شیعہ سنی اختلافات دشمنوں کی اسٹریٹیجک پالیسی

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امت مسلمہ کے درمیان دشمنوں کی تفرقہ انگیزی کے بارے میں خبردار کیا ہے ۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پیر کے روز ایران کے مغربی صوبے کرمانشاہ کے علاقے پاوہ اور اورامانات میں عظیم عوامی اجتماع سے خطاب میں امت مسلمہ کے درمیان دشمنوں کی تفرقہ انگیزی کے بارے میں خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان اختلاف پھیلانا دشمنوں کی اسٹریٹیجک پالیسی ہے ۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان وسیع اور گہرے دینی اور عقیدتی مشترکات ہیں اور حقیقی مشترکہ مفادات بھی ہیں لیکن دشمن ان راہ گشا مشترکات کی نفی کرکے اور ان کی اہمیت کم ظاہر کرکے اپنے مذموم تسلط پسندانہ مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اتحاد و یکجہتی کے تحفظ کی ضرورت اور دشمنان اسلام کی تفرقہ انگیزی کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب ایک بار پھر اس بات پر تاکید ہے کہ آج امت مسلمہ کا اتحاد ہر دور سے زیادہ دشمنان اسلام کی سازشوں کا نشانہ ہے ۔علاقے کی عوامی انقلابی تحریکوں میں خلل ڈالنا ، ان تحریکوں کو ہائي جیک کرنے کی کوشش اور اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشت گردی کے حالیہ الزامات ان اقدامات کا حصہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دشمن امت مسلمہ کے درمیان تفرقہ پھیلانے کے لئے کسی بھی سازش سے باز نہیں آتے ہیں۔ بے شک موجودہ حالات میں اسلامی بیداری سے بڑی تبدیلیاں آئي ہیں اور یہ علاقے میں نئي حکومتوں کے برسرکار آنے کا نیا حساس مرحلہ ہے ۔

یقینا موجودہ صورتحال کو بدلنے کےلئے دشمن کے تفرقہ انگيز اقدامات امت مسلمہ میں وسیع پیمانے پر تفرقہ پھیلانے کی سازشوں کا ہی حصہ ہیں جن کا جائزہ لینا اس حساس وقت میں نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ سامراجی طاقتوں کے مقابل اسلامی جمہوریہ ایران کی پائیداری اور استقامت ایک موثر عامل ہے جو علاقے کے حال اور مستقبل کو موڑنے کی طاقت رکھتا ہے اور علاقے کے حالات پر بڑی حدتک اثر انداز ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ بتیس برسوں میں سامراج کی ہرطرح کی سازشوں اور دباؤ کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ہے اور اس کی یہ پائیداری مثال بن چکی ہے اسی بنا پر علاقائي قوموں کے نزدیک اسے جومقبولیت حاصل ہے وہ عالم اسلام کی رائے عامہ کو متاثر کرنے کا مناسب موقع ہے ۔

جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے ملت ایران کا اتحاد اور اس کا نمونہ عمل ہونا، اعتبار کا معیار بن سکتا ہے جس سے ملت ایران اور علاقے کی قوموں کو فائدہ پہنچے گا۔ تاہم یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ملت ایران علاقے کی قوموں کی قیادت کا دعوی نہیں رکھتی کیونکہ ہرقوم اپنی توانائيوں اور صلاحیتوں کے سہارے اپنی راہ کا انتخاب کرتی ہے ۔ دراصل جو چيز قوموں کی بیداری کو کمال تک پہنچانے میں اہمیت رکھتی ہے دشمن شناسی میں اضافہ اور دشمن کی تقرقہ انگيز سازشوں کو سمجھنا ہے ۔ دشمن صدیوں سے امت اسلامی میں تفرقہ ڈالنے کا حربہ استعمال کررہا ہے لیکن جو چيز گذشتہ عشرے کے دوران علاقے میں دیکھی گئي ہے وہ ماضی کی پالیسیوں سے کہیں زیادہ خطرنا ک ہے ۔ عالم اسلام آج نہایت خطرناک سازشوں کی زد میں ہے کیونکہ دشمن اسلام اور مسلمین پر اندر سے وار کررہا ہے اور چاہتا ہےکہ شیعہ سنی ایک دوسرے کا گلا کاٹیں اور ایک دوسرے سے بدگمان ہوجائيں اور اسلامی ممالک اہم اور اصل مسائل چھوڑ کر جزوی مسائل میں گرفتار ہوجائيں۔ ان سازشوں سے مقابلہ کرنے کی واحد راہ مسلسل مزاحمت ہے جس سے ملت دشمن کے مقابل استحکام حاصل کرلے گی ورنہ سکے کا دوسرا رخ ظاہر ہوجائے گا اور جیسا کہ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا ہے دشمن شیعہ سنی اختلافات پھیلانے کےبعد ان فرقوں کی شاخوں میں بھی اختلافات پھیلانا شروع کردیں گے ۔

 

 

 

 

تبصرے
Loading...