شیر خدا کا شیر بس عباس علمدار(ع)

ایمان، اطاعت، شجاعت اور وفاداری کی بلند چوٹیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو  وہاں صرف ایک شخص نظر آتا ہے جو فضل و کمال میں، شجاعت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہےجو اخلاص،استقامت، ثابت قدمی اور جوانمردی میں نمونہ اور آئیڈیل ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے پوری دنیا کے جوانوں کو اطاعت،وفاداری، جانثاری اور فداکاری کا درس دیا ہے اور جس نے وفاداری، جانثاری اور فداکاری کا ایسا مثالی نمونہ پیش کیا جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں ملتی، وہ شخص صرف شیر خدا کا شیر، عباس علمدار(ع) ہیں۔

اگرچہ ان کی فداکاری، جانثاری اور وفاداری کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن تاریخ عباس بن علی (ع) کے خلعت کمالات کو میلا نہیں کر پائی۔ آج عباس(ع) کا نام عباس نہیں وفا ہے، ایثار ہے، اطاعت ہے، تسلیم محض ہے۔

حضرت عباس (ع) ان اولیاء الٰہی میں سے  ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لیے مشعل فروزاں ہیں اور ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق ، وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ عمل اور سرمشق ہیں بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان  میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں۔

ذیل   میں حضرت عباس کی زندگی کا ایک گوشہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ ان کے چاہنے والے اپنی زندگی کو کسی حد تک ان کی زندگی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں اور انہیں راہ حق پر چلنے کے لیے نمونہ عمل قرار دیں۔

ولادت حضرت عباس علیہ السلام

کئی سال حضرت زہراء  سلام اللہ علیہا کی شہادت کو گزر چکے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دختر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی شہادت کے بعد دس سال تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی اور ہمیشہ ان کے فراق میں مغموم تھے۔ 

خاندان پیغمبر کے لیے حیرت انگیز مقام تھا اس لیے کہ اس خاندان کے بزرگ بغیر زوجہ کے زندگی بسر کر رہے تھے۔ بالاخر ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا کہ جو نسب شناسی میں مہارت رکھتےتھے اور قبیلوں کی اخلاقی خصوصیات اور ان کے مختلف خصائل سے آشنا تھے، ان سے کہا: ہمارے لیے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کریں جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو تا کہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔

کچھ عرصہ کے بعد جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین (ع) کو پہچان کروائی کہ جن کا نام بھی فاطمہ تھاجن کے آباؤواجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا۔ اور بعد میں ام البنین  کے نام سے شہرت پاگئیں۔ 

جناب عقیل رشتہ کے لیے ان کے باپ کے پاس گئے باپ نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ حضرت علی (ع) نے اس خاتون کے ساتھ شادی کی۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعد جب امیر المومنین (ع) کے گھر میں آئیں تو امام حسن اور حسین (ع) بیمار تھے۔ انہوں نے ان کی خدمت اور دیکھ بال کرنا شروع کر دیا۔

کہتے ہیں کہ جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو کبھی آپ کے لیے آپ کی  ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہوجائے۔ میں آپ کی خادمہ ہوں۔

امام علی علیہ السلام کی اس  خاتون شادی کے بعد انہیں اللہ نے چار بیٹوں سے نوازا: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان۔ جو چاروں کے چاروں بعد میں کربلا میں شہید ہو گئے۔ عباس (ع)  کہ جن کی خوبیوں اور فضیلتوں کے بارے میں یہاں پر گفتگو کرنا مقصود ہے اس شادی کا پہلا ثمرہ اور جناب ام البنین (س)کے پہلے بیٹے ہیں۔ 

فاطمہ کلابیہ خاندان پیغمبر(ص) میں قدم رکھنے کے بعدباکمال خاتون  بن گئیں ۔اور خاندان پیغمبر (ص)کے لیے نہایت درجہ احترام کی قائل تھی۔ انہوں نے گھرانۂ وحی میں قدم رکھتے ہی  یہ پہچان لیا کہ اجر رسالت مودت اہلبیت  علیہم السلام ہے۔انہوں نے حسنین اور زینب و کلثوم  علیہم السلام کے لیے حقیقی ماں کا فریضہ ادا کیا۔ اور اپنے آپ کو ہمیشہ ان کی خادمہ قرار دیا۔ امیر المومنین (ع)کی نسبت ان کی وفا بھی حد درجہ کی تھی۔ امام علی (ع) کی شہادت کے بعد امام کے احترام میں اور اپنی حرمت کو باقی رکھنے کی خاطر انہوں نے دوسری شادی بھی نہیں کی۔ اگر چہ ایک دیرتک (تقریبا بیس سال ) ان کے بعد زندہ رہیں۔ 

ام البنین(س) کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دی۔  جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین (ع) پر قربان ہونے  کی خاص  طور پرتاکید کی اور ہمیشہ جولوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے ان سے سب سے پہلے امام حسین (ع) کےبارے میں سوال کرتی تھیں۔ 

عباس بن علی(ع) ایسی ماں کا بیٹا تھےاور علی (ع) جیسےباپ کا فرزند۔ اور دست قدرت نے بھی ان کی تقدیر میں وفا، ایمان، اورشہامت  و شجاعت کو لکھ دیا تھا۔ 

آپ کی ولادت با سعادت ۴ شعبان سن ۲۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔جناب عباس (ع)  کی ولادت نے خانہ علی (ع)کو نور امید سے روشن کردیا۔ اس لیےکہ امیر المومنین (ع) دیکھ رہے تھے کہ کربلا پیش آنے والی ہے یہ بیٹا حسین(ع) کا علمبردار ہو گا۔ اور علی (ع)کا عباس(ع)  فاطمہ زہرا (س) کےحسین (ع) پر قربان ہو گا۔ 

جب جناب عباس(ع) نے دنیا میں قدم رکھا علی علیہ السلام نے ان کے کانوں میں اذان و اقامت کہی۔ خدا اور رسول کا نام ان کے کانوں میں لے کر ان کی زندگی کا رشتہ توحید،رسالت اور دین کے ساتھ جوڑ دیا۔ اور ان کا نام عباس رکھ دیا۔ ولادت کے بعد ساتویں دن اسلامی رسم کو نبھاتے ہوئے ایک دھنبہ ذبح کروا کر عقیقہ دیا۔ اور فقراء میں تقسیم کیا۔ 

امیر المومنین (ع) کبھی کبھی جناب عباس (ع) کو اپنی گود میں بٹھاتے تھے اور ان کی آستینوں کو پیچھے الٹ کر بوسہ دیتے تھے۔ اور آنسو بہاتے تھے۔ ایک دن انکی ماں ام البنین(س)  اس ماجرا کودیکھ رہی تھی، حضرت علی (ع) نے فرمایا: یہ ہاتھ اپنے بھائی حسین (ع) کی مدد اور نصرت میں کاٹے جائیں گے میں اس دن کے لیے رو رہا ہوں۔ 

جناب عباس(ع) کی ولادت سے خانۂ علی(ع) خوشی اور غمی سے مملو ہو گیا۔ خوشی اس اعتبار سے کہ عباس جیسا بیٹا گھر میں آیا ہے۔ اور غم و اندوہ اس فرزند کے آیندہ کے لیے کہ کربلا میں اس پر کیا گزرے گی۔

جناب عباس(ع) نے علی (ع) کے گھر میں حسنین(ع) کے ساتھ تربیت حاصل کی اور عترت رسول(ص) سے  انسانیت ،شہامت، صداقت اور اخلاق کا درس حاصل کیا۔

امام علی (ع) کی اس خصوصی تربیت نے اس نوجوان کی روحی اور نفسانی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا جناب عباس(ع) کا وہ عظیم فہم و ادراک اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔

ایک دن امیر المومنین (ع) جناب عباس (ع)کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھے حضرت زینب(س) بھی موجود تھیں امام نے اس بچے سے کہا: کہو ایک۔جناب عباس نے کہا : ایک۔ فرمایا : کہو دو۔جناب عباس نے دو کہنے سے منع کر دیا۔ اور کہا مجھے شرم آتی ہے جس زبان سے خدا کو ایک کہا اسی زبان سے  دو کہوں۔ امام(ع)،جناب عباس (ع) کی اس زیرکی اور ذہانت سے خوش ہوئے اور پیشانی کو چوم لیا۔

آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس بات کا با عث بنی کہ جسمی رشد و نمو کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی رشد و نمو بھی کمال کی طرف بڑھی۔ جناب عباس(ع)  نہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خرد مندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی منفرد تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں تاکہ اس دن حجت خدا کی نصرت میں جانثاری کریں۔ وہ  حقیقت میں عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔

شائدحضرت علی(ع)اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ کی تمام اولاد آپ کے اطراف میں  نگراں وپریشاں اور گریہ کناں  حالت میں جمع تھی،جناب عباس کا ہاتھ امام حسین(ع) کے ہاتھ میں دیا ہوگا اور یہ وصیت کی ہوگی کہ عباس تم اور تمہارا حسین کربلا میں ہوں گے کبھی اس سے جدا نہیں ہونا اور اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔

جوانی کی بہار

جب سےجناب  عباس (ع)نے دنیا میں آنکھیں کھولیں امیر المومنین(ع) اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے اطراف دیکھا اور ان کی مہر و محبت کے سائے میں پروان چڑھے اور امامت کے چشمہ علم و معرفت سے سیراب ہوتے رہے۔

چودہ سال زندگی کے جناب امیر کے ساتھ گزارے ۔ جب علی (ع) جنگوں میں مصروف تھے تو کہتے ہیں کہ جناب عباس بھی ان کے ساتھ جنگوں میں شریک تھےحالانکہ بارہ سال کے نوجوان تھے۔ نوجوانی کے زمانے سے ہی حضرت امیر (ع) نے انہیں شجاعت اور بہادری کے گر سکھا رکھے تھے۔ جنگوں میں حضرت علی (ع) انہیں جنگ کی اجازت نہیں دیتے تھے انہیں کربلا کے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا۔ 

تاریخ نے اس نوجوان کے بعض کرشمے جنگ صفین میں نمایاں کئے ہیں کہ جب آپ بارہ سال کے تھے۔ 

مگر آپ کے بھتیجےجناب قاسم تیرہ سال کے نہیں تھے کہ جنہوں نے اپنے چچا کی رکاب میں شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے کہ دشمن دھنگ رہ گئے؟ مگر آپ کے والد علی (ع) نوجوان نہیں تھے جب جنگ بدر و احد،اور خیبر و خندق میں مرحب و عنتر اورعمر بن عبد ودّ جیسے نامی گرامی پہلوانوں کے ساتھ مقابلہ کر کے انہیں واصل جہنم کیا اور پرچم اسلام کو سربلندی عطا کرتے رہے ؟ کیا جناب عباس کے نانہال والے قبیلہ بنی کلاب میں سے نہیں تھے جو شجاعت، بہادری اور شمشیر زنی میں معروف تھے؟۔ عباس(ع) شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں ٹکراؤں کا نام ہے، عباس (ع) وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی بہادری۔ 

صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المومنین (ع) کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور بہادری سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔  اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟  شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چوتھے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔ 

معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نو جوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المومنین (ع) نے اسے واپس بلا لیا ۔نقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ ہاں یہ نوجوان کون تھا یہ قمر بنی ہاشم ، یہ بارہ سال کا عباس(ع) یہ شیر خدا کا شیر تھا۔

نیز تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ صفین میں معاویہ کی فوج نے پانی پر قبضہ کر رکھا تھا جب امیر المومنین (ع) کی فوج کو پیاس لاحق ہوئی تو آپ نے امام حسین (ع) کی قیادت میں کچھ افراد کو پانی کے لیے بھیجا اور حضرت عباس(ع) امام حسین (ع) کے دائیں طرف تھے۔ جنہوں نے پانی کو باقی لشکر والوں کے لیے فراہم کیا۔

یہ ایام گزر گئے سن چالیس ہجری آگئی  مسجد کوفہ کا محراب رنگین ہو گیا۔ جب حضرت علی(ع) شہید ہوئے حضرت عباس چودہ سال کے تھے۔ بابا کی شہادت کا عظیم صدمہ برداشت کیا رات کے سناٹے میں جنازے کا دفن کرنا برداشت کیا۔ اب ہر مقام عباس کے لیے امتحان کی منزل ہے عباس ہر منزل پر اپنا لہو پی کر  برداشت کر رہے ہیں۔ باپ کے بعد حسنین (ع) عباس کی پناگاہ ہیں۔ ان کے اشاروں پر عمل کر رہے ہیں اور ہر گز اپنے باپ کی وصیت جو ۲۱ رمضان کو عاشورا کے سلسلے میں کی کہ حسین کو اکیلا نہ چھوڑنا فراموش نہیں کر رہے ہیں۔ وہ جانتے تھے سخترین ایام درپیش ہیں کمر ہمت  کو مضبوطی سے باندھے رکھیں۔

وہ دس سال بھی سختیوں کے گزار دیے جب امام حسن علیہ السلام مقام امامت پر فائز تھے اور معاویہ کی طرف سے مسلسل فریب کاریاں امام کو اذیت کر رہی تھیں۔ بنی امیہ کا ظلم و ستم عروج پکڑ رہا تھا حجر بن عدی کو شہد کر دیا عمرو بن حمق خزاعی کو شہید کر دیا علویان کو قیدی بنایا جانے لگا۔ منبروں سے وعظ و نصیحت کے بدلے مولا علی(ع) کو سب وشتم کیا جانے لگا۔ عباس ان تمام واقعات کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اپنا خون پی پی  کرانہیں تحمل کر رہےتھے۔ آخر وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب امام حسن(ع) کو زہر دے دیا گیا اور ان کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر باہر آگیا۔ جنازے کو تیر لگ گئے عباس تلوار کو نیام سے نہ نکال سکے۔ 

جناب عباس کرتے بھی کیا جب بھی ہاتھ قبضہ شمشیر پر رکھا ہے امام حسین(ع) نے یہ کہہ کے روک دیا ہے کہ عباس ابھی جنگ کا وقت نہیں ہے۔ عباس صبر کرو۔ آخر کار جناب عباس ان تلخ ایام کو بھی امام حسین (ع) کی رہنمائی کے سائے میں گزار دیتے ہیں اور مسلسل تاریخ کے نشیب و فراز کا اپنی گہری نگاہوں سے مطالعہ کرتے ہیں۔ 

جناب عباس کی ازدواجی زندگی

جناب عباس نے اٹھاراں سال کی عمر میں امام حسن (ع) کی امامت کے ابتدائی دور میں عبداللہ بن عباس کی بیٹی لبابہ کے ساتھ شادی کی۔ عبد اللہ بن عباس راوی ا حادیث، مفسر قرآن اور امام علی (ع) کے بہترین شاگرد تھے۔ اس خاتون کی شخصیت بھی ایک علمی گھرانے میں پروان چڑھی تھی اور بہترین علم و ادب کے زیور سے آراستہ تھیں۔ جناب عباس کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے  عبید اللہ اور فضل جو بعد میں بزرگ علماء اور فضلاء میں سے شمار ہونے لگے۔ حضرت عباس (ع)کے پوتوں میں سے کچھ افراد راویان احادیث اور اپنے زمانے کے برجستہ علماء میں سے شمار ہوتے تھے۔ یہ نور علوی جو جناب عباس کی صلب میں تھا’’ نسلِِ بعد نسل‘‘ تجلی کرتا گیا۔ اور کبھی خاموش نہیں ہوا۔

آپ مدینہ میں  قبیلہ بنی ہاشم میں رہتے تھے۔ اور ہمیشہ امام حسین(ع) کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گذار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کی مرگ کے بعد یزید کی بیعت کے لیے امام کو دار الخلافہ  بلایا تیس جوان جناب عباس کی حکمرانی میں امام کےساتھ دار الخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق اس کے باہر امام کے حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں تا کہ اگر ضرورت پڑے تو فورا امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔ اور وہ لوگ جو مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا گئے وہ  بھی جناب عباس(ع) کی حکمرانی میں حرکت کر رہےتھے۔ 

یہ جناب عباس کی جوانی کے چند ایک گوشہ تھے جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ اس کے بعد واقعہ کربلا ہے کہ جہاں جناب  عباس پروانہ کی طرح امام حسین (ع) کے ارد گرد چکر کاٹ رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی میرے مولا کو گزند نہ پہنچا دے۔سلام ہو عباس کے کٹے ہوئے بازوں پر۔سلام ہو عباس کی جانثاری اور وفاداری پر۔

ایک دن امام سجاد (ع) کی نگاہ عبید اللہ بن عباس پر پڑتی ہے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اوراپنے  چچا عباس کو یاد کر کے فرماتے ہیں: 

رسول خدا(ص) کے لیے روز احد سے زیادہ سخت دن کوئی نہیں تھا۔ اس دن آپ  کےچچا حضرت حمزہ کو کہ جو آپ کے شیر دلاور تھے شہید کر دیا گیا۔ بابا حسین(ع) کے لیے بھی کربلا سے زیادہ سخت دن نہیں تھا اس لیے کہ اس دن عباس(ع) کو کہ جو حسین(ع)  کا شیر دلاور تھے شہید کر دیاگیا۔

اس کے بعد فرمایا: خدا رحمت کرے چچا عباس کو کہ جنہوں نے اپنے بھائی کی راہ میں ایثار اور فداکاری کی۔ اور اپنی جان کو بھی قربان کر دیا۔ اس طریقہ سے جانثاری کی کہ اپنے دونوں بازوں قلم کروا دیے۔ خدا وند عالم نے انہیں بھی جعفر بن ابی طالب کی طرح دو پر دئیے ہیں کہ جن کے ذریعے جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں عباس کا خدا وند عالم کے یہاں ایسا عظیم مقام ہے جس پر تمام شہید روز قیامت رشک کریں گے۔

اور امام صادق (ع) نے جناب عباس کے بارے میں فرمایا: «كان عمُّنا العبّاسُ نافذ البصيره صُلب الايمانِ، جاهد مع ابي عبدالله(ع) وابْلي’ بلاءاً حسناً ومضي شهيداً؛ہمار ےچچا عباس  بانفوذ  بصیرت اور مستحکم ایمان کے مالک تھے امام حسین کے ساتھ رہ کر راہ خدا میں جہاد کیا اور بہترین امتحان دیا اور مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔

منابع تحقيق:

1 . ارشاد، شيخ مفيد، كنگرهء هزارهء مفيد، قم، 1413 ق.

2 . اعيان الشيعه، سيد محسن الامين، دارالتعارف للمطبوعات، بيروت، 1404 ق.

3 . بحارالانوار، علامه محمد باقر مجلسي، مؤسسه الوفاء، بيروت، 1403 ق.

4 . تاريخ طبري، محمد بن جرير طبري، قاهره، 1358ق.

5 . ترجمهء نفس المهموم (محدث قمي)، شعراني، انتشارات علميه اسلاميه، تهران.

6 . تنقيح المقال، عبدالله مامقاني، مطبعه مرتضويّه، نجف، 1352ق.

7 . چهرهء درخشان قمر بني هاشم، علي رباني خلخالي، مكتبه الحسين، قم، 1375.

8 . حياه الامام الحسين بن علي، باقر شريف القرشي، دارالكتب العلميه، قم، 1397 ق.

9 . زندگاني قمر بني هاشم، عم اد زاده، انتش ارات خ رد، 1322 ش.

10 . سفينه البحار، شيخ عباس قمي، فراهاني، تهران.

11 . العباس، عبدالرزاق الموسوي المقرّم، منشورات الشريف الرّضي، 1360 ق.

12 . العباس بن علي، باقر شريف القرشي، دارالاضواء، بيروت، 1409 ق.

13 . قاموس الرّجال، محمد تقي شوشتري، مركز نشر كتاب، تهران.

14 . المحاسن والمساوي، ابراهيم بن محمد بيهقي، داربيروت للطباعه والنشر.

15 . معالي السبطين، محمد مهدي مازندراني حائري (چاپ سنگي)، مكتبه القرشي، تبريز.

16 . مفاتيح الجنان، شيخ عباس قمي، دفتر نشر فرهنگ اسلامي، تهران.

17 . مقاتل الطالبيين، ابوالفرج اصفهاني، دارالمعرفه، بيروت.

18 . مقتل الحسين، عبدالرزاق الموسوي المقرّم، مكتبه بصيرتي، قم، 1394 ق.

19 . منتهي الامال، شيخ عباس قمي، انتشارات هجرت.

20 . يادوارهء پنجمين مراسم شب شعر عاشورا (عباس، علمدار حسين)، ستاد شعر عاشورا، شيراز

 

 

تبصرے
Loading...