شہادت قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس

لکھنے والے: آیت اللہ انصاریان

کتاب کا نام : مقتل سید الشہداء

حضرت ابوالفضل العباس شہادت تاریخ کربلامیں ہونے والی مصیبتوں میں سے نہایت ہی عظیم اور سنگین مصیبت شمار ہوتی ہے

حضرت ابوالفضل العباس کی شخصیت  اور شہادت کے متعلق شیخ صدوق[1]،شیخ مفید[2] ،ابوالفرج اصفہانی[3] طبرسی[4] سیّد ابن طاووس[5]، علامہ مجلسی[6]، اور شیخ عباس قمی [7] ، جیسے علمآء نےاس طرح  بیان کیا ہے  کہ:ایک روز امیرالمؤمنین علی نے اپنے بھائی عقیل  بن ابی طالب سے ( جو انساب عرب سے خوب واقف تھے ) فرمایا: “ارید منک ان تخطب لی امراءۃ من ذوی البیوت و الحسب و النسب و الشجاعۃ ” میں چاہتا ہوں کہ تم میری شادی ایسی عورت سے کراؤ کہ جو خاندان ، حسب،نسب ، اور شجاعت میں پورے عرب کی مایہ ناز ہو۔”لکی اصیب منھا ولداً” تاکہ اس سے ایک ایسا بچہ عالم وجود میں آئے “یکون شجاعاً عضداً “جو شجاع اور بہادر ہو “ینصر ولدی الحسین لیواسیہ لنفسہ فی طفّ کربلا “، تاکہ جب میرا لال حسین سر زمین کربلاپر نرغہ اعداء میں گھراہو وہ اپنی جان نچھاور کر کے اسکی مدد کرے  ، حضرت عقیل (ع) نے فاطمہ کلابیہ سے  جنکا لقب امّ البنین تھا امیر المؤمنین (ع)کی شادی کرائی ان سے آپ کے چار بیٹے  قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس(ع)،عبداللہ ، جعفر، عثمان متولد ہوئے[8] جب حضرت ابوالفضل العباس نے ملاحظہ فرمایاکہ سرکار امام عالی مقام کے اکثر باوفا اصحاب شہید ہو گئے ہیں آپ نے اپنے بھائیوں سے فرمایا ،”یا بنی امّی  تقدموا ” اے میرے بھائیوں ! آگے بڑھو!چونکہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ خدا، رسول (ص)، کے لئے یہاں آئے ہو تمہارے تو کوئی  اولاد بھی نہیں ہے  تم لوگ تو ابھی جوان ہو “تقدّموا بنفسی انتم “میری جان تم پر قربان جائے اٹھو! ”  فحامواعن سیّدکم حتّیٰ تموتو دونہ “آگے بڑھو! اور اپنے سیّد و سردار کا دفاع کرو ،اور ان کے سامنے اپنی جانیں قربان کر دو یہ سن کروہ سب باکمال شوق میدان میں گئے اور راہ حسین میں شہید ہوگئے [9]

علماء نے مقام عظمت حضرت ابوالفضل العباس کے بارے میں لکھا ہے ،”کان فاضلاً ،عالماً ،عابداً،زاھداً، فقیھاًٍٍ تقیّاًًٍ ” آپ بافضیلت صاحب علم وزاہد،عابد ، اور فقیّہ اور بہت زیادہ خوف پروردگار رکھنے والے تھے [10]

آپ کے القاب میں سے سب سے مشہور لقب قمر بنی ہاشم ہے اس کے بارے میں علمآء کابیان ہے کہ چونکہ آپ کے پر نور اور معنوی چہرہمبارک نے آسمان ہدایت کے تین آفتابوں امام علی،امام حسن ،اور امام حسین سے کسب ضیاء کی تھی اس لئے آپ  کو قمر بنی ہاشم کہتے ہیں 

اس کے علاوہ آپ کے القاب میں سے باب الحوائج بھی ایک لقب ہے چونکہ جو شخص بھی  کسی مشکل میں  گرفتار ہو اور وہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کے توسل سے دعا کرے اس کی تمام مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں    ان کے علاوہ شہید،عبد الصالح ،سقّا ،المستجار،قاعد الجیش ،الحامی ،المصفّیٰ ،ضیغم  بھی آپ ہی کے القاب ہیں [11] 

شیخ صدوق اپنی کتاب الخصال میں امام زین العابدین  کایہ قول نقل کرتے ہیں : “رحم اللہ عمّی العباس فلقد  آثر و ابلیٰ و فدیٰ اخاہ بنفسہ “خدا میرےچچا عباس پر اپنی رحمت نازل  کرے  انہوں نے راہ خدامیں اپنی جان کو نثار کیا اور ایک عظیم جنگ کا مظاہرہ کرکے اپنے بھائی پر فداہوگئے “حتّیٰ قطعت یداہ “یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں اللہ کی راہ میں کٹ گئے “فابدلہ اللہ عزّوجل بھما جناحین “اللہ نے انہیں ہاتھوں کے بدلے دو پر عطاکئے ہیں “یطیر بھما مع الملائکۃ فی الجنۃ ” جن سے وہ اللہ کے مقرب فرشتوں  کے ہمراہ جنت میں پرواز کرتے  ہیں

اس کے بعد حضرت فرماتے ہیں:”انّ  للعباس عند اللہ  تبارک و تعالی منزلۃ  یغبطہ بھا جمیع الشھداء یوم القیامۃ “حضرت عباس کا اللہ کے نزدیک اتنا بلند مقام ہے کہ روز قیامت جس پر تمام شہداء رشک کریں گے[12]

صادق آل محمّد ارشاد فرماتے ہیں :”کان عمّنا العباس نافذ البصیرۃ ،صلب الایمان ،جاھد مع اخیہ الحسین و ابلی بلاء حسناً و مضی شھیداً،”ہمارے چچا عباس بڑے صاحب بصیرت اور مضبوط و مستحکم ایمان والے تھے ،اپنے بھائی کے ہمراہ جہاد کیا اور دشمنوں کے ساتھ عظیم الشان جنگ کی اور اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے [13]

ان تمام فضائل و مناقب کے پیش نظر شیخ مفید فرماتے ہیں : جب عمر سعد نے نویں محرم کی شام کو عام حملہ کا حکم دیاامام حسین قریب خیمہ زانو پر سر رکھے  محو خواب تھے حضرت زینب کبریٰ نے فریاد بلند کی اور بھائی کے قریب گئیں اور عرض کی:میرے ماں جائے ! دشمنوں کی آوازیں نہیں سن رہے ہو ایسا لگتا ہے جیسے حملے کی غرض سے  ہماری طرف آرہے ہوں

سرکار سید الشہداء نے سر کو زانو سے بلند کیااور فرمایا:میری بہن ! میں نے ابھی ابھی نانا رسول اللہ کو خواب میں  دیکھا ہے ،وہ مجھ سے فرما رہے تھے کہ میرے لال حسین تم بہت جلدی ہمارے پاس آنے والے ہو حضرت زینب نے اپنا سر پیٹ لیا اور رونے لگیں امام عالی مقام نے فرمایا:میری بہن !خاموش ہو جاؤ  اور گریہ نہ کرو !

قمر بنی ہاشم نے فرمایا آقا !دشمن کالشکر ہماری سمت بڑھ رہا ہے حضرت  اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمایا: “عباس بنفسی انت یااخی “میرے بھائی عباس میں تم پر قربان جاؤں تم ان کے پاس جاؤ اگر ہو سکے تو ان کو روک دو کیونکہ ہم لوگ آج  کی رات اپنے رب کی عبادت کرنا چاہتے ہیں ” لعلنا نصلی لربنا اللیلۃ و ندعوہ و نستغفرہ “آج تمام رات ہم نماز ،عبادت اور استغفار میں بسر  کرناچاہتے ہیں “فھو یعلم انّی  قد احب الصلاۃ لہ “میرا خداخوب جانتا  ہے میں خود اس کی ذات کے لئے نماز کا عاشق ہوں  [14]

سرکاسیّد الشہداء امام حسین کے اس فرمان “بنفسی انت “کہ میری جان تمہارے  اوپر قربان جائے ،سے مقام عظمت حضرت ابو الفضل العباس کو کسی حد تک سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے

حضرت  عباس  کے مامو نے  جو ابن زیاد کے حاشیہ نشینوں میں سے تھااس خیال کے ساتھ کہ اپنے بھانجوں کی کوئی خدمت کر سکے اس سے ان کے لئے امان نامہ لکھوا  کر قاصد کے ذریعے کربلابھیجا حضرت ابوالفض العباس نے قاصد سے فرمایا جااور اسے ہمارا یہ پیغام دے دے کہ ہمارے لئے اللہ کی امان کافی ہے ہمیں تجھ جیسے شخص کی امان کی ضرورت نہیں ہے   جب روز عاشور شمر ابن ذی الجوشن نے خیام امام  حسین  کے قریب آکر حضرت عباس اور ان کے بھائیوں کو آواز دی اور ہم کلام ہونا چاہا حضرت عباس اور ان کے بھائیوں نے کوئی جواب نہیں دیا امام حسین  نےفرمایا: جان برادر عباس یہ مانا شمر ایک فاسق انسان ہے لیکن اس کی بات کا کوئی  جواب تو دو !لہذا فرمان امام سن کر خیمہ سے باہر آئےاور فرمایا :شمر تو ہم سے کیا چاہتاہے ؟اس نے جواب دیا عباس تم اور تمہارے بھائی ابن زیاد کی امان میں ہیں  اور لشکر میں سے کسی کو تم سے کوئی سروکار نہیں ہے یہ سن کر آپ نے اور آپ کے بھائیوں نے جواب دیا:خداوند عالم تجھ پر اور تیری امان پر لعنت کرے !تو ہمارے لئے تو امان کا نامہ  لایا ہے جبکہ فرزند رسول کو کوئی امان دینے کے لئے تیار نہیں ہے [15]

بحار الانوار اور دوسری کتابوں میں جن کاہم نے حوالہ دیاہے بیان ہوا ہے کہ جب حضرت ابو الفضل العباس نے امام عالی مقام کی غربت اورتنہائی کو دیکھا تو آپ سے رہا نہ گیاخدمت امام میں آئے اور عرض کی:”یا اخی ھل من رخصۃ “اے میرےبھائی کیامجھے میدان میں جانےکی اجازت مل سکتی ہے ؟”فبکی الحسین بکاءً شدیداً “امام (ع)بھائی سے جانے کا نام سن کر زار قطار رونے لگے “ثمّ قال یااخی انت  صاحب لوائی “پھر اس کے  بعد فرمایا  اے عباس میں تمہیں کیسے اجازت دوں تم تو میرے لشکر کے علمبردار ہو    “و اذا مضیت تفرق عسکری “اگر تم چلے گئے تو میرے لشکر کاشیرازہ بکھر جائے گاپھر اس کے بعد فرمایا  عباس”فاطلب لھؤلاء الاطفال قلیلاً من الماء “اگر ہو سکے تو ان پیاسے بچّوں کے لئے پانی کاکوئی انتظام کردو! اس کے بعد قمر بنی ہاشم خیموں سے چلے اور لشکر شام کے سامنے پہونچے آپ نے لشکر کو وعظ و نصیحت کی  اور لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا لیکن سیاہ دلوں کے اوپر کوئی اثر نہ ہوا “فرجع الی اخیہ “اس کے بعد آپ امام حسین(ع) کے پاس واپس آئے “فسمع الاطفال ینادون العطش  ،العطش “آپ نے بچوں  کی العطش اعطش کی آوازیں سنی مرکب پرسوار ہوئے ہاتھ میں نیزہ سنبھالا ،مشک کو کاندھے پر لٹکایا  اور لشکر دشمن پر ایک زور دار حملہ کیا اور اسّی یزیدیوں کو  واصل جہنم  کیا ،اور اپنے آپ کو فرات تک پہونچایا آپ نے اس مقام پر  بڑی جانفشانی اور جواں مردی کامظاہرہ کیا”فلما اراد ان یشرب غرفۃ من الماء” اور جیسے ہی پینےکے لئے چلو میں پانی اٹھایا “ذکر عطش الحسین و اھل بیتہ “امام حسین اور ان کے اہل بیت کی پیاس یاد آگئی  “و قال واللہ لااشربہ ” اور کہا خداکی قسم میں ہر گز اب یہ پانی نہیں پی سکتا  “واخی الحسین و عیالہ و اطفالہ عطاشا” کیونکہ  میرے مولا اور ان کے اہل و عیال پیاسےہیں “لاکان ذلک ابدا” یہ ہر گز  ممکن نہیں کہ میں پانی پی لوں ، مشک کو پانی سے بھر ا اور اپنے داہنے کندھے پر رکھا اور خیموں کی طرف چل دئے لیکن دشمنوں نے ان کو اپنے چارں طرف سے گھیر لیا اور ہر طرف سے تیروں کی بارش ہونے لگی [16]

علمآء نے لکھا ہے کہ آپ کی زرہ پشت کی سیہی (ایک ایسا جانور ہے کہ جس کی پشت خار دار ہوتی ہے  )کی مانند ہوگئی تھی ،زین بن ورقاء اور  حکیم بن طفیل نے ایک  کھجور کے درخت  کے پیچھے سے چھپ کر آپ کے داہنے بازو پر حملہ کر دیاجس کے سبب آپ کاداہنا بازو  جداہو گیا آپ نے بڑی تیزی سے تلوار کو بائیں ہاتھ میں سنبھال لیا اور مشک کو بائیں کندھےپر لٹکالیا اور یہ اشعار پڑھناشروع کئے :

واللہ ان قطعتموا یمینی                                                                                                                 انّی احامی ابداً عن دینی

خدا کی قسم اگرچہ تم نے میرا داہنا ہاتھ کاٹ دیا ہے پھر بھی میں ہمیشہ اپنے دین کا دفاع کرتا رہوں گا

عن امام صادق الیقین                                                                                                                  نجل النبی الطاھر الامین

اور اپنے امام جو کہ صادق ہے اس کا بھی دفاع کرتا رہوں گا جو طاہر اور امین نبی کی اولاد ہے

آپ اسی طرح حملے پر حملہ کرتے رہے یہاں تک کہ تھکن سے چور چور ہوگئے نوفل ازرقی اور حکیم بن طفیل نے کمین گاہ سے حملہ کیا اور آپ کا بایاں بازو بدن سے جدا ہو گیا اس کے بعد حضرت نے یہ شعر زبان پر جاری کیا

یانفسی لا تخشی من الکفار   ابشری  برحمۃ الجبّار

اے میرے نفس ان کفار و مشرکین سے نہ ڈر میں تجھے رحمت خدائے جبار کی بشارت دیتا ہوں

لیکن آپ اس حال میں بھی بہت خوش تھے چونکہ ابھی بھی خیموں میں پانی پہونچا سکتے تھے اور اپنے ہاتھوں کے کٹنےسے ذرابھی ملول خاطر نہ ہوئے اچانک ایک تیر آیا اور مشک میں پیوست ہوگیا پانی بہنے لگا اسی مقام پر ایک دوسرا تیر آیا جو آپ کے سینے میں در آیا اور دوسری جانب سے کسی نےایک گرز آہنی آپ کے فرق اقدس پر مارا جس سے آپ گھوڑے پر سنبھل نہ سکے زمین پر تشریف لائے “صاح الی اخیہ الحسین ادرکنی “اپنے بھائی حسین(ع) کو مددکے لئے پکارا   یہ پہلی بار تھا کہ آپ نے حضرت (ع) کو بھائی کہہ کر پکارا مولا (ع) نے جلدی سے اپنے آپ کو عباس تک پہونچایا ،عباس کے کٹے ہوئے بازو،فرق اقدس پر زخم،اور ٹکڑے ٹکڑے جسم کو دیکھافریاد بلند کی” الآن انکسر ظھری ” میرے بھائی تیرے جانے سے میری کمر ٹوٹ گئی “وقلت حیلتی “میرا چارہ کار کم ہوگیا ،”وانقطع رجائی “میری آرزوئیں دم توڑ گئیں ،”وشمت بی عدّوی “تیرے مرنے سے دشمن مجھے طعنے دے رہے ہیں  “والکمد قاتلی “تیراغم مجھے غروب تک مار ڈالے گا ،امام عالی مقام کے آتے ہی دشمن فرار کرنے لگے آپ نے فرمایا:این تفرون َ؟”اے خداکے  دشمنوں ! کہاں بھاگ رہے ہو؟تم نے میرے بھائی کو قتل کر ڈالا،”این تفرون ؟”کہاں فرار کر رہے ہو؟   “و قد فتتم عضدی “تم نے میرے قوت بازو کو ختم کر ڈالا

چونکہ !حضرت ابو الفضل العباس کابدن ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھاجس کے سبب بدن کو اٹھانا مشکل تھا ،لہذا حسین (ع) نے خیموں کی طرف جانے کاقصد کیاگھوڑے پر سوار ہونا چاہا لیکن سوار نہ ہوسکے جیسے جسم کی تمام طاقت چلی گئی ہو آپ(ع)نے بہ مشکل تمام گھوڑے کی لگام کو پکڑا اور خیموں کی طرف چل دئیے [17]

جب عورتوں اور بچوں نے دیکھا کہ امام مظلوم خیموں کی طرف آرہے ہیں سب سے پہلے سکینہ بابا کے قریب آئی گھوڑے کی لگام کو باپ سے لیا اور عرض کی “ھل لک علم بعمی العباس “بابا میرے چچا عباس کی کیا خبر ہے ؟ انہوں نے مجھ سے پانی لانے کاوعدہ کیاتھا اور میرے چچا نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی ،بابا!کیا انہوں نے خود پانی پی لیا  ؟امام(ع) نے بیٹی کی باتیں سن کر رونا شروع کر دیا اور فرمایا:میری لاڈلی تیرے چچا شہید کر دئے گئے ؛جیسے  ہی زینب  نے بھائی کی شہادت کی خبر سنی رونےلگی اور فرمایا:”وا اخاہ ،واعباساہ،واقلۃ ناصراہ،واضیعتاہ من بعد ک “اے میرے بھائی ،اے میرے عباس ،اے بے یار و مدد گار،تیرے مرنےسے ہم ذلیل ہوگئے  اس کے بعد حسین(ع) بھائی کے قریب پہونچے “اخذ الحسین راسہ “حسین  نے عباس کےسر کو اٹھایا  “ووضعہ فی حجرہ “اور اپنی آغوش میں رکھ لیا ،اور آنکھوں سے خون صاف کرنے لگے ابھی کچھ سانسیں باقی تھیں حضرت(ع) کو دیکھ کر عباس رونے لگے سرکار سید الشہداء نے رونے کاسبب دریافت کیا”مایبکیک یا اباالفضل ؟”عباس رونے کا سبب کیا ہے ؟عرض کی: اخی یانور عینی و کیف لاابکی “اے میرے بھائی ! اے  میری آنکھوں کے نور میں کیوں نہ روؤں؟”ومثلک الآن جئتنی و اخذت راسی عن التراب “آپ (ع)آئے اور آخری وقت میں میرے سر کو خاک سے اٹھا کر اپنی آغوش میں رکھ لیا “فبعد ساعۃ من یرفع راسک “لیکن مولا کچھ دیر بعد جب آپ شہید ہونگے کون آپ کاسراقدس زمین سے اٹھائے گا ؟اور کون آپ کے روئے  اقدس سے خاک کے  ذروں کو صاف کرے گا؟ اس کے بعد آپ کی روح قفس عنصری سے  پرواز کر گئی [18]

[1] الخصال،الصدوق،ص۶۸،باب الاثنین،ح۱۰۱

[2] الارشاد،ج۲،ص۱۰۹

[3] مقاتل الطالبین،ص۸۹

[4] اعلام الوردی،ج۱،ص،۳۹۵و۴۶۶

[5] الملہوف علی قتلی الطفوف،ص۱۷۰

[6] بحارالانوار،ج۴۵،ص۴۱،باب ۳۷

[7] منتہی الامال،ج۱ ص۲۷۹

[8] عمدۃ المطالب،ابن عنبۃ ،ص۳۵۶ اعیان الشیعہ،السیّد محسن الامین ،ج۷ ص۴۳۰ انوار العلویہ،ص۴۴۱،وسیلۃ الدارین،الزنجانی،ص۲۶۴،اسرار الشہادۃ،ج۲،ص۴۰۲و۴۱۲

[9] منتہی الامال ، القمّی ،ج۲،ص۸۷۷،اخبار الطوال،الدینوری،ص۲۵۷

[10] معالی السبطین ، ج۱ص،۴۳۶،المجلس،۲۰

[11] حضرت کے اور القاب بھی ہیں زیادہ معلومات کے لئے رجوع کریں ،معالی السبطین ،ج۱ص۴۳۶۔۴۳۷ ،المجلس،۲۰ ،وسیلۃ الدارین ،الزنجانی ص۲۵۶

[12]  الخصال الصدوق ،ص۶۸ ،باب الاثنین ،ح۱۰۱

[13] عمدۃ الطالب ،ابن عنبہ ،ص۳۵۶ ،معالی السبطین ،ج۱ص۴۳۶،المجلس ،۲۰ ،وسیلۃ الدارین،الزنجانی،ص ۲۶۷

[14] الارشاد ،المفید،ج۲ص۸۹۔۹۱

[15] الارشاد المفید،ج۲،ص۸۹ ،بحار الانوار،ج۴۴،ص۳۹۱ ،الباب،۳۷ ،العوالم،عبد اللہ البحرانی ،ص۲۴۲ ،لواعج الاشجان ،السید محسن الامین ،ص۸۹،وسیلۃ الدارین ،الزنجانی ،ص۲۷۱

[16] بحار الانوار ،ج۴۵،ص۴۱۔۴۲ الباب۳۷

[17] بحار الانوار ،ج۴۵،ص۴۱۔۴۲ ،الباب ۳۷ ،الدمعۃ الساکبہ ،ج۴ ،ص۳۲۳۔۳۲۴ ،منتھی الآمال القمی،ج۲،ص۸۸۱۔۸۸۵ معالی السبطین المازندرانی،ج۱،ص۴۳۷۔۴۴۱ ،المجلس،۲۰ ،وسیلۃ الدارین،الزنجانی ،ص۲۷۲۔۲۷۳ ،مقتل لحسینالمقرم ،ص۲۶۹۔۲۷

[18] معالی السبطین ،المازندرانی،ج۱ص۴۴۳،المجلس،۲۰

 

تبصرے
Loading...