طلبہ کا کیریر برباد مت کیجئے!

تحریر: محمد جمیل اختر جلیلی

حوزہ نیوز ایجنسی | کرونا کے وجود کا انکار نہیں، یہ ہے، تبھی تو چالیس پچاس سال پرانی کئی کتابوں میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ملتا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کرونا اتناہی ضرررساں ہے، جتناکہ اس وقت دکھایاجارہاہے؟ اس کے ماننے میں شاید ہچکچاہٹ ہو؛ کیوں کہ ایک طرف تویہ بات کہی جارہی ہے کہ کرونا سے موت کا امکان زیادہ سے زیادہ تین فیصد ہے، جب موت کاامکان زیادہ سے زیادہ تین فیصدہے توپھراس قدرہنگامہ کیوں ہے برپا؟اورہنگامہ بھی ایساکہ پوری دنیاپرسکوت طاری ہوجائے، یہ سوچنے پرمجبوراس لئے بھی ہوناپڑتاہے کہ چین، جہاں سے اس کے پھیلنے کی ابتداہوئی، وہاں توبس کچھ ہی دنوں کے بعد سارے امورانجام دئے جانے لگے، بازارتوکھلے ہی، اسکول و کالج بھی کھل گئے۔

امریکہ میں کرونا کا کافی زور تھا، ایک ایک دن میں پینتالیس ہزار لوگوں کے متاثر ہونے کی خبر تھی، اسی دوران فلائیڈ کی موت کی وجہ سے امریکہ کی سڑکوں پر لوگوں کی طرف سے احتجاجی ریلی کاایسانظارہ دیکھنے کوملا، جیساکروناکے دورمیں نہیں ہوناچاہئے، اگرکرونااتناہی خطرناک تھاتوامریکہ میں اس مہاریلی کاانعقادنہ ہوتا، جس کی وجہ سے امریکی صدرکوبنکرمیں پناہ لینی پڑی تھی، خود ہمارے ملک میں بھی بھیڑبھاڑ کی مثال موجودہے، جگن ناتھ یاتراکی اجازت خودیہاں کے سپریم کورٹ نے دی، جوتقریباً دودن تک چلا، اس میں کافی بھیڑبھاڑتھی، سوشل ڈسٹینسنگ کااتہ پتہ تک نہیں تھا، اگر کرونا اتناہی خطرناک تھاتواس یاتراکی اجازت کیوں دی گئی؟ اس یاتراسے قبل ایک اور نظارا اس ملک نے دیکھا، وہ نظاراتھاشراب کی خریداری کے لئے قطارکا، جس میں کسی قسم کی سوشل ڈسٹینسنگ کاخیال نہیں رکھاگیاتھا؛ بل کہ وہ لوگ بھی قطارمیں گھس گھس کرکھڑے تھے، جوسوشل ڈسٹینسنگ کے لئے عوام پر لاٹھی برسانے میں بدنام بھی ہو چکے تھے، یعنی پولیس والے، اگرکورونااتناہی خطرناک تھا توپھرشراب کی دوکانوں کو کھولنے کی اجازت کیوں دی گئی؟

اس وقت ہمارے ملک میں کروناکے متاثرین کی تعدادایک دن میں پینتیس ہزار (35000)سے اوپربتائی جارہی ہے، اوراس وقت ”لاک ڈاؤن” کو”ان لاک”کردیاگیاہے اور سوائے چند چیزوں کے تمام چیزیں کھل چکی ہیں، بازارکھل گئے ہیں، دوکانات کھل گئے ہیں، سڑکوں پرویرانی کے بجائے اس طرح چہل پہل نظرآرہی ہے، جیسے لاک ڈاؤن سے پہلے تھی، محسوس نہیں ہوتاکہ لاک ڈاؤن ہے، کروناکے متاثرین کی تعدادبڑھتی جارہی ہے، ہرایک کے ذہن میں ہوگاکہ شایدیہ بڑھوتری ان لا ک ہونے کی وجہ سے ہے؛ لیکن اس میدان کے بھگوانWHOکاکہناہے کہ ”ہندوستان میں ابھی کوروناوائرس کووڈ-۱۹کاکمیونٹی انفیکشن نہیں ہے”، WHOکی یہ رپورٹ ۱۶؍جولائی تک کی صورت حال پرمبنی ہے، اس کامطلب یہ ہواکہ متاثرین کی تعدادبھیڑبھاڑکی وجہ سے نہیں بڑھ رہی ہے، بڑھوتری کاسبب کچھ اورہے۔

یہاں ایک شہری ہونے کی حیثیت سے ذہن میں یہ سوال ضرورپیداہوتاہے کہ کرونا کی روک تھام میں پی ایم کیٹرفنڈ کی حصہ داری کتنی ہے؟ اس کاکیارول ہے؟ جس رفتارسے پی ایم کیٹرفنڈمیں لوگوں نے عطیات دئے تھے اورجس جوش وخروش کے ساتھ اس کے لئے اپیل کی گئی تھی، اس سے ایسامحسوس ہورہاتھا کہ بس دوچارمہینہ میں ہی ہماراملک کورونامکت ہوجائے گا؛ لیکن یہاں تومعاملہ بالکل برعکس ہے؛ بل کہ پٹرول ڈیزل کے بھاؤ کی طرح اس میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے، یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہندوستان میں اس وقت لاک ڈاؤن کیاگیا، جس وقت کوروناکاآغازتھا اورلاک ڈاؤن بھی اس طریقہ پرکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے مطابق ”ہندوستان میں نافذ کئے گئے سخت لاک ڈاؤن دنیاکے کسی بھی ملک میں نہیں دیکھاگیا”توپھرمریضوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوا اورکیوں ہورہاہے کہ ہندوستان تیسرے نمبرپرجاپہنچاہے؟ایسے وقت میں پڑوسی ملک سے موازنہ بھی ضروری ہے؛ تاکہ حکومت کے ”کارناموں”سے پردہ چھٹ سکے۔

ہمارے ملک کے بہت سارے نیتااپنے بیان میں جب تک پاکستان کانام نہ لیں، اس وقت تک ان کابیان ادھورارہتاہے؛ بل کہ یہ بھی کہاجاتاہے کہ ہرپانچ منٹ میں ایک بار تو پاکستان کانام آناضروری ہے، چوں کہ یہ لوگ پاکستان سے مقابلہ کی بات کرتے ہیں؛ اس لئے میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ کوروناکے تعلق سے بھی اس کاموازنہ کیاجائے، جب نٹ پرسرچ کیاتوحیرت انگیزنتیجہ نکلا، 14؍جون کوپاکستان میں6,825کی تعدادتھی اوریہ تعدادیومیہ کے اعتبارسے تھی، جب کہ 16؍جولائی کویہ تعدادتقریباً دوتہائی کم ہوگئی، یعنی 2,145، یعنی وہاں ہندوستان کی طرح لاک ڈاؤن میں سختی بھی نہیں کی گئی، اس کے باوجودمتاثرین کی تعدادگھٹتی جارہی ہے، جب کہ ہمارے ملک میں دنیا کے مقابلہ میں سخت ترین لاک ڈاؤن کے باوجودتعدادبڑھتی جارہی ہے، آخرماجراکیاہے؟

پی ایم مودی جی کادعوی ہے کہ کورونا کی لڑائی میں ہمارے ملک نے 150سے زائدممالک کی طبی امدادکی ، پی ایم جی کادعوی توبس”بغل میں بچہ، شہرمیں ڈھنڈھورا” کی مثال پیش کررہاہے، اپنے ملک کی حالت یہ ہے کہ یہاں وینٹی لیٹرکی شدیدکمی ہے، جوکوروناکے آغازمیں سیکڑوں وینٹی لیٹرکی تیاری کے آرڈرکی بات کی گئی تھی، وہ تواب تک بات ہی بات ہے اوریہ بات ہی بات رہنے والی بھی ہے کہ ہمارے پی ایم ”کام” پر کم اور”من کی بات” پرہی زیادہ یقین رکھتے ہیں، ہمارے اپنے ملک میں مریضوں کی تعداد روزبروز بڑھتی جارہی ہے اوردوسری طرف 150سے زائدممالک کوطبی فراہم کرنے کی بات کی جارہی ہے، جب آپ کے پاس اتنی شکتی ہے کہ آپ دوسرے ممالک کی مددکرسکتے ہیں توپھر اپنے ملک میں لوگوں کی مددکی کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ یاتولوگوں کوتکلیف میں مبتلارکھنے کی پلاننگ ہے، یا پھرمسئلہ ڈالرکاہے، یایہ بھی ہوسکتاہے کہ مریضوں کی تعداداتنی سرے سے ہوہی نہیں، جتنی روزانہ کے حساب سے اضافہ کرکے دکھایاجارہاہے، اوریہ بھی شایداسی نقطۂ نظرسے ہوکہ بھگوان WHO کی طرف سے بھی اس پرکچھ ڈیل ہوئی ہو؛ کیوں کہ ہمارے پی ایم صاحب ”ڈیل” کرنے کے بھی بڑے ماہر ہیں، چھ سالوں میں اتنے ڈیل کئے ہیں کہ اگراتنے”کام”کرتے توخوبھی کام کے ہوتے اورملک بھی کام کاہوتا، ڈیل کی جب بات نکل ہی گئی ہے توکچھ ڈیل کی طرف اشارہ سے بھی کام لیاجاسکتاہے، جیسے: لال قلعہ کی ڈیل، ایرپورٹس کی ڈیل، ریلوے کی ڈیل وغیرہ۔

بات شروع ہوئی تھی یہاں سے کہ کرونااس طرح نہیں ہے ، جیساکہ اسے پیش کیاجارہاہے اوریہ بات آج سے نہیں، اس کے آغازکے دن سے ہی بہت سارے ڈاکٹروں کی طرف سے بھی کہی جارہی ہے؛ لیکن نقارخانہ میں طوطی کی صدا سننے والا کون ہے؟ بہرحال!

اب اس تعلق سے حکومت کی پالیسی کیاہے؟ ابھی تک غیرواضح ہے اوراس کی وضاحت کاامکان بھی نہیں ہے، البتہ اتنی بات ضرورہے کہ حکومت اس کوروناکی آڑمیں بہت سارے وہ کام کرچکی ہے، جوکوروناکے بغیرممکن نہ تھے، شایداسی وجہ سے لاک ڈاؤن میں اس قدرسختی بھی تھی، ورنہ اتنی سختی ہوتی بھی نہیں۔

اب ہم لوگ ان لاک کے دورمیں چل رہے ہیں اورسوائے کچھ چیزوں کے ساری چیزیں ان لاک ہوچکی ہیں، بازاروں کی رونق لوٹ آئی ہے، سڑکوں کی ویرانی ختم ہوچکی ہے، کارے خانے بھی کھل چکے ہیں، دوکانیں بھی کھل چکی ہیں، نہیں کھلی ہیں توتعلیم گاہیں اورعبادت گاہیں، اوربڑے بڑے مالس وغیرہ؛ لیکن یہ بات سمجھ سے باہرہے کہ ان کوکھولنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے؟ کیاسب سے زیادہ بھیڑبھاڑانہی جگہوں پر ہوتی ہے؟ کیاسب سے زیادہ سوشل ڈسٹینسنگ کی دھجیاں یہیں اڑائی جاتی ہیں؟ تعلیم اورعبادت، یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں، جوکسی بھی وباکوروکنے میں اہم ذریعہ بنتی ہیں، علم ہوگاتولوگ خود احتیاط برتیں گے، علم نہیں ہوگا تواحتیاط نہیں برتیں گے، عبادت ہوگی توخداسے اس کے ٹلنے کی دعاکی جائے گی، اورعبادت نہیں ہوگی تویہ کام بھی نہیں ہوسکتا۔

پھریہ بھی غورکرنے کی بات ہے کہ کیاتعلیم گاہوںاورعبادت گاہوں میں بازاروں سے زیادہ بھیڑہوتی ہے؟ ظاہرہے کہ اس کاجواب نہیں میں ہوگا، توپھرجس طرح چند شرطوں کے ساتھ جگن ناتھ یاتراکی اجازت دی گئی ،بازاروں کوکھولنے کی اجازت دی گئی، ان شرطوں کے ساتھ تعلیم گاہوں اورعبادت گاہوں کوکھولنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے؟ خانگی تعلیم گاہوں کے اساتذہ کس مشقت میں مبتلاہیں، حکومت کواس کااندازہ بھی ہے؟ یہ معاشرہ کے پڑے لکھے اورجینیس لوگ ہیں، یہ انٹلکچول افرادہیں، یہ طلبہ کی ذہن سازی کرتے ہیں، یہ معاشرہ کی اصلاح کاکام کرتے ہیں، اوراس وقت ان میں سے کتنے دانہ دانہ کے محتاج ہیں، آپ نے توفیس لینے سے منع کررکھاہے، یہ اچھاکام کیاہے؛ لیکن خانگی اداروں کے اساتذہ کے لئے آپنے کوئی فنڈ کیوں نہیں دیا؟ کیاوہ بھی مزدوری کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوں توپھرطلبہ کاکیاہوگا؟

تعلیم گاہوں کوکھلنے کی اجازت دی جانی چاہئے، جب سب سیکٹرس کھل چکے ہیں تو پھریہ کیوں نہیں؟ اس سے طلبہ کاکیریروابستہ ہے، پانچ مہینے توگزرہی چکے ہیں، اگران کوکھولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی توطلبہ کاپوراسال بربادہوگا، یہ زندگی بڑی قیمتی ہے، یہ سال بڑے قیمتی ہیں، ان کی رعایت کی جانی چاہئے اوراس تعلق سے ان لوگوں کوآگے آناچاہئے، جوکسی نہ کسی طریقہ سے حکومت کے قریب ہیں، ان کے ارکان سے قریب ہیں، انھیں اس کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے، طلبہ کاسال بربادمت کیجئے، طلبہ کاکیریر برباد مت کیجئے کہ یہی لوگ ملک کے دماغ ہیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...