طریقہ اپنا اپنا 

حوزہ نیوز ایجنسی|

افغانستان کے معصوم پھولوں کی جانب سے اہل ستم کے نام جو دین و مذہب کے نام پر دنیا بھر میں دہشت پھیلا کر علی والوں کو نشانہ بنا کر سوچتے ہیں ہم عشق حیدر کرار میں ڈوب کر دی جانے والی آواز کو دبا دیں گے۔جبکہ وہ حرملا لعنہ اللہ و علی اصغر ع کے معرکہ کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں اور وہی غلطی بار بار کرتے ہیں جو حرملا نے کربلا میں کی ۔۔۔
 ***
طریقہ اپنا اپنا 
                

……………………………………
کہاں کا خوف کیسا ڈر؟
کہاں کی ہار؟  کیسا غم؟ 
کہاں تم ہم پہ غالب ہو؟ 
کہاں ہیں تم سے ہم مغلوب؟ 
عراق و شام سے لیکر 
زمینِ پاک سے لیکر آذربائجان و عماں تک 
یمن اور نائجریاتک 
 جہاں بھی خون کے قطرے ہمارے خاک پر ٹپکے تو چلا کر کے بولیں ہیں کسی بھی وقت کے ظالم کی بیعت کر نہیں سکتے 
حسین ابن علی ع نے یہ  ہمیں ہے درس سکھلایا 
کٹا کر کے گلے اپنے عزیزوں کے انہوں نے ہے یہ بتلایا. 
کبھی بھی ظلم کے آگے نہیں جھکنا 
کٹا دینا تم اپنے ہاتھ ظالم کو نہیں دینا 
لگاتے نعرہِ ”ھیھات” سجاتے کربلا کا رن زمانے سے گزر جانا 
کیا تھا تم نے کیا ممکن ہے تم خود بھول جاؤپر 
زمانہ یاد رکھے گا 
                ***
   سو درسِ حریت لیکر 
شجاعت کا سبق لیکر 
حسین ابن علی ع سے ہم 
زمانے بھر میں نکلے ہیں
وہ افغانستان و لبناں ہوں
کہ افریقہ کے صحرا ہوں
ہمارے سامنے داعش ہو یا پھر طالباں کوئی 
وہ ہوں النصرہ و احرار 
یا پھر بوکو کے جلاد 
کسی سے ہم نہیں ڈرتے 
کہیں ہم نمر کی صورت کہیں سید حسن بنکر 
کہیں ہم زکزاکی بن کر 
جبین وقت کے ماتھے پہ 
تابندہ چمکتے ہیں    
اگر یہ سوچتے ہو تم 
ڈرا دوگے دھماکوں سے 
ہماری مسجدوں پر کر کے تم یلغار 
ہمیں خاموش کر دوگے 
ہمیں محکوم کر دوگے 
تو پھر یہ جان لو ہرگز 
نہ ہم کل تم سے ہارے تھے
نہ ہارے آج ہیں تم سے 
ہماری لاشوں کے ٹکڑے 
فضاؤں میں جو بکھرے ہیں 
ہمارے خون کے چھاپے 
مساجد میں جو دکھتے ہیں 
لہو رنگیں ہماری سرخ پوشاکیں 
جلوسوں میں جو دکھتی ہیں 
انہیں تم دیکھ کر ہرگز
 نہ کہنا ہم ہوئے مغلوب 
کبھی یہ سوچنا ہرگز کہ غالب ہو گئے ہم پر 
کہ یہ تاریخ ہے شاہد 
لہو دیکر ہمیشہ ہم ہوئے فاتح 
کٹا کر سر ہوئے ہیں ہم سدا غالب 
تمہاری جیت کیسے ہو؟ 
تمہاری تو یہ حالت ہے 
جنونِ ظلم میں تمکو نظر کچھ بھی نہیں آتا 
تمہیں تو قتل کرنا بھی نہیں آتا 
ہمیں تم کیسے ماروگے 
تمہارے تیر ترکش کے سبھی تو آزمودہ ہیں 
شھادت کا سلیقہ ہم نے ششماہے سے سیکھا ہے 
پڑھو تاریخ پھر سے تم 
چلا کر تیرِ  سہ شعبہ تمہارے ہاتھ کانپے ہیں 
گلے پر کھا کے تیر اپنے مگر ہم مسکرائے ہیں 
تمہاراوہ طریقہ ہے 
ہمارا یہ طریقہ ہے 

از قلم: سید نجیب الحسن زیدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...