـ جنہیں حیاتیاتی جنگ کا نام دیا جاتا ہے ـ کا سبب بننے والے وائرسوں اور جراثیموں کی تخلیق اور پھیلاؤ میں ملوث نہیں ہیں؟ عقل و منطق کہتی ہے کہ یہ کام ان ہی جیسے ابلیسوں کا ہی ہوسکتا ہے ورنہ خداوند رحیم و کریم پوری انسانیت کے لئے اس طرح کے نسخے نہیں لکھا کرتا۔

جہاں تک طاغوتوں اور شیطانوں کا تعلق ہے تو وہ انسان کے خلاف کسی بھی قسم کے جرم و ظلم کے ارتکاب سے دریغ نہیں کرتے، اور اب جبکہ مغرب کے چہرے سے نقاب ہٹ چکا ہے، معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک دوسرے پر بھی رحم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے وسائل و اسباب چوری کرتے ہیں اور مختلف ممالک کے مریضوں کے لئے بھجوائے گئے وسائل اور ادویات کو جدید قزاق بن کر لوٹ لیتے ہیں۔ یہ اپنے خاص مقاصد کے حصول کے لئے انسانیت کی نابودی کا ساماں کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ ایک دن سربستہ رازوں سے پردے ہٹ جائیں گے اور ان شیطانوں کا کریہ چہرہ اور بھی دنیا والوں کے سامنے بےنقاب ہوجائے گا اور سب پر واضح ہوجائے گا کہ کیسے کیسے جرائم پیشہ اور خائن ہاتھ ان وائرسوں کی تولید اور تکثیر میں ملوث ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دنیا پر مسلط خونخوار بھیڑیوں کا سامنا ہے۔ تو کیا ان حالات میں ہمیں اپنے اتحاد و یکجہتی کا تحفظ نہیں کرنا چاہئے اور کیا ہمیں اللہ کی نعمتوں کا شکرگزار نہیں ہونا چاہئے جن میں سے ایک شہیدوں کے خون کی برکت سے قائم ہونے والا اسلامی نظام ہے جو امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی قیادت میں قائم ہوا ہے تاکہ حضرت بقیۃ اللہ علیہ السلام کے ظہور کے لئے تمہید ہو؟

ہمارے رہبر عزیز نے اسلامی انقلاب کے دوسرے مرحلے کے منشور میں ہماری توجہ ایسی تہذیب کی طرف دلواتے ہیں جو درحقیقت عالمِ انسانیت کے نجات دہندہ اور دنیا کی انتہائی گشائش [فَرَجِ نہائی] کی تمہید فراہم کرتی ہے۔ امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) اپنے خطابات میں عام طور پر ملت ایران کے مستقبل کو بہت روشن، رو بہ ترقی اور نہایت امید افزا قرار دیتے ہیں اور توجہ دلواتے ہیں کہ “ہم چوٹی کی طرف صعود کے مرحلے میں ہیں اور چونکہ اوپر کی طرف جارہے ہیں اسی لئے قطعی طور پر راستے میں کچھ دشواریوں سے گذرنا پڑتا ہے”، لیکن ساتھ ہی پورے یقین و اطمینان اور تسلسل کے ساتھ آخری کامیابی  کی خبر دیتے رہتے ہیں اور اللہ تعالی کی ذات پر ان کے توکل اور اعتماد کا ثبوت ہے۔ ہم اللہ کے شاکر ہیں کہ جس نے سیدہ زہراء سلام اللہ کی اولاد میں سے ایک ایسے عظیم انسان کو ہمارا اور عالمی مستضعفین کا قائد و رہبر قرار دیا ہے جو دنیاپرستی کی قید سے آزاد، متقی، پارسا، اللہ کی بندگی میں مصروف، عارف باللہ، اللہ کی بارگاہ میں خضوع و التجا کرنے والے، اللہ کی خشیت کا عملی نمونہ اور اس کی ذات پر توکل کرنے اور بھروسہ رکھنے والے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ حضرت مہدی ارواحنا فداہ کی توجہات خاصہ کی برکت سے اسلامی جمہوریہ روز بروز زیادہ سے زیادہ استحکام کے ساتھ آپ(ع) کے انصاف پرور ظہور پر نور کے لئے تیار ہو۔ امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) فرماتے ہیں: “کسی صورت میں بھی مایوسی اور ناامیدی کو اپنے دلوں پر غالب نہ ہونے دیں”۔ (جامعات کے اساتذہ سے خطاب 7 جون 2017ع‍)

* انتظار شیعیان اہل بیت(ع) کا اصول  

دوسرا ضروری نکتہ یہ ہے کہ انتظار شیعیان کا ایک بنیادی اصول ہے اور جو امام مہدی منتظَرعلیہ السلام کا منتظر نہیں ہے وہ تشیّع کے زمرے میں آتا ہی نہیں ہے اور ہم جب حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کی زیارت پڑھتے ہیں تو بھی عرض کرتے ہیں:

“السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلايَ أَنَا مَوْلاكَ عَارِفٌ بِأُولاكَ وَأُخْرَاكَ أَتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِكَ وَبِآلِ بَيْتِكَ وَأَنْتَظِرُ ظُهُورَكَ وَظُهُورَ الْحَقِّ عَلَى يَدَيْكَ،وَأَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ يَجْعَلَنِي مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ لَكَ وَالتَّابِعِينَ وَالنَّاصِرِينَ لَكَ عَلَى أَعْدَائِكَ وَالْمُسْتَشْهَدِينَ بَيْنَ يَدَيْكَ فِي جُمْلَةِ أَوْلِيَائِكَ؛ سلام ہو آپ پر اے میرے آقا اور میں آپ کا دوست اور آپ کے آغاز و انجام کی معرفت رکھتا ہوں اور آپ اور آپ کے خاندان کے وسیلے سے اللہ کی قربت چاہتا ہوں اور آپ کے ظہور آپ کے ہاتھوں فتح و نصرت کا منتظر ہوں اور اللہ سے التجا کرتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور آپ(ص) کے خاندان پر درود و صلوات بھیجے اور مجھے آپ کے منتظریں اور آپ کے پیروکاروں کے زمرے میں قرار دے اور آپ کے دشمنوں کے مد مقابل آپ کے مددگاروں اور آپ کی آنکھوں کے سامنے شربت شہادت نوش کرنے والوں کے زمرے میں قرار دے”۔ (زیارت امام زمانہ(ع)، اعمال روز جمعہ، مفاتیح الجنان)

چنانچہ لازم ہے کہ ہماری ایک دعا یہ ہو خداوند متعال ہمیں حضرت حجت(ع) کے منتظرین کے زمرے میں قرار دے؛ اور فطری امر ہے کہ جب کوئی امام زمانہ(ع) کا منتظر ہے، وہ قطعی طور پر معنوی اور مادی لحاظ سے اپنے آپ کو اس کام کے لئے تیار کرتا ہے اور ظہور سے پہلے تیاری کا موضوع بجائے خود ایک تفصیلی موضوع ہے جس پر الگ سے بحث و تحقیق کی ضرورت ہے۔

* امرِ ظہور قریب ہے یا بعید [نزدیک ہے یا دور]؟

لیکن اہم نکتہ اس سوال سے تعلق رکھتا ہے کہ کہ “کیا ہمیں امرِ ظہور کو قریب [نزدیک] دیکھنا چاہئے یا بعید [دور]؟” ہماری دینی تعلیمات میں بیان ہوا ہے کہ ہمیں امرِ ظہور کو قریب اور نزدیک دیکھنا چاہئے جیسا کہ ہم دعائے روزِ جمعہ میں امام زمانہ(ع) سے عرض کرتے ہیں:

“هذا يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَهُوَ يَوْمُكَ، الْمُتَوَقَّعُ فيهِ ظُهُورُكَ؛ آج روز جمعہ ہے اور یہ آپ کا دن ہے اور وہی دن ہے جس میں آّپ کے ظہور کی توقع کی جاتی ہے”۔ یعنی ہر جمعہ کی صبح کو جب یہ دعا پڑھی جاتی ہے تو ہمیں مغرب تک منتظر رہنا چاہئے شاید امام(ع) کا ظہور اسی دن واقع ہوجائے۔ یہ جو ہم ہر روز جمعہ آپ(ع) کی تشریف آوری کے منتظر رہتے ہیں، تو کیا ظہور قریب نہیں ہے؟ ہمیں آپ(ع) کا ظہور قریب دیکھنا چاہئے، ہمیں حکم ہے کہ اپنے امام کا اس طرح انتظار کریں؛ غور کریں اپنی زندگی پر، اگر دیکھ لیں کہ اگر ہم ظہور کو دور اور بعید سمجھ لیں تو ہمارے انتظار اور ہمارے عقیدے کا کوئی تعقیری نتیجہ برآمد نہيں ہوگا؛ کیونکہ ہم ظہور کو دور سمجھتے ہیں تو ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں اور ہماری امید کمزور پڑ جاتی ہے اور اس طرح کا تصور ہمیں ظہور کے لئے کچھ بھی کرنے کی ترغیب نہیں دلواتا۔ کیونکہ کیونکہ اس صورت میں ہم کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر ظہور ہماری حیات میں نہیں ہوگا، یا ایک سو یا ایک ہزار سال بعد ظہور ہوگا، تو ہمارے زمانے کے لئے اس کا کیا فائدہ؟ اور یوں خود بخود یہ تفکر انتظار کے مسئلے کو پھیکا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

“إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً * وَنَرَاهُ قَرِيباً؛ وہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں * اور ہم اسے نزدیک جانتے ہیں”۔ (سورہ معارج، آیات 6-7)

* ظہور کے مسئلے میں قرآن کریم کی نظر

قیامت ـ جسے عام طور پر لوگ بہت دور اور بعید سمجھتے ہیں ـ کے سلسلے میں قرآن کریم کی نظر یہ ہے کہ فرماتا ہے: “إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً * وَنَرَاهُ قَرِيباً” یعنی کفار روز قیامت کے عذاب کو بہت دور دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور ہم اسے بہت قریب دیکھتے ہیں۔ یا موت کے سلسلے میں قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے “کہ تم موت کے ساتھ ملاقات میں مصروف ہو”فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ”، یہ نہیں فرماتا کہ “یُلاقیکُم” اور اسے مستقبل کی طرف ملتوی نہیں فرماتا، بلکہ فرماتا ہے کہ “زمانۂ حال پر توجہ مبذول کرو کیونکہ ہر گھڑی یہ واقعہ رونما ہوسکتا ہے اور موت آسکتی ہے۔

ظہور کے بارے میں بھی ـ جو قیامت سے قبل واقع ہونے والا ہے ـ بھی اسی ضابطے کو نظر میں رکھنا پڑے گا جو قیامت کے بارے میں مد نظر ہے؛ یعنی “إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً * وَنَرَاهُ قَرِيباً”؛ یعنی مؤمنین کو یہ واقعہ نزدیک دیکھنا چاہئے۔ یقینا جب انسان اس قسم کے عظیم واقعے کو نزدیک دیکھتا ہے وہ اپنے آپ کو تیار کرتا ہے اور انتظآر کا اصل فائدہ یہی ہے: اپنے آپ کو تیار کرنا یا تیاری کرنا یا تیار ہونا، ہر دم تیار رہنا۔

* امرِ ظہور کے بارے میں علماء کی بشارتیں

بعض علماء و اکابرین ـ بشمول حضرت آیت اللہ بہجت (رح) ـ جو ظہور کے بارے میں بشارتیں دیتے رہے ہیں، ان کی بشارتوں کی اصل بنیاد بھی یہی آیات کریمہ ہیں: “إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً * وَنَرَاهُ قَرِيباً”۔

آیت العظمی سید ابوالحسن اصفہانی کے مصاحب آیت اللہ سید حسن میرجہانی نے چار جلدوں پر مشتمل کتاب “نوائب الدہور فی علامات الظہور” لکھی ہے جو بہت عمدہ اور نفیس کتاب ہے۔ آیت اللہ میرجہانی نے اس کتاب میں زمانۂ ظہور کے بہت سے واقعات اور آزمائشوں کے سلسلے میں روایات اور احادیث نقل کی ہیں اور خود بھی ہمیشہ ظہور کی بشارت دیتے تھے؛ مختصر یہ کہ ان بزرگواروں کی بشارتوں کا مقصد ظہور کے لئے “وقت کا تعین” نہیں ہے، کیونکہ ظہور کے لئے وقت کا تعین ائمۂ اطہار علیہم السلام کی طرف سے منع کیا گیا ہے۔ ان بزرگوں کی بشارتیں اسی قرآنی نظریئے پر استوار ہیں کہ: “إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً * وَنَرَاهُ قَرِيباً”۔ یعنی یہ کہ ضروری ہے کہ ظہور کو بہت قریب دیکھیں جیسا کہ قیامت کو بھی بہت قریب دیکھنا چاہئے تا کہ انتظام کے اثرات ہمارے لئے تعمیری ہوں؛ ورنہ، اگر ہم اسے بعید اور دور سمجھیں تو گویا ہم ظہور کو بھی اور ظہور سے متعلق ذمہ داریوں کو بھی نامعلوم مستقبل کی طرف ملتوی کردیتے ہیں اور تیار ہونے اور تیار رہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔  

* جناب علی اکبر پرورش کا ایک یادگار واقعہ

اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق وزیر تعلیم سید علی اکبر پرورش،  جو اسلامی انقلاب کے مخلص ساتھیوں میں سے تھے، ایک دفعہ میرے ساتھ مہدویت اور عصر ظہور کے حوالے سے ایک پروگرام میں شریک تھے۔ انھوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: جناب نجفی! کیا آپ نے آج تک دیکھا ہے کہ میں کوئی دعوی کروں؟ میں نے عرض کیا: ہرگز نہیں۔ تو انھوں نے کہا: میں پہلے سے بھی زیادہ دعوے کرنے والا شخص نہیں تھا چنانچہ خدا شاہد ہے کہ جو کچھ میں اب آپ سے کہنے جارہا ہوں، عین حقیقت ہے اور پھر قسم بھی اٹھائی؛ اور کہا: “واللہ! امام عصر علیہ السلام کی آمد کی خوشبو میں اس طرح سے محسوس کررہا ہوں جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے پیراہنِ یوسف کی خوشبو محسوس کھی تھی”۔

وہ اس حقیقتِ منتظَر کو بہت قریب دیکھ رہے تھے اور کچھ سال بعد مورخہ 28 اگست 2013ع‍ کو دنیائے فانے سے عالم بقاء کی طرف رحلت کرگئے؛ لیکن یہ جو کوئی انسان کہہ دے کہ “میں ظہور کو قریب دیکھ رہا ہوں” اور پھر ظہور سے پہلے دنیا سے رخصت ہوجائے، یہ اس حقیقت سے مغایرت نہیں رکھتا کہ ظہور نزدیک ہے، بلکہ صحیح فکر یہی ہے کہ ہم ظہور کو نزدیک دیکھیں۔

میں نے استاد علی اکبر پرورش کی یہی بشارت ایک بزرگ شخصیت تک پہنچائی جو استاد کے دوست بھی تھے اور ان سے عقیدت بھی رکھتے تھے۔ میں نے کہا کہ “استاد پرورش نے یہ بشارت سنائی ہے”؛ تو وہ قہقہہ لگا کر ہنسے اور کہا: امام زمانہ(ع) مزید دو ہزار سال تک بھی ظہور نہیں کریں گے!!! مجھے حیرت ہوئی اور سوچنے لگا کہ تو پھر “قرآن کیوں فرماتا ہے کہ ہم اسے قریب دیکھتے ہیں اور کفار اسے دور دیکھتے ہیں؟”؛ لیکن اس شخصیت نے فوری طور پر کہا: “میں نے مزاح کیا اور استاد پرورش نے صحیح فرمایا ہے”۔

چنانچہ جب کوئی بزرگ شخصیت ظہور کے لئے کسی وقت کا تعین کئے بغیر ظہور کے قریب ہونے کی بشارت دیتی ہے تو ہمیں انہیں جھٹلانا نہیں چاہئے بلکہ اپنی سوچ کو درست کرنا چاہئے اور جاننا چاہئے کہ قرآنی نظریئے کے مطابق “ظہور قریب ہے اور بعید نہیں ہے”۔

امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: “ولی عصر کے ظہور ارواحنا فداہ اور آپ(ع) کے وجود پر یقین رکھنے والے کبھی بھی ناامیدی اور مایوسی میں مبتلا نہیں ہوتے اور وہ جانتے ہیں کہ قطعاً یہ سورج طلوع ہوگا اور آپ(ع) ان اندھیروں اور ان سیاہیوں کو دور کریں گے۔ (سپاہ پاسداران کی امام حسین(ع) آفیسرز ٹریننگ یونیورسٹی میں خطاب 10 مئی 2017ع‍)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مرتضی نجفی قدسی
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

/110

تبصرے
Loading...