شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

حضرت معصومہ (س)کے مختصر حالات

تاريخ ولادت

حضرت معصومہ (س) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ ميں کئی اقوال ہيں بعض نے لکهاہے کہ حضرت فاطمہ بنت امام موسیٰ ابن جعفر (س) ابتدائے ذیقعدہ الحرام ١٨٣ هء ميں مدینہ منورہ ميں ولادت پائی۔

صاحب مستدرک سفينہ لکهتے ہيں کہ حضرت فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر (س)نے یکم ذیقعدہ الحرام کو ولادت پائی # ١ ۔ ولادت کے سلسلہ ميں تو بعض صاحبان قلم نے قطعی طور پر لکها ہے کہ یکم ذیقعدہ کو ولادت پائی ،ليکن ولادت کے سال ميں علماء تاریخ متردد ہيں ۔ بعض نے ١٧٣ هء اور بعض نے ١٨٣ هء کو سنہٴ ولادت تحریر کيا ہے ليکن آخری قول کا بطلان بدیہی ہے کيوں کہ اس سال حضرت موسیٰ بن جعفر (س) نے شہادت پائی اور شہادت سے قبل آپ نے چار سال قيد خانہ ميں گزارے ۔ # ٢ اس کی تصریح موجود ہے کہ آپ کو ١٧٩ ئه ميں گرفتار کيا گيا ہے ۔ # ٣

دوسرے یہ بهی مسلم ہے کہ حضرت موسیٰ بن جعفر (س) کی چار بيڻياں تهيں اور سب کے نام فاطمہ سے مرکب تهے چنانچہ بعض مورخين نے تحریر کيا ہے کہ: ١۔ فاطمہ کبریٰ ،ملقب بہ معصومہ قم ۔ قم ميں مدفون ہيں۔

————–

١۔مستدرک سفينہ منقول از کریمہ اہل بيت

٢۔ اصول کافی / ١ص/ ٣١٢

٣۔ اصول کافی / ١ص/ ٣٩٧

٢۔ فاطمہ صغریٰ ،ملقب بہ بی بی ہيبت ۔ روس ميں آذربائيجان کے شہر باکو ميں مدفون ہيں۔

٣۔ فاطمہ وسطیٰ ، ملقب بہ ستی فاطمہ ۔ اصفہان ميں مدفون ہيں۔ # ١ ۴۔ فاطمہ اخریٰ ، معروف بہ خواہر امام (س) ۔ایران کے شہر رشت ميں مدفون ہيں ۔ اس لحاظ سے معصومہ ٴقم (س) اپنی چار بہنوں ميں سب سے بڑی ہيں چنانچہ یقينا آپ (س) نے ١٧٩ هء سے چند سال قبل ولادت پائی ہوگی لہٰذا ١٨٣ هء آپ کا سنہء ولادت نہيں ہو سکتا۔ 

اسماء و القاب

شریعت اسلاميہ ميں نام گزاری کو بہت اہميت دی گئی ہے ۔بہت سی روایت ميں وارد ہوا ہے کہ والدین پر اولاد کا ایک حق یہ بهی ہے کہ وہ ان کےلئے نام کا انتخاب کریں۔ # ٢

نيک نام کے انتخاب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اسلام صلى الله عليه وسلم نے ان لوگوں کو نام تبدیل کرنے کی تاکيد کی تهی جن کانام شائستہ نہيں تها ۔ # ٣ اسی طرح یعقوب سراج سے امام حضرت موسیٰ بن جعفر (س) نے فرمایا تها کہ جاؤ اپنی لڑکی کے اس نام کو بدل دو جو تم نے کل رکها تها کيوں کہ اس نام کو خدا پسند نہيں کرتا ہے ۔ # ۴

یعقوب سراج کہتے ہيں کہ ميں نے اپنی نوزاد لڑکی کا نام “ حميراء” رکها تها لہٰذا اپنے مولا کے حکم سے اپنی بيڻی کا نام بدل دیا ۔ # ۵

اس بات کی بهی تاکيد کی گئی ہے کہ اپنے بيڻوں کے لئے انبياء و ائمہ کا نام انتخاب کرو خصوصا محمد وعلی نام رکهو اور بيڻيوں کے لئے بہترین نام فاطمہ ہے ۔ # ۶ اور چوں کہ ائمہ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام الله عليہا کی عظمت و منزلت کو جانتے اور سمجهتے تهے لہٰذا نام فاطمہ (س) کا بے حد احترام کرتے تهے ۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (س) کو جب یہ خبر ملی کہ آپ کے صحابی “ سکونی” نے اپنی بيڻی کا نام فاطمہ رکها ہے ،تو فرمایا: آہ آہ اس کے بعد فرمایا: تم نے اپنی بيڻی کا فاطمہ نام رکها ہے لہٰذا اسے گالی نہ دینا ،اس کو طمانچہ نہ مارنا اور برا بهلا نہ کہنا ۔ # ٧ چنانچہ ائمہ معصومين (س) نے اپنی ایک یا سب بيڻيوں کا نام فاطمہ ضرور رکها ہے ۔ حضرت علی (س) نے جن کی ماں اور زوجہ کا نام فاطمہ تها ،اپنی ایک بيڻی کا نام فاطمہ رکها تها۔# ٨

————–

١۔ بحار الانوار ج/ ۴٨ ص/ ٢٨۶

٢۔فروع کافی ،ج ۶ ص/ ١٨

٣۔ناسخ التواریخ ،ج/ ٢ص/ ۶٨

۴۔ ٢۔فروع کافی ،ج ۶ ص/ ١٨ ۔تہذیب ،ج/ ٧ص/ ۴٣٧

۵۔ وسائل الشيعہ ،ج/ ٢١ ص/ ٣٩٠

۶۔فروع کافی ،ج ۶ ص/ ١٩

٧۔ فروع کافی ،ص/ ۴٣٨

٨۔ارشاد مفيد ،ج/ ١ص/ ٣۵۵

اہل سنت کے مشہور عالم سبط بن جوزی نے اپنی کتاب تذکرة الخواص ميں امام موسیٰ بن جعفر (س) کی اولاد کے نام تحریر کئے ہيں اور آپ کی چار بيڻيوں کے نام اس طرح تحریر کئے ہيں۔

١ (فاطمہ کبریٰ ٢ (فاطمہ صغریٰ ٣ (فاطمہ وسطیٰ ۴ (فاطمہ اخریٰ # ١ 

لقب معصومہ

صاحب ناسخ التواریخ تحریرفرماتے ہيں کہ معصومہ کا لقب آپ کو حضرت امام رضا عليہ السلام نے دیا تها۔ اس سلسلہ ميں آپ کا ارشاد ہے:

”من زار المعصومة بقم کمن زارنی”# ٢

جس نے قم ميں معصومہ کی زیارت کی گویا اس نے ميری زیارت کی۔ ميرزا نوری نے اپنی کتاب “ دارالسلام ” ميں رویائے صادقہ نقل کيا ہے کہ جس کو صحيح تسليم کيا ہے جس کو ہم آئندہ بيان کریں گے۔

————–

١۔ تذکرة الخواص ،ص/ ٣١۵

٢۔ناسخ التواریخ ،ص/ ۶٨

کيا لقب معصومہ آپ کی عصمت پر دلالت کرتا ہے ؟ اس سوال کا جواب لکهنے سے قبل مقدمہ کے طور پر ہم چند چيزیں سپر د قلم کرتے ہيں ۔

١۔ اس بات پر شيعوں کا اجماع ہے کہ انبياء وملائکہ سب معصوم ہيں ۔ ان سے ہرگز کوئی گناہ کبيرہ و صغيرہ سرزد نہيں ہوتا ہے ۔ نہ قبل از بعثت نہ بعد از بعثت نہ امامت سے پہلے نہ امامت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد نہ عمدا نہ سہواً # ١

٢۔ حضرت رسول خدا صلى الله عليه وسلم ،حضرت فاطمہ زہرا (س) اور ائمہ عليہم السلام عصمت کے آخری و اعلیٰ درجہ پر فائز ہيں ۔ مذکورہ حضرات سے نہ صرف پوری زندگی ميں کوئی گناہ کبيرہ و صغيرہ سرزد نہيں ہوا بلکہ ترک اولیٰ بهی نہيں ہوا ہے جب کہ ترک اولیٰ عصمت کے منافی نہيں ہے ۔ اسی لئے انهيں چودہ معصوم کے نام سے یاد کيا جاتا ہے ۔

بنا بر ایں عصمت ان ہی چودہ اشخاص ميں منحصر نہيں ہے بلکہ ان کے علاوہ بهی معصوم ہيں ، جيسا کہ ہم نے مقدمہ کی پہلی شق ميں بيان کيا ہے کہ انبياء ، ائمہ اور تمام فرشتوں کی عصمت پر علماء اماميہ کا اجماع ہے ۔

٣۔ اسی لحاظ سے عصمت کے مدارج و مراتب اور اس کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر چودہ معصوم فائز ہيں اور اس کے بعد والے درجہ پر انبياء و فرشتے فائز ہيں۔ ۴۔ علماء اسلام ميں سے کسی نے اس بات کا دعویٰ نہيں کيا ہے کہ معصوم صرف چودہ اشخاص ہی ہيں ۔

۵۔ اور کسی دانشور نے حضرت ابوالفضل العباس (س)و حضرت علی (س)اکبر ،حضرت زینب (س) اورحضرت معصومہ کے بارے ميں یہ دعویٰ نہيں کيا ہے کہ وہ معصوم نہيں تهے بلکہ بعض نمایاں شخصيتوں نے ان کی عصمت کو ثابت کيا ہے ۔ # ٢

————–

١۔ اعتقادات ،شيخ صدوق ،ص/ ١٠۵ ،نہج الحق ، علامہ حلی ،ص/ ١۴٢ و ١۶۴

٢۔ اتقان المقال،/ ٧۵

۶۔ عبد الرزاق مرحوم نے اپنی کتاب “ العباس” ميں حضرت ابو الفضل العباس عليہ السلا کی عصمت کی دليليں اور “ علی الاکبر ” ميں حضرت علی اکبر عليہ السلام کی عصمت کے دلائل پيش کئے ہيں # ٢ اور اس سلسلہ ميںایت الله شيخ محمد حسين اصفحانی اورعلامہ ميرزا محمد علی اردو بادی کے نظریات سے استفادہ کيا ہے ۔# ٣

٧۔ نقدی مرحوم نے اپنی کتاب “زینب الکبریٰ ” ميں اسی موضوع کو ثابت کيا اگرچہ حضرت زینب(س) کی عصمت کا دعوی نہيں کيا ہے ۔ # ۴

٨۔ اس بناپر اگر کوئی معصومہ کی عصمت کا دعوی کر تاہے تو وہ کو ئی بے جابات نہيں کہتاہے ۔ واضح ہے کہ حضرت معصومہ کا نام فاطمہ ہے ،اوردوران حيات آپ کو معصومہ کا لقب نہيں ملا تها ، بلکہ معصومہ آپ کے اوصاف کے لحاظ سے کہا گيا ہے بنا براین حدیث کے یہ معنی ہوں گے :

جوشخص بهی قم ميں معصومہ کی زیارت کرے گویا اس نے ميری زیارت کی کيونکہ وہ معصومہ ہيں ۔ا س حدیث کی بنا پر معصومہ کی عصمت ميں کوئی شک باقی نہيں رہتاہے ۔ آپ کی عصمت پر ایک دليل یہ بهی ہے ک آپ کی تجہيز وتشييع ميںامام رضا وامام جواد عليہما السلام شریک تهے ۔اور شيعہ اعتقاد کی روسے معصوم کو معصوم ہی غسل وکفن دے سکتاہے اور دفن کرسکتا ہے ۔ # ۵

————–

٢۔ العباس / ١٢٩ و ١٣٣ ۔ علی الاکبر / ۴٣

٣۔ سردار کربلا / ٢۴٨ و ٢۵٣

۴۔ زینب کبریٰ / ٣٣ و ٣۶

بحار الانوار ،ج/ ۴٨ ص/ ٢٩٠ وج/ ۶٠ ص/ ٢١٩ 

 

کریمہ ٴ اہل بيت (س)

حضرت معصومہ (س) کے عقيدت مند شيعہ عہد قدیم سے آج تک نظم و نثر ميں کریمہ اہل بيت (س) کہتے چلے آرہے ہيں ،ليکن ایک بزرگ کے رویائے صادقہ کی رو سے یہ لقب معصومين عليہم السلام سے آپ کو ملا ہے۔

نساب عالی قدر آیت الله سيد محمود مرعشی نجفی متوفی ١٢٢٨ هء حضرت صدیقہ طاہرہ کی قبر کا سراغ لگانے کے سلسلہ ميں بہت ہی کوشاںتهے ،اس مقصد ميں کاميابی کے لئے انهوں نے چاليس شبوں کا ایک چلہ کيا ۔ چاليس شب ميں وظيفہ ختم کرنے اور بے پناہ دعا مانگنے کے بعد جب سو گئے تو امام محمد باقر عليہ السلام و امام جعفر صادق عليہ السلام کو خواب ميں دیکها امام (س) نے فرمایا: “ عليک بکریمہٴ اهل بيت ” تم کریمہ اہلبيت (س) سے توسل کرو،انهوں نے یہ سوچ کر کہ کریمہٴ اہل بيت سے حضرت زہرا سلام الله عليہا مرادہيں عرض کی : یہ چلہ ميں نے ان ہی کی قبر مبارک معلوم کرنے کے لئے کيا ہے تاکہ قبر کا صحيح نشان معلوم ہو جائے ،جس سے ميں زیارت قبر سے مشرف ہو سکوں ۔امام (س) نے فرمایا: ميری مراد قم ميں حضرت معصومہ کی قبر ہے ۔ اس کے بعداضافہ فرمایا: کہ خدا وند عالم نے مصلحت کی بنا پر حضرت زہرا (س) کی قبر کو مخفی رکها ہے اور اس کی جلوہ گاہ حضرت معصومہ (س) کی قبر کو قرار دیا ہے ۔

مرعشی مرحوم بيدار ہوئے تو وہ حضرت معصومہ کی زیارت کے لئے ایران کی طرف روانہ ہو گئے ۔ 

عالمہٴ آل عبائ

نجف اشرف ميں شوشتریوں کے کتب خانہ ميں ایک قلمی نسخہ ميں یہ حدیث دیکهی گئی تهی کہ ایک مرتبہ کچه شيعيان امير المومنين حضرت امام موسیٰ کاظم عليہ السلام کے زمانہ ميں مدینہ آئے اور اپنے شرعی مسائل دریافت کرنے کے سلسلہ ميں امام کے در دولت پر پہنچے ۔ جب انهيں یہ معلوم ہو ا کہ امام موسیٰ کاظم عليہ السلام مدینہ ميں تشریف فرما نہيں ہيں تو انهوں نے چند روز اور مدینہ ميں قيام کرنے کا ارادہ کر ليا ،ليکن امام اس مدت ميں تشریف نہيں لائے ۔ جب وہ رخصت کے لئے امام کے در دولت پر گئے تو حضرت معصومہ نے فرمایا: اگر کوئی شرعی مسئلہ دریافت کرنا چاہتے ہو تو پوچه سکتے ہو ۔ انهوں نے مسائل لکه کر پيش کئے تهوڑی دیر بعد معصومہ نے اس کے مسائل کا جواب بهيج دیا۔ قافلہ والے شکریہ ادا کرکے چلے گئے مدینہ سے نکلتے وقت امام موسیٰ کاظم عليہ السلام سے ان کی ملاقات ہوئی ۔ مدینہ آنے کی وجہ بيان کی جب امام نے مسائل کا جواب دیکها تو تائيد فرمائی اور فرمایا:“ فداها ابوها فداها ابوها” # ١ 

محدثہ آل محمد

طبقات رواة ميں بہت سی عورتيں بهی شامل ہيں جن ميں سر فہرست حضرت فاطمہ زہرا(س) اور ازواج نبی ہيں ۔ چنانچہ صاحب اسنی المطالب نے مناقب علی بن ابی طالب (س) کے سلسلے ميں ایک حدیث نقل کی ہے کہ جس کے سلسلہ سند ميں حضرت معصومہ قم ہيں سلسلہ یہ ہے ۔

ابو بکر بن عبدالله بن محب مقدسی نے ام محمد ،زینب دختر احمد بن عبد الرحيم مقدسی سے انهوں نے ابو مظفر محمد بن فتيان بن مسينی سے انهوں نے ابو موسیٰ بن ابی بکر حافظ سے انهوں نے قاضی ابو القاسم عبد الواحد بن محمد بن عبد الواحد مدینی سے انهوں نے ظفر بن داعی علوی سے انهوں نے اپنے والد داعی بن مہدی اور ابو احمد بن مطرف مطرفی سے اور ان دونوں نے ابو سعيد ادریسی سے انهوں نے ابو العباس محمد بن محمد بن حسن رشيدی سے انهوں نے ابو الحسن محمد بن جعفر حلوانی سے انهوں نے علی بن محمد بن جعفر اہوازی سے انهوں نے بکر بن احمد قصری سے انهوں نے دختر علی بن موسیٰ الرضا فاطمہ سے انهوں نے فاطمہ زینب و ام کلثوم بنت موسیٰ بن جعفر سے ۔ انهوں نے فاطمہ بنت جعفر صادق سے انهوں نے فاطمہ زینب و ام کلثوم بنت موسیٰ بن جعفر سے ۔ انهوں نے فاطمہ بنت جعفر صادق سے انهوں نے فاطمہ بنت محمد باقر سے انهوں نے فاطمہ بنت علی بن الحسين بن ابی طالب سے انهوں نے فاطمہ بنت الحسين بن علی ابن ابی طالب سے انهوں نے ام کلثوم بنت فاطمہ بنت رسول اکرم صلى الله عليه وسلم سے انهوں نے فاطمہ بنت رسول سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

”اٴ نسيتم قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ عليہ و آلہ و سلم یوم غدیر خم ، من کنت مولاہ فعلی مولاہ وقولہ انت منی منزلة هارون من موسیٰ“

کيا تم لوگ رسول کی اس قول کو بهول گئے جو غدیر خم کے روز فرمایا تها کہ : جس کا ميں مولاہوں اس کے علی (س) مولا ہيں اور آپ کی حدیث اے علی (س) تم ميرے لئے ایسے ہی ہو جيسے موسیٰ کے لئے ہارون تهے ۔

————–

١۔ یہ واقعہ انصاری قمی نے بيان کيا ہے ۔ صاحب کریمہ اہل بيت نے بهی ص/ ۶٢ پر نقل کيا ہے۔

آپ کے دیگر القاب

١ (طاہرہ 

٢ (حميدہ 

٣(رشيدہ 

۴ (تقييہ

۵ (رضيہ

۶ (نقية

٧ (مرضيہ

٨ (سيدہ 

٩(اخت الرضا(س)

یہ القاب اس زیارت نامہ ميں مندرج ہيں جس کو شيخ محمد علی نے انوار المشعشعيں ميں نقل کيا ہے ۔ یہ کتاب ١٣٢٧ هء ميں طبع ہو چکی ہے حيدر خوانساری نے اپنی کتاب زبدة التصانيف ميں ایک اور زیارت نامہ نقل کيا ہے اور اس ميں آپ کے دیگر لقب صدیقہ اور سيدة نساء العالمين بهی تحریر کئے ہيں۔ 

 

تبصرے
Loading...