شہادت امام جواد علیہ السلام کی تفصیلی روایات

احمد بن داؤد کا قریبی دوست “زرقان” کہتا ہے: … جب معتصم کے زمانے میں چور کی شرعی حد کے بارے میں امام(ع) کی رائے پر عمل کیا گیا اور ابن داؤد کی رائے مسترد کی گئی تو ابن داؤد نے میرے لئے بیان کیا کہ: ابو جعفر (امام جواد ع) سے شکست کھانے کے بعد میں نے معتصم سے کہا: جب آپ فقہاء اور علماء کو ایک مجلس میں جمع کرتے ہیں وہ اپنے فتاوی بیان کرتے ہیں اور آپ ایسی شخصیت کی رائے کو مقدم رکھتے ہیں جس کو امت کے کچھ لوگ امام تو کیا اس کی وجہ سے لوگ خلافت سے منحرف ہوکر ابو جعفر(ع) کی طرف متوجہ نہ ہونگے؟ معتصم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور ۔۔۔

زیدی

شہادت امام جواد علیہ السلام کی تفصیلی روایات

شہادت کا پس منظر
امام جواد(ع) کم سنی میں ہی بےمثل شخصیت کے طور پر ابھر؛ شیعہ علماء و اکابرین کے مجمع میں دین پر وارد ہونے والے شبہات کا جواب، یحیی بن اکثم وغیرہ جیسے افراد کے ساتھ کم سنی میں مناظرے ـ جن میں سب آپ(ع) کی منطق و علم دانش کے سامنے مغلوب ہوئے ـ وہ اسباب تھے جن کی بنا پر آپ(ع) ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر جانے پہچانے لگے۔ ایک طرف سے یہ مقبولیت عامہ حاسد علمائے دربار کو ایک آنکھ نہ بھاتی تو دوسری طرف ظلم وجور کی بنیادوں پر استوار ہونے والی سلطنت عباسیہ کو خطرے کا احساس ہوا۔
مامون امام رضا(ع) کو قتل کرچکا تھا چنانچہ وہ دوسرے امام کو خوف کے مارے، قتل کرنے سے گریز کرتا تھا چنانچہ وہ اپنی خاص زیرکی سے اپنی بیٹی اور امام جواد(ع) کی زوجہ ام الفضل کے ذریعے آپ(ع) کی نگرانی کرتا تھا اور آپ(ع) کی دامادی کا ہتھیار لے کر زمانے کے وقائع بالخصوص علویوں کی سرگرمیوں کو قابو میں لانا چاہتا تھا۔ مامون 17 رجب المرجب سنہ 218 بروز جمعرات (یا جمعہ) تاریخ کے جابر بادشاہوں سے جاملا۔ (1) اور اس کا بھائی معتصم ـ جو عسکری ذہنیت رکھتا تھا اور مسائل کو سیاست اور زیرکی سے حل کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال سے حل کرنے کا قائل تھا ـ بادشاہ بنا۔ وہ امام جواد(ع) کو ہرگز برداشت نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے بادشاہ بنتے ہی امام جواد(ع) کو مدینہ سے بغداد بلوایا اور یوں امام(ع) کی نظربندی کے ایام کا آغاز ہوا۔
امام رضا(ع) اور امام جواد(ع) غیظ و غضب کا شکار ہوئے، وہ غیظ و غضب جس کی وجہ سے عباسی سلطنت عاجز اور بے بس ہوئی تھی اور اس کے پاس ان ائمہ طاہرین کا کوئی منطقی جواب نہ تھا۔
حکیم بن عمران کہتے ہیں کہ جب امام جواد(ع) متولد ہوئے تو امام رضا(ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: مجھے خدا نے ایسے فرزند سے نوازا ہے جو حضرت موسی بن عمران(ع) کی طرح دریا کو چیر لیتا ہے اور اس کی والدہ حضرت عیسی بن مریم(ع) کی طرح، مقدس، پاکیزہ اور پاکدامن ہیں۔
اور مزید فرمایا: میرے اس فرزند کو غیظ و غضب کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے۔ خداوند متعال اس کے ظالم ستمگر دشمنوں پر غضبناک ہوگا اور بہت مختصر عرصے میں انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ (2)
معتصم نے بادشاہت کا عہدہ سنبھالا اور لوگوں سے بیعت لی تو سب سے پہلے امام جواد (علیہ السلام) اور ان کے مسکن کے بارے میں پوچھا۔ درباریوں نے اس کو بتایا کہ امام(ع) مدینہ میں ہیں۔ معتصم نے عبدالملک بن زیات کو ـ جو مدینہ میں اس کا وزیر سمجھا جاتا تھا ـ پیغام بھجوایا کہ امام جواد (علیہ السلام) کو ان کی زوجہ ام الفضل کے ہمراہ، عزت و احترام کے ساتھ بغداد روانہ کرے۔ محمد بن عبدالمالک نے بھی ایک خط علی بن یقطین کو دیا اور انہیں امام جواد(ع) کو بغداد روانہ کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ (3)
سنہ 218 ہجری میں امام(ع) کی عمر مبارک 23 سال تھی اور دوسری مرتبہ بغداد جارہے تھے۔ اس سے قبل مامون نے آپ(ع) کو بغداد بلوایا تھا جب اسمعیل بن مہران نے فکرمند ہوکر عرض کیا تھا: اے میرے مولا اب جو آپ مدینہ کو ترک کررہے ہیں، میں آپ کے لئے فکرمند ہوں، ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ اور امام(ع) نے مسکرا کر فرمایا تھا:: “لیس حيث ظننت في هذه السنة”، جس چیز کا گمان کررہے ہو (اور جس کے لئے فکرمند ہو) وہ اس سال نہ ہوگا۔
دوسری بار جب متعصم نے امام(ع) کو بلوایا تو پھر بھی اسمعیل بن مہران نے خدشہ ظاہر کیا اور عرض کیا: اے میرے مولا میری جان آپ پر فدا ہو، آپ مدینہ سے جارہے ہیں آپ کے بعد ہماری کیا ذمہ داری ہے: تو فرمایا “الامر من بعدي الی ابني علي”، میرے بعد امام میرا بیٹا علی (النقی الہادی ع) ہوگا۔ (4)
تاریخ کے مطابق چند افراد امام جواد(ع) کے قتل میں شریک ہیں جن کے نام یہ ہیں:
عباسی بادشاہ معتصم عباسی، (مامون عباسی کا بھائی)،
جعفر بن مامون عباسی، (ام الفضل کا بھائی اور معتصم کا بھتیجا)،
ام الفضل (مامون کی بیٹی، معتصم کی بھتیجی، جعفر کی بہن اور امام(ع) کی زوجہ)،
یحیی بن اکثم (درباری مولوی اور عباسیوں کا قاضی جو کئی بار امام جواد(ع) سے شکست کھا چکا تھا)،
احمد بن داؤد (وہ بھی دربار کا قاضی اور مفتی تھا اور یحیی بن اکثم کی طرح کئی مرتبہ امام(ع) کے سامنے شکست کھا چکا تھا)۔
بے شک جس طرح کہ بعد میں عثمانیوں کے دور میں کئی مرتبہ شیعہ علماء کو شہید کیا گیا، یا ہندوستان میں قاضی القضات سید نور اللہ شوشتری کو مولویوں کی تحریک پر شہید کیا گیا۔ اس سنت قبیحہ کی بنیاد اموی اور عباسی دور میں رکھی گئی تھی۔ جب یا تو مولویوں کو مال دنیا عطا کرکے ائمہ کے قتل کے فتوے لئے جاتے تھے یا پھر مولوی خود اس آگ کا ایندھن فراہم کرتے تھے۔ اس دور میں بھی ابتدائی کردار یحیی بن اکثم اور احمد بن داؤد کا تھا جن کو مامون کے دور میں ـ اور معتصم کے دور میں بھی ـ امام(ع) کے ساتھ مناظروں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جعفر بن مامون کا کردار یہ تھا کہ وہ اپنی بہن ـ جو امام سے صاحب اولاد نہ ہوسکی تھی اور امام(ع) اس کی شرارتوں اور دربار کے ساتھ ساز باز کی وجہ سے اس کو کم ہی توجہ دیتے تھے ـ کے جذبات کو مشتعل کیا کرتا تھا اور قتل کا حکم معتصم نے دیا جبکہ ام الفضل نے اس حکم پر عمل کیا۔
سازش کا آغاز
عباسی دربار کے مشہور قاضی نے جب ایک چور پر حد جاری کرنا چاہا اور کہا کہ چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹ دیا جائے گا تو امام(ع) نے فرمایا کہ ہتھیلی مساجد سبعہ میں سے ہے اور قرآن نے فرمایا ہے کہ ” وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ” (٭) چنانچہ ہاتھ کلائی سے نہیں کاٹا جاسکتا بلکہ انگلیاں کاٹی جائیں گی تاکہ نماز کے سجدے میں نقص نہ ہو، تو ابن داؤد کو شکست ہوئی اور اس نے اپنے دل سیاہ میں امام(ع) کا بغض و کینہ بسا دیا کیونکہ اس کی علمی حیثیت خلیفہ اور عوام کے سامنے ختم ہوچکی تھی اور جب معتصم بر سر اقتدار آیا تو اس کو معلوم تھا کہ یہ شخص جذباتی ہے اور اس کو مشتعل کرنا آسان ہے چنانچہ اس کے کان کھانے لگا اور اس کے امام(ع) کی نسبت بدظن کیا۔
احمد بن داؤد کا قریبی دوست “زرقان” کہتا ہے: … جب معتصم کے زمانے میں چور کی شرعی حد کے بارے میں امام(ع) کی رائے پر عمل کیا گیا اور ابن داؤد کی رائے مسترد کی گئی تو ابن داؤد نے میرے لئے بیان کیا کہ ابو جعفر (امام جواد ع) سے شکست کھانے کے بعد میں بہت زيادہ اداس ہوا حتی کہ میں نے موت کی خواہش کی، اسی وجہ سے تیسرے دن (بحث و مناظرے کے دوران) معتصم کے پاس گیا اور کہا: آپ کی خیرخواہی اور نصیحت مجھ پر واجب ہے اور اگر ایسا نہ کروں تو گویا کہ میں ناشکری کا مرتکب ہوا ہوں اور اہل دوزخ ہوں۔
معتصم نے میری اس حالت اور اس بات کی وجہ پوچھی تو مین نے کہا: جب آپ فقہاء اور علماء کو ایک مجلس میں جمع کرتے ہیں اور اس مجلس میں علماء اور فقہاء اپنے فتاوی بیان کرتے ہیں جبکہ اس مجلس میں آپ کے افراد خاندان اور وزراء اور افواج کے کمانڈر بھی ہوتے ہیں اور عام لوگوں کو بھی وہاں کی خبریں پہنچتی ہیں کہ خلیفہ نے علماء اور فقہاء کے فتاوی کو مسترد کرکے ایسی شخصیت کی رائے کو مقدم رکھا ہے جس کو امت کے کچھ لوگ امام اور دوسروں سے زيادہ عالم و دانشمند سمجھتے ہیں، تو حکومت اور درباری علماء کی کیا حیثیت رہے گی؟ کیا اس طرح کے اقدامات خلافت سے لوگوں کے انحراف اور ابو جعفر(ع) کی طرف ان کی توجہ کا سبب نہيں بنیں گے؟
جذباتی عباسی بادشاہ ـ جس کو معلوم نہ تھا شاید، کہ ابن داؤد دوزخی ہونے کے خوف سے نہیں حسد کی وجہ سے خود بھی اہل دوزخ بن رہا ہے اور اس کو بھی قطعی طور پر دوزخی بنا رہا ہے ـ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگا: “جزاك الله عن نصیحتك خیرا…” خدا تم کو اس خیرخواہی پر جزائے خیر دے؛ اور یوں مناظرے کے چار روز بعد امام جواد (علیہ السلام) ام الفضل کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔
مؤرخین نے امام(ع) کی شہادت کی کیفیت تین صورتوں میں نقل کی ہے:
پہلی روایت
معتصم عباسی نے اپنے ایک وزیر کو حکم دیا کہ امام جواد (علیہ السلام) کو دن کے کھانے کے لئے اپنے گھر آنے کی دعوت دے اور انہيں کھانے میں زہر دے۔ معتصم نے زور دے کر کہا کہ امام جواد(ع) انکار کریں تو کہلوا بھیجو کہ مجلس خصوصی ہے! اس وزیر نے امام جواد(ع) کو گھر آنے کی دعوت دی تو اس کو امام کے اکراہ اور امتناع کا سامنا کرنا پڑا۔
وزیر نے بےحد اصرار اور تاکید کے ساتھ امام(ع) کہا کہ “مجھے بہت زیادہ شوق ہے کہ آپ اپنے مبارک قدم ہمارے گھر میں رکھیں اور میرے گھر کو متبرک کریں اور وزراء میں سے ایک شخص بھی آپ کی ملاقات کے لئے آئے۔ بہر حال امام(ع) کو دعوت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔
امام(ع) عباسی وزیر کے گھر میں کھانے کے دسترخوان پر بیٹھے تو پہلا نوالہ کھاتے ہیں مسمومیت کا احساس کیا اور فوری طور پر اپنا گھوڑا منگوایا کہ اپنے گھر تشریف لے جائیں۔ پہلا نوالہ کھانے کے بعد وزير نے اصرار کیا کہ بیٹھیں اور مزید کھانا کھائیں لیکن امام(ع) نے فرمایا: “خروجي من دارك خير لك”، تمہارے گھر سے میرا باہر نکلنا تمہارے لئے بہتر ہے۔ امام(ع) نے اسی حال میں وزیر کا گھر ترک کردیا اور اس رات دن اور رات کو مسمومیت کی وجہ سے تڑپتے رہے اور وہ نوالہ کھانے کے 20 گھنٹے بعد جام شہادت نوش کیا۔
دوسری روایت:
ابن شہر آشوب روایت کرتے ہیں: معتصم نے امام(ع) کو جبری دعوت پر بلوایا اور بظاہر ان کا استقبال کیا اور اپنے تُرک سپاہ کے کمانڈر “اشناس” کو بڑی مقدار میں تحفے تحائف دے کر امام(ع) کی خدمت میں روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ ریواس (ریوند چینی) کا ترش ذائقے والا شربت (جو اس کو بظاہر معتصم نے دیا تھا) امام (ع) کو پلائے۔ اشناس نے تحفائف ديئے اور امام(ع) کو خوش آمدید کہنے کے بعد کہا:
یہ لذیذ شربت ہے جس کو خشک برف سے ٹھنڈا کیا گیا ور خلیفہ معتصم اور قاضی احمد بن داؤد اور سعید بن خضیب اور متعدد درباری شخصیات نے بھی پی لیا ہے، خلیفہ نے حکم دیا ہے کہ اس شربت کو اسی وقت نوش فرمائیں!
امام(ع) نے شربت لے لیا اور فرمایا: کوئی حرج نہيں ہے میں یہ شربت رات کو پیوں گا۔
اشناس نے کہا: یہ شربت ابھی اسی وقت پینا پڑے گا کیونکہ اب یہ ٹھنڈا ہے اور اگر رات تک نہ پیا جائے تو اپنی خاصیت کھو جائے گا۔ چنانچہ اشناس نے امام(ع) کو شربت پینے پر مجبور کیا حالانکہ آپ(ع) اشناس کے منصوبے سے آگاہ ہوچکے تھے۔ (5) لیکن کوئی چارہ نہ تھا۔
تیسری روایت
ابو اسحاق محمد بن ہارون (معتصم عباسی) نے بادشاہ بنتے ہی امام ابوجعفر محمد علی الجواد (علیہ السلام) کو شہید کرنے کے منصوبے بنانا شروع کئے۔ حتی مامون کی بیٹی اور امام(ع) کی زوجہ ام الفضل کو حکم دیا کہ امام(ع) کو مسموم کرے اور اس نے ایسا ہی کیا اور امام(ع) کو شہید کیا۔
معتصم ام الفضل کے زنانہ جذبات سے آگاہ تھا اور جانتا تھا کہ وہ امام(ع) سے راضی نہیں ہے اور امام(ع) اپنی دوسری زوجہ ام الحسن کو ـ جو امام(ع) کی بیٹے کی ماں ہیں، کو ام الفضل پر ترجیح دیتے ہیں جو ماں نہ بن سکی تھی۔ چنانچہ اس نے ام الفضل کو اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مناسب ترین فرد سمجھا۔ امام(ع) کی بےوفا زوجہ نے اپنے چچا معتصم کی سازش میں آکر اس کی ہدایات پر عمل کیا۔
چونکہ معتصم اور جعفر جانتے تھے کہ امام(ع) انگور کو پسند فرماتے ہیں چنانچہ انھوں نے “رزاقی انگوروں” کے نانوں کو میں زہر داخل کیا اور ام الفضل نے انگور کے 19 دانے امام(ع) کو کھلا دیئے۔ جب امام(ع) نے زہریلے انگور کھا لئے تو ام الفضل بہت مغموم ہوئی اور پریشان ہوکر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔
امام(ع) اس کی خیانت سے آگاہ ہوئے اور فرمایا: اب رتوی کیوں ہو؟ خدا کی قسم خدا تجھے ایک لاعلاج زخم سے دوچار کرے گا اور بلا سے دوچار ہوجاؤ گی کہ اپنا درد کسی کو نہ بتا سکوگی۔ (6)
باغ عصمت کے اس نو رستہ پھول کی عمر اگرچہ کم تھی لیکن اس کے رنگ و بو نے جانوں کو فیض بخشا۔ جو افکار آپ(ع) نے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں، جن مسائل کا آپ(ع) نے جواب دیا ہے اور جو کلمات اور احادیث آپ(ع) نقل ہوئی ہیں ابد تک تاریخ اسلام کی زینت ہیں۔ امام جواد(ع) کی عمر مبارک 25 سال اور دوران امامت 17 سال ہے۔
سال شہادت
ابن ابی ثلج البغدادی (متوفٰی سنہ 325 ہجری) تاریخ ائمہ(ع) میں اور محمد بن یعقوب کلینی (متوفٰی سنہ 328 ہجری) اصول کافی میں۔ شیخ مفید (متوفٰی سنہ 413 ہجری) الارشاد میں، شیخ طبرسی امامی (متوفٰ پانچویں صدی ہجری) دلائل الامامہ میں، علامہ محمد باقر مجلسی (متوفٰی سنہ 1111 ہجری) بحار الانوار میں اور محدث شیخ عباس قمی (متوفٰی سنہ 1359 ہجری) منہی الآمال میں لکھتے ہیں کہ امام جواد (علیہ السلام) سنہ 220 ہجری میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔
یوم شہادت
ابن ابی ثلج بغداد اور محمد بن یعقوب کلینی نے لکھا ہے کہ امام جواد (علیہ السلام) نے منگل 6 ذوالحجہ سنہ 220 ہجری کے دن شہادت پائی اور محمد جن جریر بن رستم طبری کہتے ہیں کہ آپ(ع) منگل 5 ذوالحجہ سنہ 220 ہجری کے دن طلوع آفتاب کے دو گھنٹے بعد شہید ہوئے ہیں۔
اگر مانا جائے کہ امام(ع) ذوالحجۃالحرام میں شہید ہوئے ہیں تو [کیلنڈر کنورٹر] سے مؤخر الذکر قول کی تصدیق ہوتی ہے۔
علامہ مجلسی، شیخ عباس قمی اور سید محمد قزوینی کا کہنا ہے کہ امام(ع) ذوالقعدۃالحرام کے آخر میں شہید ہوئے ہیں۔
ایک روایت یہ ہے کہ امام 29 محرم الحرام سنہ 220 ہجری کو بغداد تشریف فرما ہوئے اور اسی سال ذوالقعدۃ الحرام میں 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔
مقام شہادت
تمام محدثین و مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام جواد (علیہ السلام) کی شہادت بغداد میں ہوئی ہیں۔ آپ(ع) کو قریش کے قبرستان میں اپنے دادا حضرت امام موسی بن جعفرالکاظم کی قبر کی پشت پر سپرد خاک کیا گیا۔ آج بھی دونوں اماموں کا حرم ایک ہی ہے جس کو کاظمین کہا جاتا ہے۔
قاتلوں کا انجام
عرصہ قبل امام جواد(ع) کی ولادت کے بعد امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ “میرے اس بیٹے کے غیظ و غضب کے مارے قتل کیا جائے گا اور اہل آسمان اس پر روئیں گے اور اللہ اس کے دشمنوں پر غضب ناک ہوگا اور انہيں بہت کم عرصے میں دردناک عذاب میں مبتلا فرمائے گا”۔
چنانچہ امام جواد (ع) کی شہادت کے دوسرے ہی دن آپ(ع) سالا جعفر بن مامون (جو اپنی بہن کو امام(ع) کے خلاف اکساتا رہا تھا) کنویں میں گرا اور اس کے سر پر جو ضرب وارد ہوئی اس کے باعث وہ دیوانہ ہوا اور آخر عمر تک دیوانگی میں زندگی بسر کی۔ معتصم عباسی ـ جس نے قتل کا حکم دیا تھا ـ کی حکومت چھ سال سے زیادہ عرصے تک نہ چلی۔
ام الفضل کا انجام کیا ہوا؟
امام جواد(ع) نے مسموم ہونے سے پہلے جو کچھ ام الفضل سے فرمایا تھا وہی ہوا ام الفضل ایسی بیماری میں مبتلا ہوئی جس کے بارے میں وہ کسی بھی نہ بتا سکتی تھی۔ وہ کسی نسوانی مرض میں مبتلا تھی اور اس نے اپنی پوری دولت اپنے علاج پر خرچ کردی مگر افاقہ نہ ہوا اور نہایت غربت اور تنگ دستی کی حالت میں مرگئی۔
امام جواد (علیہ السلام) کی شہادت کی
ایک مرد جو حضرت امام جواد(ع) کا رضاعی بھائی تھا نے کہا ہے: میں کسی وقت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ابو زکریا نامی ایک مرد ـ جو امام ہادی(ع) کی گھر کی نگرانی کیا کرتا تھا اور امام(ع) کو بعض مسائل سکھائے کرتے تھے ـ بھی موجود تھا۔ اسی حال میں کہ امام(ع) ایک تختی کو ابو زکریا کے لئے پڑھ کر سنا رہے تھے، اچانک رونے لگے۔ ابو زکریا نے رونے کا سبب پوچھا تو امام(ع) نے جواب نہیں دیا اور اس کے بعد امام ہادی(ع) گھر کی اندرونی میں تشریف لے گئے تو آہ و بکاء کی صدا اندر سے بلند ہوئی۔
جب امام(ع) باہر تشریف لائے اور ہم نے پوچھا تو امام(ع) نے فرمایا: اسی وقت میرے والد دنیا سے رخصت ہوئے۔
ہم نے پوچھا: آپ کو کیسے معلوم ہوا؟
فرمایا: پروردگار کی عظمت و جلال سے میرے وجود ایک کفیت طاری ہوئی جو اس سے قبل کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی اور میں حالت کی اس تبدیلی کے دوران سمجھ گیا کہ میرے والد محمد تقی الجواد (علیہ السلام) دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ مجلس میں حاضر افراد کہتے ہیں: ہم نے اس واقعے کی تاریخ اور دن اور مہینے کو ذہن نشین کیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ امام جواد (ع) اسی دن شہید ہوئے تھے جس دن امام ہادی(ع) پر وہ کیفیت طاری ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ
1۔ بحارالانوار، ج 50، ص 16، تاریخ الامم والملوک، ج 50، ص 30٫۔
2۔ بحارالانوار، ج 50، ص 15٫۔
3۔ بحارالانوار، ج 50، ص 8٫۔
4۔ الارشاد ص 328، بحارالانوار، ج 50، ص 118٫۔
٭۔ سورہ جن آیت 18۔
5۔ مناقب ال ابی طالب، ج 4، ص 37۹، بحارالانوار، ج 50، ص 8٫۔
6۔ بحارالانوار، ج 50، ص 17٫۔
………………

 

تبصرے
Loading...