شاہین باغ اور دہلی فسادات، مسلمانوں کو ہوش میں آنے کی ضرورت

حوزہ نیوز ایجنسی| شروع کرتے ہیں حالیہ دہلی فسادات سے، جعفرآباد کے مسلم اکثریتی علاقے میں جاری یہ ایک معمولی اور جائز احتجاج تھا مگر صرف دشمن کی چال نہ سمجھنے کی بناء پر اربوں کی املاک اور لاتعداد جانیں گنوادی گئیں… غریب بری طرح پس گیا۔
کیا ہم اب بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچنا پسند نہ کریں گے؟
مسلمان یہ گرہ باندھ لیں کہ بی جے پی کی ریڑھ میں بس ایک ہی ہڈی ہے اور وہ ہے “مسلمانوں کا طیش میں آجانا”۔

شاہین باغ بلاشبہہ ایک کامیاب احتجاج تھا اور غیر مسلموں کی شرکت اسے مزید معتبر بنا رہی تھی… مگر اسی دوران مسلمانوں نے مزید شاہین باغ کھولنے کا فیصلہ کرلیا… اور یہیں سے پلڑا اٹھنا شروع ہوا۔
حالانکہ جب شاہین باغ دھرنا کامیاب تھا تو عقلمندی یہی تھی کہ جوڑ توڑ سے صحیح لیکن حکومت سے یقین دہانی لیکر دھرنا ختم کرلیا جائے۔
مگر بجائے اس تدبیر کے، مسلمانوں نے مزید جگہوں پر غیر معینہ مدت تک کیلئے دھرنے دینے شروع کردئے۔
آر ایس ایس کے ترکش میں سی اے اے جیسے ہزاروں تیر ہیں تو کیا ہر بار آپ سڑک پر جاکر بیٹھ جائیں گے؟ 
کیا بس ایک یہی ماسٹر پلان ہے؟
مسلمانوں کا خوف بالکل برحق تھا مگر جب این آر سی پر حکومت نے یوٹرن لے لیا تو ہمیں بھانپ لینا چاہیے تھا کہ اب سی اے اے کے خطرات بظاہر ختم ہوگئے ہیں اور ہماری مخالفت کا سُر بھی بدلنا چاہیے، بغیر این آر سی کے CAA کا خطرہ کاغذ پر تو بالکل نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ حکومت اڑی ہوئی ہے اور بار بار کہہ رہی ہے کہ اس سے کسی کی شہریت کو خطرہ نہیں۔
آپ لاکھ دلیل دیں مگر کمزور پہلو آپ کا ہے کہ سڑک تو بہرحال بلاک ہوئی ہے… اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرلینا چاہیے تھا اسلئے کہ تاخیر منفی اثر ہی ڈالے گی اور بادی النظر میں زیادتی مسلمانوں کی نظر آئے گی اور پھر سب نے دیکھا کہ وہی ہوا یعنی پولیس نے دوچار مزید سڑکیں بند کرکے ان کا الزام بھی شاہین باغ پر ہی  ڈال دیا۔
ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جعفرآباد اور موج پور میں مزید دھرنے شروع کرنے کے بجائے شاہین باغ کو مضبوط کرنا چاہیے تھا مگر ہم اس کو بھی کمزور کرگئے۔
واقعی کیا اگر حکومت سال بھر آپ سے بات نہ کرے تو آپ بارہ مہینہ سڑکوں پر گزارنے کے ارادے سے آئے ہیں؟
راہِ حل: 
مسلمانوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا کہ سی اے اے کوئی ایٹم بم نہیں ہے کہ گرا اور کروڑوں مسلمان غیر ملکی ہوجائیں گے… صرف تہاڑ جیل میں چار ہزار قیدی زیادہ ہیں تو مرکزی حکومت سے سنبھالے نہیں جارہے ہیں کروڑوں مسلمانوں کو راتوں رات کیمپ میں ڈھکیل دینا ہنسی کھیل نہیں ہے،  ہاں خدشات بالکل درست ہیں لیکن یہ خدشات صرف مسلمانوں کو طیش دلانے کیلئے ہی رکھے گئے ہیں لہذا جب تک وہ خطرات منظر عام پر نہ آجائیں زیادہ سخت ردعمل بچکانہ تو ہے ہی بلکہ خود احتجاج کرنے والوں کو عوام کی نظر میں مشتبہ بناتا ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اگر خدانخواستہ اسی دوران بی جے پی اپنے کرائے کے غنڈوں سے دنگے کروادے اور انہیں دنگوں کو بہانہ بنا کر CAA سچ میں نافذ کردے تو چیخنے کابھی موقع نہ مل سکے گا…
سی اے اے لاکھ غیر آئینی ہو مگر بظاہر برا نہیں لگتا خصوصا ہندؤوں کیلئے تو اس کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں ہے لہذا اب ایسے قانون کے اگر کچھ ممکنہ نقصانات ہیں تو احتجاج بالکل جائز ہے مگر بس احتجاج درج کرائیں بقیہ زور بچاکر رکھیں اس وقت کیلئے جب CAA کے نقصانات ظاہر ہوں گے یا حکومت اپنی زبان سے مکرے گی۔
ابھی آپ لاکھ اندیشے ظاہر کرلیں مگر ہیں تو اندیشے ہی … لہذا ایسے میں غیر معینہ مدت کے مظاہرے کے بجائے حکومت سے یقین دہانی لینے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ یہ دنگے ہوتے رہیں گے۔
اور خدا نہ کرے حکومت کو جعفرآباد کی طرح شاہین باغ کے احتجاج کو بھی اکھاڑ پھینکنے کا بہانہ مل جائے…
مکاروں سے مقابلہ ہے تو پلان بھی بہرحال ہمارے پاس ہونا چاہیے۔

تحریر: جوہر عباس خان 

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...