شیخ صدوق كی ولادت

جس چیز نے آپ كے والد كو سالھا سال محزون ركھا وہ ایك فرزند كا نہ ھونا تھا، اگرچہ وہ عمر كے پچاس سال گزار چكے تھے اور ضعیفی كی طرف بڑھ رھے تھے مگر رحمت الھی سے مایوس نھیں تھے، انھوں نے بارھا خدا سے دعا كی تھی كہ خدا انھیں فرزند عطا كرے لیكن وہ اصل مشكل سے بےخبر تھے یھاں تك كہ انھوں نے ایك دن اپنے ھادی اور امام حضرت حجت (عج) كو نامہ لكھنے كا ارادہ كر لیا وہ ایك اچھے موقع اور قابل اطمینان شخص كی تلاش میں تھے تا كہ اس كے ذریعہ نامہ ارسال كر سكیں، یھاں تك كہ ایك دن قم سے ایك قافلہ عراق كی طرف عازم سفر ھوا، اس قافلہ میں ایك ابو جعفر نامی دوست كو پایا جو خط كو اس كے مقصد تك پھونچا سكتے تھے ۔

آپ نے نامہ تحریر كر كے ان كے حوالے كر دیا تاكہ وہ عراق میں حسین بن روح  كو دے سكیں اور ان كو حضرت تك پھونچانے كے لئے كھہ دیں ۔ ابو جعفر كھتے ھیں كہ میں نے آپ كے خط كو نائب امام آخر الزمان (عج) كی خدمت میں پھونچا دیا انھوں نے تین دن كے بعد خبر دی كہ حضرت نے ابن بابویہ كے لئے دعا كردی ھے اور جلد ھی خداوند انھیں ایك ایسا فرزند دے گا جو بھت سی بركات كا سبب ھوگا ۔

شیخ طوسی اپنی كتاب ” غیبت ” میں آپ كی ولادت كے بارے میں اس طرح رقم طراز ھیں : قم كے بھت سے معزّزین نے نقل كیا ھے كہ علی بن حسین بن بابویہ نے اپنی چچا زاد بھن سے شادی كی لیكن صاحب اولاد نہ ھوئے، ابو القاسم حسین بن روح كو خط لكھا كہ حضرت امام عج سے دعا كرنے كو كھیں تاكہ خدا انھیں فرزند عنایت فرمائے ۔ حضرت كی طرف سے جواب آیا كہ اس ھمسر سے صاحب اولاد نھیں ھونگے لیكن جلد ھی ایك دیلمی كنیز سے شادی كرو گے اور خداوند اس كے ذریعہ تمھیں دو فقیہ فرزند سے نوازے گا ۔  شیخ صدوق نے بھی حضرت ولی عصر عج كی دعا اور اپنی ولادت كا ماجرا كتاب كمال الدین میں ذكر كرتے ھوئے لكھا ھے كہ جب بھی ابو جعفر محمد بن علی اسود مجھے دیكھتے تھے كہ حدیث و علوم اھل بیت علیھم السلام كے حصول میں بھت ھی اشتیاق و رغبت كے ساتھ اساتید كی مجلسوں میں جاتا ھوں تو فرماتے تھے :

تمھارے اس تعلیم كے شوق اور رغبت میں كوئی تعجب نھیں ھے اس لئے كہ تم امام زمانہ (عج) كی دعا سے متولد ھوئے ھو ۔

بھرحال ابن بابویہ تك یہ بشارت پھونچی اور كچھ ھی زمانے میں خدا نے انھیں ایك دیلمی كنیز كے ذریعہ ” محمد ” سے نوازا كہ اس وقت باپ كے لئے نور چشم اور امید كا باعث قرار پائے، اس كے بعد خدا نے انھیں ایك اور فرزند عطا كیا جس كا نام ” حسین ” ركھا ۔ حسین بن علی بن بابویہ كا شمار بھی بزرگ علماء میں ھوتا تھا اور وہ اپنے والد بزرگوار اور اپنے بھائی محمد كے بعد بابویہ خاندان كی سب سے عظیم اور مشھور شخصیت كے حامل تھے ۔

تبصرے
Loading...