شیعہ، امام حسن عسکری علیہ السلام کی نظر میں

 

1۔ شیعہ کی پانچ نشانیاں

شیخ طوسی کی روایت کے مطابق، امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:

“علامات المؤمن خمس: صلاة احدى وخمسين، وزيارة الاربعين، والتختم باليمين (او في اليمين) و تعفير الجبين، والجهر ببسم الله الرحمن الرحيم”۔

شیعہ کی پانچ علامتیں ہیں: 1۔ روزانہ 51 رکعت نماز ادا کرتا ہے (17 واجب اور 34 مستحب)، 2۔ زیارت اربعین پڑھنا، 3۔ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، 4۔ مٹی پر سجدہ کرنا، 5۔ نماز میں بسم اللہ کو بآواز بلند پڑھنا۔

(سيدبن طاووس اقبال الاعمال ج 3 ص 100) علامه مجلسي بحارالانوار ج 85 ص 75 و ج 98 ص 348)۔

2۔ شیعہ شفقت، منکسرالمزاجی اور برادران کے حقوق کا لحاظ

امام حسن عسکري عليہ ‌السلام فرمایا:

“أعْرَفُ النّاسِ بِحُقُوقِ إخْوانِهِ، وَأشَدُّهُمْ قَضاءً لَها، أعْظَمُهُمْ عِنْدَاللهِ شَأناً اللهِ و من تواضع في الدنيا لاخوانه فهو عندالله من الصديقين و من شيعة علي بن ابي طالب عليه السلام حقاً”. 

جو شخص اپنے بھائیوں کے حقوق کی سب سے زیادہ معرفت رکھتا ہے اور ان حقوق کو ادا کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں ہے وہ شان و منزلت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک سب سے بڑا اور عظیم ہے اور اس کا درجہ اور رتبہ سب سے اونچا ہے؛ اور جو بھی دنیا میں اپنے بھائیوں کی نسبت سب سے زیادہ تواضع اور خاکساری کا مظاہرہ کرے گا وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین میں سے ہے اور علی بن ابیطالب علیہ السلام کے حقیقی شیعوں میں سے ہے۔

واضح رہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حقیقی شیعہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام اور سلمان، ابوذر، مقداد، عمار اور محمد بنی ابی بکر اور مالک اشتر تھے۔ جنھوں نے ولایت کی پیروی کا حق ادا کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے ولی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شک و تردد سے کام نہیں لیا اور کبھی بھی اپنی رائے ولی امر کی رائے پر مقدم نہیں رکھی بلکہ کبھی بھی ولی اللہ علیہ السلام کے سامنے اپنی رائے ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ حتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم جاری ہونے کے باوجود اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ رسول اللہ (ص) کے حکم کی اعلانیہ مخالفت تک کیا کرتے تھے! اور یہ ولایت پذیری کے بالکل خلاف ہے حالانکہ رسول اللہ (ص) تمام مسلمانوں پر ولایت رکھتے تھے۔

3۔ شیعہ مہمان کا احترام کرتا ہے

شیعیان محمد و آل محمد (ص) کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مہمام کا اکرام و تعظیم ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: دو دینی برادران (باپ اور بیٹا) امیرالمؤمنین علیہ السلام کے گھر میں مہمان ہوئے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اٹھ کر مہمانوں کا استقبال کیا اور ان کی تکریم فرمائی اور انہیں صدرِ مجلس میں بٹھایا اور خود بھی ان کے بیچ میں تشریف فرما ہوئے اور کھانا لانے کا حکم دیا اور ان دونوں نے کھانا کھالیا۔ قنبر ایک برتن میں پانی لائے اور ایک خالی برتن نیز تولیہ ساتھ لائے اور خالی برتن مہمان کے سامنے رکھا تا کہ مہمان ہاتھ بڑھا دیں اور قنبر ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالیں۔ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اٹھ کر پانی کا برتن قنبر سے لے لیا تا کہ مہمان کے ہاتھ خود دھلا دیں۔ مہمان نے اپنے آپ کو خاک پر گرادیا اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! خدا مجھے دیکھ رہا ہے کہ آپ میرے ہاتھوں پر پانی ڈالنا چاہتے ہیں!

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹھ جاؤ اور اپنے ہاتھ دھولو، خداوند متعال تمہیں بھی دیکھتا ہے اور تمہارے بھائی کو بھی دیکھتا ہے جو بالکل تمہاری مانند ہے اور تم میں اور تمہارے بھائی میں کوئی فرق نہیں ہے  اور تمہارا یہ بھائی اپنے آپ کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا بلکہ تمہاری خدمت کرتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ جنت میں اس کے خدمتگذاروں کی تعداد دنیا کے لوگوں کی پوری تعداد سے بھی دس گنا زیادہ ہو۔ وہ آدمی بیٹھ گیا۔

[نکتہ: مہمان کی خدمت کرو گے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ تم جنتی ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ جنت میں اللہ تعالی اس کو لاکھوں خدمتگذاروں سے بہرہ مند فرمائے گا]۔

فرمایا: تجھے اس خدا کی قسم دیتا ہوں میرے اس حق عظیم کے صدقے، جس کو تم نے پہچان لیا ہے اور اس کی تکریم کی ہے، اور اللہ کے سامنے تیرے خضوع و انکسار کے صدقے، کہ اس نے مجھے خدمت مہمان کی دعوت دی ہے اور اس کے ذریعے تم کو شرف بخشا ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں، اپنے ہاتھ پورے سکون و اطمینان کے ساتھ دھولو بالکل اسی طرح کہ اگر قنبر تمہارے ہاتھوں پر پانی ڈالتا، اور تم سکون کے ساتھ ہاتھ دھولیتے۔ چنانچہ مہمان نے ایسا ہی کیا۔

امیرالمؤمنین (ع) مہمان کے ہاتھ دھلانے سے فارغ ہوئے تو بیٹے محمد بن حنفیہ کو بلایا اور فرمایا: بیٹا! اگر یہ لڑکا یہاں تنہا ہوتا اور اپنے والد کی معیت کے بغیر آیا ہوتا میں خود ہی اس کے ہاتھوں پر پانی ڈالتا لیکن خداوند متعال نہیں چاہتا کہ جب باپ بیٹا ساتھ ہوں تو دونوں یکسان ہوں اور ان کے ساتھ ایک ہی انداز سلوک اپنایا جائے۔ چنانچہ باپ نے باپ کے ہاتھ دھلائے اور بیٹے نے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔ یہ داستان سنانے کے بعد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: “فمن اتبع عليا على ذلك فهو الشيعي حقا”۔ جس نے اس سنت میں علی علیہ السلام کی پیروی کی وہ حقیقتاً شیعہ ہے۔

(أدب الضيافة تأليف جعفر البياتي ص160۔ بحار الأنوار ج 41 ص55 حدیث 5 بحوالہ المناقب ابن شہر آشوب ج1 ص310. ) تفسير الامام الحسن العسكري: 325 – 326۔ احتجاج طبرسي، ج 2، ص 517، ح 340)

4۔ شیعہ کسی کی ناموس پر نظر نہیں رکھتا

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ایک مرد نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: فلاں شخص اپنے پڑوسی کے حرم (زوجہ) کو گھورتا ہے اور اگر ناجائز فعل ممکن ہوسکے تو وہ دریغ نہیں کرے گا۔

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: اس شخص کو حاضر کرو۔

اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! وہ آپ کے پیروکاروں میں سے ہے اور علی علیہ السلام کا شیدائی ہے اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے۔

فرمایا: مت کہو کہ ایسا شخص ہمارے شیعوں میں سے ہے۔ وہ جھوٹا ہے کیونکہ ہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہمارے راستے پر گامزن ہوں اور اعمال میں ہمارے پیروکار ہوں۔لئالي الاخبار، ج ۵، ص ۱۵۷)

5۔ شیعہ اپنے بھائیوں کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں

دعوے کرنے کے لئے کسی زحمت و تکلیف کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن دعؤوں سے شیعہ بننا ممکن نہیں ہے بلکہ شیعہ بننے کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنا پڑتا ہے، گناہوں اور نافرمانیوں سے دوری کرنی پڑتی ہے ایثار و قربانی دینی پڑتی ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:

قال الامام الحسن بن علي العسكري علیه السلام: ” شيعة علي عليه السلام هم الذين يؤثرون إخوانهم على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة، وهم الذين لا يراهم الله حيث نهاهم، ولا يفقدهم حيث أمرهم، وشيعة علي هم الذين يقتدون بعلي عليه السلام في إكرام إخوانهم المؤمنين.”۔(بحارالانوار ج65 ص363)

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو اپنے دینی برادران کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں چاہے وہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں،

شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو دوری کرتے ہیں ان اعمال سے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اور انجام دیتے ہیں ان اعمال کو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے،

شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو اپنے مؤمن بھائیوں کی تکریم میں علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں۔

6۔ شیعہ فکر و نظر کے مالک ہیں

قال الامام حسن بن علي العسكري (ع): “عليكم بالفكر فانه حياة قلب البصير و مفاتيح ابواب الحكمة”.

تم پر لازم ہے سوچنا اور تفکر کرنا! کیونکہ یہ بصیرت و آگہی سے مالامال دلوں کی حیات اور ابواب حکمت کی چابی ہے۔(محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج 8، ص 115 و الحکم الزاهرة، ج 1، ص 19).

7. شیعہ اہل بصیرت ہے / بے بصیرت آخرت میں اندھا ہے

امام حسن عسکری علیہ السلام اسحاق بن اسماعیل کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: “فأتم الله عليك يا إسحاق وعلى من كان مثلك – ممن قد رحمه الله وبصره بصيرتك – نعمته… فاعلم يقينا يا إسحاق أنه من خرج من هذه الدنيا أعمى فهو في الآخرة أعمى وأضل سبيلا يا إسحاق ليس تعمى الابصار ولكن تعمى القلوب التي في الصدور، وذلك قول الله في محكم كتابه حكاية عن الظالم إذ يقول: قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ٭ قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى”۔ ((سورہ طہ آیات 125 و 126) (علی بن شعبه الحرانی، تحف العقول، ص 484))

اے اسحاق! خداوند متعال نے تم پر اور تم جیسوں پر، جو رحمت الہیہ اور خداداد بصیرت سے بہرہ مند ہوچکے ہیں، اپنی نعمت تمام فرمائی ہے … اے اسحاق! پس یقین کے ساتھ جان لو کہ جو شخص دنیا سے اندھا اور بے بصیرت ہوکر اٹھے گا اس کو آخرت میں بھی گمراہ اور نابینا اٹھایا جا ئے گا۔ یا اسحق! (اس موضوع میں) آنکھیں نہیں ہیں جو اندھی ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ اور یہ در حقیقت کتاب محکم میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے اس ظالم سے حکایت کرتے ہوئے جو “کہے گا پروردگار! کیوں تو نے مجھے حشر میں اندھا اٹھایا حالانکہ میں آنکھوں والا تھا؟ * ارشاد ہو گا اسی طرح ہماری نشانیاں تیرے پاس آئیں تو تو نے انہیں بھلاوے میں ڈالا اور اسی طرح اب آج تو بھلایا جا رہا ہے”.

8۔ کثرت نماز ہی نہیں بلکہ تفکر عبادت ہے

امام حسن عسکری علیہ السلام کبھی اس خطرے سے خبردار فرماتے ہیں کہ عبادت کو صرف مستحب نمازوں اور روزوں میں منحصر قرار دیا جاتا ہے اور عبادات الہیہ کے لئے مقررہ اوقات، عبادات کی کیفیت و کمیت اور زمان و مکان اور رمز و راز میں غور و تفکر نہیں کیا جاتا۔ فرماتے ہیں: “ليست العبادة كثرة الصيام و الصلوة و انما العبادة كثرة التفكر في امر الله”.(بحارالانوار، ج 71، ص 322، وسائل الشیعه، ج 11، ص 153 ; اصول کافی، ج 2 ص 55 و تحف العقول، ص 518، حدیث 13)

نماز و روزوں کی کثرت ہی عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت اللہ کے امور میں غور و تفکر کرنے سے عبارت ہے۔

بے شک عبادت تفکر ہی کی دعوت دیتی ہیں چنانچہ اگر عبادت فکر کے لئے راستہ ہموار نہ کرے یا فکر و تدبر کا پیش خیمہ ثابت ہو تو وہ عبادت بے روح کہلائے گی لیکن اگر عبادت تفکر کے ہمراہ ہو تو ممکن ہے کہ دنیا میں بھی انسانوں کی فلاح کا سبب بن جائے چنانچہ ایسی عبادت سے دنیا اور آخرت کی پاداش بھی ملے گی اور اس عبادت کو ای زندہ عبادت کہا جاسکے گا۔

9۔ شیعہ اہل ایمان ہے اور لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے

اور ہاں فکر اور تدبر بھی صرف اسی وقت مفید ہے کہ ایمان، عمل اور کردار و کوشش کی بنیاد فراہم کرے ورنہ جس فکر و تدبر کے بعد امیان عمل نہ ہو وہ پسندیدہ اور کارساز نہيں ہے۔ چنانچہ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:

خصلتان ليس فوقهما شيئ الايمان بالله، و نفع الاخوان”.(بحار الانوار ج75 ص374)

دو خصلتیں ہیں جن سے بہتر و برتر کوئی خصلت نہیں:

1۔ اللہ تعالی پر ایمان

2۔ دینی برادران کو فائدہ پہنچانا۔

10۔ شیعہ خدا، موت اور قیامت اور نبی (ص) پر درود نہیں بھولتا

تفکر و تدبر اور ایمان و عمل بہت ضروری ہے اور جب انسان فکر و تدبر کے نتیجے میں امیان و عمل کے مرحلے پر پہنچتا ہے وہ عبادت بھی کرتا ہے اور اللہ کو بھی یاد کرتا رہتا ہے اور قیامت اور حساب و کتاب کو بھی نہيں بھولتا چنانچہ وہ آخرت کے لئے تیاری بھی کرتا ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:

“أكثروا ذكر الله وذكر الموت وتلاوة القرآن والصلاة على النبي صلى الله عليه وآله فإن الصلاة على رسول الله عشر حسنات. (*) “.٭ (تحف العقول،ص 488 .بحارالانوار ج75 ص372) –

خدا کو زیادہ یاد کرو، اور موت کو زیادہ یاد کرو، قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرو اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بہت زیادہ درود و صلوات بھیجو، پس بتحقیق رسول اللہ (ص) پر صلوات کے لئے دس حسنات ہیں۔

11۔ شیعہ زیرک ہے اسی لئے نفس کا احتساب کرتا ہے

قیامت اور حساب و کتاب اور میزان کے لئے تیاری ہوشیاری، کیاست اور زیرکی کی علامت ہے کیونکہ زیرک شخص وہی ہے جو اپنی قیامت کو سنوارے اور قیامت کو سنوارنے اور کیاست کے اثبات کے لئے کن اوصاف کی ضرورت ہے؟ دیکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری، امیرالمؤمنین اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا فرماتے ہیں:

عن الحسن بن علي العسكري عليهما السلام في تفسيره عن آبائه، عن على عليهم السلام عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: “أكيس الكيسين من حاسب نفسه، وعمل لما بعد الموت، فقال رجل: يا أمير المؤمنين كيف يحاسب نفسه ؟ قال: إذا أصبح ثم أمسى رجع إلى نفسه، وقال: يا نفسي إن هذا يوم مضى عليك لا يعود إليك أبدا، والله يسألك عنه بما أفنيته، فما الذى عملت فيه أذكرت الله أم حمدته، أقضيت حوائج مؤمن فيه أنفست عنه كربة أحفظته بظهر الغيب في أهله وولده أحفظته بعد الموت في مخلفيه أكففت عن غيبة أخ مؤمن أعنت مسلما، ما الذى صنعت فيه ؟ فيذكر ما كان منه، فان ذكر أنه جرى منه خير حمد الله وكبره على توفيقه، وإن ذكر معصية أو تقصيرا استغفر الله وعزم على ترك معاودته”.

امام حسن عسکری علیہ السلام اپنی تفسیر میں اپنے آباء طاہرین علیہم السلام سے روایت کرکے کہ علی علیہ السلام نے علی علیہ السلام کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: “سب سے زیادہ کَيِّس اور سب سے زیادہ زیرک و ہوشیار فرد وہ ہے جو اپنے اعمال کا محاسبہ اور احتساب کرے اور موت کے بعد کی حیات کے لئے محنت و کوشش کرے۔

کسی نے امیرالمؤمنین (ع) سے دریافت کیا: یا امیرالمؤمنین! ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرے؟

فرمایا: جب وہ صبح کرتا ہے اور رات تک کا دن گذار دیتا ہے تو وہ اپنے نفس کی طرف لوٹتا ہے (اپنے گریباں میں جھانک لیتا ہے) اور کہتا ہے: اے میرے نفس! بے شک یہ دن جو تجھ پر گذر گیا ہرگز لوٹ کر نہیں آئے گا جبکہ اللہ تعالی تجھ سے ان چیزوں کے بارے میں ضرور پوچھے گا جو تو اس دن کھو چکا ہے۔ پس تو نے اس دن کے دوران کیا کیا؟ کیا تو نے خدا کو یاد کیا یا اس کی حمد و ثناء میں مصروف ہوا؟ کیا اس دن تو نے کسی مؤمن کی حاجت روائی کا اہتمام کیا؟ کیا تو نے کسی مؤمن بھائی کا رنج و غم رفع کیا؟ کیا تو نے اس کی غیر موجودگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کے خاندان اور اولاد میں اس کا تحفظ کیا [اور اس کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کا حق ادا کیا؟]، کیا تو نے موت کے بعد اس کے وارثوں اور پسماندگان کے حوالے سے اس کا حق ادا کیا؟ کیا تو نے اپنے مؤمن بھائی کی غیبت سے اجتناب کیا؟ کیا تو نے کسی مسلمان کی مدد کی؟ تو نے اس دن، کیا کیا؟ پس وہ یاد کرے گا ان تمام اعمال کو جو اس نے پورے دن میں انجام دیئے ہیں، اگر اس کو یاد آجائے کہ اس نے جو کیا ہے وہ سب خیر و نیکی ہے تو اس توفیق پر اللہ کی حمد و شکر کرے اور اس کی تکبیر و تسبیح کرے اور اگر اس کو یاد آجائے کہ اس سے کوئی نافرمانی یا تقصیر (یعنی ارادی طور پر معصیت) سرزد ہوئی ہے تو استغفار کرے اور عزم کرے کہ اس گناہ کو ترک کرے گا  اور اس کو دہرانے سے اجتناب کرے گا۔(حر عاملی، وسائل الشیعه،(آل البيت) ج 16، ص 98 ۔ وسائل الشیعه،((الإسلامية)) ج 11، ص 389)

12۔ شیعہ تقوا، پاکیزگی اور امانتداری، مخالفین کے ساتھ رواداری کا پابند

تقوی اور ورع (گناہ سے بچنا) شیعیان محمد و آل محمد (ص) کی بنیادی خصوصیت ہے جو انسان کو گناہ و جرم اور حق کی پامالی اور اللہ کی نافرمانی سے محفوظ کرتی ہے جیسا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف الانصاری کے نام خط میں رقم فرماتے ہیں: ” أَلاَ وَ إِنَّكُمْ لاَ تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَ لَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَ اِجْتِهَادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سَدَادٍ” اور جان لو کہ تم میری طرح زہد و ترک دنیا کی قدرت نہیں رکھتے ہو لیکن تم ورع اور اجتہاد و کوشش، پاکدامنی اور سچے و محکم کلام کے ذریعے میری مدد کرو۔ (نہج البلاغہ خط نمبر46) چنانچہ تقوی اور ورع کے ساتھ ساتھ امانتداری اور صداقت یا راستگوئی دو ایسی صفات ہیں جو ہر معاشرے کو تقویت پہنچاتا اور معاشرتی سکون و اطمینان کو فروغ دیتی ہیں اور ان اوصاف کے ذریعے معاشرے کو اخلاقی استحکام پہنچایا جاسکتا ہے اور معاشرے کی سعادت کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام ان اوصاف پر تاکید کرتے ہوئے شیعیان اہل بیت (ع) سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “أوصيكم بتقوى الله والورع في دينكم والاجتهاد لله وصدق الحديث وأداء الامانة إلى من ائتمنكم من بر أو فاجر وطول السجود وحسن الجوار، فبهذا جاء محمد صلى الله عليه وآله صلوا في عشائرهم واشهدوا جنائزهم وعودوا مرضاهم وأدوا حقوقهم (4)، فإن الرجل منكم إذا ورع في دينه وصدق في حديثه وأدى الامانة وحسن خلقه مع الناس قيل: هذا شيعي فيسرني ذلك”۔(شیخ حر عاملی وسائل الشیعة (الإسلامية) ج8، ص 398، حديث 2 و تحف العقول، ص 487، حديث 12).

تمہیں اپنے دین میں ورع و تقوی اور اللہ کی راہ میں اجتہاد و کوشش اور راستگوئی اور جو لوگ اپنی امانتیں تمہارے سپرد کرتے ہیں انہیں ادائے امانت کی سفارش کرتا ہوں، چاہے وہ لوگ اچھے ہوں چاہے برے ہوں۔ اور تمہیں طولانی سجدے بجا لانے حسن مجاورت (ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک) کی سفارش کرتا ہوں، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہی چیزیں لے کر تشریف لائے ہیں۔ تمہیں سفارش کرتا ہوں کہ جاکر (مخالفین) کی جماعتوں میں نماز ادا کرو (یعنی ان کی نماز جماعت میں شرکت کرو)۔ اور ان کے جنازوں میں شرکت کرو اور ان کے بیماروں کی عیادت کرو اور ان کے حقوق ادا کرو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص اہل ورع اور پرہیزگار ہو اور سچا ہو اور امانت ادا کرے اور اس کا طرز سلوک اور رویہ اچھا ہو، تو کہا جاتا ہے کہ “یہ شیعہ ہے” پس میں یہ بات سن کر مسرور و شادماں ہوتا ہوں۔

وسا ئل الشیعہ کی حدیث کا آخری حصہ تھوڑا سا مختلف ہے اور وہ یوں ہے کہ ” قيل هذا جعفري، فيسرني ذلك ويدخل علي منه السرور، وقيل هذا أدب جعفر۔ جب کوئی ان اوصاف سے متصف تو کہا جاتا ہے کہ یہ “جعفری” ہے پس لوگوں کا یہ قول مجھے شادماں کردیتا ہے اور اس سے مجھ پر سرور وارد ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جعفر (ع) کا ادب ہے۔

13۔ ہمارے لئے زینت بنو اور باعث شرم نہ بنو

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کیاکہ لوگ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں لیکن ائمۂ طاہرین علیہم السلام کا خیال یہ نہیں ہے اور یہ حقیقت مذکورہ بالا حدیث میں بھی واضح ہے۔ یہ جو فرماتے ہیں کہ ہمارے لئے زینت بنو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسے اعمال انجام دو کہ لوگ آپ کی اچھائیوں کا اعتراف کریں اور یہ جو فرمایا جاتا ہے کہ ہمارے لئے باعث شرم نہ بنو، اس کا مطلب یہی ہے کہ دوسروں کی رائے اہم ہے اور اگر وہ آپ کےبارے میں کچھ کہتے ہیں تو اس کو اہمیت دینا لازمی ہے۔ ہمارے معاشروں میں بعض ایسے اعمال پائے جاتے ہیں ـ خاص طور پر عزاداری کے سلسلے میں ـ جو شیعہ مکتب سے کسی طور پر بھی جوڑ نہيں کھاتے اور تو اور وہابیت کے علمبردار، جن کو اگر کسی کی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کو کافر قرار دیتے اور اس کے قتل کا فتوی دیتے ہیں اور سربازار لوگوں کے گلے پر چھری پھیر دیتے ہیں اور اپنے ان اعمال کی سی ڈی تیار کرتے ہیں اور نہتے انسانوں کے گلے پر چھری پھیرتے ہوئے پس منظر میں قرآنی آیات کی تلاوت نشر کرتے ہيں جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں اسلام کی بدنامی کا سبب بنے ہوئے ہیں، ہمارے ان اعمال کو دستاویز قرار دیتے ہیں اور شیعیان محمد و آل محمد (ص) پر وحشی پن کا الزام لگاتے ہیں۔

امام حسن عسکری فرماتے ہیں:”اتقوا الله وكونوا زينا ولا تكونوا شينا، جروا إلينا كل مودة وادفعوا عنا كل قبيح”۔(تحف العقول، ص 488، حديث 12)۔

تقوائے الہی اختیار کرو اور

ہمارے لئے زینت بنو اور

ہمارے لئے باعث شرم نہ بنو اور

ہر قسم کی مودت و محبت ہماری طرف کھینچ لاؤ اور

ہر قسم کی برائی اور قباحتیں ہم سے دفع کرو۔

جس کا مطلب یہی ہے کہ “ہماری طرح بنو تا کہ ہمارے لئے زینت کا سبب بن سکو اور برائیوں سے دور رہو اور معاشرے میں ایسا رویہ اپناؤ کہ لوگ ہماری محبت و مودت دل میں بسائیں اور برے اعمال سے پرہیز کرو تا کہ ہم پر برائی کا الزام نہ لگایا جاسکے۔ جس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ تمہاری برائیاں دیکھ کر لوگ ہم اہل بیت طاہرین (ع) سے بدظن ہوجاتے ہیں!۔

14۔ شیعہ مؤمن کے لئے برکت اور کافر کے لئے حجت

شیعہ وہ نہیں ہے جو شیعہ کا دشمن ہو اور شیعہ وہ بھی نہیں ہے جو کافر کے لئے سلامتی ہو۔ شیعہ وہ بھی نہیں ہے جو سیاسی یا جماعتی وابستگیوں کی بنا اپنے شیعہ بھائیوں کو لعنت کا لائق سمجھے بلکہ شیعہ اپنے بھائیوں کے لئے سرمایہ ہدایت اور موجب برکت ہے اور خود بھی اپنے بھائیوں سے مدد لے کر ہدایت پاتا ہے۔

امام حسن العسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:

“المُومِنُ بَرَکَةٌ عَلی المُومِنِ وَ حُجَّةٌ  عَلی الکافر”.

مؤمن اپنے مؤمن کے لئے باعث برکت ہے اور اپنے نیک اعمال اور برہان و دلیل محکم کی وجہ سے کافروں کے لئے حجت و دلیل ہے۔(تحف العقول، ص 489).

15– شیعہ بہترین ہوتا ہے 

امام حسن عسکری علیہ السلام کبھی بالواسطہ طور پر اپنے پیروکاروں سے اپنی توقعات اچھے اور برے لوگوں کی خصوصیات بیان کرکے، ظاہر کرتے ہیں اور ان سے سفارش کرتے ہیں کہ بہترین لوگوں میں سے ہوں اور بدترین افراد کے زمرے میں قرار پانے سے دور رہیں؛ فرماتے ہیں:

“أَوْرَعُ النّاسِ مَنْ وَقَفَ عِنْدَ الشُّبْهَةِ، أَعْبَدُ النّاسِ مَنْ أَقامَ عَلَى الْفَرائِضِ أَزْهَدُ النّاسِ مَنْ تَرَكَ الْحَرامَ، أَشَدُّ النّاسِ اجْتَهادًا مَنْ تَرَكَ الذُّنُوبَ”۔

امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پرہیزگار ترین شخص وہ ہے جو شبہے کے موقع پر (جب وہ یہ تمیز کرنے سے قاصر ہو کہ وہ عمل حرام ہے یا حلال) رک جاتا ہے۔

عابدترین یا عبادت گزار ترین شخص وہ ہے جو فرائض اور واجبات کو انجام دے،

زاہد ترین اور پارسا ترین شخص وہ ہے جو حرام کو ترک کردے۔

خدائے تعالی کی عبادات اور طاعات کی انجام دہی کے سلسلے میں سب سے زيادہ محنتی شخص وہ ہے جو گناہوں کو ترک کردے۔

پس عابدترین شخص وہ ہے جو اپنے واجبات پر عمل کرے یعنی یہ کہ نوافل اور مستحب اگر انجام  نہ بھی دے اور صرف واجبات کا باقاعدگی سے پابند رہے تو وہ عابدترین ہے۔

امام علیہ السلام کے کلام میں زاہدترین شخص وہ ہے جو مال حرام اور فعل حرام سے اجتناب کرے۔ آپ (ع) نے یہ نہیں فرمایا کہ زاہد ترین شخص وہ ہے جو سوکھی روٹی پر گذارہ کرے یا بھوک اور پیاس برداشت کرے بلکہ اگر انسان مال حرام اور فعل حرام سے اجتناب کرے تو وہ زاہد ترین ہے۔

رضائے الہی کے حصول کے لئے ترک دنیا کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ کی طاعت و عبادت میں سب سے زیادہ کوشش و اجتہاد کرنے والا شخص امام معصوم علیہ السلام کی نظر میں وہی ہے جو ترک گناہ کا پابند بن جائے۔

پس پرہیز کار ترین، زاہد ترین اور محنتی ترین شخص وہ ہے جو مشتبہ عمل ترک کردے، واجبات پر عمل کرے اور گناہ کو ترک کردے۔ (بحارالانوارج75 ص373 – تحف العقول ص489)

16۔ شیعہ بدترین نہیں ہوتا

امام حسن عسکری علیہ السلام بہترین افراد کے مقابلے میں بدترینوں کا بھی تعارف کراتے ہیں اور فرماتے ہیں:

“بئس العبد عبد يكون ذا وجهين وذا لسانين، يطري أخاه شاهدا ويأكله غائبا، إن اعطي حسده، وإن ابتلي خانه (في بعض النسخ ” خذله)”۔

بدترین بندہ وہ ہے جو دو چہروں اور دو زبانوں کا حامل ہو (یعنی قول و فعل میں منافقت سے دوچار ہے)، جب سامنے ہو تو اپنے بھائی کی تعریف و تمجید میں مبالغہ کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے اس کو کھاتا ہے (یعنی اس کی غیبت کرتا اور عیب گنواتا ہے)، اگر اس کے دوست کو کچھ مل جائے تو یہ حسد کرتا ہے اور اگر وہ تنگدستی یا کسی اور مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اس سے خیانت کرتا اور اس کو مصیبت میں تنہا چھوڑتا ہے۔(بحار الانوار ج75 (باب) * * ” (مواعظ أبى محمد العسكري عليهما السلام وكتبه إلى اصحابه) ص370 الی 380. تحف العقول ص 489)

17 – شیعہ عزت نفس رکھتا اور ذلت سے دوری کرتا ہے 

انسان کو خدا نے معزز بنا کر پیدا کیا ہے اور اس کو عزت نفس عطا کی ہے چنانچہ اس کو عزت نفس کی بہت ضرورت ہوتی ہے؛ وہ بھوک اور پیاس کو تو برداشت کرسکتا ہے، غربت اور ناداری سے ہماہنگ ہوسکتا ہے لیکن اس کی عزت نفس کی پامالی، اس کی شخصیت کی تذلیل و تحقیر اور اس کی روح و جان کی آزردگی، آسانی سے قابل تلافی نہیں ہے اور ممکن ہے کہ عمر کے آخری لمحات تک اس کے لئے سوہان روح بن جائے۔

اللہ تعالی نے انسان کو عزیز پیدا کیا ہے اور اس کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ وہ کسی کی تحقیر و تذلیل کرے یا تحقیر و تذلیل کو قبول کرے۔ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “إن الله عز وجل فوض إلى المؤمن أموره كلها، ولم يفوض إليه أن يذل نفسه، ألم تسمع لقول الله عز وجل: “ولله العزة ولرسوله وللمؤمنين”۔ (سورة المنافقون / 7).(الف الحديث في المؤمن تأليف الشيخ هادي النجفي ص 113 بحوالہ ثقة الاسلام محمد بن يعقوب كليني – الكافي ج3 ص317)۔

خدائے عز و جل نے مؤمن کے تمام امور اسی کو واگذار کرلئے ہیں لیکن اس کو یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ ذلت قبول کرے کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ اللہ تعالی نے فرما: تمام عزتیں اللہ کے لئے ہیں اور اس کے رسول (ص) کے لئے نیز مؤمنین کے لئے ہیں۔

اسی بنا پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: “أقبح بالمؤمن أن تكون له رغبة تذله”۔(تحف العقول ص489)

کتنی بری بات ہے کہ ایک شیعہ اور ایک مؤمن ایسی چیز کی طرف رغبت پیدا کرے جو اس کو خوار و ذلیل کرتی ہے۔

یا فرماتے ہیں کہ: “قال عليه السلام: لا تمار فيذهب بهاؤك. ولا تمازح فيجترأ عليك”۔

نزاع اور کشمکش مت کرو کیونکہ نزاع و کشمکش تمہاری وقعت کو ختم کردیتی ہے۔ (اور تمہاری ذلت و خواری کا سبب بنتی ہے) اور مزاح مت مت کرو تا کہ لوگ تمہارے سامنے جرأت و جسارت پیدا نہ کرسکیں۔(التحف ص 486۔ بحار الانوار ج75 (باب) * * ” (مواعظ أبى محمد العسكري عليهما السلام وكتبه إلى اصحابه) ص370)

و گاه راهکارهای رسیدن به عزت و دوری از ذلت را به شیعیان ارائه می دهد و قاطعانه می فرماید:“ما ترك الحق عزيز الا ذل و لا اخذ به ذليل الا عزّ۔(تحف العقول ص 489).

کسی بھی عزیز (صاحب عزت و آبرو) نے حق کو ترک نہیں کیا مگر یہ کہ ذلت سے دوچار ہوا اور کسی بھی خوار و ذلیل شخص نے حق پر عمل نہیں کیا مگر یہ ہے وہ صاحب عزت بن گیا۔

18. شیعہ ریاست طلب نہیں ہوتا

اس دنیا میں ایسے اوصاف کی کوئی کمی نہيں ہے جو انسان کے روحانی اور معنوی زوال کا سبب بنتے ہیں اور ریاست طلبی، شیخوخت پرستی اور دوسروں پر تسلط کی خواہش ان ہی اوصاف میں سے ایک ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حکومت اور اقتدار کی خواہش نے اسلام کو کتنے نقصانات پہنچائے ہیں؛ یہی اقتدار طلبی تھی جس کی وجہ سے خلافت اللہ اور رسول (ص) کے مقرر کردہ راستے سے ہٹ گئی اور امت پر جو گذری سو گذری؛ سنئے سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) کی درد بھری فریاد جو تاریخ کے آفاق پر آج بھی سنائی دے رہی ہے؛ یہ فریاد ایک گروہ کی ریاست طلبی کا شکوہ ہے انسانیت کی عدالت میں جس کو ابھی تک کوئی جواب نہيں ملا، سیدہ کی فریادہ سنائی دے رہی ہے کہ امت کے کچھ افراد نے خدا اور رسول اللہ (ص) کے مقررہ راستے کو صرف اقتدار پسندی کی وجہ سے ترک کردیا اور خلافت کو غصب کیا اور مجھ سمیت رسول اللہ (ص) کے اقارب کا حق ہمیں قتل کرکے ادا کیا؛ سیدہ مظلومہ اور راہ ولایت کی اولین شہیدہ فرماتی ہیں:  

“أما والله لو تركوا الحق على أهله واتبعوا عترة نبيه لما اختلف في الله اثنان، ولورثها سلف عن سلف وخلف بعد خلف حتى يقوم قائمنا التاسع من ولد الحسين، ولكن قدموا من أخره الله وأخروا من قدمه الله: حتى إذا ألحدوا المبعوث و أودعوه الجدث المجدوث اختاروا بشهوتهم وعملوا بآرائهم، تبا لهم أو لم يسمعوا الله يقول“وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاء وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ“۔ (القصص۔ 68) ” بل سمعوا ولكنهم كما قال الله سبحانه:“فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ؛ (الحج۔46) هيهات بسطوا في الدنيا آمالهم ونسوا آجالهم، فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ“۔ (محمد (ص)۔ 8

(بحارالانوار ج36 ص353 – احقاق الحق ج 21، ص 26)۔

لیکن اللہ کی قسم! اگر ان (اقتدار پسندوں) نے حق کو اہل حق کے پاس چھوڑ دیا ہوتا اور اللہ کے نبی (ص) کی عترت (خاندان) کی پیروی کرتے، کہیں بھی دو آدمی اللہ کی ذات و صفات کے حوالے سے آّپس میں جھگڑا نہ کرتے اور سلف سلف سے اور اور خلف کے بعد خلف ورثے کے طور پر اسلام اور امت کی خدمت اور تحفظ کا بیڑا اٹھاتا حتی کہ حسین (ع) کے نویں فرزند اور ہمارے قائم قیام کرتے لیکن انھوں نے ایسے شخص کو مقدم رکھا جس کو اللہ تعالی نے مؤخر کیا تھا؛ اور وہ اس سلسلے میں یہاں تک بھی پہنچے کہ مبعوث (محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اور آپ (ص) کی بعثت) کا انکار تک کیا اور مدفون (رسول اللہ (ص)) کے مدفن سے وداع کیا۔ انھوں نے اپنی شہوت اور نفسانی خواہش (اور اقتدار پرستی) کی بنیاد پر ، انتخاب کیا اور (قرآن و سنت رسول (ص) کو چھوڑ کر) اپنی آراء پر عمل کیا۔ ہلاکت اور نابودی ہو ان پر۔ کیا انھوں نے اللہ کا یہ کلام نہيں سنا کہ “اور آپ کا پروردگار پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور منتخب کرتا ہے۔  انہیں کوئی اختیار نہیں؟”، بلکہ انھوں نے یہ کلام الہی سن لیا ہے لیکن وہ اس ارشاد ربانی کا مصداق ہیں کہ کہ اصل اندھا پن آنکھوں کا نہیں ہے مگر اندھا پن تو دلوں کا ہے جو سینوں کے اندر ہوتے ہیں۔

افسوس! ان (اہل سقیفہ) نے دنیا میں اپنی آرزؤوں کو جامۂ عمل پہنایا اور اپنی موت و اجل کو بھول گئے۔ پس ان کے لئے ہلاکت ہے اور اس نے ان کے اعمال کو برباد کر دیا ہے …

 (محمد باقر مجلسی، بحارالانوار (بیروت، داراحیاء التراث)، ج 36، ص 353 و ر – ک احقاق الحق ج 21، ص 26)

اقتدار طلبی کی وجہ سے فرزندان رسول (ص) کا خون مباح کیا گیا اور انسانوں کو آل محمد (ص) کی قیادت و امامت اور ان کے علوم کی روشنی سے محروم کردیا۔

یہ بیماری آج بھی پوری دنیا میں رائج ہے اور مسلسل فروغ پارہی اور ہر کوئی اپنی حد تک افتدار کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ کوئی اپنے خاندان کے اندر، کوئی گلی محلے اور شہر و صوبے کی سطح پر اور کوئی ملکی سطح پر اور دنیا کے بڑے شیاطین پوری دنیا کی سطح پر اقتدار کے حصول کے لئے اربوں کی رقوم خرچ کررہے ہیں اور قتل و غارت اور ملکوں پر قبضے تک سے باز نہیں آتے۔ پوری دنیا پر آج جو گھٹن کا ماحول کارفرما ہے اس کی وجہ بعض اقتدار پسندوں کی رسہ کشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی جرم و جبر و ستم سے دریغ نہيں کرتے۔

19۔ شیعہ ایمان و عمل صالح کا پابند اور اصحاب جنت میں سے ہے 

شیعہ وہ نہیں ہیں جو حب آل محمد (ص) کا دعوی کرتے ہیں۔ وہ محب تو ہوسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ محب ہونے کے لئے بھی عمل کی ضرورت ہے اور محبت ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالی کی اطاعات کاملہ کی ضرورت ہے ورنہ تو بغیر عمل کے محبت بھی قبول نہیں ہے بلکہ بد عمل انسان اہل بیت رسول (ص) کے دشمن ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام جابر جعفی سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “يا جابر أيكتفي من ينتحل التشيع أن يقول بحبنا أهل البيت ؟ فوالله ماشيعتنا إلا من اتقى الله وأطاعه، وما كانوا يعرفون يا جابر إلا بالتواضع والتخشع والامانة، وكثرة ذكر الله، والصوم، والصلاة، والبر بالوالدين، والتعهد للجيران من الفقراء وأهل المسكنة، والغارمين، والايتام وصدق الحديث، وتلاوة القرآن، وكف الالسن عن الناس، إلا من خير، وكانوا امناء عشائرهم في الاشياء…. يا جابر فوالله ما يتقرب إلى الله تبارك وتعالى إلا بالطاعة، وما معنا براءة من النار، ولا على الله لاحد من حجة، من كان لله مطيعا فهو لنا ولي، ومن كان لله عاصيا فهو لنا عدو، ولا تنال ولايتنا إلا بالعمل والورع”۔ (بحار الانوار ج67 ص97 – الكافي ج 2 ص 74)

اے جابرکیا شیعہ کہلانے کے لئے یہی کافی ہے کہ ایک شخص ہم اہل بیت (ع) کی محبت کا اظہار کرے اور دعوی کرے؟ پس خدا کی قسم! ہمارا شیعہ نہیں ہے مگر وہ جو اللہ کا خوف اور پرہیزگاری اپنائے اور اللہ کی فرمانبرداری کرے۔ اے جابر ہمارے شیعہ صرف اور صرف تواضع اور منکسرالمزاجی، خشوع، امانتداری، اللہ کو بہت زیادہ ذکر کرنے، کثرت سے روزہ رکھنے، کثرت سے نماز بجالانے، والدین سے بہت نیکی کرنے، غریب اور مسکین اور مقروض اور یتیم پڑوسیوں کا لحاظ رکھنے [اور ان کے مسائل حل کرنے]، سچ بولنے اور صدق کلام، تلاوت قرآن، لوگوں کی بدگوئی اور غیبت سے اپنی زبان روکنے اور صرف ان کی بہتری میں زبان کھولنے، کے توسط سے پہچانے جاتے ہیں اور تمام اور تمام معاملات میں اپنے خاندانوں کے امین ہیں… اے جابر! پس اللہ کی قسم! اللہ کی قربت حاصل نہیں کی جاسکتی مگر اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے، اور ہمارے پاس بھی اللہ کی اطاعت سے دوری کرنے والوں کے لئے دوزخ سے برائت نہیں ہے اور کسی کے پاس بھی خدا پر حجت نہیں ہے، “جو مطیع ہے اللہ کے لئے وہ ہمارا دوست ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے”۔

 

 

تبصرے
Loading...