شیخ مفید کا سہوی فتوی اور عالم غیب سے عنایت خاص

ایک دیہاتی مرد شیخ مفید کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا: ایک حاملہ عورت کا انتقال ہوا ہے جبکہ اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہے؛ کیا ہم اس کا پیٹ چاک کرکے بچہ نکال لائیں یا اس کو بچے کے ساتھ ہی دفن کریں؟”۔ 

شیخ نے فرمایا: “مرحومہ کو حمل کے ہمراہ ہی دفنا دیں”۔

دیہاتی مرد مسئلہ سن کر واپس چلا گیا۔ بیچ راستے ایک سوار اس کے تعاقب میں آیا اور کہا: اے مرد! شیخ نے فرمایا ہے کہ اس عورت کا پیٹ چاک کریں اور بچہ نکال کر عورت کو دفن کریں۔

وہ مرد اپنے گاؤں پہنچا اور شیخ کا حکم لوگوں تک پہنچایا اور ماں کے پیٹ سے بچے کو نکال دیا گیا اور ماں کو دفن کیا گیا۔

کچھ عرص بعد بچے کا والد شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا شیخ آپ نے ہمارے بھیجے ہوئے آدمی کے پیچھے اپنا نمائندہ بھیج کر در حقیقت میرے بچے کو حتمی موت سے نجات دلائی اور میں اسی سلسلے میں آپ کا شکریہ ادا کرنے حاضر ہوا ہوں۔

شیخ نے فرمایا: میں نی کسی کو بھی اس مرد کی پیچھے نہیں بھیجا اور یقیناً وہ سوار امام زمانہ (عج) تھے۔

شیخ نے اس کے بعد عہد کیا کہ فتوی نہیں دیں گے اور مسلمانوں کے امور میں مداخلت نہیں کریں گے؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا فتوی کسی مسلمان کی موت کے اسباب فراہم کرے۔ (1)

مگر امام زمانہ (عج) جنہوں نے شیخ کے فتوے کی اصلاح کے لئے خود ہی اقدام کیا تھا اور شیخ کی جانب سے صحیح شرعی حکم کا ابلاغ فرمایا تھا؛ شیخ کی طرف سے فتوی  نہ دینی کے عہد پر شیخ کے نام خط میں لکھتے ہیں: “یا شیخ! مِنْکَ الْخَطاء وَ مِنّا التَّسْدید” اے شیخ! [فتوی دیا کریں اور اگر] آپ سے غلطی ہوجائے تو ہم اس کی تصحیح کریں گے۔ 

چنانچہ امام معصوم علیہ السلام کا حکم پا کر شیخ مسند افتاء پر دوبارہ رونق افروز ہوئے۔ 

نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید رحمةاللہ علیہ تیس سال تک شیعیان عصر کے مرجع تقلید تھے اور ان تیس برسوں میں ان کے لئے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فَرَجَہ الشریف کی جانب سے 30 خطوط جاری ہوئے جن میں شیخ کو یوں مورد خطاب قرار دیا جاتا رہا:

“للاخ الاعز السدید الشیخ المفید”

یعنی میرے عزیزترین اور استوار ترین بھائی “شیخ مفید” کے نام

مأخذ:

(داستان هایی از زندگی علماء، ـ محمدتقی صرفی ـ دفتر نشر برگزیدہ قم و دیگر مآخذ)

تبصرے
Loading...