شب عاشورا خیام سید الشہداء علیہ السلام میں کیسے گذری/ ایک سوال اور اس کا جواب

شب عاشورا جناب سید الشہداء نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ایک خطبہ دیا اور فرمایا کہ میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھالی ہے اور تمہیں اختیار ہے کہ جہاں چاہو کوچ کرو اور اب رات کے پردے نے تمہيں ڈھانپ لیا ہے۔ رات کو اپنی سواری قرار دو اور جس طرف چاہو جاؤ۔

ترتیب و ترجمہ: زيدی

شب عاشورا خیام سید الشہداء علیہ السلام میں کیسے گذری/ ایک سوال اور اس کا جواب

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
اہل خاندان نے عرض کیا: ہم کس لئے آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں؟ اس لئے کہ آپ کے بعد جئیں؟ خداوند ہرگز ایسا نہ کرنے دے کہ ہم اس ناشائستہ صورت حال میں اس کا دیدار کریں اور اصحاب میں سے بھی ہر ایک نے ایسے ہی موقف اپنایا اور سب نے آپ کے رکاب میں شہادت کو دنیا کی زندگی پر ترجیح دی۔
جناب علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: اس رات ـ جس کے دوسرے روز میرے والد ماجد شہید ہوئے ـ میں بیماری کی حالت میں بیٹھا تھا اور پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں کہ میں نے اچانک دیکھا کہ میرے والے ایک طرف کو چلے اور اپنے خیمے میں تشریف فرما ہوئے اور آنجناب کے ساتھ ابو ذر غفاری کا غلام تھا جو آت(ع) کی شمشیر کی اصلاح کررہا تھا۔ میرے والد نے فرمایا: يادهر اف لك من خليل ۔۔۔۔ اور ان اشعار کو دو یا تین مرتبہ دہرایا اور مین نے بھی یہ اشعار حفظ کئے۔ پس جب میں سمجھ گیا کہ امام حسین علیہ السلام نے یہ اشعار کس غرض سے پڑھے ہیں تو حزن و غم پر غالب آیا مگر میں صبر و ضبط سے کام لیا اور آہ و نالہ نہیں کیا لیکن میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا نے جب یہ اشعار سنے تو وہ ضبط نہ کرسکیں۔ کیونکہ خواتین میں رقت اور جزع کی حالت زیادہ ہے۔
پس حضرت زینب اٹھیں اور بے مقصدر ننگے پاؤں ٹہلتی رہیں اور پھر امام حسین علیہ السلام کی طرف گئئیں اور کہا: کاش موت مجھے نابود کردیتی، اور یہ زندگی مجھ سے چھین لیتی۔ یہ وقت اس وقت کی طرح ہے جب میرے والد امیر المؤمنین علیہ السلام، والدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور بھائی حسن مجتبی علیہ السلام شہید ہوئے، کیونکہ آپ اے میرے بھائی! گذرنے والوے کے جانشین اور پسماندگان کے فریاد رس اور پناہ گاہ ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے بہن کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے میری بہن! فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ کہیں شیطان آپ کا حلم آپ سے سلب نہ کرے اور آنسو امام(ع) کی آنکھوں میں گھوم رہے تھے اور آپ(ع) نے اس ضرب المثل سے تمثل کیا:
لو تُرِكَ القطا لَنامَ: يعنى اگر شکاری رات کو بولنے والا قطا نامی پرندے کو چین سے رہنے دیتا تو یقینا وہ سوجاتا۔
زینب سلام اللہ علیہا نے عرض کیا: افسوس کہ آپ کی جان شریف لی جائے گی۔ پس یہ واقعہ میرے دل کو زیادہ مجروح کرے گا اور میرا غم مجھ پر زیادہ اثر انداز ہوجائے گا۔ پس سیدہ نے ایک طمانجہ اپنے چہرے پر رسید کیا اور بےہوش ہوگئیں۔
جناب امام حسین علیہ السلام نے پانی آپ(س) کے چہرے پر چھڑکا حتی کہ سیدہ ہوش میں آئیں اور امام(ع) نے چند الفاظ سے اپنی بہن کو تسلی دی اور تعزیت ظاہر کی اور فرمایا: اے میری بہن! میں آپ کو قسم دیتا ہوں اور آپ کو میری قسم پر عمل کرنا پڑے گا۔ میرے قتل پر گریبان چاک نہ کریں گی، ناخن سے اپنا چہرہ نہ خراشیں گی اور میری شہادت پر ویل و افسوس اور ثبور کے الفاظ کہہ کر آہ و نالہ نہیں کریں گی۔ پس سید سجاد علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد میری پھوپھی کو لے کر آئے اور انہیں میرے قریب بٹھایا۔
روایت ہے کہ سیدالشہداء علیہ السلام نے اس رات فرمایا: حرم کے محترم کے خیموں کو ایک دوسرے سے متصل کیا جائے اور ان کے گرد ایک خندق کھدوائی اور انہیں خشک لکڑیوں سے پر کروایا تاکہ انہیں صبح کے وقت آگ لگائی جائے اور جنگ صرف ایک طرف سے ہو اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ اور خاندان رسول(ص) کے دشمن اور یزیدی گماشتے حرم کے خیموں کیے خاف جارحیت نہ کرسکیں۔
خدا جانتا ہے کہ ان خدا پرستوں نے اپنی عمر کی اس آخری شب کو کیا کیا زحمتیں اٹھائیں، خندق کھودنے اور اس کو لکڑیوں سے پر کرنے سے لے کر وضو اور غسل اور لباس ـ جو ان کا کفن بھی تھا ـ کو دھونے کے لئے پانی کے حصول اور پھر لباس دھو لینے تک۔ اور کیا عبادتیں اور کیا مناجاتیں کیں قاضی الحاجات کے ساتھ؛ روایت ہے کہ خیموں سے شہد کی مکھیوں کے بھنبھانے کی سی آواز اٹھ رہی تھی ذکر و تلاوت و نماز و مناجات کی وجہ سے؛ تلاوت کی آواز مسلسل اٹھ رہی تھی خیر البشر صلی اللہ علیہ و آلہ کے نور دیدہ کے لشکر سعادت کے خیام سے؛ اور کیا بجا اور مناسب ہے کہ شیعیان حسین(ع) بھی ان اہل سعادت کی پیروی کریں اور اس رات کو دعا و عبادت اور تلاوت اور گریہ و بکاء اور اندوہ و احیاء کے ساتھ گذاریں۔
سید بن طاؤس نے اقبال الاعما میں اس رات کے لئے بہت سی دعائیں اور نمازیں نقل کی ہیں منجملہ چار رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد پچاس مرتبہ سورہ اخلاص (قل ہو اللہ احد۔۔۔) پڑھے اور یہ نماز نماز امیر المؤمنین کے عین مطابق ہے اور اس کا اجر و ثواب بہت ہے۔ اور فرمایا گیا ہے کہ نماز کے بعد ذکر خدا فراوان کرے اور صلوات بھیجے رسول اللہ اور آل رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ پر اور لعن و نفرین بھیجے رسول خدا اور خاندان رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے دشمنوں پر، جس قدر کہ ممکن ہو۔
اس رات کے احیاء کے ثواب کے سلسلے میں روایت ہے کہ شب عاشورا کا احیاء تمام ملائکہ کی عبادت کے برابر، عبادت کے برابر ہے اور اگر کسی کو توفیق نصیب ہو اور اس شب کو کربلائے معلی میں ہو اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے اور آنجناب کے حرم میں رات گذارے صبح تک، خداوند متعال اس کو ان شہداء کے زمرے میں خون آلود محشور فرمائے گا۔ جیسا کہ شیخ مفید نے نقل کیا ہے۔
ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
“من بات عند قبر الحسين عليه السلام ليلة عاشوراء لقى الله يوم القيمه ملطخا بدمه و كانما قتل معه فى عرصة كربلا”.
یعنی قبر امام حسین(ع) کے ساتھ عاشورا کی رات صبح تک پہنچانے والا شخص قیامت کے دن ایسے حال میں اللہ کا دیدار کرے گا کہ اس کا بدن اپنے خون میں نہایا ہوا ہوگا گویا کہ وہ امام حسین(ع) کے ساتھ کربلا کے میدان میں موجود تھا۔
شب عاشورا کی چار رکعتی نماز کے بعد ستر مرتبہ “سبحان الله و الحمدالله و لا اله الاّ الله و الله اكبر و لا حول و لا قوة الاّ بالله العليّ العظيم”۔ پڑھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی کامران سجاد لکھتے ہیں:
محترمی و مکرمی
آپ نے اس پوسٹ میں لکھا ہے۔ “جناب امام حسین علیہ السلام نے پانی آپ(س) کے چہرے پر چھڑکا حتی کہ سیدہ ہوش میں آئیں اور امام(ع) نے چند الفاظ سے اپنی بہن کو تسلی دی اور تعزیت ظاہر کی”
میرا سوال ہے کہ 3 دن سے سیدوں کے پاس پانی نہیں تھا۔ لیکن آپ نے لکھا کہ امام (ع) نے سیدہ کو ہوش میں لانے کے لیے پانی کا استعمال کیا۔
اس کے علاوہ پانی کے حصول کا بھی ذکر ہے۔
آپ سے وضاحت کی التماس ہے۔

جواب:

اس میں شک نہیں ہے کہ امام حسین(ع) اور اصحاب و انصار ان تین دنوں کے دوران پانی کسی طور پر خیام میں پہنچا دیتے تھے گوکہ دریا پر ابن سعد کے فوجی تعینات تھے۔ اور ایسا ہرگز نہیں تھا کہ کسی نے پانی نہ پیا ہو اس شدید گرمی میں تین دن تک پانی نہ پینے کی وجہ سے انسان کے لئے زندہ رہنا ممکن نہیں ہے لیکن عاشورا کے دن پیاس کا بہت زیادہ زور تھا اور شہدائے کربلا پیاسے شہید ہوئے۔
مثال کے طور پر بعض تاریخی مآخذ و منابع کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
“وقد منع ابي من الماء الذي كان مطلقا للسباع والوحوش”۔(1)
میرے والد کو پانی سے محروم رکھا گیا حالانکہ حیوانات اور درندوں کے لئے پینے پر ممانعت نہ تھی۔
2۔ عبید اللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کو لکھا: اے عمر سعد! امام حسین(ع) اور پانی کے درمیان حائل ہوجاؤ، اور ان پر سختی کرو اور حتی انہیں ایک قطرہ پانی بھی نہ پینے دو۔ جب یہ خط پہنچا تو ابن سعد نے عمر بن حجاج کو 500 نفری دے کر فرات پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کے لشکر کو پانی مت اٹھانے دو۔ اور سات محرم کے بعد اہل حرم آسانی سے پانی حاصل نہيں کرسکے۔ (2)
3۔ امام صادق علیہ السلام نے چالیس سال اپنے والد کے لئے گریہ کیا اور جب بھی پانی لایا جاتا تو امام سجاد(ع) گریہ کرتے اور فرماتے: انھوں نے میرے والد کو پیاسا شہید کیا۔ (3)
4۔ جب حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نے میدان جانے کی اجازت مانگی تو امام حسین علیہ السلام نے حکم دیا کہ: جاؤ بچوں کے لئے پانی لاؤ۔ (4)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشورا کے دن بچوں کے لئے خیام میں پانی نہيں تھا۔
5۔ علی اکبر علیہ السلام میدان میں گئے اور لڑ کر واپس آئے اور سید الشہداء علیہ السلام سے عرض کیا: پیاس مجھے مار رہی ہے۔ (5)
6۔ عاشورا کے دن امام حسین اور حضرت ابوالفضل علیہما السلام نے مل کر پانی لانے کی کوشش کی لیکن فرات کے کنارے پر قابض یزیدی فوجی مانع ہوئے۔ (6)
7۔ امام حسین علیہ السلام نے پانی لانے کی کوشش کی لیکن شمر لعین نے کہا: آپ کو پانی نہیں اٹھانے دوں گا مگر یہ کہ آپ یہیں قتل ہونا چاہیں۔ (7)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے دن پانے لانے کی کوشش کی کیونکہ اس دن خیام میں پانی کی شدید قلت تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ دشمن نے پانی پر پہرہ بٹھا رکھا تھا؛ امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم دشمن کے محاصرے میں تھے چنانچہ ان پر پانی بند کرنا دشمن کے لئے ممکن تھا اور انھوں نے ایسا کیا بھی اور ان کا منصوبہ یہ تھا کہ امام حسین(ع) اور اصحاب اور اہل خاندان پیاس کی وجہ سے مر جائیں اور اس یزیدی جرم کا کوئی اثر ہی تاریخ میں نہ رہے کیونکہ قلم بھی دشمن کے ہاتھ میں تھا اور وہ جو لکھنا چاہتے لکھ سکتے تھے اور انھوں نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی اور کربلا کے سارے واقعات آج بھی ہمارے دسترس میں نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اس ایک سادہ سا واقعہ قرار دیا تھا جو رونما ہوا اور ختم ہوا اور بس۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے انہیں پیاس کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنے دیا اور ساتویں سے نویں تک بڑی مشکلوں سے تھوڑا سا پانی خیام میں پہنچایا جاتا رہا۔
استاد شہید آیت اللہ مرتضی مطہری میں لکھتے ہیں: پیاس کا مسئلہ سنجیدہ اور تسلیم شدہ اور قطعی مسئلہ تھا۔ (8)
چنانچہ عاشورا کی شب بھی اگر چہ پانی فراہم کیا گیا اور شہداء نے اپنا لباس دھو لیا اور غسل کیا لیکن یہ مسئلہ حل نہيں ہوا اور عاشورا کے دن سب پیاسے شہید ہوئے۔
ان روایات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگرچہ امام حسین علیہ السلام اور اصحاب سات سے نو محرم تک تھوڑا سا پانی خیام میں پہنچاتے رہے تھے لیکن امر مسلم یہ ہے کہ عاشورا کے دن ایک قطرہ پانی بھی خیموں میں موجود نہ تھا اور سب تشنہ لب تھے اور پیاس کی حالت میں جام شہادت نوش کرگئے۔
شب عاشور اصحاب کا غسل کرنا
شیخ صدوق (رح) الامالی میں لکھتے ہیں:
“وأرسل عليا ابنه (عليه السلام) في ثلاثين فارسا وعشرين راجلا ليستقوا الماء، ۔۔۔ ثم قال لاصحابه: قوموا فاشربوا من الماء يكن آخر زادكم، وتوضؤوا واغتسلوا، واغسلوا ثيابكم لتكون أكفانكم”۔ (9)
اور امام علیہ السلام اپنے بیٹے علی اکبر علیہ السلام 30 سواروں اور 20 پیادوں کی سرکردگی میں پانی لانے کے لئے بھجوایا ۔۔۔ اور پھر اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: اٹھو اور اس پانی میں سے پیو تاکہ یہ دنیا سے یہ تمہارا آخری توشہ ہو اور وضواور غسل کر اور اپنا لباس دھولو تا کہ تاکہ وہی تمہارا کفن ہو۔۔۔”۔
نیز اللہوف اللهوف في قتلى الطفوف – السيد بن طاووس، مثير الأحزان تاليف نجم الدين محمد بن جعفر بن أبي البقاء هبة الله بن نما الحلي، بحار الانوار علامہ محمد باقر مجلسی اور بعض دیگر مقاتل میں ہے کہ شب عاشور خیموں میں پانی تھا جس سے اصحاب نے استفادہ کیا۔
نیز اس حوالے سے درج ذیل کتب سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے:
1۔ بحارالانوار؛
2۔ منتهي الامال؛
3۔ تاريخ طبري ج 4؛
4۔ احقاق الحق ج 11؛
5۔ قصه كربلا مؤلف علي نظري منفرد؛
6۔ تأملي در نهضت عاشورا۔ مؤلف: رسول جعفريان۔
7۔ اعيان الشيعة، علامه سید محسن امین عاملی؛
8۔ المجالس السَنية في مناقب و مصائب الئترة النبويه، مؤلف: علامه سيد محسن امين عاملي؛
9۔ مقتل خوارزمي ج1؛
10۔ روض الجنان ـ حسین بن علی ابوالفتوح رازی ج 5؛
11۔ وقايع الايام در احوال محرم الحرام مؤلف حاج ملا علی آقا واعظ تبریزی خیابانی؛
12۔ مقتل الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام ـ لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف بن سُليم الأزدي۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ:
1۔ بحارالانوار، ج 46، ص 109 س2۔
2۔ منتهي الامال، ج 1، ص 625، چاپ هجرت و تاريخ طبري هشت جلدي ج 4، ص 311۔
3۔ بحارالانوار ، ج 45 ، ص 149، س 8۔
4۔ وہی ماخذ ص 43۔
5۔ وہی ماخذ ص 43۔
6۔ وہی ماخذ ص 50 س 1۔
7۔ وہی ماخذ ص 51، س 18۔
8۔ حماسه حسینی ج 2، ص 217۔
9۔ الأمالي لشيخ الصدوق ـ مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة ـ قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة – قم الطبعة: الاولى 1417 هـ ـ ص 221۔

 

تبصرے
Loading...