صلح حدییبہ حصہ اول

سیرت پیغمبر اسلام ساتواں سال اس سال کی تقریر بھی ساتویں ہے مجموعی اعتبار سے تقریر104 اور اب سیرت پیغمبر اسلام کا ایک انتہائی اہم واقعہ شروع ہونے جا رہا ہے ایک ایسا واقعہ جس میں موجودہ حالات اور موجودہ دَور کو دیکھ کر ہمارے لیے ہدایت اور نصیحت کے بے شمار پہلو اور گوشے ہیں۔

اگرچہ سیرت رسول کا ہر ہر واقعہ اسوہٴ حسنہ اور بہترین راہِ ہدایت ہے ۔لیکن آج کل کا زمانہ خصوصیت کیساتھ صلح حدیبیہ کے واقعہ کو سمجھنے کا تقاضا کر رہا ہے کہ جہاں مخالف اور دشمن کی کوشش ہم لوگوں کو غلط طریقے سے جوش دلا کر ایک جال میں پھنسا لینے کی ہوتی ہے اور ہر وہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ صاحبانِ ایمان اور مسلمان ایسے جوش اور جذبے میں آجائیں کہ ہوش وحواس کھو بیٹھیں پہل کا الزام ان پر لگ جائے ،دشمن کو اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔ 

جس کی بہترین مثال حال ہی میں ختم ہونے والا واقعہ یعنی خلیج کی جنگ کا واقعہ ہے کہ اُکسانا ، جوش دلانا، پہل پہ آمادہ کرنا اور اس کے بعد پھر موقع سے فائدہ اٹھا کر تہمت اور الزام دھر کے اپنے تمام تر مقاصد کو حاصل کر لینا ۔تو جوش اور جذبے کی موجودہ فضا میں صلح حدیبیہ کا واقعہ بار بار پڑھنے، باربار سننے اور بار بار غور کرنے کے قابل ہے ۔

تو خیر بات یہ ہو رہی تھی کہ خندق کی لڑائی کے بعد کفارِمکہ مکمل طور پر پسپا ہو چکے تھے، اور دوسری جانب خندق کی لڑائی کے بعد یکے بعد دیگرے کچھ ایسے حالات پیش آتے چلے گئے کہ یہودیت بھی ایک طرح سے پیچھے ہٹتے ہٹتے ساری کی ساری خیبر کے قلعے میں جا کے بند ہو چکی اس سے پہلے یہودی سارے عرب میں اور خصوصاً اطرافِ مدینہ میں پھیلے ہوئے تھے ۔

لیکن خود بخود واقعات کچھ اس طرح سے پیش آنے لگے کہ انہیں پیچھے ہٹنا پڑا، مدینہ چھوڑنا پڑا، مدینہ چھوڑ کے مدینے سے باہر نکلے پھر مدینے کے باہر سے بھی رفتہ رفتہ ہجرت کر کر سب ایک ہی مقام پر جا کے جمع ہو رہے ہیں خیبراور صلح حدیبیہ کا واقعہ کچھ اس اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے کہ اسی صلح کے بعد پیغمبراسلام نے خیبر پہ حملہ کر کے کم از کم اُس دَور اور اُس زمانے کیلئے یعنی اپنی رسالت کے ، اپنی زندگی کی آخری سانس تک کیلئے یہودیت کے فتنے اور سازش کا خاتمہ کر دیا تھا۔ 

 

تو یہودیت ایک مرکز پر جمع ہو چکی ہے جس کا نام خیبر ہے اس کے بارے میں مَیں بعد میں تفصیل بتاؤں گا، بعض اوقات کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر بڑی پُرکشش اور عقل کے مطابق نظر آتی ہیں لیکن تاریخ پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر وہ بات جو مطابقِ عقل ہو وہ انسان کیلئے فائدہ مند ہی ہو، خصوصیت کے ساتھ آج کل بعض اوقات ایک جملہ بار بار کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہے بہت ہی زیادہ مرکزیت کا ایک مرکز ایک نقطہٴ اجتماع ایک ہی مقام پر سب لوگوں کو آجانا چاہیئے، کبھی یہ تحریکوں کے حوالے سے ہوتا ہے کبھی یہ اجتہاد وتقلید کے حوالے سے ہوتا ہے کبھی یہ مجتہدین کے نام کے حوالے سے ہوتا ہے یعنی ایک مرکز ایک شخصیت ایک تحریک ایک اجتماع اس سے زیادہ مفید کوئی چیز نہیں اور عقلی طور پر ثابت بھی کیا جاتا ہے اتحادکے فائدے ایک ساتھ رہنے کے فائدہ ایک اور ایک مل کر گیارہ ہونے کے فائدے … لیکن تاریخ بتا رہی ہے کہ بہرحال اس کے نقصانات بھی اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں جن میں سے ایک نقصان خود خیبر میں یہودی ایک مرکز بنا کے بیٹھے، مرکز جب ہار گیا ناکام ہو گیا شکست کھا گیا پسپا ہو گیا یہودیت مکمل طور پر کم ازکم اس زمانے سے فنا ہو گئی تفصیل انشاء اللہ بعد میں آئے گی مجھے خود ایسا لگ رہا ہے کہ مَیں دوسرے موضوعات پہ جانے لگا ہوں۔

تو یہودیت پسا ہوتے ہوتے، پیچھے ہٹتے ہٹتے ……کرتے کرتے خیبر کی دیواروں تک پہنچ چکی ہے اور ایک اعتبار سے مسلمانوں کیلئے بہترین موقع بن گیاکہ اس کا خاتمہ کرو صرف خیبر کا یہودیت کا تو گویا کمال یہودیت کاخاتمہ ہو گیامگر مدینہ چھوڑ کے خیبر کی جانب جانایہ ایک بڑی حماقت اور غلطی کہلائی اگر کفارِ مکہ کے خطرے کا سدباب نہیں کیایہ کوئی عقلمندی نہیں ہو گی کہ ایک دشمن کا خاتمہ کرنے جائیں اور خود اپنے عقب اور اپنے شہر کو کھلا چھوڑ جائیں… تو دوسرا دشمن آکے وہاں حملہ کرے۔ تو صلح حدیبیہ عین اُس ماحول اور اس موقعہ پہ پیش آ رہی ہے ۔تو کفارِمکہ کو کم ازکم اتنے عرصے کیلئے خاموش کر دیا جائے کہ جب مسلمان پلٹ کر خیبرکا رُخ کریں تو یہ خطرہ نہ ہو کہ اِدھر ہم گئے اور پیچھے سے ہم پر حملہ ہو گیا ۔

تو خندق کی لڑائی اختتام کو پہنچی خیبر میں یہودیت نے اپنے مرکز کو طاقتور سے طاقتور بنا رہے ہیں ، اللہ کے رسول کو اب ایک مرتبہ مکہ سے اطمینان حاصل کرنا تھا اور اس کا پہلا مرحلہ وہی جو تین ہفتے پہلے مسلسل بیان ہوا ۔

تو چھوٹے چھوٹے قبائل، ہر وہ قبیلہ کہ جس کے بارے میں یہ معلوم تھا یا اندازہ تھا کہ یہ کسی دشمن کا آلہ کار بن کے مسلمانوں کو چھوٹاموٹا نقصان پہنچا سکتا ہے اُن سارے قبیلوں پر حملے کیے گئے تفصیلات آپ تین ہفتوں سے سُن رہے ہیں اُس میں سے ایک صرف ایک چیز کو پھر یاد دلا دیا جائے یہ چھوٹے چھوٹے قبائل جن کی جانب اس سال اتنے لشکر بھیجے گئے کہ تاریخِ اسلام میں یا کم ازکم پیغمبر کی سیرت میں پوری زندگی میں اس سال کی طرح کے لشکر کہیں بھی نہیں بھیجے گئے، یہ سارے لشکر جن قبیلوں کی جانب جا رہے ہیں وہ قبیلے اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ مسلمانوں کا مقابلہ کریں تو ایسا نہ ہو کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ شاید مسلمان اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر نے لگے جب تک پریشانی کے عالم میں تھے تو چپ تھے تو جب طاقت ملی تو چھوٹے چھوٹے قبیلوں پر حملے شروع کر دئیے ۔

جس کے لیے پھر یاد دلانا ہے کہ پیغمبر نے عبدالرحمن ابن عوف کو ماہ شعبان سن چھ ہجری جب دومةالجندل کی جانب بھیجا تو ساتھ میں ایک تحریر ساتھ میں ایک خطبہ ایک ہدایت نامہ بھی ان کے حوالے کیا جو یہ بتا رہا ہے کہ ایسے قبیلوں کے خلاف بھی جو مسلمانوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے انتہائی کمزورہیں، کفارِمکہ اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود کچھ نہ بگاڑ سکے تو یہ سوسو دودوسو تین تین سو کے قبیلے یہ کیا نقصان پہنچائیں گے؟ اُس کے باوجود احتیاط اتنی کہ عبدالرحمن ابن عوف کو بھیجا جا رہا ہے دومة الجندل کے علاقے میں، یہ وہ علاقہ ہے جو مدینہ اور شام کے درمیان ہے اور اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ پیغمبر کو چھوٹے چھوٹے لشکر یہاں بھجوانا پڑے، اب اس وقت جس لشکر کو بھجوایا جا رہا ہے وہ اس لیے کہ وہاں پر عیسائیوں کا ایک قبیلہ رہتا ہے ۔ پیغمبر اس مرتبہ جو تحریر دے رہے ہیں اُس کے اندر پہلا جملہ یہی کہ 

اللہ کے نام سے … بسم اللہ وبسم رسول ۔ کہ غزوے میں حصّہ لو ، جہاد کرواللہ اور رسول کے نام سے اورخبردار کوئی دھوکا نہیں کرنا، امانت میں خیانت نہیں کرنااور کسی سے وعدہ کر کے وعدہ شکنی نہ کرنا اور کسی بھی نابالغ بچے کو قتل نہ کرنا یہ چار جملے پیغمبراسلام نے صرف ایک جملے میں 

اسلام کے اُس جہاد کا طریقہ بھی بتا دیا جو ایسے قبیلوں کے مقابلے میں ہوتا ہے جوبظاہر ہم کو بہت ہی کمزور نظر آئیں، ان کی طرف بھیجا جارہا ہے اُس پر بھی اتنی پابندی کہ خبردار وعدہ خلافی نہ ہونے پائے،خبردارکسی کو دھوکا دے کر اُس سے جنگ نہ کرنا، خبردار کسی کمزور اور نابالغ پر ہاتھ نہ اُٹھانا ، یہ پوری تحریر لکھ کے بھیجی ۔سریہ عبدالرحمن ابن عوف تاریخ میں انہیں دوباتوں کی وجہ سے مشہور ہے ایک بات یہی کہ اللہ کا رسول پورادستورِجنگ ،پوراطریقہِ جہاد اسلام کا فلسفہ جہاد اس ایک جملے میں پنہاں کر کے عبدالرحمن ابن عوف کے حوالے کیا اور پھر اس کے اندر ایک ضمنی واقعہ بھی آجاتا ہے کہا کہ جا تو رہے ہو لیکن جاتے ہیں جنگ کا آغاز نہ کر دینا پہلے انہیں دعوتِ اسلام دینا ،اگر وہ دعوتِ اسلام قبول کر لیں تو ان سے انتہائی محبت کا سلوک کرنا اور دیکھو مَیں تمہیں خوشخبری سُناتا ہوں کہ تمہاری شادی سردارِقبیلہ کی بیٹی سے ہو گی ۔

عبدالرحمن ابن عوف پیغمبر کا دیا ہو ا ہدایت نامہ لے کے چلے ،دومة الجندل کے علاقے میں پہنچے، سردارِقبیلہ جو ایک عیسائی تھااُس کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کی ، اُس نے اسلام کی تھوڑی سی معلومات حاصل کی اور بڑی خوشی کیساتھ نہ صرف یہ کہ اِس دین کو قبول کیا بلکہ مسلمانوں سے محبت کا رشتہ مستحکم کرنے کی خاطر یہ پیش کش بھی کی کہ سردارِ قبیلہ کی بیٹی سردارِ لشکرِاسلامی کے حوالے کی جا رہی ہے۔ وہ خاتون جن کا نام ثمامہ تاریخ میں لکھا عبدالرحمن ابن عوف سے شادی ہوتی ہے اور اسی شادی کے نتیجے میں ابوسلمہ پیدا ہوتے ہیں کہ چوتھے امام(ع) کے زمانے میں مدینے میں سات بڑے بڑے فقہاء تھے جن کا نام بھی ہے الفقہاء السبعہ … سبع عربی میں سات کو کہتے ہیں ان میں سے یہی عبدالرحمن ابن عوف کے وہ بیٹے ہیں جو دومة الجندل کے قبیلے کے سردار کی بیٹی سے شادی کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔

بہرحال وہ توایک ضمنی واقعہ آگیا اصل چیز ایسے قبیلوں کے خلاف بھی مسلمانوں کی جنگ جو قطعاً کوئی مسلمانوں کے سامنے آنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود پورے پورے ان کے حقوق کا خیال کر کے ظلم نہ ہونے پائے ، زیادتی نہ ہونے پائے، مسلمان حد سے تجاوز نہ کرنے پائیں، صرف اُتنی اُن کو سزا دی جائے جو ان کی پرانی سازش کا تقاضا ہے۔ 

پس اس انداز سے پیغمبر نے منطقی طور پہ واقعات کو آگے بڑھا دیاپہلے سارے قبیلوں کو یہ پیغام بھجوا دیا گیا جو ہم سے محبت کرنا چاہتا ہے ہم اس محبت کا جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔

پچھلی تقریر کا آخری واقعہ یاد کیجئے، ایک قبیلہ خود سے ڈر کے مارے آیا پیغمبر نے ہدیے تحفے اور کھجوروں کے ذریعے اُن کے ڈر اور خوف کونکالااور جو آئندہ کسی سازش میں حصہ لینے کی تیاری کر رہا ہے یا پہلے کسی سازش میں حصہ لے چکا ہے اُسے اُس کا سبق دے دیا۔ اب یہ تمام چھوٹے قبیلے خاموش ہو گئے، اب صرف دو ہی بڑی طاقتیں ہیں ایک کفارِ مکہ وہ بھی اتنی ہمت نہیں رکھتے کہ مدینہ آجائیں مگر اتنا ضرور ان کی جانب سے خطرہ ہے کہ مسلمان اگر مدینہ چھوڑ کے خیبر جائیں تو وہ پیچھے سے حملہ کر سکتے ہیں تو پہلے ایک مرتبہ جا کر کفارِمکہ کے سلسلے کو بھی ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے اور پھر خیبر کا قلعہ باقی بچے گا ۔

یہ واقعات کی ترتیب ہے… اطراف کی تمام سازشوں ،بغاوتوں اور شورشوں پر پیغمبراسلام نے قابو پایا اور پھر شوال کا مہینہ ا ٓگیا، سن چھ ہجری کا شوال تاریخِ اسلام کا اہم ترین سال باایں معنی کہ بعض علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسی سال حج کے وجوب کا حکم آیالیکن انشاء اللہ اس پر تو ہم بعد میں بات کریں گے ۔

ایک دن پیغمبراسلام صبح کے وقت مسجد میں داخل ہوئے تو مسلمانوں کو جمع کر کے کہا کہ کل رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے وہ خواب جس کا تذکرہ سورہ فتح قرآن کریم کا اڑتالیسواں سورہ جو واقعہ حدیبیہ کے فوراً بعد نازل ہوا اُس میں بھی اس خواب کا تذکرہ ہے کہ

لقد صدق اللہ الرسولہ الرویہ بالحق

باتحقیق اوربے شک اللہ نے اپنے رسول کے حق والے خواب کو سچا کر دکھایا ہے 

لتدخلن المسجد الحرام 

کہ یقینا ضرور بالضرور تم مسجدالحرام میں داخل ہو گے 

انشاء اللہ آمنین 

اور امن وامان کیساتھ جاؤ گے

محلقین روٴسکم 

تم جا کے اپنے سروں کو منڈواؤ گے 

ومقصرین 

یا تھوڑے سے بال کٹواؤ گے 

یہ خواب اس کا تذکرہ سورہ فتح کے اندر اس خواب کا ذکر اللہ کا رسول سن چھ ہجری میں شوال کے مہینے میں کر رہا ہے ۔

جب اطرافِ مدینہ میں اب کوئی مسلمانوں کیخلاف بغاوت کرنے والانہ رہا، ایک خواب مَیں نے دیکھا مسلمان گھبرا کے پوچھتے ہیں اللہ کا رسول کون سا خواب؟

تو کہا کہ مَیں نے خواب دیکھا کہ مَیں مکہ میں جا رہا ہوں اپنے ساتھیوں اور صحابیوں کیساتھ اور مسجدِ حرام میں احرام پہن کر داخل ہو رہا ہوں، اورمَیں نے یہ دیکھا کہ اس کے بعد ہم لوگ اپنے سروں کو منڈوا رہے ہیں جوحضرات حج اور عمرے کے اعمال اور مسائل سے واقف ہیں ان کیلئے تو بات بالکل واضح ہیں لیکن ایک عام مومن کی معلومات کیلئے عمرہ جو حج کے علاوہ ایک عبادت ہے جس میں پہلے ہی انسان اپنے جسم سے عام کپڑے اُتار کر ایک خاص سفید رنگ کا لباس پہنتا ہے جس کا نام ہے لباسِ احرام اور اِس لباس کو پہن کر مکہ میں داخل ہوا جاتا ہے جب مخصوص اعمال انجام دیتے ہیں اور آخر میں اپنے سر کو منڈوانا پڑتا ہے یا بعض صورتوں میں تھوڑے سے بال بھی کاٹ لیے جائیں تو عمل مکمل ہو جاتا ہے ۔ احرام عمرے کا آغاز ہے سرمنڈوانا عمرے کا اختتام ہے اور ان کے درمیان چار پانچ دیگر واجبات ہیں ۔

تو پیغمبراسلام یہ فرما رہے ہیں کہ مَیں نے رات کو یہ خواب دیکھا ہے کہ جیسے احرام پہن کر مَیں اپنے ساتھیوں اور صحابیوں کے ساتھ مسجدالحرام میں داخل ہو رہا ہوں اور پھر مَیں نے اپنے اور اپنے اپنے ساتھیوں کوتقصیر اور سرمنڈوانے کے عمل یعنی حلق عربی میں اس کے لفظ ہے حلق ۔تقصیر اورحلق کے عمل میں مصروف پایا ہے یہ خواب پیغمبراسلام بتا رہے ہیں اور بعد میں یہ بیان کر رہے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک پیغام ہے ہم سب کیلئے اب جو لوگ مکہ کے قدیم باشندے ہیں چھ سال پہلے اپنا وطن چھوڑ کر آئے مگر وطن کی یاد تو ان کے دل میں موجود ہے اور وطن بھی کونسا وطن جہاں خانہ کعبہ تھا جہاں صفاومروہ کی پہاڑیاں تھیں جہاں ہروقت طواف اور عبادتوں کا موقع ملتا تھا ایسے وطن سے نکالا گیا مہاجرت کے عالم میں ، ویسے ہی ان کے دل میں وطن کی یاد تھی اور خانہ کعبہ کی تصویر کسی بھی ایسے مومن سے پوچھ لیجئے ، کسی بھی ایسی مومنہ سے دریافت کر لیا جائے جو حج اور زیارات کو انجام دے کے آگئے ایک مرتبہ گئے لیکن جیسا کہ وہ حاتم طائی کے واقعہ میں ہے وہ بہرحال کسی اور چیز کے بارے میں ہو یا نہ اس ایک عبادت کیلئے ضرور ہے کہ ایک بار دیکھا ہے اور بار بار دیکھنے کی تمنا ہے ، انسان کبھی رات کو بستر پر لیٹتا ہے تو آنکھوں کے سامنے تصویر آجاتی ہے خانہ کعبہ طواف زیارت کا منظرمعصوم کی ضریح، تو یہ مکہ والے قدیم باشندے مکی، ان اپنا شہر تھا کہاں صبح سے شام چوبیس گھنٹے میں سینکڑوں مرتبہ خانہ کعبہ کو دیکھتے تھے اور کہاں چھ سال سے مکمل تعلق منقطع ہے مکہ سے ، پیغمبر کا خواب سنا اور ایک مرتبہ وطن کی یاد اور بڑھ گئی عبادتوں کی یاد، خانہ کعبہ کی تصویر ،طواف کا منظر صفاومروہ کی سعی کا مرحلہ ، خودبخود وہ ساری تصویریں ذہنوں میں آنے لگیں، مسلمانوں میں جوش اور جذبہ پیدا ہوا، خصوصاً جب پیغمبر نے یہ بھی بتا دیا تو اب یہ تو گویا حکمِ خُدا ہو گیا کہ ہمیں مکہ میں جانا ہے اپنے شہر میں عبادتوں والے شہر میں سب گئے جلدازجلد ہمیں یہاں سے بڑھنا ہے ایک مرتبہ سارے مسلمان تیار ہو رہے ہیں یہاں پہ رُک کے مَیں ضمنی طور پر ایک بات کو عرض کر دوں صلح حدیبیہ یہاں پہ آپ دیکھیں گے قدم قدم پہ نئے نئے پیغامات ہمارے سامنے آ رہے ہیں یہی صلح حدیبیہ یہ بتائے گی کہ قرآن نے اسلام کی تمام لڑائیوں کو چھوڑ کے اس صلح کے بعد اِنّا فتحنا لک فتحا مبینا کا لفظ استعمال کیا ہے نہ بدر کی لڑائی کے بعد کہا کہ فتح مبین ملی نہ اُحد کے بعد کہا کہ فتح مبین ملی نہ خندق کے بعد کہا کہ فتح مبین ملی نہ خیبر کے بعد کہا کہ فتح مبین ملی نہ غزوہ حنین کے بعد کہا کہ فتح مبین ملی جب کہ ان میں سے ہر ہر لڑائی اتنی اہم تھی کہ وہ حق رکھتی تھی کہ اُسے فتح مبین کہا جائے اور کہا تو اُس لڑائی کو کہا کہ جس میں تلوار استعمال ہی نہیں ہوئی اس کا بھی ایک مقصد ہے انشاء اللہ اپنے موقع پہ یہ بات آئے گی۔

صلح حدیبیہ یہ بھی بتارہی ہے اسلام میں جمہوریت اور ووٹنگ کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ صلح حدیبیہ تو ایک ایسا متفقہ واقعہ کہ کوئی مسلمان موٴرخ ایسا نہیں جس نے یہاں پہ اختلاف کیا ہو کہ لشکراسلام ننانوے فیصدی ایک طرف تھا اور اکیلا اللہ کا رسول ایک علی(ع) کو لے کر دوسری جانب تھا، اگر ووٹنگ کے معیار کو دیکھا جائے اور شوریٰ کے مشورے کے مسئلے کو دیکھا جائے تو سارے مسلمانوں کااتفاق ہے ایک مسئلے پرفقط رسول اور علی(ع) ایک جانب ، ہم نے دیکھا کہ نہ ووٹنگ چلی، نہ شوریٰ چلی، نہ مشورہ چلا، نہ جمہوریت چلی، نہ Public Opinionچلی، نہ رائے عامہ چلی، حکم وہ چلا صرف جو رسول نے چاہا اور علی(ع) نے قلمبند کیا ، صلح حدیبیہ ایک یہ پہلو بھی بتاتی ہے۔

تواسی صلح حدیبیہ میں آپ دیکھیں گے کہ الفاظ کی اہمیت کتنی زیادہ ہے کسی بھی معاملے میں جب الفاظ لکھے جاتے ہیں، ہمارے یہاں مسائل فقہ کو تحقیر آمیز انداز سے دیکھنے اور ان پر کوئی توجہ نہ دینے والوں کی ایک فکر یہ بھی ہے یہ مجتہدین اور مولوی لوگ لفظوں کو پکڑ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں حلال وحرام سود حرام ہے تو چھوڑ دو ہر سود یہ کیا بحث ہے کہ کونسا سود صحیح اور کونسا غلط ہے اگر حرام ہے ایک چیز مثلاً رشوت تو چھوڑ دو یہ کیا کہ اس پر مجتہد چمٹ جاتا ہے کہ رشوت کہتے کسے ہیں اس کے معنی کیا ہیں عربی زبان کے اعتبار سے ڈکشنری کیا کہہ رہی ہے؟ 

آپ نے دیکھا ہو گا کہ دیندار لوگ جیسا ان کی سمجھ میں آئے عمل کرناچاہتے ہیں الفاظ کو کوئی اہمیت نہیں دینا چاہتے ہیں صلح حدیبیہ یہ بھی بتائے گی بات کو مختصر ابھی کہہ دوں کیونکہ اس کا اصل واقعہ تو بعد میں انشاء اللہ آنے والا ہے، صلح حدیبیہ کی شرط نمبر دو یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان مدینہ آئے گا تو اُسے نکال دیا جائے گا واپس کر دیا جائے گا اِدھر اس agreement پہ سائن ہوئے اُدھر ایک مسلمان آیا پیغمبر نے اسی وجہ سے اُسے واپس کر دیا مگر ابھی وہ مسلمان واپس گیا ایک مسلمان عورت آگئی مکہ میں بعض مسلمان عورتیں بھی تھیں بلکہ سورہ فتح کی ایک آیت آئی کہ اللہ نے اس لیے بھی صلح کرائی کہ اُن مسلمان عورتوں اور بچوں کو بچانا تھا وہ اپنے موقع پر آئے گی بات مگر ضمنی طور پر بعض لوگ مجتہدینِ کرام کو اس طریقے سے بہت الجھاتے ہیں کہ بھئی وہ سیدھا سیدھا ایک مسئلہ دے رہا ہے یہ گھما پھرا کر کیوں بات کرتے ہیں یہ چیز یوں ہے تو نجس اگر ووں ہے تو پاک ، یوں ہے تو حلال اس طریقے سے ہے تو حرام ، نیت یہ ہو گئی تو جائز وہ ہو گئی تو ناجائزان کے لیے بھی ایک پیغام ہے، تفصیل بعد میں آئے گی لیکن بات نکلی ہے تو واضح کر دوں مسلمان آیا پیغمبر نے واپس کر دیا ہم نے ابھی ابھی agreement کیا ہے اور اس کی شرط نمبر دو کے مطابق کوئی مسلمان ہم قبول نہیں کر سکتے، اور موقع دیکھ کر ایک عورت بھی آ گئی عقبہ ابن معید کی بیٹی، وہ بھی آگئی اور آنے کے بعد کہا اللہ کے رسول کافر کے ساتھ شادی ہوئی چونکہ مَیں مکہ میں تھی اور موقع ہی نہ تھا میرے پاس بچنے کا لیکن اب جب پتا چلا کہ لشکرِ اسلام یہاں آیا تو اب مَیں بڑی مشکل سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کے پہنچی ہوں مجھے پناہ دی جائے اور اُدھر اُس کا شوہر آ گیا اور کہا کہ نہیں یہ میری بیوی ہے گھر سے نکل بھاگی ہے اِس کو واپس کیاجائے اور دیکھئے ابھی وہ سب لوگ جنہوں نے اگریمنٹ پہ سائن کیے ہیں کافروں کی جانب سے پیغمبراسلام نے مسلمانوں سے کہا کہ اسے اپنی پناہ میں لے لو اسے واپس نہیں کیاجائے گا ۔

وہی جو اگریمنٹ پہ سائن کر چکا ہے مکہ والوں کی جانب سے کہا کہ ابھی ابھی معاہدہ ہوا ہے آپ خلاف ورزی کر رہے ہیں، کہا نہیں اگر مَیں خلاف ورزی کر رہا ہوتا تو اُس مرد کو واپس نہ کرتا جو اس سے زیادہ پریشان حال میرے پاس آیا تھا واپس کیا گیا، کہا پھر اس کو کیوں آپ پناہ دے رہے ہیں ؟ کہا کہ اگریمنٹ پہ یہ تھا کہ مومن آئے گا تو اُسے واپس کیا جائے گا مومنہ کے بارے میں کوئی لفظ نہیں تھا۔ ہمارا معاہدہ مومن کے بارے میں ہے مومنات کے بارے میں نہیں، مومنین کی واپسی ہم واجب ہے مومنات کی نہیں عین اسی موقع پر سورہ ممتحٰنة نازل ہوا قرآن کریم کا اہم ترین سورہ کہا یا ایھا الذین آمنوایعنی بعض مسلمان بھی ذرا چونکے یہ کچھ بات ہمیں کچھ اچھی نہیں لگتی اگریمنٹ پہ جب آ گیا تو مرد ہے یا عورت سب کے بارے میں یہی حکم ہونا چاہیئے سورہ ممتحٰنة اسی موقع پہ نازل ہوا یاایھاالذین آمنوا اذاجائکم مومنٰت مہاجرات اے صاحبانِ ایمان جب تمہارے پاس مومنات آئیں جو ہجرت کر کے آ رہی ہیں پھر آیت نے آگے چل کر فلا ترجعوھن الی الکفارخبردار انہیں کافروں کی جانب واپس نہ کرنا خبردار یہ یاد رکھو نہ یہ عورتیں کافر مردوں کیلئے حلال ہیں اور نہ کافر مرد ان عورتوں کیلئے حلال ہیں ۔

اب اسی موقع پہ آیتِ قرآنی میں آ گیا مزید اس چیز کی تصدیق کر دی کہ پیغمبراسلام معاہدہ کے لفظ سے استراح لے کے دلیل بنا رہے ہیں لیکن کچھ مسلمان بھی Confuseہو گئے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ الفاظ سے کھیلا جا رہا ہے مرد ہے یا عورت فرق کیا آیت قرآنی نے کہا کہ نہیں عملِ رسول بالکل صحیح ہے جب معاہدہ میں لفظِ مومن آیا تو مومنہ اس کے اندر شامل نہیں ہے۔

اس کے بارے میں یہ مانا جائے گا کہ یہ ایگریمنٹ یہ معاہدہ یہ بالکل خاموش ہے یہ بالکل خاموش ہے ہم اپنی بہن کو پناہ دیں گے ۔

ہاں یہ دوسری بات کہ پھر پیغمبر نے عورت سے ایک سوال کر لیا یہ دوسری بات ہے کہ ایک سوال کیا یہ واقعہ مجھے خود افسوس ہے کہ وقت سے پہلے ہی کیوں آ گیا وقت پہ یہ آتا اب آ گیا ہے تو نامکمل چھوڑنا خطرناک ہے پیغمبر نے یہ سوال کیا کہ اب تم یہ بتاؤ کہ اپنے شوہر کو چھوڑ کے جو تم مسلمانوں کے پاس آئی تو اللہ کی خوشی کیلئے آئی ہو یا فقط تمہیں شوہر بدلنا ہے ؟اس لیے آئی ہو یا فقط تمہیں شہر بدلنا ہے ؟ اس لیے آئی ہو فقط تمہیں پیسے اور مدد لینا ہے اس لیے آئی ہو؟چار چیزیں پوچھیں اللہ کے لیے آئی ہو؟ یا یہ کہ شوہر بدلنا تھا یہ کہا کہ موقع بڑا اچھا ہے جیسے آجکل بعض لوگوں کے ہاتھ ایک مسئلہ لگ گیا کہ یہ مجتہد کا وکیل بھی طلاق دے سکتا ہے یہ دیکھے بغیر شرائط کیا ہے ذمہ داریاں کیا ہیں، وہ صیغہ جاری کردے پھر بھی اگر ہمیں پتا ہے اُس صیغے کے جاری کرنے میں وہ بیچارہ بے قصور ہے جیسا اُسے کہا گیا ویسا اُس نے عمل کیا لیکن اگر ہم کو پتا ہے کہ معلومات غلط دی گئیں تو وہ بالکل باطل ہے تو آقائے خوئی منہاج الصالحین کی جلد اول کی تقلید کی بحث میں لکھ رہے ہیں کہ وکیل تو وکیل اگر مجتہد اور مرجع بھی کوئی حکم جاری کرے کہ انفارمیشن یا اطلاعات یا مقدمات میں کہیں غلطی ہے اُس حکم کی کوئی اہمیت نہیں وہ حکم ٹوٹ گیا وہ حکم باطل ہے اُس کی پابندی ہم پر واجب نہیں ۔

توآجکل جس طرح بعض لوگوں کے ہاتھ ایک مسئلہ لگ گیا کہ جی وکیل کے ذریعے طلاق مل جاتی ہے صحیح ہو غلط ہو یہ سوچے سمجھے بغیر اللہ کا رسول اس مومنہ کو پناہ بھی دے رہا ہے ایگریمنٹ کے مطابق ہم تمہیں واپس نہیں کریں گے لیکن ایسا تو نہیں کہ یہ عورت کسی فراڈ یا دھوکے کی نیت سے آکے مسلمانوں کی ہمدردی لے رہی ہے تم بتاؤ تمہارا مقصد اللہ کی خوشنودی ہے، شوہر سے نجات پا کے دوسرا نیا شوہر لینا ہے یا جگہ بدلنا مکہ شہر پسند نہیں آ رہا کسی اور شہر میں جانا یا دنیا چاہیئے جب پتا ہے کہ مظلوم بن کے آئیں گے تو مسلمان دل کھول کر مدد دیں گے یہ سوال اپنی جگہ خود اس مسئلے کو واضح کر رہا ہے اگرچہ اسلام کے اعتبار سے کسی کو یہ حق مل بھی رہا ہے لیکن اگر اُس کی نیت اور وہ شرائط پوری نہیں کر رہا تو رسول بھی اُسے حق دلوا دے گا لیکن وہ اپنی جگہ گنہگار رہے گا ۔

خیر مزید یہ واقعہ دہرایا بھی جائے گا یہ پانچ سات منٹ کی تکرار بعد میں ہو گی لیکن چونکہ بات چھِڑ گئی نامکمل چھوڑنے کا مقصد غلط فہمیاں بڑھانا ہے ۔ بات مَیں یہ عرض کر رہا تھا کہ صلح حدیبیہ میں جہاں یہ پیغام کہ فتح کسے کہتے ہیں ، جہاں یہ پیغام کہ جمہوریت اور شوریٰ اور مشورہ کی کیا اسلام میں کیا اہمیت ہے۔ حکمِ رسول کے آگے کوئی اہمیت نہیں، جہاں صلح حدیبیہ کایہ پیغام کہ الفاظِ شریعت کی اہمیت کتنی ہے لفظِ مومن آئے تو ضروری نہیں ہے کہ مسئلہ مومنہ کے بارے میں بھی ہے ۔ چلیں ایک فقہی مسئلہ بھی مَیں بتا دوں اس سال ہمارا طریقہٴ کار کچھ بدل گیا مسائل بیان ہوتے ہیں لیکن تقریر کے بیچ میں جہاں جس مسئلے کا موقع ملا اب اسی مسئلے کی وجہ سے ایک بات بتا دی جائے، توضیح المسائل یا فقہ کی کتاب جہاں کہیں لکھا کہ فلاں چیز دو عادلوں کی گواہی سے ثابت ہے یا ایک عادل کی گواہی سے ثابت ہے یاد رکھئے کہ عادل کہتے ہیں مرد کو ہیں۔ عورت کو عادل نہیں کہتے عورت کا نام ہے عادلہ جیسے مومن اور مومنہ مسلمان اور مسلمہ مشرک اور مشرکہ عادل اور عادلہ اگر لکھا ہے کسی مجتہد نے کہ کپڑا پاک ہے یا نجس ایک عادل کی گواہی چلے گی یا دو عادل کی گواہی چلے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ایک عورت کی گواہی نہیں چل سکتی عورت آکر کہے کہ یہ کپڑا پاک ہے تب بھی نہیں چلے گی گواہی چاہے وہ تقویٰ اور عدالت کے بہترین معیار کے اوپر ہو اس لیے کہ لفظ جو کتاب میں آیا ہے فقہ کے اُسے لفظ کے مطابق عمل ہو گا ۔ ہاں یہ دوسری بات کہ نجاست اور طہارت آغا خوئی نے عادل کی بحث کو نکال کے کہا کہ جو بھی قابلِ بھروسہ ہو اُس کی گواہی چل جائے گی قابلِ بھروسہ میں عورتیں آ جاتی ہیں لیکن جیسا امام خمینی(رح) نے کہا عادل کی گواہی چلے گی اُس میں نجاست وطہارت ، کپڑا نجس ہے یا پاک، برتن نجس ہے یا پاک ، زمین نجس ہے یا پاک گواہی کے اعتبار سے اُس میں عورتوں کی بات مانی ہی نہیں جائے گی ہاں وہ ایک اور طریقہ کہ یقین ہو جائے تو دوسری بات ۔

خیر واپس آئیے الفاظ اُسی کیساتھ صلح حدیبیہ کا ایک اور اہم پیغام وہ کیا اصل میں جہاں سے بات شروع ہوئی تھی اور مَیں دوسری ساری باتوں کو بھی لے لیا کہ صلح حدیبیہ قدم قدم پہ ہمیں ہدایتیں دے رہی ہے بالکل ابتداء میں سب سے پہلی ہدایت ہمارے سامنے کیا آئی… پیغمبر فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک خواب دیکھا اور یہ دیکھا کہ مَیں مسجدالحرام میں داخل ہو رہا ہوں اور یہ دیکھا کہ مَیں نے سر کو منڈوایا ، یہ پیغمبرِاسلام کا خواب ہے ۔ اچھا یہ خواب کیا ایسا ہی نکلا جیسا کہ رسول نے دیکھا ، ہمارا آپ کا خواب ہے وہ تو کوئی بات نہیں ، صحیح بھی نکل سکتا ہے غلط بھی نکل سکتا ہے مگر رسول کا خواب جس میں غلطی ہونا نہیں چاہیئے اور ایسا خواب کہ رسول کہہ دیں کہ یہ خدا کا پیغام ہے اور وہ خواب جس نے مکہ سے آنے والے سارے مہاجروں کو اپنا وطن اور خانہ کعبہ یاد دلا دیا یہ تو بڑا اہم خواب بن گیا ایک تو یہی اہمیت کہ رسول کا خواب اور پھر یہ کہنا کہ رسول کا خواب بھی اللہ کی جانب سے ویسے تو رسول کا ہر خواب اللہ کی طرف سے ہے لیکن جب الگ سے کہہ دیا جائے کہ یہ اللہ کیطرف سے ہے تیسرا وہ خواب جس کا تعلق تمام مسلمانوں کے جذبات سے ہے اب اتنا اہم بن گیا یہ خواب مگر جب ہم صلح حدیبیہ کا واقعہ دیکھتے ہیں تو یہ خواب سچا نہیں نکلا… نہیں نہیں… یہ مَیں نے غلط لفظ کہا یہ خواب پورا نہیں ہوا۔

اچھا تین باتیں رسول کا خواب یہ کہہ کر کہ یہ اللہ کا پیغام ہے اور ایسا خواب کہ جس نے ایک مرتبہ مکہ کے مہاجروں کو وطن یاد دلا دیا اور چوتھی بات قرآن کی آیت آ گئی 

لقد صدق اللہ الرسول الرویہ بالحق

اللہ نے رسول کے خواب کوسچا کر دیا۔

صدق… سچا کر دیا رسول کے خواب کو۔

چار چار باتیں جمع ہو رہی ہیں، تاریخ کہہ رہی ہے کہ یہ خواب اس طرح پورا ہی نہیں ہوا، گئے تو تھے مسلمان مگر حدیبیہ وہیں سے واپس کر دیاگیا مکہ تو چھوڑیں، حدودِ حرم میں بھی داخل نہیں ہوئے ۔ رسول خواب دیکھ رہے ہیں کہ مسجدالحرام میں داخل ہوئے ، مسجدالحرام نہیں مکہ، مکہ بھی نہیں حدودِ حرم میں بھی داخل نہیں ہوئے، حرم کے باہر باہر سے رخصت کر دیا گیا ۔

پیغمبر کہہ رہے ہیں کہ میرا خواب، قرآن کہہ رہا ہے کہ سچا خواب، تاریخ کہہ رہی ہے کہ یہ خواب پورا نہیں ہوا، ہاں پورا ہوا کس طرح… پورے ایک سال کے بعد ، پورے ایک سال کے بعد اگلے سال انہیں تاریخوں میں کیونکہ صلح حدیبیہ کی پہلی شرط یہ تھی کہ اس سال چلے جاؤ اگلے سال انہیں تاریخوں میں آؤ اور عمرہ کر لینا، کونسا عمرہ؟ جس کی تیاری جس کا احرام اس سال پہنا اگلے سال آکے کرنا چنانچہ اگلے سال یہ سب مسلمان گئے اُس سال پورا عمرہ کیا، مکہ میں بھی گئے خانہ کعبہ کا طواف بھی کیا سعی بھی کی، اس کا نام ہی تاریخوں میں ہے عمرة القضاء قضا والا عمرہ جو پیغمبر نے قضا والا عمرہ کیا، وہ عمرہ اگلے سال ۔ 

اب دیکھیں رسول یہ کہہ دیں ہم سے آ پ سے کہہ دیں کہ ہم نے یہ خواب دیکھا ہے ہم جا رہے ہیں اور چلو میرے ساتھ کیا ہر ایک کے ذہن میں یہ بات نہیں آئے گی کہ یہ خواب اسی سال پورا ہونا ہے ہر ایک کے ذہن میں یہ بات آئے گی ، خواب، رسول نے کہا یہ خواب پورا اگلے سال ہو گا کیا اس میں ایک اہم ترین پیغام پوشیدہ ہے جدھر میں آپ کی توجہ کو لے جانا چاہ رہا ہوں بالکل شروع میں خواب دیکھا ہے پورا بھی ہوا ہے لیکن ایک سال کے بعد عام مسلمان وہ گھبرا گئے کہ پیغمبر نے خواب دیکھا پھر ہم واپس کیوں آگئے مکہ سے اُن کو کیا پتا کہ ایک سال کے بعد یہ خواب پورا ہو گاوہ تو پریشان ہو گئے ، قرآن کی آیت اس کے بعد نازل ہوئی کہ مسلمانوں گھبراوٴ نہیں اللہ کا وعدہ ہے کہ اُس کے رسول کا خواب سچا ہے پورا ہو کے رہے گا مگر مسلمان تو پریشان ہے ساری تیاری کر کے مسلمان ہم کو لے گئے یہ خواب پورا کیوں نہ نکلا؟ ایک پیغام اس میں بھی ہے وہ یہ کہ رسول اور امام(ع) کی جوبھی حدیثیں ہوتی ہیں اگر اُس میں کوئی تاریخ نہ ہو تو اپنی مرضی سے اُس حدیث کو کسی زمانے پر Fitنہ کر لیجئے منطبق نہ کر لیجئے جیسے پچھلے سال صدام کے واقعات کے دوران بعض لوگوں کو یہ غلطی کرتے دیکھا گیا کہ ظہورِ امام(ع) کی نشانیاں کتابوں میں ڈھونڈی جانے لگیں، ایک ایک کر کے وہ ساری کتابیں، جتنا اُردو میں وہ لٹریچر ہے تھوڑا بہت، قیامت صغریٰ کو کھولا، چودہ ستارے کے اُس چیپٹر کو کھولا، اور یہ آٹھ دس اور کتابیں علائم الظہور کے نام سے اُن کو کھولا، ساری نشانیاں دیکھی گئیں،خواہ خلیج میں جنگ ہو گی، خواہ بغداد میں تباہی ہو گی ، کوفہ وبصرہ اس طرح نشانہ بنے گا ، خواہ حجاز کے علاقے سے آگ کے گولے بلند ہوں گے، یہ ساری حدیثیں دیکھی گئیں اور اُن ساری حدیثوں میں بالکل بغیر کسی بنیاد کے یعنی صدام کے اور امریکا کے اور کویت کے حالات کو منطبق کیا گیا۔مجھے یا د کہ میں نے اس وقت بھی کہا تھااور ہم یہکہہ چکے ہیں کہ یہ ساری حدیثیں بتا رہی ہیں کہ ایسے ہی واقعات آئیں گے مگر دنیا کا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ امام(ع) نے اسی سال یعنی انیس سو نوے اور اکیانوے کے بارے میں یہ کہا اور اس وقت مَیں نے یہ بات کہی کہ کبھی ظہور کی کسی نشانی کو اپنی مرضی کے کسی واقع کے اوپر فِٹ نہ کیجئے گا، موزوں نہ کیجئے گا۔ کیا پتا ایک واقعہ کتنی مرتبہ پیش آنا ہو، بغداد کتنی مرتبہ تباہ ہونا ہو، قدس میں کتنی مرتبہ لوگوں کو لُٹنا ہو، خلیج میں کتنی مرتبہ جنگیں ہونا ہو…؟

یہ سارے جملے مَیں نے عرض کیے لیکن اُس وقت عام آدمی کثرت کے ساتھ یہ غلطی کر رہے تھے اور عراق کی حکومت پیسہ دے دے کر اس بات کو پھیلا رہی تھی لیکن صلح حدیبیہ بھی دیکھئے اس اس کی ایک نشانی بنی … ابھی تو یہ پچھلے سال کے حالات اور کتابوں کی بات تھی لیکن یہ جو مَیں صلح حدیبیہ کی بات کر رہا ہوں وہاں تو رسول خود مسلمانوں کے سامنے ہیں …”مَیں نے دیکھا ہے کہ ہم نے عمرہ کرنا ہے، مکہ میں جانا ہے، حرم میں داخل ہونا ہے“ ہر مسلمان یہ سمجھا ہے کہ رسول نے کہہ دیا اب تو یہ بات پوری ہو کے رہے گی ، بات تو صحیح ہے قیامت آجائے لیکن قولِ رسول غلط نہیں ہو سکتا، لوگوں نے اپنی طرف سے یہ بنا لیا کہ جب رسول نے کہا ہے تو اسی سال یہ واقع پورا ہو گا تو رسول خود بھی ہمارے ساتھ چل رہے ہیں تو مزید برکت ہو جائے گی ۔

ایک اصول آگیا سامنے کہ رسول اور امام(ع) کی حدیث اگر وہ خود کہیں تاریخ بتا دیں تو دوسری بات ورنہ ہمیں حق نہیں کہ ہم کہہ دیں کہ وہ حدیث آجکل کے زمانے پہ فِٹ اُتر رہی ہے بس اندازہ لگا سکتے ہیں مگر یقین کیساتھ نہیں کہہ سکتے جیسا اس واقعہ میں ہوا۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کو باقی ساری ہدایتیں جبرئیل(ع) کے ذریعے ملتی ہیں ایک یہ صلح حدیبیہ کا واقعہ خواب کے ذریعے آیا ۔ پیغمبر کے حالات دیکھ ڈالیے جتنے بھی اہم واقعات ہیں سیرت رسول کے کہیں خواب نظر نہیں آ رہااس لیے نہیں کہ رسالت کا خواب معاذ اللہ غلط ہے لیکن جو اہم پیغامات تھے وہ فرشتے کے ذریعے بھجوائے جاتے تھے سوائے اس ایک صلح حدیبیہ کے پیغام کے کہ جس میں جبرئیل(ع) کو بیچ میں سے نکالا گیا اور پیغمبر کو خواب دکھایا گیا تاکہ یہ بات اور زیادہ مسلمانوں پر واضح ہو جائے کہ پیغمبر کا کلام برحق ہے خواب میں دیکھا کہ مکہ میں جا رہے ہیں… کون سے سال؟ کب کی بات ہے؟ خواب کب پورا ہو گا یہ ساری چیزیں نہیں۔ جبرائیل(ع) آتے تو سارے سوالات ہو سکتے تھے ، خیر… مَیں یہ دیکھتے ہوئے کہ سیرت رسول میں واقعات زیادہ آنے چاہئیں ، تبصرہ اتنا نہ ہو جائے کہ واقعات پیچھے رہ جائیں اسی ایک جملے پہ اکتفا کرتے ہوئے کہ غور کیجئے گا کہ شاید یہ بھی ایک مصلحت ہے کہ صلح حدیبیہ خواب کے ذریعے ہوئی باقی بدرہو، اُحد ہو، ہجرت ہو، اعلانِ رسالت ہو، اعلانِ غدیر ہو، خیبر ہو ہر جگہ ظاہر ہے فرشتہ آ کے پیغام دے کے گیا … فرق یہی ہے کہ ایک سال کا جو چکر پڑنے والا ہے ۔

خیر واپس آئیے موضوع پر اللہ کے رسول نے ایک اعلانِ عام کیا، کہ مَیں نے رات کو خواب دیکھا کہ ہم سب لوگ احرام پہن کے خانہ کعبہ میں داخل ہو رہے ہیں اور قرآن نے کہا بھی 

”لقد صدق اللہ الرسول الرویہ بالحق، لتدخلن المسجد الحرام انشاء اللہ“

یقینا ضروربالضرور تم اس مسجد میں داخل ہو گے۔ پیغمبراسلام اسی کی اطلاع شروع میں دے رہے ہیں ۔ یہ جو سُنا مسلمان جوش اور جذبے کیساتھ بھر گئے، اب اس وقت مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ایک مکہ کے مسلمان جو اپنے وطن کو یاد کر رہے ہیں اور خانہ کعبہ کی تصویریں اُن کے سامنے آ رہی ہیں اور ایک نئے مسلمان جنہوں نے نہ مکہ دیکھا نہ کعبہ مگر اُس کی عظمت اور اہمیت رسول کی زبانی سُنتے رہے ہیں اُنہیں بھی جوش، مہاجرین کو بھی جوش ، لشکراسلام چلا،یا تیرہ سو یاچودہ سو یا سولہ سو یااٹھارہ سو افراد پر مشتمل تھا۔تیرہ سو سے اٹھارہ سو تک کا عدد تاریخوں میں آیا لیکن زیادہ معتبر علماء نے چودہ سو کا عدد بیان کیا ہے۔ 

مدینے سے یہ لوگ نکلے، مدینہ سے نکلتے ہی چھ میل کے فاصلے پرذوالحلیفہ ایک علاقہ ہے جسے آج کل دیارعلی اور وہاں پر بنی ہوئی مسجد کو مسجدِشجرہ کہا جاتا ہے ، یہی ذوالحلیفہ مدینے سے چھ میل کے فاصلے پر ہے جو آج کل دیارعلی کے نام سے مشہور ہے اور مسجدشجرہ بھی اس جگہ کو کہتے ہیں اور اس کو اساس سمجھا گیا ہے حج اور عمرے کیلئے یعنی وہ جگہ جہاں اپنا لباس اُتار کر احرام پہننا پڑتا ہے، چھ میل کے فاصلے پر ہے مدینے سے اب تو نہیں اب تو شاید ایک میل دُور ہو لیکن اُس زمانے میں چھ میل دُور وہاں پیغمبر پہنچے اپنے قافلے کو روکا گیا ، سب نے غسل کیا، غسل کرنے کے بعد احرام کی چادریں پہنی گئیں، احرام کی چادروں کے ملبوس ہو جانے کے بعد ایک مرتبہ بآوازِبلند نیت کیساتھ تلبیہ پڑھا گیااور ایک عجیب منظر ذوالحلیفہ کے مقام پرہو رہا ہے ،اُس وقت اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی مسلمان لے کر آئے تھے یاتریسٹھ اونٹ یا ستّر پیغمبر نے سب کو احرام پہنا دئیے۔

اب دیکھئے پھر ایک مسئلہ زبان پر آگیا موضوع سے ہٹ کر آجکل وہ تاریخیں ہیں کہ لوگ کثرت کیساتھ عمرے پہ جا رہے ہیں چنانچہ عمرے پہ جانے والوں کو میرا مشورہ یہی ہوتا ہے کہ آپ کو مکہ بھی جانا ہے اور مدینہ بھی جانا ہے دونوں جگہ جانا ہے ایسا پروگرام بنائیے کہ پہلے مدینے جائیں پھر مکہ آئیں تاکہ مدینے سے مکہ آپ جایں گے تو وہ سنت کا ثواب آپ کو مل جائے گا ، اُس جگہ سے احرام پہنیں جہاں سے رسول نے احرام پہنا ہے اُس راستے پر چلیں جہاں سے رسول چلے ، اُس انداز سے مکہ میں داخل ہوں جس انداز سے رسول داخل ہوئے ورنہ اگر آپ براہِ راست پہلے مکہ گئے عبادتیں توصحیح ہو جائیں گی پھر سے مدینے جائیں گے ، مدینے سے کراچی واپس آ جائیں گے … وہ سعادت اور فضیلت ہاتھ سے چھوٹ جائے گی یہ عمرے والوں کیلئے میرا پیغام ہوتاہے اور حج والے چاہے پہلے مکہ جائیں جیسے ہمارا قافلہ مگربہرحال پھر مدینے سے واپس مکہ آکے سنت کو لے لیتے ہیں اس لیے اُس میں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن عمرے والوں کیلئے میرا خاص ایک نصیحت چونکہ بڑی فضیلت ہو گئی اس واقعہ کے بعد ذوالحلیفہ کی مسجد کی جہاں رسول نے عالمِ اسلام کا پہلا عمرہ … مسلمانوں کی پہلی مسجد کہاں ہے ؟ مسلمانوں کی پہلی نماز کہاں ہوئی؟ پہلا روزہ کب رکھا گیا؟… اسی طرح فضیلت عالمِ اسلام میں ، اسلام آنے کے بعد پہلی مرتبہ احرام کہاں سے پہنا گیا ؟…مسجدِ شجرہ… پیغمبراسلام نے احرام پہن لیا ۔

اب اس سفر کا مقصد جنگ نہیں تھا چنانچہ رسول نے باربار اشارہ کیاچاہے کچھ بھی ہو جائے کفار کچھ بھی کر لیں ہمیں جنگ نہیں کرنا ہے ہم جنگ نہیں کریں گے ۔ پیغمبر کے اس جملے نے بھی مکہ کے کافروں کو بعد میں شیر کر دیا تھا چنانچہ مسلمان لڑ تو سکتے ہی نہیں جتنا ان کو دباؤ سودباؤ تو پیغمبر کا یہ اعلان کہ ہمیں جنگ نہیں کرنا یہیں سے شروع ہو گیا وہ اس طرح کہ اللہ کے رسول نے کہا کہ اے مسلمانو! تم اس انداز سے چلو کہ کہ دُور سے بھی تمہیں کوئی دیکھے تو پہچان لے کہ یہ جنگ کرنے والے نہیں جا رہے یہ عبادت کرنے والے جا رہے ہیں ، کوئی اسلحہ ساتھ میں نہیں رکھنا سوائے تلوار کے وہ بھی نیام کے اندر ہونی چاہیئے، اس لیے کہ تلوار بہرحال عربوں میں اسی طرح ہر ایک مرد کیساتھ ہونا چاہیئے جس طرح پاکستان کے بعض سرحدی علاقوں میں وہ ہتھیار مانا ہی نہیں جاتا وہ مرد کا زیور اور مرد کی زینت مانا جاتا ہے اس کے علاوہ احرام پہن لو اور قربانی کے جانور کو اس طرح سے نمایاں کرو کہ دیکھنے والوں کو پتا چل جائے کہ یہ میدان والے اونٹ نہیں ہیں جنگ والے یہ نہیں ہے کہ یہ ٹینکوں کی طرح سے اونٹ ہیں لے جا رہے ہیں بعد میں اس پہ بیٹھ کے لڑائی کریں گے نہیں شروع سے ہی نشانی لگا دو کہ یہ قربانی کے اونٹ ہیں ۔

اس کے لیے اسلام کا ایک طریقہ ہے شاید آپ لوگوں کو عجیب لگے لیکن مسئلہ ہے کہ ایسا جانور جس کیلئے پہلے سے یہ بتانا ہو کہ یہ قربانی کیلئے ہے کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہیں ہو گا اس کے دو طریقے ہیں یا تو اونٹ اگر ہے تو اس کے کوہان کو تھوڑا سا چیرا جائے اور جو خون نکلے وہ خون اس کے اوپر مَل دیا جائے ، دُور سے ہی جب کوئی دیکھے وہ اونٹ جس کے پشت کے اوپر خون مَلا ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قربانی کا جانور ہے جنگ کا جانور نہیں ہے دوسرا یہ کہ پُرانے پھولوں کا ہار بنا کر جانور کے گلے میں ڈالاجائے ، آج بھی یہ فتویٰ ہے آغای خوئی کے مناسکِ حج میں پڑھ لیجئے گا کہ ان دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے اپنے جانور کو سجا کر لے جاؤ تاکہ پتا چل جائے کہ یہ حج کیلئے جا رہا ہے ۔ پیغمبر نے دونوں پر عمل کیا بعض اونٹوں کے کوہان کو ذرا سا شگافتہ کیا چِیرا دیا زخم لگایا اور بعض اونٹوں کے گلے میں وہ ہار بنا کے ڈالا گیا ۔ 

اب یہ قافلہ چلا، مدینے سے یہ قافلہ نکلا ایک عجیب شان کیساتھ چودہ سو مسلمان احرام پہنے ہوئے خالی ہاتھ بغیر کسی ہتھیار کے اپنے ساتھ قربانی کے جانور لے کے جا رہے ہیں جانور اُس حالت اور ہیت میں دُور سے دیکھنے والا پہچان لے کہ یہ میدانِ جنگ میں کام نہیں آئیں گے یہ وہ جانور ہیں جو صرف قربان کیے جاتے ہیں…قافلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔

مکہ والے بیٹھے ہیں اُن کے پاس اطلاع آ گئی ، پیغمبر نے اتنا نمایاں طور پر اتنے اعلان کیساتھ اتنا کھلم کھلا اور اتنا ٹائم پہلے یہ ساری تیاریاں کیں کہ مکہ والوں تک یہ اطلاع پہنچنا ہی پہنچنا ہے ، پہلے خواب سنایا مدینے میں، چند دن تیاری میں لگا دئیے پھر نکلے تو مسجد شجرہ میں ایک دن رُک گئے وہاں بھی سارے اہتمام کو سب کے سامنے کیا تو بہرحال مکہ والوں تک یہ اطلاع پہنچنا ہی پہنچناتھی … اطلاع پہنچی کہ مسلمان چودہ سو کا لشکر لے کے آ رہے ہیں ، بس ایک مرتبہ مکہ کے لوگ گھبر ا گئے اُن کے ذہن میں صرف ایک خیال آیا اور وہ یہ کہ جو کچھ آج سے پہلے ہوا ہم بدر میں ہار کے آئے، ہم اُحد میں ہار کے آئے ، ہم خندق میں ہار کے آئے وہ کوئی ذلت اور رسوائی نہیں تھی لیکن ہمارا شہر جس خانہ کعبہ کے ہم متولی جو ہمارے ہاتھ میں ہے اُس میں اگر مسلمان آ کے عبادت کر کے چلے گئے تو عرب کے سامنے ہماری ناک بھی کٹ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ ہمیں اس عہدے ہی سے ہٹا دیا جائے اور اپنی عزت کو بچانے کے لئے مسلمانوں کومکہ داخل ہونے سے روکنا ہے … مگر ڈر بھی رہے ہیں کہ یہ وہی تو مسلمان ہے کہ بدرواُحد میں ہمیں مزہ چکھا چُکے ہیں تو کوئی ایسا طریقہ اختیار کرو کہ آمنے سامنے آئے بغیر کام چل جائے ۔

خالد ابن ولید اُس وقت تک دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اُنھیں دوسو سواروں کیساتھ بھیجا گیا کہ حتی الامکان کہ راستے میں کہیں موقع ملے تو مسلمانوں پر Attackکرو اور حملہ کر دواور سب کو مار دو ۔ 

یہ اطلاع کافروں کو سکون پہنچا رہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس میدان میں لڑائی میں کام آنے والا کوئی جانور نہیں کس پہ بیٹھ کے جنگ کرے گا اور ہتھیار کوئی نہیں ہے سوائے تلواروں کے خصوصاً تِیر… تِیر نہ ہونابڑا آسان ہے کہ دُور سے حملہ کریں گے مسلمان کیا کر پائیں گے ؟ ڈھال تک نہیں ہے مسلمانوں کے پاس ، نہ ڈھال ہے نہ تیر ہے نہ کمان ہے تو اب بہت آسان ہو گیا ہے دُور سے حملہ کر کے اِن کو نقصان پہنچانا۔

خالدابن ولید کو بھیجا گیا… پیغمبراسلام … مَیں نے کئی تقریروں میں عرض کیا کہ سیرتِ رسول کو پڑھنے کے بعد یہ پیغام بہت نمایاں ہے پیغمبر نے ہمیشہ سراغ رسانی، جاسوسی اور دشمن کی خبر حاصل کرنے کا System اور نظام ہمیشہ بہت ہی بہترین رکھا ہے وہ جو علمِ غیب ہے رسول کا وہ اپنی جگہ ہے ظاہری اعتبار سے بھی چنانچہ اِدھر خالد ابن ولید دوسو سواروں کو لے کے چلے اُدھرپیغمبراسلام کے پاس اطلاع آ گئی ۔

قبیلہٴ جونیہ جو اب تک کافر قبیلہ ہے مگر دل سے یہ مسلمانوں کے ہمدرد ہیں ان کے آدمی نے آکر بتایا کہ اللہ کے رسول یہ ہو رہا ہے ۔ خالد ابن ولید اس عرصہ میں کافی آگے آ چکا تھا بہرحال اُسے یہ پتا ہے کہ ہم دو سو ہیں یہ چودہ سو ہیں ، آمنے سامنے مقابلہ ہوگا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم جیت جائیں کہ آمنے سامنے ہمیشہ اُلٹا ماجرا ہوا ہے … بدر میں یہ تین سو تیرہ تھے ہم ہزار، ہم ہارے… اُحد میں یہ سات سو تھے ہم دس ہزار ہم ہارے… خندق کے اندر ہماری پوری طاقت تھی ہم ہارے… تو برابری چھوڑی اگر ہم زیادہ بھی ہوں تو نہیں ان کو شکست دے سکتے، کجا یہ کہ ساتواں حصّہ دوسواور چودہ سو دُور سے حملہ کرتا ہے لیکن دُور سے بھی کیسے حملہ کرے کہ مسلمان بڑے چوکس اور Alertنظر آ رہے ہیں ، صلح کے لیے جا رہے ہیں لیکن صلح الگ چیز ہے حماقت الگ چیز ہے اپنی حد تک اپنے بچاؤ کی تیاری ظاہری طور پر رکھنا ہے۔

ایک ہی چیز اس کے دِل میں آئی وہ بھی اتفاقاً کہ یہ مسلمانوں کا لشکر جا رہا ہے پیغمبر کی قیادت میں جا رہا ہے ہمارے آپ کے قافلے جب چلتے ہیں یہاں تک کہ اگر نیک کام کیلئے بھی جا رہے ہوں تو سب سے پہلے جو اعلان ہوتا ہے زبانی نہیں عملی اعلان وہ یہ کہ بھائیو اور بہنو آج کل نمازیں معاف ہوگئی ہیں سفر میں کہاں نمازیں پڑھی جاتی ہیں جہاں پہنچ کے اُتریں گے وہاں پڑھیں گے نماز … ارے باقاعدہ کراچی میں اور اپنے وطن میں باقاعدگی سے نماز پڑھنے والے بھی سفر میں دیکھا گیا ہے کہ اکثر نماز قضا کرتے ہیں ، سفر بھی کونسا؟… بزنس کا سفر، رشتے داروں کو ملنے جا رہے ہیں وہ سفر، گھومنے پھرنے جا رہے ہیں جی نہیں اُس میں بھی اگر نماز قضا ہو تو کچھ کچھ سمجھ میں آجاتا ہے … سفرِزیارت مشہدمقدس جا رہے ہیں امام(ع) کے روضے پہ جا رہے ہیں امام(ع) کو خوش کرنے جا رہے ہیں تحفہ کیا لے کے جا رہے ہیں شریعت بتاتی ہے کہ امام(ع) کے روضے پہ جاتے ہیں تو پہلا تحفہ امام(ع) یہ مانگتے ہیں کہ دو رکعت نماز پڑھو اور ہماری حالت یہ ہے کہ مشہد کے سفر میں نمازیں قضا ہو رہی ہیں چوبیس چوبیس گھنٹوں کی نمازیں قضا ہو جاتی ہیں اُن لوگوں کی جو باقاعدہ نمازی ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ بے نمازی بھی اس سفر میں نمازی بن جائے ۔

خدمتِ امام(ع) میں جا رہے ہیں، خدمتِ رسول میں جا رہے ہیں ، خدمتِ خُدا میں جا رہے ہیں ، فراڈ کرنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ بہرحال ایسے موقعے پہ ویسا بن کے پہنچنا ہوتا ہے جیسا وہ چاہتے ہیں وہاں پہنچ کر تو پھر بھی دیکھا ہے کہ بے نمازی نمازی بن جاتے ہیں ، اُتر گئے مسافر خانے میں اب نماز ہو جاتی ہے اُتر گئے مکہ اور مدینے میں اب نماز ہو جاتی ہے ، سفر وہ مصیبت ہے کہ دودو دن کبھی سفر میں گذرتے ہیں اور ساری نمازیں قضا ہو رہی ہیں اس لیے کہ مومنینِ کرام کا لشکر نماز قضا نہ کرے تو کیا کرے؟ 

وہ لشکرِ اسلامی پیغمبراسلام کی قیادت میں جا رہا ہے جو بھی نماز کا ٹائم آیا، جو بھی وقتِ نماز آیا فوراً لشکر رُکتا ہے اور نما ز پڑھی جاتی ہے ۔

اب یہاں پہ تمام تاریخوں میں ہماری تمام تاریخیں یہاں پر متفق ہیں کہ خالد ابن ولید جو نکل چکے ہیں مکہ سے اور مسلمانوں کے اس قافلہ عمرے کو روکنا چاہتے ہیں راستے میں ، طریقہ سمجھ میں نہیں آ رہا آمنے سامنے تو ناممکن ہے چھپ کے حملہ کرنا ہے لیکن مسلمان بہرحال الرٹ ہے اور اُن کے سراغ رسان اور جاسوس پھیلے ہوئے ہیں ۔ ایک دفعہ اتفاق سے ایسا ہوا کہ مسلمان میدان میں ہیں خالد ابن ولید اپنے دوسو سواروں کو لے کر پہاڑی کے پیچھے ہیں ، نگاہ پڑی کیا دیکھا کہ مسلمان نماز پڑھ رہے ہیں ، نماز کے عالم میں اور آخری رکعت چل رہی ہے فوراً کہا کہ یہ بہترین موقع مجھے ہاتھ لگا ہے 

”ارے مَیں نے پہلے کیوں نہیں سوچا“

یہ مسلمان ہیں اطلاع مل چکی ہے مکہ کے کافروں کو کہ مسلمان اپنی نماز کو نہیں توڑا کرتے ، فقہی اعتبار سے اجازت بھی ہو لیکن یہ عام طریقے سے نماز نہیں توڑتے ، کہا یہ بہترین طریقہ ہے اب جو یہ نماز شروع کریں اب جو یہ نماز پڑھیں دوسری نماز یہ نماز تو آخری رکعت ہے سلام کے قریب پہنچ گئے مسلمان دوسو تیر اندازوں کو تیار کرنے میں ٹائم لگتا ہے یہ تو ہاتھ سے نکل گیا ہے اگلی جو یہ نماز پڑھیں گے بس فوراً اُس وقت حملہ کر دینا اور چونکہ مسلمان اپنی نماز توڑتا نہیں سارے کے سارے مسلمان مار لیے جائیں گے ۔

یہاں پہ ایک بات مَیں اور یاد دلا دوں ا104 تقریر ہے آج کس کو شروع کی تقریریں یاد ہوں گی لیکن تاریخِ اسلام تو سب کو یاد ہو گی وہ یہ ہے کہ شروع شروع میں جب مسلمان مکہ میں آئے اُس وقت خاص طور پر پیغمبر حرم میں نماز پڑھا کرتے تھے تو کچھ عرصے کیلئے عربوں کا مشغلہ یہ تھا کہ پیغمبر کی نماز میں رکاوٹ ڈالو ۔

اَرَ ءَ یْتَ الذی یَنْھَیٰ عَبْداً اِذَا صَلّی 

یہ سورہ اقراء باسم ربک الذی ہے اُس کی آخری آیت پہ سجدہ ہے اس کے درمیان کی آیت ہے ۔

”حبیب دیکھو اُس گنہگار کو کافر کو جو ہمارے بندوں کو نماز پڑھنے سے روک رہا ہے “

وہ یہی تھا کہ رسول نماز پڑھ رہے ہیں غلاظت لا کے ڈال دی ، اونٹ کی اوجڑی لا کے ڈال دی کوئی بھاری وزن رکھنے کی کوشش کی لیکن یہ سارے کافر دیکھ چکے ہیں کہ ہم کچھ بھی کریں رسول اپنی نماز کو توڑتے نہیں ، نماز مکمل کی جائے گی، نماز پوری کی جائے گی وہاں سے ان کو یہ سبق یاد ہے کہ مسلمان نماز نہیں توڑا کرتا ۔

کہا کہ اگلی نماز میں حملہ کریں گے اور بس مسلمان نماز ختم کر کے کھڑے ہوئے یہاں پر ضمنی طور پر ایک بات اور کہہ دوں اگرچہ اس کے اندر بحث کی گنجائش نہیں یہ واقعہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بہرحال پیغمبراسلام نے اکثراً نمازوں کو ملا کے پڑھا ہے ورنہ ظہر کے بعد اگر عصر کا ٹائم ہی ابھی نہیں آیا تو نماز کونسی؟… وہ تو دوگھنٹے کے بعد ہونا چاہیئے مگر تمام تاریخیں متفق ہیں کہ خالد ابن ولید نے یہ سوچا اور ہوا یہی کہ ایک نماز ختم ہوئی اور پیغمبر نے فوراًدوسری نماز شروع کرا دی دوسری نماز عصر کی نماز وہ جو بعض لوگوں ہمارے لوگوں کے ذہن میں بھی ہے کہ رسول اور امام(ع) کے زمانے میں نمازیں الگ پڑھی جاتی تھیں بعد میں شاید علماء نے یہ مسئلہ بنایا … یہ واقعات اگرچہ سفر کا مسئلہ ہے لیکن بہرحال سفر بھی سہی نماز جمع کی گئی ۔

خیر پیغمبر نے دوسری نماز جمع کرنا چاہی عین اُس موقع پہ جبرائیل(ع) آئے ، اب اُدھر سن چھ ہجری کا واقعہ ہے چھ ہجری کا مقصد کیا ہوا …تیرہ سال مسلمان مکہ میں رہے چھٹا سال یہ اُنیس سال ہو گئے ہیں اسلام کو اب تک نمازِخوف صرف ایک مرتبہ پڑھی گئی ، صرف ایک مرتبہ اس کے بعد دوبارہ ضرورت نہیں آئی ، نمازِ خوف اگر کبھی دشمن کا خوف ہو پھر حکم یہ ہے کہ مسلمان ایک ساتھ نماز نہ پڑھیں پہلے آدھا لشکر نماز پڑھے اور دوسرا آدھا لشکر حفاظت کرتا رہے ، پھر حفاظت کرنے والے نماز پڑھیں اور نماز پڑھنے والے جا کے پہرہ سنبھالیں ۔

اب پہلی نماز ظہر کی ہوئی سب نے ایک ساتھ پڑھی ، عصر کی نماز… پیغمبر نے کہا کہ ابھی ابھی جبرائیل(ع) میرے پاس آئے اورخُدا کا حکم پہنچا گئے کہ وہ جو ایک دفعہ ہم نے نماز خوف پڑھی وہی دوبارہ پڑھنا ہے ۔ سارے مسلمان قریب نہ آئیں آدھے مسلمان چاروں طرف بکھر کے حفاظت کریں اور باقی آدھے مسلمان نماز کو مکمل کریں اورپھر جو یہ لوگ پوری کریں نماز تو وہ لوگ آجائیں ۔

خالدابن ولید نے جب یہ منظر دیکھا ایک مرتبہ محاورةً سر پیٹ لیا کہ پوری کی پوری سکیم اور منصوبہ ناکام ہو گیا ۔ مسلمانوں کو کس نے بتایا عین وہ موقع کہ مَیں تیاری کر کے بیٹھا یہ تو اب سراغ رسانی اور جاسوسی کا مسئلہ بھی نہیں رہا اتنے جلدی کوئی جاسوس نہیں جا سکتا نہ گیا ۔

گھبرا کے اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ کس نے مسلمانوں کو چالاکی کا یہ طریقہ بتایا ہے؟ … نماز بھی ہو گئی، نماز توڑنے کی ضرورت بھی نہ ہوئی، اور لشکرِاسلام بچ بھی گیا خیر نماز مکمل ہوئی ، پیغمبراسلام ایک مرتبہ کہتے ہیں : 

اے مسلمانو! تمہیں معلوم ہے کہ وہ سراغ رسان، وہ جاسوس اطلاع دے گیا کہ کفارِمکہ ہمارا راستہ روکنا چاہتے ہیں اور مَیں اس وقت جنگ نہیں کرنا چاہتا ، ہم صرف زیارت کیلئے جا رہے ہیں ، چنانچہ آؤ ہم لوگ راستہ بدل لیں۔

اچھا خاصا جو راستہ مدینے سے مکہ آ رہا ہے اُس کے قریب رسول پہنچ چکے ہیں یہ اُس وقت کی بات ہے جب قریب پہنچ گئے ۔

پیغمبر نے راستہ بدل لیا اور بہت ہی دُور گھوم گھوم کے جا رہے ہیں ایسے علاقے میں جس کے لیے مسلمان تیار ہو کے نہیں آئے نہ کھانے کا انتظام اتنا کیا ہے نہ پینے کا انتظام اتنا کیا ہے ۔

اب عجیب منظر ہے پورے واقعات تو آج نہیں آ سکتے بس یہ آخری آخری مرحلے ، ایک مرتبہ جب یہ خبر مل گئی کہ اب تک مسلمان سکون کیساتھ تھے کہ اب تو جا رہے ہیں عمرے کیلئے اب اطلاع ملی کہ دشمن پیچھے لگ گیا اور ایسا دشمن کہ پیغمبر منع کر چکے ہیں کہ اُس سے لڑنا ہی نہیں ہے ۔اب تو خطرہ ہی خطرہ ہے اور اتنا خطرہ کہ رسول راستہ بدل کے جا رہے ہیں۔

اب مسلمان خوفزدہ ہو گئے اب مسلمانوں میں سے بعض کے حوصلے پست ہونے لگے اب بعض مسلمان گھبرا گھبرا کر سوچنے لگے کہ اگر یہ سب کچھ ہونا تھا تو کاش رسول بتا دیتے کہ ہم تیاری کر کے آتے کہ عین وہ وقت آگیا کہ مسلمان راستہ بدل چکے ہیں حدیبیہ کے قریب پہنچ رہے ہیں اُس سے پہلے بڑی اونچی پہاڑی آئی ایسی پہاڑی کہ اُسے دیکھ کے لوگ خوفزدہ ہو گئے … اچھا پہاڑی سے مراد کے ۔ٹو یا ماؤنٹ ایورسٹ نہیں ہے ایک اتنا اونچا ٹیلہ کہ یہ پتا نہیں کہ اس کے دوسری طرف کیا ہے؟ ابھی ابھی یہ خطرہ کہ کافر پیچھے لگے ، ہم جنگ نہیں کریں گے اسلحہ بھی نہیں ہے ایسی پہاڑی کہ اس کے اوپر سے ہی جا کے اُترنا ہے ہر ایک کے دل میں خیال کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے نیچے کفار بیٹھے ہوئے ہوں اب ایک مرتبہ پہاڑی کے اوپر پہنچیں اور انھوں نے ہم پر حملہ کر دیا۔ ہر جگہ پہ یہ اصول ہے کہ پہاڑی کے اوپر والا ہمیشہ طاقتور ہوتا ہے پہاڑی سے نیچے والا کمزور ہوتا ہے لیکن کب؟ جب پہاڑی کے اوپر والے کے پاس تِیر اور نیزے اور برچھے ہوں تلواریں اگر ہوں تو وہ اوپر بھی ہے تو بیکار ہے پہاڑی اس لیے کہ اوپر اگر ہے تلوار چلائے گا تو کس کے لگے گی تلوار، مسلمانوں کے پاس تیر نہیں کمان نہیں نیزے نہیں یا برچھیاں نہیں تلوار ہے ، تلوار اگر ہاتھ میں ہے تو پہاڑی کے اوپرجانابھی بیکار ہے اب ہر ایک کے دل میں خوف کہ اس کے دوسری جانب کیا ہے؟ہم کسی پریشانی میں نہ پھنس جائیں۔

اُس وقت ایک عجیب جملہ پیغمبراسلام نے کہا یہ جملہ وہ ہے کہ اس کی تشریح میں نکل جاؤں ناں تو بیس منٹ موضوع سے مَیں ہٹ جاؤں ۔ پیغمبر نے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی پہاڑی کے خطرے کو دیکھا اور کہا کہ مسلمانو! آگے بڑھو اور اس پہاڑی کے اوپر چڑھتے چلے جاؤ اور یاد رکھو کہ اس پہاڑی پر جانا ایسا جیسے بابِ حِطہ میں داخل ہونا ہے ، حِطہ… بنی اسرائیل کا امتحان 

اُدخل بعد … قرآن کہہ رہا ہے کہ بنی اسرائیل فرعون کے دریا میں ڈوبنے کے بعد خدا کی نافرمانی کی بنا پر چالیس سال تک صحرا کے اندر راستہ بھٹکتے رہے ہیں ، آخر منزلِ مقصود آئی وہ بھی کب جب اپنی غلطیوں کا احساس ہوا کہ ہم نے خدا کی نعمتوں کے مقابلے میں کتنا ناشکرا پن کیا ، خُدا نے توبہ قبول کرنا چاہی وہ بھی جب اعلان ہوا کہ جس شہر میں جا رہے ہو اس کے دروازے سے جب گذرنا تو حِطہ کہتے ہوئے داخل ہونا ، سجدہ کرتے ہوئے ’ ’اُدخلل بعدسجدہ“ سجدے کے عالم میں جانا اور حِطہ کہنااُس کی توبہ کو خدا قبول کرے گا حِطہ جو سریانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں توبہ کے معنی ہیں۔

چالیس سال صحرا میں بھٹک چکے ہیں کھانے اور پانی کے لالے پڑ چکے ہیں یہ وہ ہیں جو من وسلویٰ کو ٹھکرا گئے تھے روزانہ ایک جیسی ڈش ہم سے نہیں کھائی جا رہی ہے نتیجے میں کچھ بھی نہ مِلا۔ اب یہ پیغام آیا اور جیسے ہی وہ دروازہ نظر آیااُس کے اندر بھرا ہوا شہر دیکھا وہی کیفیت جو اکثر آپ نے محاورةً سُنا کہ کھجور کے درخت پہ کوئی صاحب پھنسے اور ایک مرتبہ اُترنا بھول گئے اتنا اونچا درخت نیچے زمین نظر آ رہی ہے گھبرا گئے یہ کیا ہوا خداوندا میری جان بچا لے تو مَیں اونٹ دوں گا لیکن جیسے جیسے نیچے اُترتے جا رہے ہیں زمین قریب آ تی جا رہی ہے اونٹ سے گائے پر آئے گائے سے بکری پر آئے بکری سے مرغی پر آئے مرغی سے انڈے پر آئے اب قریب پہنچ گئے خداوندا تُو قادرِمطلق ہے تجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔

جو حالت ہوئی کہ ایک مرتبہ بھرا ہوا شہر نظر آیا اب کیسا حِطہ، کیسی توبہ اور کیسا استغفار؟ قرآن نے کہا سجدہ کرو اور توبہ کرو ایک مرتبہ اکڑ کے چلے اور جو تاریخوں میں ہے کہ چلے بھی اس طرح کہ اُلٹا چلے اور زیادہ نافرمانی کے لیے کہ ہم ذرا بھی جھکنے کو تیار نہیں کہ اگر سیدھے سیدھے جائیں گے ہو سکتا ہے کہ تھوڑی سی گردن کہیں جھک جائے … اللہ سجدہ کہہ رہا ہے سجدہ تو چھوڑو ہم ذرا سی گردن بھی نہیں جھکائیں گے، اُلٹا چل کے جاؤ تاکہ ذرا سا جھکنے کا سوال بھی پیدا نہ ہو اُس وقت صرف وہ بچے جنہوں نے حکم کو مانا اور جنھوں نے حکم کو نہیں مانا اکڑ دکھائی سجدہ بھی نہیں کیااور جو لفظ بتایا تھا اُس کو حنطہ میں بدل دیا گندم گندم مذاق شریعت کیساتھ مذاق ۔

پیغمبر نے کہا یاد رکھو اِس وقت حدیبیہ کی پہاڑی پہ چڑھنا ایسا ہے کہ جیسے دروازے میں حطہ کہتے ہوئے داخل ہونا ، یہ واقعہ بس ایک اشارہ کر دیا رسول نے … اتنا اہم ایمان کا امتحان بن گیا اتنا جملہ سُنا مدینے کے جو پُرانے باشندے ہیں اوس وخزرج اُن کو جوش آیا ایک مرتبہ نوجوان تکبیر کی آواز بلند کر کے تیزی کیساتھ اُس پہاڑی پر چڑھے اور جب پہاڑی کے اوپر چڑھے تو دیکھا کہ پہاڑی کے نیچے انتہائی سرسبز میدان بھی ہے اور ایک کنواں بھی نظر آ رہا ہے پانی کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے پانی ختم ہو چکا ہے مسلمانوں کے پاس ۔ وہ جس راستے کیلئے تیار ہو کے آئے تھے وہ راستہ ہی بدل گیا ہے جیسے ہی پہاڑی پہ چڑھے وہی چیز خدا امتحان لیتا ہے ایک مرتبہ ارادہ کر لے انسان امتحان دینا ہے آگے پھر آسانی ہی آسانی ہے راحت ہی راحت ہے انہوں نے آواز دی مسلمانوں آجاؤ خدا کی نعمتیں انتظار کر رہی ہیں ہمیں پانی مل گیا ہے، لشکرِ اسلام اُترا … ایک عورت اپنے بچے کو کھڑا کر کے پانی پلا رہی ہے لشکراسلام پہ نگاہ پڑی گھبرا کے وہ ماں اپنے بیٹے کو لے کے بھاگی بیٹا بلکہ زیادہ تیزی کیساتھ بھاگا ، دشمن کا لشکر جب آتا ہے اور وہ قرآنِ کریم میں بھی وہ چیونٹیوں کا جملہ ہے کہ جب بادشاہ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو اُسے تباہ کر دیتے ہیں ۔

عورت بھی یہی سمجھی بیٹا تیزی سے بھاگ رہا ہے ماں بھی بھاگ رہی ہے کہ ایک مرتبہ اُس کی نگاہ پڑی پلٹ کے آواز دی کہ بیٹا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ مسلمان آ رہے ہیں اگرچہ کافر ماں ہے اگرچہ کافر بیٹا ہے لیکن کیا کہہ رہی ہے کہ بیٹا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے یہ تو مسلمان آ رہے ہیں یعنی اُس وقت تک عرب کے چپے چپے تک یہ بات پہنچ چکی تھی کہ لشکر اسلام کبھی ظلم نہیں کرتا ہے کبھی زیادتی نہیں کرتا ہے کسی مظلوم پہ ہاتھ نہیں اُٹھاتا ہے کسی عورت اور نابالغ بچے کو چاہے دشمن بھی ہو قتل نہیں کرتا ہے ۔

دیکھئے وہ جو تین تقریریں آپ نے مسلسل سُنیں کہ خندق کے بعد اور حدیبیہ سے پہلے پیغمبر نے اتنے سارے لشکر بھجوائے تو کسی ایسے آدمی کے ذہن میں جو مکمل طور پہ تابع حکمِ رسالت نہیں ہے یہ وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اتنی لڑائیاں پیغمبر نے کیوں کیں؟ وہ لڑائی بھی ایک تبلیغ تھی ۔

دیکھئے وہ جو تین تقریریں آپ نے مسلسل سُنیں کہ خندق کے بعد اور حدیبیہ سے پہلے پیغمبر نے اتنے سارے لشکر بھجوائے تو کسی ایسے آدمی کے ذہن میں جو مکمل طور پہ تابع حکمِ رسالت نہیں ہے یہ وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اتنی لڑائیاں پیغمبر نے کیوں کیں؟ وہ لڑائی بھی ایک تبلیغ تھی جس جس قبیلے میں لشکر گیا اور پھر طاقت ہونے کے باوجود واپس آ گیا اُس قبیلے نے یہ حیرت والا واقعہ کہاں کہاں نہ پہنچایا ہو گا جب مکہ کی سرحد پر کافرہ ماں اپنے کافر بیٹے کی جان بچانے کیلئے پریشان ہے لیکن جیسے ہی دیکھا کہ مسلمان آ گئے اُسے اطمینان ہو گیا کہ یہ دشمن سہی ، ان کا عقیدہ ہمارے عقیدے کے خلاف سہی ، یہ اس وقت مکہ میں جانے کے ارادے سے آئے سہی لیکن کبھی ہم پر اور ہمارے بیٹے پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے ۔

ایک مرتبہ اطمینان دلایا اُس کا بیٹا واپس آیا ، پیغمبراسلام اس دوران پہاری کو طے کر کے کنویں کے قریب پہنچ چکے تھے اور اُس عورت سے کہتے ہیں کہ کنویں سے پانی نکال کے ہمیں پلا دو ۔ اُس نے ایک مرتبہ کہا کہ اے مسلمانو! اس کنویں میں پانی اتنا کم ہے ، اتنا کم ہے کہ بعض اوقات ایک آدمی کی خاطر پا نی لینے کیلئے گھنٹوں کھڑا رہنا پڑتا ہے ، مَیں اپنے بیٹے کو پانی پلانے کے لئے کتنی دی سے کھڑی ہوں ۔

اتنا سُننا تھا کہ رسول آگے بڑھے… حدیبیہ کی اس لڑائی میں کھانے اور پینے کے متعلق تین معجزے پیش آئے ، تین معجزے اُن میں سے پہلا معجزہ یہی ہے اللہ کا رسول آگے بڑھا اور آگے بڑھنے کے بعد ایک مرتبہ کنویں جھانک کے دیکھا ، لعابِ دہن کو اس کنویں میں پھینکا پیغمبر نے اور اب نہ صرف یہ کہ پانی ہوا بلکہ اس کثرت کیساتھ کہ پانی کنویں کی طے سے بلند ہوتے ہوتے کنویں کی منڈھیر تک اس طرح آ گیا کہ ڈول کی ضرورت بھی نہ رہی کہ چاہے چلو سے آگے بڑھ کے پانی پی سکتا ہے اور وہ عورت حیرت زدہ ہو کے پانی پی رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ میرے گھرانے کی زندگیاں یہاں پہ گذری ہیں اس کنویں میں اوّل تو پانی تھا نہیں اور جو پانی تھا بھی یہ مزہ تو اس کا تھا ہی نہیں اتنا شیریں اتنا خوشگوار اتنا میٹھا پانی ۔

درود بھیجیں محمد وآلِ محمد (ع) پر…

اللھم صلی علی محمد وآل محمد۔

پیغمبراسلام حدیبیہ کے میدان میں دو مرتبہ کنووٴں کا مسئلہ ہوا ، ایک یہ راستے میں اور ایک حدیبیہ میں اور ایک مرتبہ کھانے کا مسئلہ لیکن وہ بعد میں ۔

خیر پانی کے مرحلے پہ فارغ ہو کے آگے بڑھے، مسلمانوں کو کچھ نہیں پتا کہ ہمیں کہاں جانا ہے مکہ جانا ہے پیغمبر کسی اور راستے سے لے کے چلے اس وقت ایک مکہ سے مدینے کا راستہ ہے جو مسجدِ عائشہ کے سامنے سے گذرتا ہے اور ایک اُس سے اُلٹ مکہ سے جدہ کا راستہ ہے جو حدیبیہ کے سامنے سے گذرتا ہے تقریباً 45یا 60ڈگری کا اینگل ہے ان دو راستوں کے درمیان، پیغمبر دوسرتے راستے سے جا چکے ہیں ، چلتے چلتے ایک کنواں نظر آیاجس کنویں کا نام تھا حدیبیہ جس کی وجہ سے یہ علاقہ حدیبیہ کا علاقہ کہلاتا ہے ۔ 

وہ کنواں نظر آیا اُس وقت وہاں کوئی آبادی نہیں تھی اور اُس کنویں کے فوراً بعد حدودِ حرم شروع ہو جاتے ہے وہ بانڈری اب یہ مکہ نہیں ہے مکہ وہاں سے تئیس کلومیٹر ہے لیکن وہ علاقہ شروع ہوتا ہے جہاں کسی جانور حتیٰ کہ کسی پودے یا کسی گھاس کے پتے کو بھی توڑنا حرام اور گناہ ہے ۔

”من دخلہ کانہ آمنا“ جس کے بارے میں قرآن نے کہا وہ سرحد ایک قدم آگے بڑھیں حدودِ حرم جہاں کی ہر چیز کو خدا نے سیکورٹی دی ہے تحفظ دیا ہے اُس سے چند قدم پہلے حدیبیہ کا کنواں ہے ۔جہاں پہ مسلمان پہنچے اسی لیے مَیں تقریر کے بیچ میں ایک جملہ کہا ہے اس سال پیغمبر نے خواب دیکھا لیکن اس سال خانہ کعبہ میں چھوڑیں مسجد الحرام میں چھوڑیں مکہ میں چھوڑیں مکہ سے تئیس کلومیٹر دُور حدودِ حرم اس میں بھی مسلمان قدم نہیں رکھ سکے اُس سے بھی باہر باہر رہے یہاں جا کے لشکرِ اسلام رُکا ۔

مکہ کے کافروں کو اطلاع ملی، لشکر کیسے رُکا ، کیسے رُکا یہ لشکر؟… پیغمبر کی اونٹنی جس کا نام قصویٰ ہے چلتے چلتے گھٹنوں کو موڑ کے گھٹنے سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئی ۔ پیغمبر تو خاموش ہیں مسلمان گھبرا گھبرا کے آگے آئے اور کوشش کی کہ اس اونٹنی کو اٹھایا جائے اب یہ پیغمبر کی بہت ہی زیادہ محبوب اونٹنی ہے پیغمبر کی سواری میں رہی ہے … وہ اونٹنی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہو ریہ ہے ۔ 

پیغمبر نے فرمایا چھوڑ دو یہ وہیں پہ بیٹھی ہے جہاں پہ خدا نے اس کو حکم دیا ہے اور اب وہ منزل آگئی جس سے آگے بڑھنے کی ہم کو اجازت نہیں ہے ، اس کے پیغمبر نے مزید ایک جملہ کہا سرسری طور پہ لیکن بعض اوقات اس میں توہین کا پہلو بھی آجاتا ہے ، پیغمبر نے فرمایا کہ جس طرح ابرہہ جب اپنا لشکر لے کر آیا ہے اُس کے سب سے آگے والے ہاتھی جس کا نام محمود تھا، محمود ہاتھی کا نام ہے اُسے خدا نے کہا تھا کہ اس جگہ سے آگے نہ بڑھنا تو ابرہہ نے اپنے ہاتھی کو اتنا مارا اتنا مارا کہ وہ مر گیا مگر اپنی جگہ سے آگے نہ بڑھا پیغمبر فرماتے ہیں جیسے وہ حکمِ خدا سے معمور تھا ہاتھی محمود ویسے ہی میری اونٹنی قصویٰ یہ بھی حکمِ خدا سے معمور ہے جتنا ہی کرو یہ شہید ہو جائے گی لیکن اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھے گی کیونکہ ہمیں یہیں ٹھہرنا ہے۔

یہ جملہ سُنا سب کے سب ایک مرتبہ اُتر پڑے اور وہاں خیمے لگا دئیے گئے۔ اب پروردگارِ عالم نے بیک وقت دوامتحانوں میں مسلمانوں کو ڈال دیا۔

بس یہ آخری جملے اس کے بعد باقی باتیں ، مکہ والوں کا ری ایکشن وہاں سے قافلوں کا آنا، وہاں سے قاصدوں کا آنااگلے منگل کو…اب یہاں پہ مسلمان صرف دس دن کے کھانے کا سامان لائے تھے یہ سوچ کر کہ مدینے سے مکہ کا آٹھ دن کا راستہ ہے اور ایک آدھ دن وہاں… پھر تو وہاں جب جائیں گے تو بازار سے راستے سے سامان خرید لیں گے ، مگر دس دن سے زیادہ راستے میں لگ گئے ، راستہ بدلنا پڑا پہاڑیوں سے آنا پڑا ، یہاں پہنچے تو کھانے پینے کا سامان ختم ، فاقے کی نوبت آ گئی پانی میں بھی مسئلہ کھانے میں بھی مسئلہ … فاقوں کی نوبت آ گئی اور خدا نے بھی ایک عجیب امتحان لے لیا مسلمانوں کا ۔

ہمارے چھٹے امام(ع) صادقِ آلِ محمد(ع) (اللھم صلی علی محمد وآل محمد(ع)) سورہ مائدہ کی آیت کی تشریح فرما رہے ہیں :

وَلَنَبْلُوَنَّکُمُ اللهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِلاَ تَنَالُہٓ اَیْدِیْکُمْ وَ رِمَاحُکُمْ 

”یادرکھو خدا تمہارا امتحان لیتا ہے کبھی شکار کے ذریعے سے ایسا شکار کہ نہ تم اپنا ہاتھ اُس تک پہنچا سکتے ہو نہ اپنے تیر “

یہ قرآن کی آیت ہے کہ امتحان کا ایک طریقہ شکار بھی ہے ۔ بڑا عجیب جملہ ہے … بھئی امتحان کیا ہے فاقہ ، امتحان کیا ہے اولاد کی قربانی، امتحان کیا ہے دولت کی قربانی … سورہ مائدہ لَنَبْلُوَنَّکُمُ کہ ضروربالضرور ہم امتحان لیں گے تمہارا یا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللهُ ضروربالضرور اللہ تمہارا امتحان لے گا شکار کے ذریعے سے ۔

معصوم(ع) فرما رہے ہیں کیا تمہیں پتا ہے یہ کس امتحان کا تذکرہ ہے ؟

راوی نے کہا نہیں مول(ع)! مَیں تو خود اس سے پہلے پریشان ہوتاتھا۔

کہاسُن یہ حدیبیہ کا تذکرہ ہے جب حدیبیہ کے مقام پر لشکراسلام اُتر گیا اور کھانے پینے کو کچھ نہ رہا فاقے ہونے لگے مکہ قریب ترین شہر ہے وہاں سے پیغام آ گیا کہ ایک مسلمان اگر حدودِ حرم میں قدم رکھے گا اُسے قتل کر دیا جائے گا حتیٰ کہ پیغمبر نے اپنا قاصد بھیجا اُس پر اٹیک ہو گیا اُس کے جانور کی بوٹیاں اُڑا دی گئیں اور اُس کی بھی بوٹیاں اُڑ جاتیں وہ تو کسی نے بچا لیا ۔قاصد جسے ہر جگہ تحفظ دیا جاتا ہے تو خریدوفروخت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

اب امام(ع) کہتے ہیں سُنو! یہ سب لوگ احرام پہنے ہوئے ہیں ، احرام یعنی سفید چادر …

بس میرے آخری جملے

یہ سب احرام پہنے ہوئے تھے سفید چادر سے اور آپ کسی بھی حاجی یا عمرہ کرنے والے سے پوچھ لیجئے کہ جب انسان احرام پہن لیتا ہے تو تئیس چوبیس چیزیں حرام ہو جاتی ہیں اُن میں جانوروں کا شکار بھی حرام ہے ۔

امام(ع) فرما رہے ہیں صلح حدیبیہ کے موقع پہ خدا نے مسلمانوں کا بالکل وہ امتحان لیا جو بنی اسرائیل سے ہفتے کے دن مچھلیوں کے بارے میں امتحان لیا گیا۔ بنی اسرائیل… ہفتے کے دن شکار حرام ہے ، مچھلیوں کو اطلاع ملی کہ آج کوئی ہمیں نہیں پکڑ سکتا کثرت کیساتھ مچھلیاں نکل کے دریاؤں میں آتی ہیں اور بنی اسرائیل کے لوگوں کے دلوں پہ سانپ لوٹتے تھے کہہ رہے ہیں کہ کیسا بہترین شکار ہمارے سامنے ہے یہ کیسا حکمِ خدا ہے کہ ہاتھ نہ لگاؤ پھر دوواقعات اُس جگہ اور اس کی مخالفت پہ لوگ بندر بنے اس لیے کہ امتِ موسیٰ(ع) تھے اور یہ امتِ رسول ہے رحمت بھی نازل ہوئی اور لوگوں نے امتحان دیا اور وہ اس طرح کہ سب احرام پہنے تھے اور احرام کی حالت میں شکار حرام اور گناہ ہے اور اس کا کفارہ بھی ہے۔

ٹھیک ہے حرم میں نہیں گئے حرم کے باہر ہیں۔ یادرکھئے حرم میں اگر کوئی پہنچ جائے تو احرام کے بغیر بھی ہو حرم میں تو سب کے لئے شکار حرام ہے، حرم کے باہر عام لباس میں ہو تو شکار کر سکتے ہو احرام میں نہیں ۔

امام(ع) فرما رہے ہیں کہ اب جنگل کے جانوروں کو خدا نے پیغام دے دیا کہ یہ مسلمان بھوکے ہیں لیکن احرام کی حالت میں ہیں ، کسی جانور کو ٹچ نہیں کریں گے ہاتھ نہیں لگائیں گے ۔

راوی کہتا ہے کہ حدیبیہ کے میدان میں جو لوگ تھے ۔ یہ تو امام(ع) نے کہا خدا نے امتحان لیا۔ راوی کہتا ہے کہ حدیبیہ کے میدان میں جو لوگ تھے انہوں نے اپنی اولادوں کو بتایا ، واقعہ مجھ تک پہنچا لیکن اب اس آیت سے اس کا ربط ملا کہ حدیبیہ کے مسلمان کہتے تھے کہ اب وہ وقت آ گیا کہ جانور اور جنگلی ہرن جو انسان کی شکل دیکھ کے بلکہ آواز سن کے بھاگتا ہے وہ ہمارے خیموں میں آکے بیٹھ جایا کرتے تھے یہاں تک کہ بلکہ ہمارے جسم کے قریب کہ ہاتھ بڑھا کر اُن کو گردن سے پکڑ سکتے ہیں … سارے جانور جو حلال جانور اللہ نے دئیے ہیں وہ سب آجاتے ہیں باقاعدہ ٹہلتے ہیں ہمارے خیموں کے بیچ ، خیموں کے اندر آتے ہیں ہمارے بستروں کے قریب پہنچ جاتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ فاقہ ہے بھوک لگ رہی ہے بڑی شدت کیساتھ ایک آدھ دن کا فاقہ نہیں ہے پتا نہیں کتنے دن گذر گئے ہیں ، شکار آنکھوں کے سامنے ہے وہ گویا خود اپنے آپ کو ہمارے ہاتھوں میں دئیے دے رہا ہے مگر احرام کی حالت میں شکار حرام ہے۔ فاقہ ہے بھوک ہے تکلیف ہے ہاتھ باندھے بیٹھے ہیں ان کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ہیں اُتنے دن تک حکم رہا جب تک ہم نے احرام نہیں اُتارا پھر تو وہی جانور ایسی بے مروتی وبے وفائی کی جھلک نظر نہیں آ تی ہے ۔

دیکھئے اس طرح خدا نے امتحان لیا ہے، حدیبیہ کا یہ واقعہ بہت کم مومنین کے علم میں ہے حدیبیہ کے مسلمان خیموں میں گھیرا ڈالنے لگے، خیموں میں جنگلی جانور آنے لگے اور اُس حالت کے اندر کہ جب فاقے کی شدت ہے ۔ شکار ایک ایسی چیز ہے کہ عام حالت میں جب پیٹ بھرا ہو تو انسان برداشت نہیں کر سکتا ہے چاہے شرعاً عام حالت میں فضول شکار حرام ہی کیوں نہ ہو مگر فاقے کی حالت ہے یہی اسلام ہے … یہی اسلام ہے کہ واقف ہو کہ حرام چیز کی جانب ہاتھ نہیں بڑھانا ہے بھوکے رہیں گے حرام کی جانب ہاتھ نہیں بڑھائیں گے ۔

جو بینک کی نوکریاں چھوڑیں جاتی ہیں وہ اسی اصول کی بنیاد پر کہ حدیبیہ کے میدان میں حالت یہ ہے کہ شکار اپنے آپ کو دئیے دے رہا ہے ہمارے ہاتھ میں اور ہم اس کو ہاتھ نہیں لگا رہے کہ احرام کی حالت میں حرام ہے ۔ 

یہ شکار کے ذریعے خدا نے امتحان لیا، ذرا سوچو اتنا بڑا امتحان ہے کہہ دینا بہت آسان ہے مگر جس پر گذر رہی ہو بھوک کی شدت اور سامنے یہ جانور … یہ مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارا ہی دل جانتا ہے کہ ہم نے کس طرح سے یہ امتحان دیا ہے؟ 

ہم اور آپ چند گھنٹے کے لیے اس امتحان سے گذرتے ہیں ، رمضان کے روزوں میں تقریباً یہی حالت ہوتی ہے مگر اسی خوف کیساتھ کہ وہ چند گھنٹوں کی بھوک اور پیاس ہوتی ہے اس کے باوجود انسان بعض اوقات بے چین ہو جاتا ہے ۔یہ دنوں کی بھوک اور پیاس ہے ،فرق بھی ہے جس کا درجہ بڑا ہے اس کا امتحان بڑا ہے ۔

حدیبیہ کے مسلمان ایک حد تک کے مسلمان تھے خدا نے ان کا اتنا ہی امتحان لیا ایک آدھ ہفتے کا امتحان ساری زندگی کا نہیں ۔

تبصرے
Loading...