شب عاشورا

لکھنے والی: آیت اللہ انصاریان

کتاب:مقتل سید اشہداء پر ایک نظر

جب امام حسین  اور آپ کے انصارو اقرباء کو کربلا میں ٹہرے ہوئے کئی روز گذر گئے یہاں تک کہ شب عاشور نمودار ہوئی یہ ایک ایسی رات ہے کہ جو منظر اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کوئی اور رات کیادیکھ پائے گی،  اطمینان کامل سے مملو بزم! جبکہ چاروں طرف خوف و  ہراس پھیلا ہوا ہے اور کسی کے لئے بھی کوفہ ،مدینہ ،اور مکہ جانے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ تمام راہیں بند کر دی گئیں ہیں

سرکار سید الشہدآءکو یقین ہو گیا  کہ کل صبح تمام اعزاء و اقربا دنیا پرستوں کے ہاتھوں اپنے ہی خون میں نہائیں گے آپ نے تمام اصحاب و اہل بیت کو اس رات کے سناٹے میں ایک خیمے میں بلایا،اور جیسا کہ اکثر صاحبان مقاتل نے نقل کیاہے کہ: آپ  نے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا:اے میرے دوستوں !کل یہ لوگ صرف مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں ،میرا خون بہاناچاہتے ہیں ،تم سے ان کاکوئی لینا دینا نہیں ہے ،اور اے میرے قرابتداروں! یہ لوگ مجھ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے آئے ہیں، تم سب ان سے اپنی جان بچاؤ !میں یہ اعلان عام کرتا ہوں کہ میں نے اپنی بیعت کاقلادہ تمہاری گردنوں سے نکال لیا ہے خداتم لوگوں کو جزائے خیر دے !جنگل کاراستہ  کھلاہے تم اس راستے سے اپنے شہر اور خاندان کی طرف لوٹ  جاؤ !

لیکن کوئی  ایک بھی نہ گیاتمام افراد خیمے میں بیٹھے رہے ،سرکار سید الشہداء نے سوال کیاکہ :جب میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھا لی ہے  تو پھر کیوں نہیں گئے ؟اہل بیت اور انصار میں سے سب نے کوئی نہ کوئی جواب دیا:  قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس  نے جواب دیا:فرزند رسول ہم ہر گز آپ کو تنہاچھوڑ کر نہیں جاسکتے ۔پھر اصحاب میں سے ہر ایک نے بقدر معرفت جواب دیا،ان میں سے ایک اٹھا اور کہا :فرزند رسول !اگر کل مجھے ستر مرتبہ قتل کیاجائے اور ہر بار میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے جلایاجائے اور ہوامیں اڑا دیاجائے اور پھر مجھے زندہ کیاجائے تب بھی آپ کاساتھ نہ چھوڑو ں گا

ایک دوسرا صحابی کھڑاہوا، اور عرض کی: فرزند رسول!اگر مجھے ننگے پاؤں تمام صحراو بیابان میں پھیرایاجائے اورمجھے اذیت کی جائے تب بھی میں آپ کاساتھ چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ 

اہل بیت میں سے بعض افراد نے بھی ایسے ہی جواب دئے، جب حضرت  نے سب کاامتحان لے لیااور اصحاب اور اہل بیت کو ثابت قدم پایا تو آپ  نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:”اثنی علی اللہ  احسن الثناء”میں  خداوند عالم کی ایسی حمد وثنا بجالاتاہوں جس کاوہ مستحق ہے ،”واحمدہ علی السرّاء و الضرّاء “اور اس کی حمدوثنا کرتا ہوں خوشی میں بھی اور غم میں بھی ،”علی ان اکرمتنا بالنبوۃ و علمتنا القرآن و فقھتنا فی الدین ،،،،،،،”اے پروردگار تیری حمد کرتا ہوں اس بات پرکہ تونے ہمارے خاندان میں اپنے منصب نبوت کو رکھ کر احسان عطیم فرمایا اور ہم کو قرآن کا علم عطا کیا،اور اپنے دین کو ہمیں سمجھایا،یہ سن کر حضرت زینب کبریٰ رونے لگیں اور فرمایا:اے کاش!آج کے دن زندہ نہ رہتی کہ مجھے یہ اذیت ناک مناظر دیکھنے پڑ رہے ہیں ،کاش!یہ آسمان زمین  پر ٹوٹ پڑتا،کاش!پہاڑ اس مصیبت عظمیٰ کو دیکھنے سے ریزہ ریزہ ہوجاتے [1]

 امیرالمؤمنین کی دختر کے یہ جملات بتا رہے ہیں کہ یہ مصیبت اہل بیت رسول کے لئے کتنی عظیم اور دلوں کو ہلادینے والی تھی ۔

[1] اعلام الوری ،الطبرسی،ج۱،ص۴۵۵۔۴۵۷ ،الارشاد المدید،ج۲ص۹۱۔۹۳ ،لواعج الاشجان السید محسن الامین،ص۹۰۔۹۲ ،تاریخ الطبری ،ج۴ص۳۱۷۔۳۱۹ ،الکامل فی التاریخ،ج۴ ص۵۷۔۵۹ ،الفتوح ،الفتوح ،ابن اعثم ،ج۵،ص۱۶۹۔۱۷۱ 

تبصرے
Loading...